اقبال کا تصور تہذیب
علامہ اقبال نے مسلم تہذیب کو ایک برگزیدہ، برتر اور تاریخ ساز تہذیب کے طور پر پیش کیا
اقبال کی نثری تحریروں اور شعری آثار میں تہذیب یا تمدن کا لفظ پہلی بار کب استعمال ہوا، اس کی جو سرسری تحقیق میں کرسکا ہوں اس کے مطابق ''مخزن'' اکتوبر 1904ء میں اقبال نے پہلے پہل نہ صرف تہذیب اور تمدن کا لفظ استعمال کیا بلکہ اس کی ہنگامہ آرائیوں کا بھی ذکر کیا۔ آپ چاہیں تو اس ہنگامہ آرائی کو تصادم سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں۔ اقبال نے اپنے مضمون ''قومی زندگی'' (1904ء) میں لکھا تھا:
''ہمارے زمانے میں ایک اور خاموش قوت ہے جس پر قوموں کی فنا اور بقا انحصار رکھتی ہے اور جس کے بل پر ایک قوم گھر بیٹھے دوسری قوم کو ہمیشہ کے لیے صفحۂ عالم سے حرف غلط کی طرح مٹاسکتی ہے۔ ہاتھوں کی لڑائی کا زمانہ گزرچکا، اب دماغوں، تہذیبوں اور تمدنوں کی ہنگامہ آرائیوں کا وقت ہے اور یہ جنگ ایک ایسی جنگ ہے جس کے زخم زنگاری اور کافوری مرہم سے ہرگز اچھے نہیں ہوسکتے۔''
اسی مضمون میں اقبال نے انسانوں کے مابین آزاد مقابلے کی ضرورت پر زور دیا ہے تاکہ تہذیب و تمدن کی اعلیٰ صورتیں پیدا ہوسکیں اور تہذیب و شائستگی کا ظہور ہوسکے۔ اقبال کے نزدیک غلاموں اور آقاؤں کے حقوق کو مساوی قرار دے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک اعلیٰ تمدن کی بنیاد رکھی، جس کے پیدا ہونے والے مثبت نتائج تمام دنیا محسوس کررہی ہے۔
اقبال نے اپنے شعری و نثری آثار میں نہ صرف اپنے تصورات تہذیب و ثقافت کی نہایت خوبی سے وضاحت کی ہے بلکہ اپنی معاصر حاوی مغربی تہذیب کے خدوخال بھی نمایاں کرکے اس کے بعض مثبت پہلوؤں کے دوش بدوش اس کی ہلاکت خیزیوں کو اجاگر کیا ہے۔ مزید برآں انہوں نے اس تہذیب کو بھی ایک زندہ، روشن اور انسانیت نواز تہذیب کے طور پر بڑے اعتماد سے پیش کیا ہے جسے مسلم تہذیب کا نام دیا جاتا ہے اور جس کی برکات و ثمرات سے پوری نوع انسانی فیض یاب ہوئی ہے اور آئندہ بھی ہوسکتی ہے۔
اقبال کے تصور تہذیب کا مرکزی نقطہ یہی مساوی حقوق انسانی ہیں جن کا ابھی ذکر ہوا۔ وہ اس حدیث نبویؐ سے جو ''الخق عیال اللہ'' کی غیر معمولی معنویت کے حامل لفظوں کی صورت میں موجود ہے، بخوبی آگاہ ہیں۔ ''جاوید نامہ'' میں محکمات عالم قرآنی کے زیر عنوان حکمت قرآن اور تخلیق آدم کی معنویت کو نمایاں کرتے ہوئے انہوں نے ''احترام آدمیت'' کو اصل تہذیب قرار دیا ہے۔
فرماتے ہیں:
برتر از گردوں مقام آدم است
اصل تہذیب احترام آدم است
حقیقت یہ ہے کہ اقبال اپنی عمر عزیز کے آخری لمحات تک خدا، انسان اور کائنات کے باہمی رشتوں پر غور کرتے رہے۔ یہ تثلیت ان کے نظام فکر میں ڈھل کر ایک حقیقت واحدہ کی صورت اختیار کرگئی تھی۔ یہی حقیقت واحدہ ان کے نظام فکر کو آفاقی اور ابدی جہت عطا کرتی ہے۔
ایک بالغ نظر اور روشن خیال دانشور ہونے کے ناتے اقبال اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ برتر اور برگزیدہ تہذیبوں کے عناصر ترکیبی کیا ہیں اور یہ تہذیبیں کس قسم کے افراد کو جنم دیتی ہیں۔ اقبال کے نظام فکر میں ذات الٰہ کی حیثیت مرکزی ہے۔ اقبال کی فکر کے تمام الاؤ اسی روحانیت اور یقین کی اسی سرخ گندھک سے روشن اور شعلہ زن ہیں۔ ان کے نزدیک تہذیبوں کا مقصود نہائی فکری، علمی، نفسی اور روحانی سطح پر پورے انسان کا ظہور ہے۔
افراد کی بلند نگہی، وسیع الظرفی، ایثار پیشگی، گردوں رسی، حرکیت اور تسخیر فطرت کی تڑپ یہ سب زندہ اور حرکی تہذیبوں کی دین ہے۔ گویا سچی انسانی تہذیب خاک سے اوپر اٹھنے سے عبارت ہے اور سچی اور زندہ تہذیبیں رنگ، نسل، جغرافیہ، زمیں پیوستگی اور مادہ پرستی سے ماوراء معلوم سے نامعلوم کی طرف قدم زن رہتی ہیں۔ نیا زمانہ، نئے صبح و شام، وسعت افلاک میں تکبیر مسلسل، خودی و خود آگاہی، یہ ہیں زندہ تہذیبوں کے زاویہ ہائے نگاہ:
نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
کہ صبح و شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں
کمال صدق و مروت ہے زندگی ان کی
معاف کرتی ہے فطرت بھی ان کی تقصیریں
تہذیبوں، ان کے عناصر ترکیبی اور ان کے عروج و زوال کے اسباب و علل پر اقبال اپنے ابتدائی نثری و شعری آثار سے لے کر اپنے آخری شعری و فکری کارناموں تک اپنے خیالات کی وضاحت کرتے رہے۔ حیدر آباد کے گنبدان قطب شاہی پر 1910ء میں لکھی گئی بانگ درا کی نظم ''گورستان شاہی'' سے لے کر ارمغان حجاز کی ''بڈھے بلوچ کی نصیحت'' تک اور 1904ء میں لکھے گئے مضمون ''قومی زندگی'' سے لے کر ''The Spirit of Muslim Culture'' اور 1938ء میں لاہور ریڈیو سے نشر ہونے والے اپنے آخری پیغام تک اقبال افراد اور تہذیبوں کی تقدیروں، برگزیدہ اور برتر طرز زندگی اور اعلیٰ تہذیبوں کے مقاصد اور اعمال کو آئینہ کرتے رہے۔ ''گورستان شاہی'' کو دیکھ کر انہوں نے ہماری عبرت آموزی کا سامان بھی پیدا کیا اور ہمیں مسلم نشاۃ ثانیہ کا سندیسہ بھی سنایا:
زندگی اقوام کی بھی ہے یونہی بے اعتبار
رنگہائے رفتہ کی تصویر ہے ان کی بہار
اس زیاں خانے میں کوئی ملت گردوں وقار
رہ نہیں سکتی ابد تک بار دوش روزگار
ایک صورت پر نہیں رہتا کسی شے کو قرار
ذوق جدت سے ہے ترکیب مزاج روزگار
ہے نگین دہر کی زینت ہمیشہ نام نو
مادر گیتی رہی آبستن اقوام نو
پھر بتاتے ہیں کہ غور کریں کوہ نور کی آنکھ نے کتنے تاجور دیکھے، مصر و بابل کی بڑی تہذیبیں مٹ گئیں، مہر ایران کو اجل کی شام نے آدبوچا، عظمت یونان و رومارفت گزشت ہوئی اور پھر تاریخ کے ایک خاص موڑ پر آکر:
آہ مسلم بھی زمانے سے یونہی رخصت ہوا
آسماں سے ابر آزادی اٹھا، برسا، گیا
دل ہمارے یاد عہد رفتہ سے خالی نہیں
اپنے شاہوں کو یہ امت بھولنے والی نہیں
دہر کو دیتے ہیں موتی دیدۂ گریاں کے ہم
آخری بادل ہیں اک گزرے ہوئے طوفاں کے ہم
ہیں ابھی صدہا گہر اس ابر کی آغوش میں
برق ابھی باقی ہے اس کے سینۂ خاموش میں
وادی گل، خاک صحرا کو بنا سکتا ہے یہ
خواب سے امید دہقاں کو جگاسکتا ہے یہ
ہوچکا گو قوم کی شان جلالی کا ظہور
ہے مگر باقی ابھی شان جمالی کا ظہور
ایک اور جگہ بھی فرماتے ہیں:
بجلیاں برسے ہوئے بادل میں بھی پوشیدہ ہیں
یہ ایقان تمام عمر اقبال کے ہمدوش رہا۔ رموز بے خودی میں بھی ممتاز ترین تہذیبوں کے مندرجہ بالا پیرائے میں ذکر کرنے کے بعدمسلم تہذیب کے بارے میں بڑے تیقن سے کہا:
در جہاں بانگ اذاں بودست وہست
ملت اسلامیاں بودست و ہست
اقبال جدید کے ساتھ قدیم کے صحت مند عناصرکا وجود بھی لازم سمجھتے تھے کیونکہ ان کے اتصال ہی سے ایک پائیدار تمدن کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے۔
اقبال نے متعدد مقامات پر مسلم تہذیب کو ایک برگزیدہ، برتر اور تاریخ ساز تہذیب کے طور پر پیش کیا ہے۔ انہیں یقین تھا کہ یہی تہذیب اپنے اندر ایسے عناصر رکھتی ہے جس سے تعمیر عالم انسانی کا کام لیا جاسکتا ہے۔ نکلسن کے نام اپنے خط میں اپنے بعض مغربی معترضین کے ضمن میں مسلم تہذیب کی برتری کا بہ دلائل ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یورپ اسلام سے بعض نہایت عمدہ باتیں سیکھ سکتا ہے:
اقبال نے اپنی معاصر یورپی تہذیب کو کہیں ''تہذیب نو''، کہیں ''تہذیب حاضر''، کہیں ''تہذیب جدید''، کہیں ''تہدیب مغرب'' اور کہیں صرف ''تہذیب'' کہہ کر اس کے منفی اور انسان کش عناصر کی نشاندہی کی۔ یہ تہذیب بقول اقبال روشن چہرے والی ہے مگر چنگیز کا باطن رکھتی ہے، جو ظاہر کو چمکاتی ہے، باطن کو ہلاک کرتی ہے۔ اس کا مقصود آدمی دری ہے اور یہ ایک لادین تہذیب ہے۔
صرف چند شعر دیکھیے:
نئی تہذیب تکلف کے سوا کچھ بھی نہیں
چہرہ روشن ہو تو کیا حاجت گلگو نہ فروش
دوئی ملک و دیں کے لیے نامرادی
دوئی چشم تہذیب کی نابصیری
اسی میں حفاظت ہے انسانیت کی
کہ ہوں ایک جنیدی و اردشیری
عرب کے سوز میں ساز عجم ہے
حرم کا راز توحید امم ہے
تہی وحدت سے ہے اندیشۂ غرب
کہ تہذیب فرنگی بے حرم ہے
حقیقت یہ ہے کہ وہ ذہن اور مادے کی کارتیسی ثنویت ہو یادین و سیاست کی دوگانگی اس کے نتیجے میں کبھی وحدت فکر حاصل نہیں ہوسکتی اور یہی المیہ ہے مغرب کی جدید تہذیب کا! اسلامی اور مغربی تہذیب کے اسی فرق و تصادم کا ذکر کرتے ہوئے ہنٹنگٹن نے لکھا ہے کہ دونوں تہذیبوں کے تصادم کا ایک سبب یہی ہے کہ اسلام دین و سیاست کو وحدت کے روپ میں دیکھتا ہے، جبکہ اس کے برعکس مغربی عیسوی تصور خدا اور قیصر کو الگ الگ اقلیموں میں رکھنا چاہتا ہے۔ اسٹیٹ اور چرچ کی علیحدگی کے باعث تنگ نظر وطنیت کے المیے نے جنم لیا اور اسی سیکولر زاویۂ نگاہ نے مادہ پرستی کے عناصر سے آمیز ہوکر جوع الارض کے دیو بے زنجیر کو کمزور ممالک کے وسائل و اعصاب پر مسلط کردیا۔
دنیا کی واحد سپرپاور کے پاس اس قدر ایٹمی اسلحہ ہے کہ اس سے پوری دنیا کو پینتیس بار تباہ کیا جاسکتا ہے۔ عیسائیت نے 1095عیسوی میں جن صلیبی جنگوں کا آغاز کیا تھا وہ آج بھی برنگ دیگر جاری ہیں۔ برنارڈ لیوس نے لکھا ہے کہ کم و بیش ایک ہزار سال سے یعنی ہسپانیہ میں مسلمانوں کی اولیں آمد سے لے کر ترکوں کے محاصرہ ویانا تک یورپ کو اسلام سے شدید خطرہ رہا۔ ہنٹنگٹن کا کہنا ہے کہ روس کے سقوط کے بعد اب صرف دو بڑی حریف طاقتیں ایک دوسرے کے مقابل کھڑی ہیں یعنی اسلام اور مغرب۔
امریکہ اور مغرب کی نئی استعماری ترکتازیاں اسی خطرے کی پیش بندی اور کمزور ممالک کے قیمتی معدنی وسائل کو ہڑپ کرنے اور ان کی روشن تہذیب و روایات کو برباد کرنے کا نقطۂ آغاز ہیں۔ اقبال نے ''ابلیس کی مجلس شوریٰ'' میں بہت پہلے واضح کردیا تھا کہ ابلیسی نظام کو اشتراکیت سے نہیں صرف اسلام سے خطرہ ہے:
جانتا ہے جس پہ روشن باطن ایام ہے
مزوکیت فتنۂ فردا نہیں اسلام ہے
مغرب کا المیہ یہ ہے کہ اس نے اسلام کو ایک نظام رحمت ورافت دیکھنے کے بجائے اسے اپنا حریف سمجھا حال آں کہ اسلام اور عیسوی دنیا میں بہت سے پہلو ایسے تھے جن پر مکالمہ ممکن تھا، ہے اور رہے گا۔ بدقسمتی سے مغرب کے پاس قوت ہے مگر ویژن نہیں ہے۔ ان دونوں کے اتصال ہی سے ایک بڑا کلچر ظہور میں آتا ہے۔ اقبالؒ نے اسی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے لکھا تھا:۔
آج ملت اسلامیہ کو ایک بڑا معرکہ درپیش ہے جسے اقبال کے بڈھے بلوچ نے ''معرکۂ روح و بدن'' سے تعبیر کیا تھا۔ بڈھے بلوچ کی اس نصیحت کو پھر سے سن لینے میں کیا حرج ہے۔ ممکن ہے یہ نصیحت آج کے بہت سے سیکولر مزاج افراد و اقوام کو وہ راہ سجھاسکے جسے وہ بدقسمتی سے چھوڑتے جارہے ہیں اور جس کے نتیجے میں ان کی حالت اس مچھلی کی سی ہوگئی ہے جس کی قابل رحم حالت کا ذکر اکبر نے اپنے مخصوص انداز میں کیا تھا:
مچھلی نے ڈھیل پائی ہے لقمے پہ شاد ہے
صیاد مطمئن ہے کہ کانٹا نگل گئی
کاش ہم سمجھ سکیں کہ وہ غیر ملکی لقمہ جس کے ملنے پر ہم بغلیں بجارہے ہیں ہمارے لیے اور آنے والی نسلوں کے لیے زہر ہلاہل ہے اور ہماری عزت نفس پر ایک گرزگراں ہے۔ بہرحال بڈھے بلوچ کے چند پند یہ ہیں، آئیے اس کی علامتیت کو سمجھیں اور آزادی، حریت، غیرت، عزت نفس، ملی طرز احساس اور تہذیب کے سچے اور صحیح معانی سے آگاہ ہوسکیں:
جس سمت میں چاہے صفت سیل رواں چل
وادی یہ ہماری ہے، وہ صحرا بھی ہمارا
غیرت ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاج سرِ دارا
دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا
دنیا کو ہے پھر معرکۂ روح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا
اخلاص عمل مانگ نیا گان کہن سے
شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدا را
اقبال نے کہا :بے جان لوگوں کے اتفاق پر جان دار
لوگوں کے اختلاف کو ترجیح دیتا ہوں
اسی زمانے میں اتاترک کے پرانے رفیق رؤف بے جامعہ ملیہ کی دعوت پر ہندوستان آئے اور ان کی تقریر سننے کے لئے میں اشرف کے ساتھ دلی گیا اور کوچہ پنڈت میں احمد علی کے گھر ٹھہرا' جلسے کی صدارت علام اقبال نے کی اور انگریزی میں ایسی برجستہ تقریر کی کہ سب ان کی بصیرت کے قائل ہو گے۔ اس وقت تک ہم تینوں میں سے کسی کو ان سے نیاز حاصل نہ تھا ۔ لہٰذا طے پایا کہ ڈاکٹر انصاری کی قیام گاہ پر وقت مقرر کر کے ان سے ملا جائے۔
دوسرے دن میں نے فون کیا تو جواب ملا کہ اقبال شام کو ہر کس و ناکس سے ملتے ہیں' جو چاہے بلا تکلف آ جائے۔ عین وقت پر اشرف اور احمد علی کہیں اور چلے گئے مگر میں فرط شوق میں دریا گنج چل پڑا۔ اس کوٹھی کا سلسلہ داراشکوہ سے ملتا تھا اور مرور ایام کے باوجود اس میں پرانی شان باقی تھی۔ ڈاکٹرانصاری کے انتقال کے بعد مولوی عبدالحق نے حیدر آباد منتقل ہو کر اسی کو اپنا مستقر بنایا۔ ڈاکٹر انصاری کے حین حیات یہ مکان قومی مہمان خانہ تھا۔ جہاں سیاست کے بڑے بڑے معرکے ہوئے اور پھر مسلمانوں کی بساط سیاست پر اردو نے جان کی بازی لگا دی۔
ملازم کی نشان دہی پر جب میںایک کمرے میں داخل ہوا تو اقبال کو پلنگ پر دراز پایا اور سلام کر کے کونے میں بیٹھ گیا۔ وہ تنہا تھے اور بلاتامل میری طرف متوجہ ہو گئے۔ جب ا نہوںنے سنا کہ میں میوات کے باغی کسانوں کا حال دیکھ کر ان کی زیارت کے لئے دہلی ٹھہرا ہوں' تو مسکرا کر کہا' معلوم ہوتا ہے کہ تم تعلیم کی طرف توجہ کم دیتے ہو'ورنہ ان مشاغل کے لئے وقت کیسے نکل سکتا ہے۔
میں نے عرض کیا کہ میں تجسس کی اس منزل پر ہوں جب رسمی تعلیم تضیع اوقات معلوم ہوتی ہے۔ میں حقیقت کا جو یا ہوں اور اسی کو حاصل علم تصور کرتا ہوں۔ آپ جیسے بزرگوں کے فیض سے جو حاصل ہو گا وہ کسی درس گاہ میں کب میسر ہو گا؟
اس جواب پر اقبال محفوظ ہو کر اٹھ بیٹھے اور پوچھا ''تمہارے ذہن میں حقیقت کا تصور کیا ہے؟''
عرض کیا کہ میں ابھی معاشی مسائل سے زیادہ سوچنے کی صلاحیت پیدا نہ کر سکا اور یہ سمجھتے ہوئے بھی کہ انسان کا مقدر بھوک اور شہوت کی تسکین کے علاوہ اور بھی کچھ ہے' اسی الجھن میں ہوں کہ ان بنیادی مسائل کا مناسب حل نکل آئے تو پھر انسان اپنی خفیہ صلاحیتوں کو صحیح طور پر بروئے کار لا سکے گا۔
اقبال نے کچھ دیر مجھے غور سے دیکھا اور فرمایا: بھوک اور شہوت کے مسائل حیوان اور انسان میں مشرک ہیں۔ جو قدر ان میں امتیاز پیدا کرتی ہے وہ فلسفے کی اصطلاح میں ''آئیڈیا'' ہے ۔ یہ ایک ایسا جذبہ ہے جو ایمان' ضمیر' اخلاق' مسلک وغیرہ کی شکلیں اختیار کرتا ہے۔ سوچو کہ انسان کی بہتری اور ترقی کی جدوجہد میں جن لوگوں نے مصائب جھیلے ہیں انہیں ان قربانیوں کے لئے کسی نے مجبور نہیں کیا۔ کسی نور ایمان نے انہیں اس کاوش کے لئے ابھارا ۔ یہی جذبۂ انسانیت کا جوہر اور اس کی سربلندی کی ضمانت ہے۔
غرض کہ میں دیر تک اقبال کی سمع خراشی کرتا رہا مگر وہ بے لطف نہ ہو ئے اور بوقت رخصت تاکید کی کہ جب کبھی لاہور آؤ تو مجھ سے ملو۔ بنابریں لاہور میں چند باران کی خدمت میں عرض ہوا۔ آخری ملاقات 1936ء میں پانی پت میں مولانا حالی کی صد سالہ سالگرہ کے مشہور جلسے میں ہوئی جب میرا مقالہ ''ادب اور زندگی'' ان کی نظر سے گزر چکا تھا ۔ جب کسی نے میرا تعارف علامہ اقبال سے ان الفاظ میں کیا کہ یہ آپ کی شان میں سخت گسترانہ باتیں لکھ گئے ہیں ' تو انہوںنے کمال شفقت سے فرمایا: ''ایسے مخلص نوجوانوں کی میں قدر کرتا ہوں'' ۔ بے جان لوگوں کے اتفاق پر جان دار لوگوں کے اختلاف کو ترجیح دیتا ہوں۔
اس وقت میں نے اقبال کا کلام جستہ جستہ پڑھا تھا۔ اب انصاف کا تقاضا ہے کہ ان کی شاعری اور شخصیت کی عظمت کا اقرار کروں۔ غم دوراں کا ایسا نوحہ خواں اور عظمت انساں کا ایسا قصیدہ خواں بیسویں صدی میںکوئی شاعر نہ ہوا۔
(اختر حسین رائے پوری کی آپ بیتی ''گردِ راہ '' سے اقتباس)
''ہمارے زمانے میں ایک اور خاموش قوت ہے جس پر قوموں کی فنا اور بقا انحصار رکھتی ہے اور جس کے بل پر ایک قوم گھر بیٹھے دوسری قوم کو ہمیشہ کے لیے صفحۂ عالم سے حرف غلط کی طرح مٹاسکتی ہے۔ ہاتھوں کی لڑائی کا زمانہ گزرچکا، اب دماغوں، تہذیبوں اور تمدنوں کی ہنگامہ آرائیوں کا وقت ہے اور یہ جنگ ایک ایسی جنگ ہے جس کے زخم زنگاری اور کافوری مرہم سے ہرگز اچھے نہیں ہوسکتے۔''
اسی مضمون میں اقبال نے انسانوں کے مابین آزاد مقابلے کی ضرورت پر زور دیا ہے تاکہ تہذیب و تمدن کی اعلیٰ صورتیں پیدا ہوسکیں اور تہذیب و شائستگی کا ظہور ہوسکے۔ اقبال کے نزدیک غلاموں اور آقاؤں کے حقوق کو مساوی قرار دے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک اعلیٰ تمدن کی بنیاد رکھی، جس کے پیدا ہونے والے مثبت نتائج تمام دنیا محسوس کررہی ہے۔
اقبال نے اپنے شعری و نثری آثار میں نہ صرف اپنے تصورات تہذیب و ثقافت کی نہایت خوبی سے وضاحت کی ہے بلکہ اپنی معاصر حاوی مغربی تہذیب کے خدوخال بھی نمایاں کرکے اس کے بعض مثبت پہلوؤں کے دوش بدوش اس کی ہلاکت خیزیوں کو اجاگر کیا ہے۔ مزید برآں انہوں نے اس تہذیب کو بھی ایک زندہ، روشن اور انسانیت نواز تہذیب کے طور پر بڑے اعتماد سے پیش کیا ہے جسے مسلم تہذیب کا نام دیا جاتا ہے اور جس کی برکات و ثمرات سے پوری نوع انسانی فیض یاب ہوئی ہے اور آئندہ بھی ہوسکتی ہے۔
اقبال کے تصور تہذیب کا مرکزی نقطہ یہی مساوی حقوق انسانی ہیں جن کا ابھی ذکر ہوا۔ وہ اس حدیث نبویؐ سے جو ''الخق عیال اللہ'' کی غیر معمولی معنویت کے حامل لفظوں کی صورت میں موجود ہے، بخوبی آگاہ ہیں۔ ''جاوید نامہ'' میں محکمات عالم قرآنی کے زیر عنوان حکمت قرآن اور تخلیق آدم کی معنویت کو نمایاں کرتے ہوئے انہوں نے ''احترام آدمیت'' کو اصل تہذیب قرار دیا ہے۔
فرماتے ہیں:
برتر از گردوں مقام آدم است
اصل تہذیب احترام آدم است
حقیقت یہ ہے کہ اقبال اپنی عمر عزیز کے آخری لمحات تک خدا، انسان اور کائنات کے باہمی رشتوں پر غور کرتے رہے۔ یہ تثلیت ان کے نظام فکر میں ڈھل کر ایک حقیقت واحدہ کی صورت اختیار کرگئی تھی۔ یہی حقیقت واحدہ ان کے نظام فکر کو آفاقی اور ابدی جہت عطا کرتی ہے۔
ایک بالغ نظر اور روشن خیال دانشور ہونے کے ناتے اقبال اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ برتر اور برگزیدہ تہذیبوں کے عناصر ترکیبی کیا ہیں اور یہ تہذیبیں کس قسم کے افراد کو جنم دیتی ہیں۔ اقبال کے نظام فکر میں ذات الٰہ کی حیثیت مرکزی ہے۔ اقبال کی فکر کے تمام الاؤ اسی روحانیت اور یقین کی اسی سرخ گندھک سے روشن اور شعلہ زن ہیں۔ ان کے نزدیک تہذیبوں کا مقصود نہائی فکری، علمی، نفسی اور روحانی سطح پر پورے انسان کا ظہور ہے۔
افراد کی بلند نگہی، وسیع الظرفی، ایثار پیشگی، گردوں رسی، حرکیت اور تسخیر فطرت کی تڑپ یہ سب زندہ اور حرکی تہذیبوں کی دین ہے۔ گویا سچی انسانی تہذیب خاک سے اوپر اٹھنے سے عبارت ہے اور سچی اور زندہ تہذیبیں رنگ، نسل، جغرافیہ، زمیں پیوستگی اور مادہ پرستی سے ماوراء معلوم سے نامعلوم کی طرف قدم زن رہتی ہیں۔ نیا زمانہ، نئے صبح و شام، وسعت افلاک میں تکبیر مسلسل، خودی و خود آگاہی، یہ ہیں زندہ تہذیبوں کے زاویہ ہائے نگاہ:
نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
کہ صبح و شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں
کمال صدق و مروت ہے زندگی ان کی
معاف کرتی ہے فطرت بھی ان کی تقصیریں
تہذیبوں، ان کے عناصر ترکیبی اور ان کے عروج و زوال کے اسباب و علل پر اقبال اپنے ابتدائی نثری و شعری آثار سے لے کر اپنے آخری شعری و فکری کارناموں تک اپنے خیالات کی وضاحت کرتے رہے۔ حیدر آباد کے گنبدان قطب شاہی پر 1910ء میں لکھی گئی بانگ درا کی نظم ''گورستان شاہی'' سے لے کر ارمغان حجاز کی ''بڈھے بلوچ کی نصیحت'' تک اور 1904ء میں لکھے گئے مضمون ''قومی زندگی'' سے لے کر ''The Spirit of Muslim Culture'' اور 1938ء میں لاہور ریڈیو سے نشر ہونے والے اپنے آخری پیغام تک اقبال افراد اور تہذیبوں کی تقدیروں، برگزیدہ اور برتر طرز زندگی اور اعلیٰ تہذیبوں کے مقاصد اور اعمال کو آئینہ کرتے رہے۔ ''گورستان شاہی'' کو دیکھ کر انہوں نے ہماری عبرت آموزی کا سامان بھی پیدا کیا اور ہمیں مسلم نشاۃ ثانیہ کا سندیسہ بھی سنایا:
زندگی اقوام کی بھی ہے یونہی بے اعتبار
رنگہائے رفتہ کی تصویر ہے ان کی بہار
اس زیاں خانے میں کوئی ملت گردوں وقار
رہ نہیں سکتی ابد تک بار دوش روزگار
ایک صورت پر نہیں رہتا کسی شے کو قرار
ذوق جدت سے ہے ترکیب مزاج روزگار
ہے نگین دہر کی زینت ہمیشہ نام نو
مادر گیتی رہی آبستن اقوام نو
پھر بتاتے ہیں کہ غور کریں کوہ نور کی آنکھ نے کتنے تاجور دیکھے، مصر و بابل کی بڑی تہذیبیں مٹ گئیں، مہر ایران کو اجل کی شام نے آدبوچا، عظمت یونان و رومارفت گزشت ہوئی اور پھر تاریخ کے ایک خاص موڑ پر آکر:
آہ مسلم بھی زمانے سے یونہی رخصت ہوا
آسماں سے ابر آزادی اٹھا، برسا، گیا
دل ہمارے یاد عہد رفتہ سے خالی نہیں
اپنے شاہوں کو یہ امت بھولنے والی نہیں
دہر کو دیتے ہیں موتی دیدۂ گریاں کے ہم
آخری بادل ہیں اک گزرے ہوئے طوفاں کے ہم
ہیں ابھی صدہا گہر اس ابر کی آغوش میں
برق ابھی باقی ہے اس کے سینۂ خاموش میں
وادی گل، خاک صحرا کو بنا سکتا ہے یہ
خواب سے امید دہقاں کو جگاسکتا ہے یہ
ہوچکا گو قوم کی شان جلالی کا ظہور
ہے مگر باقی ابھی شان جمالی کا ظہور
ایک اور جگہ بھی فرماتے ہیں:
بجلیاں برسے ہوئے بادل میں بھی پوشیدہ ہیں
یہ ایقان تمام عمر اقبال کے ہمدوش رہا۔ رموز بے خودی میں بھی ممتاز ترین تہذیبوں کے مندرجہ بالا پیرائے میں ذکر کرنے کے بعدمسلم تہذیب کے بارے میں بڑے تیقن سے کہا:
در جہاں بانگ اذاں بودست وہست
ملت اسلامیاں بودست و ہست
اقبال جدید کے ساتھ قدیم کے صحت مند عناصرکا وجود بھی لازم سمجھتے تھے کیونکہ ان کے اتصال ہی سے ایک پائیدار تمدن کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے۔
اقبال نے متعدد مقامات پر مسلم تہذیب کو ایک برگزیدہ، برتر اور تاریخ ساز تہذیب کے طور پر پیش کیا ہے۔ انہیں یقین تھا کہ یہی تہذیب اپنے اندر ایسے عناصر رکھتی ہے جس سے تعمیر عالم انسانی کا کام لیا جاسکتا ہے۔ نکلسن کے نام اپنے خط میں اپنے بعض مغربی معترضین کے ضمن میں مسلم تہذیب کی برتری کا بہ دلائل ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یورپ اسلام سے بعض نہایت عمدہ باتیں سیکھ سکتا ہے:
اقبال نے اپنی معاصر یورپی تہذیب کو کہیں ''تہذیب نو''، کہیں ''تہذیب حاضر''، کہیں ''تہذیب جدید''، کہیں ''تہدیب مغرب'' اور کہیں صرف ''تہذیب'' کہہ کر اس کے منفی اور انسان کش عناصر کی نشاندہی کی۔ یہ تہذیب بقول اقبال روشن چہرے والی ہے مگر چنگیز کا باطن رکھتی ہے، جو ظاہر کو چمکاتی ہے، باطن کو ہلاک کرتی ہے۔ اس کا مقصود آدمی دری ہے اور یہ ایک لادین تہذیب ہے۔
صرف چند شعر دیکھیے:
نئی تہذیب تکلف کے سوا کچھ بھی نہیں
چہرہ روشن ہو تو کیا حاجت گلگو نہ فروش
دوئی ملک و دیں کے لیے نامرادی
دوئی چشم تہذیب کی نابصیری
اسی میں حفاظت ہے انسانیت کی
کہ ہوں ایک جنیدی و اردشیری
عرب کے سوز میں ساز عجم ہے
حرم کا راز توحید امم ہے
تہی وحدت سے ہے اندیشۂ غرب
کہ تہذیب فرنگی بے حرم ہے
حقیقت یہ ہے کہ وہ ذہن اور مادے کی کارتیسی ثنویت ہو یادین و سیاست کی دوگانگی اس کے نتیجے میں کبھی وحدت فکر حاصل نہیں ہوسکتی اور یہی المیہ ہے مغرب کی جدید تہذیب کا! اسلامی اور مغربی تہذیب کے اسی فرق و تصادم کا ذکر کرتے ہوئے ہنٹنگٹن نے لکھا ہے کہ دونوں تہذیبوں کے تصادم کا ایک سبب یہی ہے کہ اسلام دین و سیاست کو وحدت کے روپ میں دیکھتا ہے، جبکہ اس کے برعکس مغربی عیسوی تصور خدا اور قیصر کو الگ الگ اقلیموں میں رکھنا چاہتا ہے۔ اسٹیٹ اور چرچ کی علیحدگی کے باعث تنگ نظر وطنیت کے المیے نے جنم لیا اور اسی سیکولر زاویۂ نگاہ نے مادہ پرستی کے عناصر سے آمیز ہوکر جوع الارض کے دیو بے زنجیر کو کمزور ممالک کے وسائل و اعصاب پر مسلط کردیا۔
دنیا کی واحد سپرپاور کے پاس اس قدر ایٹمی اسلحہ ہے کہ اس سے پوری دنیا کو پینتیس بار تباہ کیا جاسکتا ہے۔ عیسائیت نے 1095عیسوی میں جن صلیبی جنگوں کا آغاز کیا تھا وہ آج بھی برنگ دیگر جاری ہیں۔ برنارڈ لیوس نے لکھا ہے کہ کم و بیش ایک ہزار سال سے یعنی ہسپانیہ میں مسلمانوں کی اولیں آمد سے لے کر ترکوں کے محاصرہ ویانا تک یورپ کو اسلام سے شدید خطرہ رہا۔ ہنٹنگٹن کا کہنا ہے کہ روس کے سقوط کے بعد اب صرف دو بڑی حریف طاقتیں ایک دوسرے کے مقابل کھڑی ہیں یعنی اسلام اور مغرب۔
امریکہ اور مغرب کی نئی استعماری ترکتازیاں اسی خطرے کی پیش بندی اور کمزور ممالک کے قیمتی معدنی وسائل کو ہڑپ کرنے اور ان کی روشن تہذیب و روایات کو برباد کرنے کا نقطۂ آغاز ہیں۔ اقبال نے ''ابلیس کی مجلس شوریٰ'' میں بہت پہلے واضح کردیا تھا کہ ابلیسی نظام کو اشتراکیت سے نہیں صرف اسلام سے خطرہ ہے:
جانتا ہے جس پہ روشن باطن ایام ہے
مزوکیت فتنۂ فردا نہیں اسلام ہے
مغرب کا المیہ یہ ہے کہ اس نے اسلام کو ایک نظام رحمت ورافت دیکھنے کے بجائے اسے اپنا حریف سمجھا حال آں کہ اسلام اور عیسوی دنیا میں بہت سے پہلو ایسے تھے جن پر مکالمہ ممکن تھا، ہے اور رہے گا۔ بدقسمتی سے مغرب کے پاس قوت ہے مگر ویژن نہیں ہے۔ ان دونوں کے اتصال ہی سے ایک بڑا کلچر ظہور میں آتا ہے۔ اقبالؒ نے اسی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے لکھا تھا:۔
آج ملت اسلامیہ کو ایک بڑا معرکہ درپیش ہے جسے اقبال کے بڈھے بلوچ نے ''معرکۂ روح و بدن'' سے تعبیر کیا تھا۔ بڈھے بلوچ کی اس نصیحت کو پھر سے سن لینے میں کیا حرج ہے۔ ممکن ہے یہ نصیحت آج کے بہت سے سیکولر مزاج افراد و اقوام کو وہ راہ سجھاسکے جسے وہ بدقسمتی سے چھوڑتے جارہے ہیں اور جس کے نتیجے میں ان کی حالت اس مچھلی کی سی ہوگئی ہے جس کی قابل رحم حالت کا ذکر اکبر نے اپنے مخصوص انداز میں کیا تھا:
مچھلی نے ڈھیل پائی ہے لقمے پہ شاد ہے
صیاد مطمئن ہے کہ کانٹا نگل گئی
کاش ہم سمجھ سکیں کہ وہ غیر ملکی لقمہ جس کے ملنے پر ہم بغلیں بجارہے ہیں ہمارے لیے اور آنے والی نسلوں کے لیے زہر ہلاہل ہے اور ہماری عزت نفس پر ایک گرزگراں ہے۔ بہرحال بڈھے بلوچ کے چند پند یہ ہیں، آئیے اس کی علامتیت کو سمجھیں اور آزادی، حریت، غیرت، عزت نفس، ملی طرز احساس اور تہذیب کے سچے اور صحیح معانی سے آگاہ ہوسکیں:
جس سمت میں چاہے صفت سیل رواں چل
وادی یہ ہماری ہے، وہ صحرا بھی ہمارا
غیرت ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاج سرِ دارا
دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا
دنیا کو ہے پھر معرکۂ روح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا
اخلاص عمل مانگ نیا گان کہن سے
شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدا را
اقبال نے کہا :بے جان لوگوں کے اتفاق پر جان دار
لوگوں کے اختلاف کو ترجیح دیتا ہوں
اسی زمانے میں اتاترک کے پرانے رفیق رؤف بے جامعہ ملیہ کی دعوت پر ہندوستان آئے اور ان کی تقریر سننے کے لئے میں اشرف کے ساتھ دلی گیا اور کوچہ پنڈت میں احمد علی کے گھر ٹھہرا' جلسے کی صدارت علام اقبال نے کی اور انگریزی میں ایسی برجستہ تقریر کی کہ سب ان کی بصیرت کے قائل ہو گے۔ اس وقت تک ہم تینوں میں سے کسی کو ان سے نیاز حاصل نہ تھا ۔ لہٰذا طے پایا کہ ڈاکٹر انصاری کی قیام گاہ پر وقت مقرر کر کے ان سے ملا جائے۔
دوسرے دن میں نے فون کیا تو جواب ملا کہ اقبال شام کو ہر کس و ناکس سے ملتے ہیں' جو چاہے بلا تکلف آ جائے۔ عین وقت پر اشرف اور احمد علی کہیں اور چلے گئے مگر میں فرط شوق میں دریا گنج چل پڑا۔ اس کوٹھی کا سلسلہ داراشکوہ سے ملتا تھا اور مرور ایام کے باوجود اس میں پرانی شان باقی تھی۔ ڈاکٹرانصاری کے انتقال کے بعد مولوی عبدالحق نے حیدر آباد منتقل ہو کر اسی کو اپنا مستقر بنایا۔ ڈاکٹر انصاری کے حین حیات یہ مکان قومی مہمان خانہ تھا۔ جہاں سیاست کے بڑے بڑے معرکے ہوئے اور پھر مسلمانوں کی بساط سیاست پر اردو نے جان کی بازی لگا دی۔
ملازم کی نشان دہی پر جب میںایک کمرے میں داخل ہوا تو اقبال کو پلنگ پر دراز پایا اور سلام کر کے کونے میں بیٹھ گیا۔ وہ تنہا تھے اور بلاتامل میری طرف متوجہ ہو گئے۔ جب ا نہوںنے سنا کہ میں میوات کے باغی کسانوں کا حال دیکھ کر ان کی زیارت کے لئے دہلی ٹھہرا ہوں' تو مسکرا کر کہا' معلوم ہوتا ہے کہ تم تعلیم کی طرف توجہ کم دیتے ہو'ورنہ ان مشاغل کے لئے وقت کیسے نکل سکتا ہے۔
میں نے عرض کیا کہ میں تجسس کی اس منزل پر ہوں جب رسمی تعلیم تضیع اوقات معلوم ہوتی ہے۔ میں حقیقت کا جو یا ہوں اور اسی کو حاصل علم تصور کرتا ہوں۔ آپ جیسے بزرگوں کے فیض سے جو حاصل ہو گا وہ کسی درس گاہ میں کب میسر ہو گا؟
اس جواب پر اقبال محفوظ ہو کر اٹھ بیٹھے اور پوچھا ''تمہارے ذہن میں حقیقت کا تصور کیا ہے؟''
عرض کیا کہ میں ابھی معاشی مسائل سے زیادہ سوچنے کی صلاحیت پیدا نہ کر سکا اور یہ سمجھتے ہوئے بھی کہ انسان کا مقدر بھوک اور شہوت کی تسکین کے علاوہ اور بھی کچھ ہے' اسی الجھن میں ہوں کہ ان بنیادی مسائل کا مناسب حل نکل آئے تو پھر انسان اپنی خفیہ صلاحیتوں کو صحیح طور پر بروئے کار لا سکے گا۔
اقبال نے کچھ دیر مجھے غور سے دیکھا اور فرمایا: بھوک اور شہوت کے مسائل حیوان اور انسان میں مشرک ہیں۔ جو قدر ان میں امتیاز پیدا کرتی ہے وہ فلسفے کی اصطلاح میں ''آئیڈیا'' ہے ۔ یہ ایک ایسا جذبہ ہے جو ایمان' ضمیر' اخلاق' مسلک وغیرہ کی شکلیں اختیار کرتا ہے۔ سوچو کہ انسان کی بہتری اور ترقی کی جدوجہد میں جن لوگوں نے مصائب جھیلے ہیں انہیں ان قربانیوں کے لئے کسی نے مجبور نہیں کیا۔ کسی نور ایمان نے انہیں اس کاوش کے لئے ابھارا ۔ یہی جذبۂ انسانیت کا جوہر اور اس کی سربلندی کی ضمانت ہے۔
غرض کہ میں دیر تک اقبال کی سمع خراشی کرتا رہا مگر وہ بے لطف نہ ہو ئے اور بوقت رخصت تاکید کی کہ جب کبھی لاہور آؤ تو مجھ سے ملو۔ بنابریں لاہور میں چند باران کی خدمت میں عرض ہوا۔ آخری ملاقات 1936ء میں پانی پت میں مولانا حالی کی صد سالہ سالگرہ کے مشہور جلسے میں ہوئی جب میرا مقالہ ''ادب اور زندگی'' ان کی نظر سے گزر چکا تھا ۔ جب کسی نے میرا تعارف علامہ اقبال سے ان الفاظ میں کیا کہ یہ آپ کی شان میں سخت گسترانہ باتیں لکھ گئے ہیں ' تو انہوںنے کمال شفقت سے فرمایا: ''ایسے مخلص نوجوانوں کی میں قدر کرتا ہوں'' ۔ بے جان لوگوں کے اتفاق پر جان دار لوگوں کے اختلاف کو ترجیح دیتا ہوں۔
اس وقت میں نے اقبال کا کلام جستہ جستہ پڑھا تھا۔ اب انصاف کا تقاضا ہے کہ ان کی شاعری اور شخصیت کی عظمت کا اقرار کروں۔ غم دوراں کا ایسا نوحہ خواں اور عظمت انساں کا ایسا قصیدہ خواں بیسویں صدی میںکوئی شاعر نہ ہوا۔
(اختر حسین رائے پوری کی آپ بیتی ''گردِ راہ '' سے اقتباس)