اقتدار کی جنگ
قوم پرست اور مسلم لیگ ن دونوں غلطی کر بیٹھے ہیں اور ان کی غلطی کا فائدہ ایم کیوایم یا پیپلز پارٹی کو پہنچے گا۔
جب بھی ملک میں عام انتخابات کا دور دورہ ہوتا ہے تو تمام سیاسی ومذہبی جماعتیں حرکت میں آجاتی ہیں اور وہ ان جماعتوں سے بھی روابط کرتی دکھائی دیتی ہیں کہ جن سے ماضی میں شدید اختلا ف رہا ہو، حتیٰ کہ انھیں غدار اور ملک دشمن اور سندھ دشمن تک کہا گیا ہو، مگر اپنے مطلب کے لیے پھر اسی سیاسی جماعت کو گلے لگانے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں پھر اسی جماعت کو جمہوری،سیاسی ،امن پسند، سیکو لر اور عوامی جماعت تک تسلیم کر لیا جاتا ہے۔جیسا کہ آج کل مسلم لیگ (ن) اور سندھ میں قو م پرست جماعتو ں کے رابطے کی شکل میں عوام دیکھ رہے ہیں ،یہ وہی قوم پرست جماعتیں ہیں جو کل تک پنجاب کے راستے بند کرنے کی باتیں کیا کرتی تھیں ۔ریل کی پٹریوں کو بم سے اڑانے اور اکھاڑنے کی دھمکیاں بھی دی گئیں جب کہ آج بھی اندرون سندھ میں پنجاب سے تعلق رکھنے والا کوئی شہری مستقل رہائش اختیار نہیں کر سکتا ۔سندھ کی تقریباً تمام قوم پرست جماعتیں گزشتہ کئی ماہ سے نواز شریف کو خوش آمدید کہہ رہی ہیں اور صورتحال یہ ہے کہ انھیں نواز شریف سے زیادہ اس ملک کا خیرخواہ کوئی اور نظر نہیں آرہا ہے۔
ان دونوں کے اتحاد پر عوام نواز شریف کا وہ نعرہ کہ'' جاگ پنجابی جاگ تیری پگ نو لگ گیا داغ '' آج تک نہیں بھول پائے ہیں پھر سندھیوں کی قوم پرستوں سے ناراضگی ان کا فطری عمل ہے ۔لیکن اب کالا باغ ڈیم کے معاملے پر ان قوم پرستوں کا نواز شریف سے اتحاد ٹوٹتا ہوا دکھائی دے رہا ہے کیونکہ مسلم لیگ ن نے سندھ میں قدم جمانے کی غرض سے قوم پرستوں کی ہمدردیاں حاصل کرنا چاہی مگر ایسا لگ رہا ہے کہ مسلم لیگ ن قوم پرستوں سے ہاتھ ملا کر سب کچھ گنوا بیٹھی ہے یوں اسے سیاسی نقصان ہوتا ہوا نظر آرہا ہے اور وہ اس وقت ایک گمبھیر صورتحال میں مبتلا ہوگئی ہے ۔ مگر حقا ئق یہی ہیں کہ وہ اپنی سیاسی حقیقت کھو رہی ہے اور ویسے بھی مسلم لیگ ن کو سندھ میںآیندہ عام انتخابات میں 2008ء کی طرح ایک بار پھر شکست کا سامناکرنا پڑے گا ۔رہی بات قوم پرستوں کا انتخابی اکھاڑے میں اترنا تو یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ یہ جماعتیںاول روز سے ہی سندھ میں انارکی پھیلانے اور خوف وہراس کی فضاء قائم کرنے میں پیش پیش رہی ہیں اور انتخابات میں حصہ اس لیے نہیں لیتیں کہ وہ بخوبی واقف ہیں کہ انھیں کامیابی نہیں مل سکتی۔
آج جس انداز میں قوم پرست جماعتیں اور مسلم لیگ ن میں اتحاد اور بظاہر ایک دوسرے کے قریب نظر آرہے ہیں در اصل اندرون خانہ ایک دوسرے سے جان چھڑانے کا سوچ رہی ہیں کیونکہ قوم پرست اور مسلم لیگ ن دونوں ہی یہ بہت بڑی غلطی کر بیٹھے ہیں اور ان کی غلطی کا فائدہ ایم کیوایم یا پیپلز پارٹی کو پہنچے گا کیونکہ قوم پرست یا مسلم لیگ ن کے سندھی عوام وہ دونوں کسی بھی صورت ایک دوسرے کو تسلیم کرتے نہیں دکھائی دے رہے ۔ 2002ء کے عام انتخابات میں قوم پرست رہنما جلال محمود شاہ ایم کیوایم کے تعاون ہی سے صوبائی اسمبلی کی نشست حاصل کر سکے تھے کیونکہ ایم کیوایم نے ان کے حق میں اپنا نامزد امیدوار بٹھا دیا تھا ایم کیو ایم کی مخالفت کے سبب اس بار وہ سیٹ بھی ان کے ہاتھ سے جاتی دکھائی دے رہی ہے ۔
یوں ان جماعتوں کے ناراض سندھی عوام ایم کیو ایم اور پی پی پی کی جانب دیکھ رہے ہیں جب کہ جن علاقوں میں ایم کیوایم زیادہ مضبوط ہے وہاں بھی لوگ متحدہ قومی موومنٹ کی طر ف امید لگا رہے ہیں جس کا ثبوت بڑی تعداد میں سندھی عوام کا ایم کیوایم میں شمولیت سے لگایا جاسکتا ہے ۔یہ بھی درست ہے کہ قیام پاکستان سے اب تک اس ملک کے عوام کو سوائے نعروں ،جھوٹے وعدوں اور دعوئوں کے کچھ نہیں ملا۔ جاگیردارانہ اور موروثی سیاسی نظام نے 98فیصد غر یب متو سط طبقے سے تعلق رکھنے والے عوام کو بری طرح سے جکڑا ہوا ہے اور دو فیصد مراعات یافتہ طبقہ مکمل طور پر ملک پر قابض ہے جو چہر ے بدل بدل کر ملک کو نہ صرف لو ٹ رہا ہے بلکہ حقو ق سے محروم عوام کو ان کے حقوق کے حصول کے لیے آواز بلند کرنے کی پاداش میں انھیں روندتا ہوا نظر آرہا ہے ۔
آج کل پاکستان تحریک انصاف کو ملک میں تبدیلی کے لیے اہم جماعت قرار دیا جارہا ہے جب کہ اس جماعت میں مختلف سیاسی ومذہبی جماعتوں کے سربراہوں سے ناراض شخصیات تیزی سے شامل ضرور ہوئیں مگر اتنی ہی تیزی سے واپس بھی جارہی ہیں ، پی ٹی آئی کی گرج اس مثال کی مانند ہے کہ ''جو گرجتا ہے وہ برستا نہیں ''جو جماعت محض چند افراد کے اجلاس میں شرکا کو کھانے کا نظم و ضبط نہیں سکھا سکتی وہ بھلا اس ملک کے 18کرو ڑعوام کو مسائل سے کیسے نجات دلا سکے گی ؟ماضی میں پی ٹی آئی کے بڑ ے بڑے جلسے انھیں انتخابات میں کامیاب نہ کر واسکے پھر اس جماعت کی پشت پناہی کرنے والوں سے عوام بخوبی واقف ہیں ۔تو تبدیلی کی امید پی ٹی آئی سے لگانا احمقانہ بات ہوگی۔ کل کی ملک غدار پارٹی آج محب وطن کہنے کا مقصد دراصل اقتدار کی جنگ کے مترادف ہے ، یہی سیاسی ومذہبی جماعتیںایک دوسرے کو ملک دشمن اور دیگر القابات سے نوازتی رہی ہیں اور جب ملک میں اقتدار کی رسہ کشی ہو تو پھریہی آپس میں اتحاد اور الائنس کر تی دکھائی دیتی ہیں تو پھر واضح ہوا کہ یہ دو فیصد مراعات یافتہ طبقہ جماعتوں کا نام تو تبدیل کرسکتا ہے، مگر عوام کی تقدیر یا ملک کا نظام تبد یل نہیں کرسکتا۔ ملک کانظام اور عوام کی تقدیر وہی تبدیل کر سکتا ہے جو خود متوسط طبقے سے تعلق رکھتا ہو اور مسائل کو سمجھتا ہو، مگر افسوس کہ ایسے لوگو ں کوملک کی باگ ڈور سنبھالنے سے نہ صرف روکاجارہا ہے بلکہ انھیں دیوار سے بھی لگانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔