یہ کس کی ہار اورکس کی جیت ہے

موجودہ حالات میں عمران خان کی سیاست کو غیر معمولی دھچکا لگا ہے باقی پانامہ معاملہ اب سپریم کورٹ میں ہے۔


[email protected]

بلا شبہ پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال میں سپریم کورٹ میں دائر پانامالیکس سے متعلق درخواستوں کی سماعت اوراس ضمن میں پیشرفت خوش آیند امر ہے۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں پانچ رکنی بینج نے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے دائر کی گئیں، ان درخواستوں کی سماعت کی۔ جو پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی، عوامی مسلم لیگ، جمہوری وطن پارٹی اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کی گئی تھیں۔

سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے سماعت کے دوران پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے کمیشن کے قیام پر اتفاق کیا۔ اس موقعے پر عدالت نے بتایا کہ مجوزہ کمیشن سپریم کورٹ کے اختیارات کا حامل ہوگا۔ اسی کو رپورٹ پیش کرے گا اور وزیراعظم سمیت سب سے آف شورکمپنیوں کو پوچھے گا ۔کوئی ایک نشانہ نہیں بنے گا۔ یہ عدالتی پیشرفت خوش آیند ہے۔ لیکن یہ حقیقت بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ وزیراعظم نوازشریف نے پانامالیکس کا معاملہ سامنے آنے کے بعد سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج سے اس کی تحقیقات پر رضا مندی ظاہر کی اور اس سلسلے میں سپریم کورٹ کو ایک خط بھی لکھا تھا پھر اپوزیشن معاملہ پارلیمنٹ میں لے آئی اور ٹی او آرز پر اختلافات پیدا ہوگئے۔

حکومت کا موقف یہ تھا کہ تحقیقات سب کے خلاف ہونی چاہئیں جب کہ پاکستان تحریک انصاف صرف شریف خاندان کا احتساب کرنا چاہتی تھی، لیکن اب سپریم کورٹ نے واضح کردیا ہے کہ وزیراعظم سمیت سب سے آف شورکمپنیوں سے متعلق پوچھ گچھ ہوگی۔ حقیقت یہ ہے کہ وزیر اعظم نوازشریف نے عدالتی کمیشن بنانے کی پیشکش 6 ماہ قبل کی تھی اگر ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا تو اب تک احتساب کا عمل کافی آگے بڑھ چکا ہوتا لیکن اس دوران عمران خان غیر ضروری طور پر احتجاج کرتے رہے اور بلاوجہ حکومت پر نکتہ چینی کرتے رہے۔

رائیونڈ مارچ اور پھر اسلام آباد بند کرنے کی دھمکیاں اور 10 لاکھ افراد کو جمع کرنے کا دعوی کرتے رہے مگر سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے کارکنوں نے انھیں ہری جھنڈی دکھا دی۔ صرف کے پی کے سے پرویزخٹک ایک چھوٹا سا قافلہ لے کر آئے، مگر اپنے جارحانہ رویے اور پاکستان مخالف بیانات کی وجہ سے ان پر سخت تنقید کی گئی اور ایم کیو ایم نے تو ان کے خلاف قرارداد پیش کر کے ان پر آرٹیکل نافذ کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔ اسلام آباد اور کے پی کے کے بعض شہروں میں جھڑپیں اور خانہ جنگی کی کیفیت پیدا ہوتی جا رہی تھی مگر عدالتی فیصلے سے سیاسی منظر نامہ تبدیل ہو گیا ہے لیکن مخالفین ہی نہیں بلکہ تحریک انصاف کے ہم خیال سیاسی جماعتوں کی طرف سے بھی عمران خان کے فیصلے پر سخت نکتہ چینی کی جا رہی ہے ۔

عمران خان اپنے کارکنوں کو جمع کرنے میں ناکام رہے۔ جب انھوں نے کارکنوں کی مایوس کن تعداد دیکھی تو پھر مجبوراً انھیں عدالتی فیصلے کے سامنے ڈھیر ہونا پڑا۔ شاید عمران سے سی پیک جیسا عظیم منصوبہ ہضم نہیں ہو رہا اور وہ پانامہ لیکس کو ڈھال بنا کر سیاست کرتے رہے ہیں۔ انھیں شائد یہ امید بھی تھی اس دوران امپائر ان کی مدد کو آ جائے گا۔ انھوں نے اپنے مٹھی بھرکارکنوں کو بلاوجہ تکلیف دی کیونکہ وہ ان مٹھی بھر کارکنوں کے سوا عوامی طاقت کا مظاہرہ کرنے سے قاصر رہے۔ انھوں نے جو یوٹرن لیا ہے اس پر ان کی ہم خیال جماعتیں اعتماد میں نہ لینے پر ان سے ناراض ہیں اور ق لیگ نے ان کے پریڈ گراؤنڈ میں ہونے والے جلسے میں شرکت سے بھی معذرت کر لی۔ جب کہ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرہ القادری نے انتہائی مایوسی کا اظہارکرتے ہوئے انا للہ پڑھ لیا اور ساتھ ہی پریڈ گراؤنڈ جلسے میں شرکت سے بھی معذرت کر لی۔

مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنماؤں جن میں وفاقی وزیرخواجہ سعد رفیق، سینیٹر شاہد اللہ، سینیٹر پرویز رشید، ڈاکٹر آصف کرمانی اور دیگر مسلسل کہتے رہے ہیں کہ عمران کا دھرنا تو فلاپ ہو گا۔ عوام اس کو مسترد کر چکے ہیں۔ مریم نواز نے نئے ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ملک میں افراتفری اور انارکی پھیلانے کی کوشش ناکام ہو گئی۔ شکست خوردہ لوگ اپنی شکست سے سبق سیکھیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ حکومت 22 اپریل کو کمیشن بنانے کے لیے سپریم کورٹ کو خط لکھا تھا انھوں نے کہا کہ سازشیں کرنے سے کبھی کامیابی نہیں ملتی لوگوں کی عزتیں اچھالنے سے کبھی عزت نہیں ملتی۔

بہرحال عمران خان نے دھرنا ختم کر دیا ہے۔ اب ان کا سیاسی مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے۔ ان کے اس فیصلے پر سوشل میڈیا پر یوٹرن خان ٹاپ ٹرینڈ بن گیا ہے۔ عمران خان اپنی زندگی میں بارہا یوٹرن لیتے رہے ہیں مگر ہم زیر نظر سطور پران کے چند نمایاں یوٹرن کاذکر کریں گے۔ 27 اکتوبر سے یکم نومبر تک پولیس اور ایف سی کے ساتھ تحریک انصاف کی جھڑپوں کے دوران عمران خان اپنے کارکنوں کی مدد کے لیے ایک بار بھی بنی گالہ سے باہر نہیں نکلے نتیجے میں عمران خان نے اپنے بااعتماد کارکنوں کا اعتماد کھو دیا۔

عمران خان پہلے پرویز مشرف، سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری، چیف الیکشن کمیشنر فخر الدین جی ابراہیم کی تعریف کر چکے ہیں بعدازاں ان پر تنقید۔ 2014ء میں 126 دن کے دھرنے کے دوران نوازشریف کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا اور آخر میں اپنی ہی پارٹی کے اراکین سے استعفیٰ دلوا دیا۔

اب صورتحال یہ ہے کہ عمران خان نے عدالت میں جو کچھ تسلیم کیا ہے اگر وہ پہلے کر لیتے تو کیا بہتر نہ تھا۔ اب بھی وہی کچھ ہوا ہے اس صورتحال میں یہ بات ناقابل فہم ہے کہ اب انھوں نے یوم تشکرکس بات کا منایا ہے۔ ان کی اس سیاست کا فائدہ مسلم لیگ ن کو ہی ہوا ہے اور ان کی ناقص سیاسی پالیسیوں سے حکومت پہلے سے زیادہ مضبوط ہو گئی ہے۔ ان حالات میں ان عناصر کو یقیناً شدید مایوسی ہو گی جو ایک منتخب حکومت کو اپنی مدت سے پہلے ہی برطرف کرنے کا خواب دیکھ رہے تھے۔

موجودہ حالات میں عمران خان کی سیاست کو غیر معمولی دھچکا لگا ہے باقی پانامہ معاملہ اب سپریم کورٹ میں ہے۔ وزیر اعظم نے اپنا جواب داخل کر دیا ہے کہ ان کی کوئی آف شور کمپنی نہیں ہے۔ ایم ایف اے ریٹائرڈ کیپٹن صفدر نے بھی جواب داخل کر دیا ہے کہ ان کی اور بیگم مریم نواز کی کوئی آف شور کمپنی نہیں ہے۔ وزیراعظم کے بچوں کی جانب سے سپریم کورٹ میں داخل کرائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ حسین نواز سولہ اور حسن نواز بائیس سال سے پاکستان سے باہر ہیں اور نوازشریف کا بیٹوں کے کاروبار میں کوئی کردار ہے نا لندن کی جائیدادوں سے کوئی تعلق ہے۔

میری رائے میں اب یہ فیصلہ سپریم کورٹ میں ہے اور حق سچ کا فیصلہ ہو گا۔ تمام سیاسی رہنماؤں اور میڈیا پر یہ ذمے داری آتی ہے اب جب تک پانامہ کیس اپنے انجام تک نہیں پہنچتا تب تک کورٹ کی مینجمنٹ سے تبصرہ کرنے سے گریزکرے اور اس کیس پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہ کرے۔ جہاں تک بات حکومت کی کامیاب پالیسیوں کی ہے اس سے ملک کی معیشت تیزی سے آگے جا رہی ہے اور وزیر اعظم کا ویژن ملک کی ترقی و خوشحالی ہے۔ اور باقی فیصلہ 2018ء کے الیکشن میں عوام کی عدالت میں ہو گا۔ انتظار تب تک انتظار۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں