حلال اتھارٹی اور ورلڈ حلال سوسائٹی
دنیا کے 10 حلال برآمد کنندگان میں کسی ایک کا تعلق بھی اسلامی ممالک سے نہیں ہے
پاکستان میں حلال اتھارٹی کا قیام عمل میں نہ آنے کی وجہ سے ملک کو کروڑوں ڈالر سالانہ کا نقصان ہو رہا ہے۔ اس خلا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دیگر ممالک پاکستان کی حلال اشیا پر اپنا لیبل لگا کر یہ اشیا دنیا بھر میں فروخت کر رہے ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک میں حلال اتھارٹی قائم ہیں، انڈیا میں حلال کمیٹی قائم ہے، جو اپنی مصنوعات پر حلال کی تصدیق کر کے برآمدات کر رہا ہے لیکن پاکستانی درآمد و برآمد کنندگان ایسی ذمے داری سے آزاد ہیں۔
دنیا کے 10 حلال برآمدکنندگان میں کسی ایک کا تعلق بھی اسلامی ممالک سے نہیں ہے جب کہ مسلمانوں کے لیے اللہ کا حکم ہے کہ ''زمین پر جو کچھ بھی ہے اس میں سے حلال و طیب چیزیں کھاؤ'' ٹریڈ پالیسی کے تحت درآمدات کے لیے لازمی ہے کہ وہ اشیا حرام کے اجزا سے پاک ہوں۔ اس کے باوجود گاہے بہ گاہے اس قسم کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں جن میں حرام کے اجزا سے تیارکردہ غذائی و غیرغذائی اشیا ملک میں درآمد کر کے کھلے عام فروخت کی جاتی ہیں، جن پر وقتی واویلا، پروپیگنڈا اور وضاحتیں ہوتی ہیں اور معاملہ ختم ہو جاتا ہے۔
خود ملک میں گٹر کے پانی سے کاشتکاری اور گھی تیار کرنے بیمار اور مردہ جانوروں اور گدھوں تک کے گوشت کی سرعام فروخت کرنے کے واقعات بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔ لوگ اپنی لاعلمی، ایمان کی کمزوری یا غربت کی وجہ سے اس قسم کی اشیا خریدنے اور استعمال کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے ہیں کسب حلال کا تصور بھی کمزور اور ناپید ہو چکا ہے جس میں زیادہ قصور حکومتی ذمے داروں اور تاجروں کا ہے جس نے اسلامی اور صحت مندانہ معاشرے کو بے حد نقصان سے دوچار کیا ہے۔
اس سلسلے میں پاکستان میں حلال فوڈ کا معیار چیک کرنے کے لیے کوئی قانون موجود نہیں اور وزارت سائنس و ٹیکنالوجی اور مذہبی امور کو بھی کوئی مینڈیٹ حاصل نہیں ہے کہ وہ ایسی اشیا کی خرید و فروخت کو روک سکے جس کے باعث پاکستان میں حلال اتھارٹی کے قیام کا فیصلہ کیا گیا تھا جس پر 2011ء سے سوچ بچار ہو رہا تھا اور 2015ء میں قومی اسمبلی نے حلال اتھارٹی بل پاس کر کے بھیجا تھا اس سال کے اوائل میں سینیٹ کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی نے کئی سفارشات و تجاویز پیش کی ہیں جس میں قانون کی خلاف ورزی پر 3 سال تک قید اور 10 لاکھ روپے تک جرمانہ کی تجویز کی ہے اگر سینیٹ کی سفارشات منظور کر لیتی ہے تو پھر یہ بل ترمیمات کے ساتھ قومی اسمبلی کو بھیجا جائے گا۔
عالمی مارکیٹ میں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (WTO) کے قیام کے بعد سے اب تمام کاروبار کوالٹی کنٹرول سرٹیفکیشن کے بعد ہوتا ہے اس کے بغیرکوئی بھی ملک براہ راست حلال مصنوعات کا کاروبار نہیں کر سکتا، اندازے کے مطابق اس وقت دنیا میں 3 کھرب ڈالر کی حلال مارکیٹ ہے۔ 80 فیصد غذائی مصنوعات مسلم ممالک میں درآمد کیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں بھی 200 ملین ڈالر سالانہ کے حلال فوڈ درآمد کیے جاتے ہیں جب کہ پاکستان مویشی پالنے والا دنیا کا چوتھا اور آبادی کے لحاظ سے چھٹے نمبرکا ملک ہے۔
حلال اتھارٹی کے قیام، حکومت اور برآمد کنندگان کی مخلصانہ کوششوں سے مصنوعات کا معیار قائم اور مارکیٹنگ پر توجہ دے کر 3 کھرب ڈالر کی مارکیٹ سے ایک بڑا حصہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ سینیٹ کمیٹی خود اس بات کا اعتراف کرتی ہے کہ حلال اتھارٹی نہ ہونے کی وجہ سے ملک کو بھاری نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے اور حلال اتھارٹی بل سے برآمدات میں اضافے میں مدد ملے گی۔ وقت کی ضرورت ہے کہ ایسی اتھارٹی قائم کی جائے جو حلال غذائی و غیرغذائی اشیا کی بیرون ملک صنعت و تجارت کو فروغ دے۔ سیکریٹری سائنس و ٹیکنالوجی کا کہنا ہے کہ یہ ایک صوبائی مسئلہ بھی ہے حکومتیں چیک کریں کہ حرام اجزا سے تیار کردہ اشیا فروخت نہ ہوں۔
پنجاب میں کئی سال قبل سرکاری حکم نامے کے ذریعے پنجاب حلال ڈیولپمنٹ ایجنسی (HDA) تشکیل دی جا چکی ہے تا کہ حلال اشیا کی تصدیق، تشہیر اور ترقی و ترویج کی جا سکے۔ اب خبر آئی ہے کہ ملائشیا کی حکومت نے HDA کے ساتھ مل کر دنیا بھر سے مسلم وغیر مسلم ممالک پر مشتمل ''ورلڈ حلال سوسائٹی'' کے نام سے ایک تنظیم کے قیام کا اعلان کیا ہے۔ اس تنظیم میں ابتدائی طور پر 20 ممالک شریک ہوں گے جب کہ بعد میں دلچسپی رکھنے والے مزید ممالک کو بھی اس کا رکن بنایا جائے گا۔
اس سوسائٹی کے قیام کا مقصد دنیا بھر میں حلال مصنوعات کی تجارت کو فروغ دینا، حلال معیارکی تشکیل اور ان پرعملدرآمد، حلال مارکیٹ کی ترویج، افراد کی تربیت اور اس حوالے سے خیالات کا تبادلہ شامل ہے۔ اس سلسلے میں ملائشیا کی حلال انڈسٹری کی تشکیل کے بانی رکن وسابق چیئرمین حلال ڈیولپمنٹ کونسل ملائشیا ڈاکٹر سید جلال الدین نے پنجاب حلال ڈیولپمنٹ ایجنسی کے چیئرمین سے ملاقات کر کے مجوزہ سوسائٹی کے قیام کی پیشکش کی ہے۔ اس سوسائٹی کے قیام کے بعد ممبر ممالک آپس میں حلال تجارت کا حجم بڑھائیں گے اور مشترکہ طور پر عملی کوششوں کے ذریعے حلال مصنوعات پر کام کریں گے۔
اس حوالے سے اسلامی ممالک نے ماضی میں کبھی کوئی ایسی اجتماعی کاوش نہیں کی جس کے نتیجے میں ان کو غیر مسلم ممالک میں حلال اشیا کی باآسانی دستیابی ممکن ہو۔ پنجاب حکومت نے صوبے میں حلال ڈیولپمنٹ ایجنسی بنا کر دوسرے صوبوں کے لیے قابل تقلید مثال قائم کی ہے 18 ویںترمیم کے ذریعے اختیارات کی صوبوں کو منتقلی کے بعد صوبائی حکومتوں کی قانونی و اخلاقی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اپنے عوام کے مفادات کی خاطر اس قسم کی قانون سازی اور اقدامات کریں جس سے ان کے صوبوں میں خوشحالی آئے عوام کو کاروبار اور روزگار کے نئے مواقعے میسر آئیں۔
ورلڈ حلال سوسائٹی کو اسلامی شریعت کے مطابق حلال اشیا کے معیارکے تعین، تجاویز اور مشاورت کے لیے مذہبی و سائنسی اسکالرز اور دیگر تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل کر کے آگے کے عملی اقدامات اٹھانے چاہئیں جس سے نہ صرف تجارت بڑھے گی بلکہ مسلمانوں کو اپنے ملکوں کے علاوہ غیر مسلم ممالک میں بھی حلال مصنوعات کی فراہمی میں مدد ملے گی۔
ورلڈ حلال سوسائٹی اگر حلال مصنوعات کے شرعی معیارات طے کر کے ان کی تیاری، مارکیٹنگ اور دستیابی یقینی بنانے میں کامیاب ہو گی تو یہ ملک و قوم اور امت کے لیے اہم سنگ میل ثابت ہو گی کیونکہ حلال و حرام کے تصور کا رجحان صرف غذائی اشیا میں ہی نہیں بلکہ صنعت و تجارت کے اکثر شعبوں مثلاً مالیاتی، سیاحتی اداروں، ہوٹلنگ، ملبوسات، کاسمیٹکس، لیدر، دوا سازی اور کیمیکل میں بھی روز افزوں بڑھ رہا ہے۔ 26 سے زائد صنعتوں کی مصنوعات یا ذیلی مصنوعات کا تعلق حلال یا حرام سے ہے۔
دنیا کے 10 حلال برآمدکنندگان میں کسی ایک کا تعلق بھی اسلامی ممالک سے نہیں ہے جب کہ مسلمانوں کے لیے اللہ کا حکم ہے کہ ''زمین پر جو کچھ بھی ہے اس میں سے حلال و طیب چیزیں کھاؤ'' ٹریڈ پالیسی کے تحت درآمدات کے لیے لازمی ہے کہ وہ اشیا حرام کے اجزا سے پاک ہوں۔ اس کے باوجود گاہے بہ گاہے اس قسم کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں جن میں حرام کے اجزا سے تیارکردہ غذائی و غیرغذائی اشیا ملک میں درآمد کر کے کھلے عام فروخت کی جاتی ہیں، جن پر وقتی واویلا، پروپیگنڈا اور وضاحتیں ہوتی ہیں اور معاملہ ختم ہو جاتا ہے۔
خود ملک میں گٹر کے پانی سے کاشتکاری اور گھی تیار کرنے بیمار اور مردہ جانوروں اور گدھوں تک کے گوشت کی سرعام فروخت کرنے کے واقعات بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔ لوگ اپنی لاعلمی، ایمان کی کمزوری یا غربت کی وجہ سے اس قسم کی اشیا خریدنے اور استعمال کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے ہیں کسب حلال کا تصور بھی کمزور اور ناپید ہو چکا ہے جس میں زیادہ قصور حکومتی ذمے داروں اور تاجروں کا ہے جس نے اسلامی اور صحت مندانہ معاشرے کو بے حد نقصان سے دوچار کیا ہے۔
اس سلسلے میں پاکستان میں حلال فوڈ کا معیار چیک کرنے کے لیے کوئی قانون موجود نہیں اور وزارت سائنس و ٹیکنالوجی اور مذہبی امور کو بھی کوئی مینڈیٹ حاصل نہیں ہے کہ وہ ایسی اشیا کی خرید و فروخت کو روک سکے جس کے باعث پاکستان میں حلال اتھارٹی کے قیام کا فیصلہ کیا گیا تھا جس پر 2011ء سے سوچ بچار ہو رہا تھا اور 2015ء میں قومی اسمبلی نے حلال اتھارٹی بل پاس کر کے بھیجا تھا اس سال کے اوائل میں سینیٹ کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی نے کئی سفارشات و تجاویز پیش کی ہیں جس میں قانون کی خلاف ورزی پر 3 سال تک قید اور 10 لاکھ روپے تک جرمانہ کی تجویز کی ہے اگر سینیٹ کی سفارشات منظور کر لیتی ہے تو پھر یہ بل ترمیمات کے ساتھ قومی اسمبلی کو بھیجا جائے گا۔
عالمی مارکیٹ میں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (WTO) کے قیام کے بعد سے اب تمام کاروبار کوالٹی کنٹرول سرٹیفکیشن کے بعد ہوتا ہے اس کے بغیرکوئی بھی ملک براہ راست حلال مصنوعات کا کاروبار نہیں کر سکتا، اندازے کے مطابق اس وقت دنیا میں 3 کھرب ڈالر کی حلال مارکیٹ ہے۔ 80 فیصد غذائی مصنوعات مسلم ممالک میں درآمد کیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں بھی 200 ملین ڈالر سالانہ کے حلال فوڈ درآمد کیے جاتے ہیں جب کہ پاکستان مویشی پالنے والا دنیا کا چوتھا اور آبادی کے لحاظ سے چھٹے نمبرکا ملک ہے۔
حلال اتھارٹی کے قیام، حکومت اور برآمد کنندگان کی مخلصانہ کوششوں سے مصنوعات کا معیار قائم اور مارکیٹنگ پر توجہ دے کر 3 کھرب ڈالر کی مارکیٹ سے ایک بڑا حصہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ سینیٹ کمیٹی خود اس بات کا اعتراف کرتی ہے کہ حلال اتھارٹی نہ ہونے کی وجہ سے ملک کو بھاری نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے اور حلال اتھارٹی بل سے برآمدات میں اضافے میں مدد ملے گی۔ وقت کی ضرورت ہے کہ ایسی اتھارٹی قائم کی جائے جو حلال غذائی و غیرغذائی اشیا کی بیرون ملک صنعت و تجارت کو فروغ دے۔ سیکریٹری سائنس و ٹیکنالوجی کا کہنا ہے کہ یہ ایک صوبائی مسئلہ بھی ہے حکومتیں چیک کریں کہ حرام اجزا سے تیار کردہ اشیا فروخت نہ ہوں۔
پنجاب میں کئی سال قبل سرکاری حکم نامے کے ذریعے پنجاب حلال ڈیولپمنٹ ایجنسی (HDA) تشکیل دی جا چکی ہے تا کہ حلال اشیا کی تصدیق، تشہیر اور ترقی و ترویج کی جا سکے۔ اب خبر آئی ہے کہ ملائشیا کی حکومت نے HDA کے ساتھ مل کر دنیا بھر سے مسلم وغیر مسلم ممالک پر مشتمل ''ورلڈ حلال سوسائٹی'' کے نام سے ایک تنظیم کے قیام کا اعلان کیا ہے۔ اس تنظیم میں ابتدائی طور پر 20 ممالک شریک ہوں گے جب کہ بعد میں دلچسپی رکھنے والے مزید ممالک کو بھی اس کا رکن بنایا جائے گا۔
اس سوسائٹی کے قیام کا مقصد دنیا بھر میں حلال مصنوعات کی تجارت کو فروغ دینا، حلال معیارکی تشکیل اور ان پرعملدرآمد، حلال مارکیٹ کی ترویج، افراد کی تربیت اور اس حوالے سے خیالات کا تبادلہ شامل ہے۔ اس سلسلے میں ملائشیا کی حلال انڈسٹری کی تشکیل کے بانی رکن وسابق چیئرمین حلال ڈیولپمنٹ کونسل ملائشیا ڈاکٹر سید جلال الدین نے پنجاب حلال ڈیولپمنٹ ایجنسی کے چیئرمین سے ملاقات کر کے مجوزہ سوسائٹی کے قیام کی پیشکش کی ہے۔ اس سوسائٹی کے قیام کے بعد ممبر ممالک آپس میں حلال تجارت کا حجم بڑھائیں گے اور مشترکہ طور پر عملی کوششوں کے ذریعے حلال مصنوعات پر کام کریں گے۔
اس حوالے سے اسلامی ممالک نے ماضی میں کبھی کوئی ایسی اجتماعی کاوش نہیں کی جس کے نتیجے میں ان کو غیر مسلم ممالک میں حلال اشیا کی باآسانی دستیابی ممکن ہو۔ پنجاب حکومت نے صوبے میں حلال ڈیولپمنٹ ایجنسی بنا کر دوسرے صوبوں کے لیے قابل تقلید مثال قائم کی ہے 18 ویںترمیم کے ذریعے اختیارات کی صوبوں کو منتقلی کے بعد صوبائی حکومتوں کی قانونی و اخلاقی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اپنے عوام کے مفادات کی خاطر اس قسم کی قانون سازی اور اقدامات کریں جس سے ان کے صوبوں میں خوشحالی آئے عوام کو کاروبار اور روزگار کے نئے مواقعے میسر آئیں۔
ورلڈ حلال سوسائٹی کو اسلامی شریعت کے مطابق حلال اشیا کے معیارکے تعین، تجاویز اور مشاورت کے لیے مذہبی و سائنسی اسکالرز اور دیگر تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل کر کے آگے کے عملی اقدامات اٹھانے چاہئیں جس سے نہ صرف تجارت بڑھے گی بلکہ مسلمانوں کو اپنے ملکوں کے علاوہ غیر مسلم ممالک میں بھی حلال مصنوعات کی فراہمی میں مدد ملے گی۔
ورلڈ حلال سوسائٹی اگر حلال مصنوعات کے شرعی معیارات طے کر کے ان کی تیاری، مارکیٹنگ اور دستیابی یقینی بنانے میں کامیاب ہو گی تو یہ ملک و قوم اور امت کے لیے اہم سنگ میل ثابت ہو گی کیونکہ حلال و حرام کے تصور کا رجحان صرف غذائی اشیا میں ہی نہیں بلکہ صنعت و تجارت کے اکثر شعبوں مثلاً مالیاتی، سیاحتی اداروں، ہوٹلنگ، ملبوسات، کاسمیٹکس، لیدر، دوا سازی اور کیمیکل میں بھی روز افزوں بڑھ رہا ہے۔ 26 سے زائد صنعتوں کی مصنوعات یا ذیلی مصنوعات کا تعلق حلال یا حرام سے ہے۔