یومِ اقبال اور مسئلہ کشمیر

تمام عالمِ اسلام کے لیے اُن کی شخصیت اور افکار سرمایہ افتخار اور سرمایہ جاں ہیں۔


Tanveer Qaisar Shahid November 08, 2016
[email protected]

آج ہم سب حضرت علامہ محمد اقبال علیہ رحمہ کا ایک سو انتالیسواں یومِ پیدائش منا رہے ہیں۔ جنابِ اقبال مملکتِ خداداد پاکستان کے محسنین میں سے ایک بڑے محسن ہیں۔ پاکستان کے بیس کروڑ افراد اُن کے شکر گزار ہیں کہ اُنہوں نے آزادی کے حصول کی راہ میں ان کی فکری اورعملی رہنمائی فرمائی۔

حضرت علامہ، جیسا کہ مزاج شناسِ اقبال جناب سید نذیر نیازی اپنی کتاب ''اقبال کے حضور'' میں اکثر اُنہیں یاد کرتے ہیں، کے افکار اور اشعار آج بھی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ فکرِ اقبال پر پاکستانیوں کا اجارہ نہیں ہے بلکہ تمام عالمِ اسلام کے لیے اُن کی شخصیت اور افکار سرمایہ افتخار اور سرمایہ جاں ہیں۔ ایرانیوں نے تو اقبالِ لاہوری کو انقلابِ ایران کا بنیادی ماخذ اور محور قرار دیا ہے کہ جنابِ اقبال کی شاعری ہے ہی پیغامِ انقلاب۔ شاعرِ مشرق اور ایک آزاد مملکت، پاکستان، کا خواب دیکھنے والے سر علامہ محمد اقبال کشمیری النسل تھے۔

اُن کے درجنوں اشعار، کئی نظمیں اور مکاتیب اس امر کے شاہد ہیں کہ اقبال کو کشمیری نژاد ہونے پر فخر بھی تھا اور وہ ہمیشہ کشمیر اور اہلِ کشمیر کے مسائل سے دلچسپی بھی لیتے رہے۔ اُنہیں اس بات کا شدید دکھ تھا کہ تمام ذہانت، فطانت اور بے پناہ محنتوں کے باوصف کشمیری جبر، بے بسی اور غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس نیت کے ساتھ آپ نے کئی بار کشمیر کا سفر بھی کیا، حالانکہ وہ لمبا سفر کرنے سے ہمیشہ گریز کرتے تھے لیکن کشمیر کاز کے لیے اُنہوں نے یہ صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ اس کے مثبت نتائج بھی برآمد ہوئے۔

اس سلسلے میں ایک نہائیت اہم واقعہ سامنے آتا ہے: 1924ء میں کشمیر کے حالات بہت کشیدہ تھے۔ مسلمانانِ کشمیر پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا تھا۔ حضرت اقبال اس پر بہت مشوش تھے۔ اُنہوں نے حالات کو بہتر بنانے کے لیے کئی کشمیری رہنماؤں کو لاہور آنے کی دعوت دی۔ ان میں خواجہ سعد الدین شال اور سید نور شاہ نقشبندی قابلِ ذکر ہیں۔ اقبال نے اُنہیں مشورہ دیا کہ عنقریب وائسرائے ہند، لارڈ ریڈنگ، کشمیر کا دورہ کر رہے ہیں۔ جونہی وہ کشمیر آئیں، انھیں ایک میمورنڈم پیش کیا جائے۔

اقبال نے خود، کشمیری رہنماؤں کے مشورے سے، اس میمورنڈم کی ڈرافٹنگ کی؛ چنانچہ کچھ دنوں بعد جب لارڈ ریڈنگ سرینگر پہنچے تو مذکورہ کشمیری قائدین نے دوسرے کئی سر کردہ کشمیریوں کے ساتھ مل کر یہ میمورنڈم وائسرائے کی خدمت میں پیش کردیا۔ اس یادداشت میں کشمیری مسلمانوں کی معاشی، معاشرتی، مذہبی اور تعلیمی حالتوں کا ذکر بالتفصیل کیا گیا تھا۔ علامہ اقبال کا کشمیریوں پر یہ بہت بڑا احسان تھا کیونکہ یہی کشمیری رہنما اُس وقت تحریکِ آزادی کشمیر کی جان تھے۔

نباضِ فطرت حضرت علامہ محمداقبال علیہ رحمہ کو ہم سے جدا ہوئے تقریباً اسّی برس ہوچکے ہیں لیکن یہ کیسی بدقسمتی ہے کہ اقبال کا کشمیر ابھی تک پابجولاں ہے اور کشمیری بدستور جبروقہر کا ہدف بن رہے ہیں۔ پہلے اُن پر ڈوگرہ راجہ ظلم وستم ڈھا رہا تھا اور اب گزشتہ ستر سال سے بھارتی بنیا ظلم واستحصال کو بڑھاوا دے رہا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ علامہ اقبال نے مظلوم ومجبور کشمیریوں کی بے بسی اور بے کسی پر آنسو بھی بہائے ہیں۔ اُن کا یہ مشہور شعر اسی گریہ اور ظالموں کے لیئے بددعا کا مظہر ہے: ''توڑ اُس دستِ جفا کیش کو یارب جس نے / روحِ آزادی کشمیر کو پامال کیا۔''

یہ علامہ اقبال ہیں جنہوں نے وادیٔ کشمیر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا: ''پانی ترے چشموں کا تڑپتا ہوا سیماب/ مرغانِ سحر تیری فضاؤں میں ہیں بیتاب۔'' اور یہ مرغانِ سحر ہی تو ہیں جو بیتابی اور بیقراری سے جفا جوؤں کے سامنے اپنی جانوں کا بے دریغ نذرانہ پیش کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں وفا اور حریت کی لازوال داستانیں رقم کر رہے ہیں۔ وہ اپنے غصب شدہ حقوق کی بازیابی کے لیے جان کی بازی لگا رہے ہیں۔ یہ کشمیر کے ہنر مندوں، صناعوں اور مزدوروں کی بھی بازی ہے جنہوں نے قابض قوتوں کے لیے ابریشم کے لباس تیار کیے لیکن اُن کااپنا لباس ہمیشہ تار تار ہی رہا؛ چنانچہ اقبال علیہ رحمہ نے کشمیریوں کی اس بے بسی پر تڑپتے ہوئے یوں کہا تھا:

بریشم قبا خواجہ از محنتِ اُو
نصیبے تنش جامہ تارتارے

یہ ایک دلچسپ اور تاریخی واقعہ ہے کہ علامہ اقبال نے کشمیر میں ریشم کے کارخانوں میں مزدوروں کے حالاتِ بد پر جس طرح اشک بہائے تھے، ان کا خاطر خواہ اثر ہوا۔ اُن کی تحریکی نظموں پر کشمیری مسلمان ریشم ساز مزدوروں نے بغاوت کر دی۔یہ آنسو ہمیں ''پیامِ مشرق'' میں صاف نظر آتے ہیں۔ آپ کی شہرہ آفاق تین نظمیں (ساقی نامہ، کشمیر اور غنی کاشمیری) اسی ''پیامِ مشرق'' میں شامل ہیں۔

کئی محققین کااس امر پر اتفاق ہے کہ علامہ اقبال (علیہ رحمہ) مظلوم کشمیریوں کی جس طرح جلی اور خفی حمائیت کر رہے تھے اور کشمیریوں کو ظالموں کی آہنی گرفت سے نجات حاصل کرنے کے لیے جو مشورے فراہم کر رہے تھے، کشمیر کا راجہ ان سب معاملات سے با خبر تھا؛ چنانچہ اُس نے علامہ صاحب پر کشمیر آمد پر پابندیاں عائد کر دیں۔ علامہ صاحب نے اپنے رازداں کشمیری دوست، مخدوم الملک سید غلام میراں شاہ، کو جو خطوط لکھے، وہ بین السطور اس پابندی کو عیاں کرتے ہیں۔ اس سب کے باوجود علامہ اقبال کشمیریوں کی حمائیت سے دستکش نہ ہوئے۔

اس دوران سید مراتب علی شاہ (معروف سیاستدان سیدہ عابدہ حسین کے محترم نانا جو اُن دنوں برٹش گورنمنٹ کے آرمی کنٹریکٹر تھے) نے علامہ صاحب کو اپنی بڑی گاڑی میں کشمیر جانے کی متعدد بار پیشکش کی لیکن شاعرِ مشرق نے شکریئے کے ساتھ اس خدمت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اگر ہم علامہ اقبال کے قریبی دوستوں (مثال کے طور پر محمد دین فوق اور عبداللہ قریشی) کی تحریروں کا مطالعہ کریں تو عیاں ہوتا ہے کہ مشکل حالات کے باوصف جناب اقبال نے کشمیریوں کے مسائل ومصائب حل کرنے کی کوششوں سے کبھی غفلت نہ برتی۔اسی لیے توآج کے معروف کشمیری حریت پسند رہنما جناب سید علی گیلانی نے اپنی دو جلدوں پر مشتمل سوانح حیات (رُودادِ قفس)میںعلامہ اقبال کو زبردست خراجِ تحسین و عقیدت پیش کیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔