علامہ اقبال نے خطبات کن کے لیے اور کیوں لکھے

حقیقت یہی ہے کہ خطبات علامہ اقبال کی ایسی تصنیف ہے جسے علماء نے اگر پڑھنے کی کوشش کی تو اسے ناپسند فرمایا۔

مطالعۂ فطرت یا سائنسی تحقیق بھی اپنی طرح کی عبادت ہے۔ فوٹو : فائل

خطبات ''تشکیل نو'' کن کے لیے تحریر کیے گئے؟ علامہ اقبال فرماتے ہیں:

''ان لیکچروں کے مخاطب زیادہ تر وہ مسلمان ہیں جو مغربی فلسفہ سے متاثر ہیں اور اس بات کے خواہشمند ہیں کہ فلسفہ اسلام کو فلسفہ جدید کے الفاظ میں بیان کیا جائے اور اگر پرانے خیالات میں خامیاں ہیں تو ان کو رفع کیا جائے۔''

جب یہ لیکچر علی گڑھ یونیورسٹی کے طلباء نے سنے تو صدر شعبہ فلسفہ سید ظفرالحسن نے علامہ اقبال سے کہا:

جناب والا! آپ نے اسلام میں فلسفہ دین کی تشکیل نو کی بنیاد رکھ دی۔ مسلمانوں کی موجودہ اور آئندہ نسلیں اس کے لیے آپ کے ممنون احسان ہیں۔ آپ کی فکر افزا مثال اور لوگوں کی بھی ہمت بندھائے گی۔''

خطبات کے ایک مبصر سلیم احمد تحریر کرتے ہیں:

''اقبال کے نزدیک مغربی تہذیب کا چیلنج ایک نئی الٰہیات کی تشکیل کا مطالبہ کررہا تھا۔ اقبال کی نئی الٰہیات کی کوشش کا حقیقی مقصد مغربی اور اسلامی تہذیب کے درمیان مشترکہ عناصر کی جستجو ہے۔ اگر ہمیں مغربی تہذیب کو قبول کرنا ہے یا اسے اپنے اندر جذب کرکے فائدہ اٹھانا ہے تو ہمیں مغربی اور اسلامی تہذیب کی روح میں اتر کر ان کی ہم آہنگی کو الٰہیاتی بنیادوں پر ثابت کرنا پڑے گا۔ ''تشکیل جدید'' ان ہی معنوں میں ایک زبردست کارنامہ ہے جسے جدید اسلام کی بائبل کہنا چاہیے۔''

یہ سب اپنی جگہ درست۔ حقیقت یہی ہے کہ خطبات علامہ اقبال کی ایسی تصنیف ہے جسے علماء نے اگر پڑھنے کی کوشش کی تو اسے ناپسند فرمایا۔ مولانا سید سلیمان ندوی نے تو صاف کہہ دیا کہ یہ کتاب اگر نہ لکھی جاتی تو بہتر ہوتا۔ جہاں تک مسلمانوں کی ''مغرب زدہ'' نئی نسل کا تعلق ہے۔ انہوں نے خطبات کو وہ توجہ جس کے وہ مستحق تھے، نہیں دی۔ پس علامہ اقبال کی ''فکر افزائی'' اوروں کی ہمت نہ بندھاسکی۔

خطبات کے مطالعہ سے ظاہر ہے کہ انہیں تحریر کرنے کی کئی وجوہ تھیں۔ پہلی یہ کہ علامہ اقبال کو احساس تھا کہ دنیائے اسلام ہر طور پر مغرب کی طرف جھکتی چلی جارہی ہے۔ وہ اس تحریک کے مخالف نہ تھے کیونکہ یورپی تہذیب عقل ودانش کے اعتبار سے انہی نظریات کی ترقی یافتہ صورت پیش کرتی ہے جن پر اسلام کی تمدنی تاریخ کے مختلف ادوار میں غور و فکر کیا گیا۔ دوسرے الفاظ میں وہ یورپی تہذیب کو ایک طرح سے اسلامی تہذیب ہی کی توسیع خیال کرتے تھے اور مسلمانوں کی نئی نسل کے اس مطالبے کو جائز سمجھتے تھے کہ اسلامی عقائد اورنظریۂ حیات کا ایک بار پھر جائزہ لے کر ایسی نئی تعبیر یا تشریح کی ضرورت ہے جو وقت کے جدید تقاضوں سے مطابقت رکھتی ہو۔ انہیں خدشہ صرف اس بات کا تھا کہ مادہ پرست یورپی کلچر کی ظاہری چمک دمک ہمیں اتنا متاثر نہ کردے کہ ہم اس کلچر کے حقیقی باطن تک پہنچ سکنے کے قابل نہ رہیں۔

دوسری وجہ یہ تھی کہ بقول اقبال انسان مختلف قسم کے رشتوں کے ذریعے خدا اور کائنات سے جڑا ہوا ہے۔ لہٰذا مطالعۂ فطرت یا سائنسی تحقیق بھی اپنی طرح کی عبادت ہے۔ وہ مسلمانوں کی نئی نسل کی توجہ سائنسی علوم کی طرف مبذول کرنے کی خاطر ان پر واضح کرنا چاہتے تھے کہ اسلام روحانی دنیا کے ساتھ مادی دنیا کو بطور حقیقت تسلیم کرتا ہے اور انسان کو مشاہداتی یا تجربی علوم کی تحصیل سے تسخیر کائنات کی دعوت دیتا ہے۔

تیسری وجہ یہ تھی کہ علامہ اقبال کے نزدیک روحانی (یا مذہبی) تجربہ بھی ایک نوع کا علم ہے جسے دیگر علوم کی طرح حاصل کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے خطبات میں فکری نقطۂ نگاہ سے اسلام کو بطور ارفع مذہب پیش کیا اور بعض آیات کی تعبیر سے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ مابعدالطبیعات، طبیعات یا مادے اور زماں و مکاں سے متعلق فکری یا تجربی علوم کے نئے انکشافات کی تصدیق قرآن سے کی جاسکتی ہے۔

اقبال

اقبال! کیوں نہ تجھ کو کہیں شاعر حیات
ہے تیرا قلب محرم اسرارِ کائنات

سرگرمی دوام ہے تیرے لئے حیات

میدانِ کارزار ہے تجھ کو یہ کائنات

مشرق تری نظر میں ہے امید کا افق
مغرب تری نگاہ میں ہے غرق سئیآت

یورپ کی ساری شوکتیں تیرے لئے سراب
ہنگامۂ تمدنِ افرنگ، بے ثبات

اسلامیوں کے فلسفے میں دیکھتا ہے تو
مظلوم کائنات کی واحد رہِ نجات

تیرا کلام جس کو کہ بانگ درا کہیں
ہیں اس کے نقطے نقطے میں قرآن کے نکات

بھولے ہوؤں کو تو نے دیا درسِ زندگی
زیبا ہے گر کہیں تجھے خضر رہِ حیات

سینے میں تیرے عشق کی بیتاب شورشیں
محفل میں تیری قدس کی رقصاں تجلیات

عریاں تری نگاہ میں اسرار کن فکاں
مضمر ترے ضمیر میں تقدیر کائنات

دنیا کا ایک شاعر اعظم کہیں تجھے
اسلام کی کچھار کا ضیغم کہیں تجھے

مجید امجد
Load Next Story