کمیشن کمیٹی اور ٹریبونل

ہمارا میڈیا عمران کی شادی کی تاریخ، بلاول کے شادی کے نام پر شرمانے اور چائے والے کی آنکھوں کے گرد گھوم رہا ہے۔

ali.dhillon@ymail.com

JAMRUD:
حکومت نے اگر کسی معاملے کو کھٹائی میں ڈالنا ہو یا حکومت نے یہ طے کر لیا ہو کہ مخالفین کو ناکوں چنے چبوانے ہیں یا حکومت کو علم ہو کہ اس میں فلاں بن فلاں قصور وار ٹھہرایا جاسکتا ہے تو پھر کوئی کمیٹی بنا دی جاتی ہے یا تحقیقاتی کمیشن قائم کر دیا جاتاہے۔ میرا اس سے مطلب ہر گز یہ نہیں کہ پانامہ لیکس کو بھی پس پردہ ڈال دیا جائے گا اور اس کی فائل بھی حمود الرحمن کمیشن کی طرح 28سال بعد کھولی جائے گی۔ یہ کیس چونکہ سپریم کورٹ میں ہے لہٰذا اس پر تبصرہ کرنا صحافتی اخلاقیات کے دائرے میں نہیں آتا لیکن ہم پاکستان کی تاریخ کے بڑے ایشوز پر قائم ہونے والے کمیشنوں پر نظر ضرور دوڑا سکتے ہیں۔

چرچل نے کہا تھا کہ اگر ملک کی عدالتیں احسن انداز میں کام کر رہی ہیں تو دنیا کی کوئی طاقت آپ کو ہرا نہیں سکتی۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں انصاف کاتصور بھی قائم نہیں کیا جا سکتااور حکمران ان اداروں کو مضبوط اس لیے بھی نہیں ہونے دیتے کہ کہیں وہ خود گرفت میں نہ آجائیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ بڑے بڑے فیصلوں میں بڑی بڑی بدنیتاں شامل رہی ہیں۔ یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ تاریخ میں چند ایک فیصلوں ، کمیٹیوں اور کمیشنز کے حوالے سے جو کچھ لکھا گیا ہے اُسے یا تو دبا لیا گیا یا گم کردیا گیا ہے یا ملکی سلامتی کے پیش نظر آج تک منظر عام پر ہی نہیں لایا گیا۔

جوڈیشل کمیشن بنانے کا آغاز 1953ء میں ہوا۔ یہ کمیشن چیف جسٹس پاکستان جسٹس منیر کی سربراہی میں بنا۔ یہ پہلا کمیشن تھا اور پہلا کمیشن ہی متنازعہ رہا ۔ پھر خان لیاقت علی خان کے قتل کا معمہ آج تک حل نہ ہو سکا جب کہ پاکستان کی عدالتی تاریخ کا دوسرا بڑا اور اہم کمیشن مشرقی پاکستان کے علیحدہ ہونے کی تحقیقات کے لیے بنایا گیا۔1971ء میں جب ملک دو لخت ہوگیا۔ پورا ملک رنجیدہ اور غمزدہ تھا۔ عوام دھڑوں میں تقسیم تھے، ایک حصہ سمجھتا تھا کہ ملک فوجی قیادت کی نااہلی کی وجہ سے ٹوٹا، جب کہ دوسرا سیاسی قیادت کو بھی برابر کا ذمے دار ٹھہراتا تھا۔

اس بحث کے طوفان میں جوڈیشل کمیشن ہی واحد راستہ تھا۔ جس پر''حمود الرحمن کمیشن'' تشکیل دیا گیا چونکہ کمیشن کا مقصد صرف وقتی ابال کو ٹھنڈا کرنا تھا، اس لیے اس کمیشن کی رپورٹ کو سرد خانے میں ڈال دیا گیا۔ میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل پر سپریم کورٹ کے حکم پر تحقیقاتی ٹربیونل قائم کیا گیا،اس کیس میں آصف علی زرداری، سابق وزیر اعلیٰ سندھ عبداللہ شاہ، ڈی آئی جی شعیب سڈل، ایس ایس پی واجد درانی، اے ایس پی رائے طاہر، اے ایس پی شاہد حیات، پولیس افسر شبیر قائم خانی اور آغا طاہر کو بھی ملوث قرار دیا جارہاتھا لیکن کمیشن کی رپورٹ کیا تھی،کسی کو پتہ نہیں۔

سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو27دسمبر2007ء کو راولپنڈی میں قتل کردیا گیا تھا۔ جس پر اقوام متحدہ نے ایک کمیشن تشکیل دیاجس نے پچاس لاکھ ڈالرز معاوضہ بھی لیا مگر لاحاصل...! حکومت پاکستان نے جے آئی ٹی بھی تشکیل دی،گواہوں کے بیانات بھی قلمبند ہوئے لیکن تاحال یہ کیس التواء کا شکار ہے۔ 2مئی 2011ء ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی فورسز نے کارروائی کی۔ جسٹس (ر)جاوید اقبال کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا گیا۔ کمیشن نے اپنی 336 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں اپنی تحقیقات کے دوران سامنے آنے والے معاملات سے متعلق 32سفارشات پیش کیں، جس پر آج تک عمل نہیں کیا جا سکا... اور نہ ہی اس بات کا تعین کیا جا سکا کہ اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں کیسے اتنے عرصے تک مقیم رہااور اس کا سہولت کار کون تھا؟


اس کمیشن نے 2013ء کے عام انتخابات میں مبینہ انتخابی دھاندلیوںالزامات مسترد کر دیے اور کہا کہ ان انتخابات میں بدانتظامی تو ضرور ہوئی ہے لیکن اسے منظم دھاندلی قرار نہیں دیا جاسکتا۔2014ء میں پولیس آپریشن ہوا جس میں14افراد لقمہ اجل بن گئے۔ تحقیقات کے لیے جسٹس باقر علی نجفی پر مشتمل یک رکنی عدالتی کمیشن تشکیل دیا گیا۔جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ پر کوئی کارروائی نہ ہوئی۔

اب پانامہ لیکس کی تحقیقات کے لیے ایک نیا کمیشن تشکیل تیاریوں میں ہے۔ عوام کشمکش میں مبتلا ہیں کہ شاید اب بھی وہی نتائج نکلیں گے جو ماضی میں نکلے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں اب تک جتنے بھی کمیشن تشکیل دیے گئے انھوں نے اپنی رپورٹ مرتب کرتے ہوئے ایک بات مشترکہ کہی کہ '' ہم تک جو ثبوت پہنچے ہم نے ان کے مطابق فیصلہ کیا''۔ سارا مسئلہ تو ثبوتوں کا ہی ہوتا ہے۔

ہمارا میڈیا عمران کی شادی کی تاریخ، بلاول کے شادی کے نام پر شرمانے اور چائے والے کی آنکھوں کے گرد گھوم رہا ہے۔ اب ہوگا یہ بلکہ آپ لکھ لیں کہ اگر حکومت کے خلاف فیصلہ آجاتا ہے تو پارلیمنٹ سے نئی قانون سازی کرالی جائے گی، میں نے یہ بات پچھلے کالم میں بھی کہی تھی کہ ''کوئی ریاست جتنی زیادہ بدعنوان ہوتی ہے وہاں قانون سازی اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے۔'' ہمیں اسرائیل سے ہی سبق لینا چاہیے کہ وہاں ادارے اس قدر مضبوط ہیں کہ صدر سے آٹھ آٹھ گھنٹوں کی تفتیش کی جاسکتی ہے اور صدر کی مجال نہیں کہ وہ تفتیش کے دوران تفتیشی افسر کی اجازت کے بغیر کہیں جا سکے۔

اس دوران سات ستمبر 2006ء کو صدر موشے کاتساو کو نئے الیکشن کمشنر سے ایوان صدر میں حلف لینا تھا لیکن چونکہ اُس دن تفتیش تھی اور اسرائیلی قانون کے مطابق کوئی زیر تفتیش ملزم پولیس کی اجازت کے بغیر تفتیش سے غیر حاضر نہیں ہوسکتا، پولیس کے مطابق جب تک یہ تفتیش جاری رہے گی اُس وقت تک صدر موشے کاتساو کی تمام سرکاری مصروفیات معطل رہیں گی اور وہ پولیس کی اجازت کے بغیر کسی جگہ نہ جاسکتے ہیں اور نہ ہی کسی تقریب میں شرکت کر سکتے ہیں، لہٰذا صدر تقریب حلف برداری میں شرکت سے معذور تھے، انھوں نے پولیس چیف سے تقریب میں شرکت کی اجازت چاہی لیکن پولیس چیف نے اجازت دینے سے انکار کر دیا۔

چنانچہ صدر نے پارلیمنٹ سے معذرت طلب کی اور اسرائیلی تاریخ میں پہلی بار حلف برداری کی یہ تقریب ایوان صدر کے بجائے پارلیمنٹ میں منعقد ہوئی اور الیکشن کمشنر سے صدر کے بجائے پارلیمنٹ نے حلف لیا،اُس دن پولیس نے اسرائیل صدر موشے کاتساو سے نو گھنٹے تفتیش کی اور پولیس کی یہ تفتیش صبح دس بجے سے شام سات بجے تک جاری رہی، کیا پاکستان میں ایسا ہو سکتا ہے؟ یہاں سب کچھ الٹ ہے۔ میرا قارئین سے سوال ہے کہ کیایہاں کمیٹیوں، کمیشنوں اور ٹربیونلز وغیرہ سے کام چلایا جاتا رہے گا ؟
Load Next Story