پتلی تماشہ

اب جبکہ امی ابو کی صلح ہوگئی اوروہ کمرے میں چلےگئے توبچے سوچنے لگےکہ انہیں نہ توکھانا ملا نہ عیاشی۔ یہ کیا معاملہ ہوا؟

یوں بچوں نے نانا ابو کی سمجھ داری اور ٹھیک وقت پر آمد کو غنیمت جانا۔ اب جبکہ امی ابو کمرے میں چلے گئے ہیں، بچے سر جوڑ کر بیٹھے کہ انہیں نہ تو کھانا ملا نہ عیاشی۔ یہ کیا معاملہ ہوا۔

ہمارے بچپن میں پاکستان ٹیلی ویژن پر فاروق قیصر کا تخلیق کردہ ایک ''پتلی تماشہ'' آیا کرتا تھا۔ جس کا نام تھا ''کلیاں''۔ جوں جوں ہم بڑے ہوتے گئے، کلیاں اور انکل سرگم بھی بڑے ہوتے چلے گئے۔ ہم گاؤں سے شہر آگئے، انکل سرگم 'ماسی مصیبتے' کے ساتھ مختلف چینلوں سے ہوتے ہوئے 'ڈاک ٹائم' بنے، 'سیاسی کلیاں' کہلائے اور پھر نہ نجانے کہاں روپوش ہوگئے۔

پی ٹی وی ہو، ایس ٹی این ہو یا لکی ایرانی سرکس، پتلی تماشہ کے بغیر کسی کا کاروبار پورا نہ ہوتا تھا۔ عبداللہ کا پچھلے دنوں ایک عرصے بعد پاکستان کا چکر لگا تو یہ جان کر بے حد مسرت ہوئی کہ 'پتلی تماشہ' واپس آگیا ہے مگر ایک عجیب حیرانی یہ دیکھ کر ہوئی کہ تمام ناظرین اسے پتلی تماشہ کی بجائے اصل سمجھ رہے ہیں۔ خیر بچپن کے شوق اور جوانی کی غلطیاں کب بھلائی جاتی ہیں تو عبد اللہ بھی سب دوستوں کے ساتھ پتلی تماشہ دیکھنے بیٹھ گیا۔ یہ نئے دور کا پتلی تماشہ تھا تو انکل سرگم اور ماسی مصیبتے کے علاوہ بھی کئی ایک کردار سامنے آئے۔

کہانی کا لب لباب یہ تھا کہ ایک گھر میں ایک ہی خاندان کے بہت سے لوگ رہ رہے ہوتے ہیں جیسا کہ مشترکہ خاندانی نظام میں ہمارے یہاں ہوتا ہی ہے۔ ایک دن دیور اور بھابی کی لڑائی ہوگئی، دیور نے بھابی کو گھر سے نکال باہر کیا۔ بھابی کچھ عرصے میں واپس آگئی اور خواب دیکھنے لگی کہ وہ اب دیور جی سے گن گن کے بدلے لیں گی۔ شوہر صاحب نے بیچ میں پڑ کر جھگڑا سلجھا دیا اور دیور جی کو ملک بدر کیا۔ اب بیوی کی شوہر سے ٹھن گئی، کہنے لگی کہ مجھے ایک ایک پیسے کا حساب چاہیئے۔ کہاں کہاں، کس پر، کیسے اور کب خرچ کئے؟۔ شوہر نے بے حد چاہا کہ معاملہ دبا رہے مگر عورت کی ضد تو مثالی ہے۔

آخر تنگ آکر شوہر نے وہ تمام اکاؤنٹس اور حساب نکال کر رکھ دیئے جو بیوی چوری چھپے اپنے رشتہ داروں اور میکے والوں کو بھیجتی رہی۔ بیگم نے ایک اور چال چلی، شوہر اپنی ملازمت سے ہٹ کر بے چارہ شام کو کچھ جائیداد کی خرید و فروخت کا کام کرتا تھا۔ بیگم نے حکم صادر کیا کہ آئندہ جب بھی کچھ بیچو گے تو اس آمدنی پر مجھے بھی کچھ ملنا چاہیئے۔ انگریزی میں کیپیٹل گین کہہ لیں۔ اب بہت ہوچکا تھا۔ جوان بچےآخر کار باپ کا سہارا ہوتے ہی ہیں۔ باپ نے بچوں کو ساتھ ملایا اور کہا کہ ماں کی ناک میں دم کر دو۔ یہ تنگ آکر چلی جائے گی تو ہم نئی ماں لے آئیں گے اور پھر روز نئے نئے کھانے، تفریح، عیاشی، پورے گھر کے مالک۔

باپ کی شہہ پا کر بچے سراپا احتجاج بن گئے۔ کافی عرصے تک یہ کھیل اور آنکھ مچولی چلتی رہی۔ کبھی باپ کی دلیل کارآمد ہوئی تو کبھی ماں کے برجستہ جملے تیر کی طرح نشانے پر لگیں۔ آخر کچھ دنوں بعد بڑے بوڑھے سر جوڑ کر بیٹھے، بیوی کے ابو (بچوں کے نانا ابو) کو بلایا گیا اور میاں بیوی میں صلح کروادی۔


بیوی نے وعدہ کرلیا کہ وہ آئندہ اخراجات کا حساب نہیں مانگے گی، شوہر نے وعدہ کر لیا کہ وہ میکے میں دیئے جانے والے تحائف نہیں گنوائے گا۔ بیگم نے عہد کیا کہ وہ دیور جی کو بس بھول ہی جائیں گی اور خاندان والوں کے وسیع تر مفاد میں کیپیٹل پر کوئی گین نہیں لیں گی اور شوہر نے حسبِ مراتب کا خیال رکھتے ہوئے بچوں کو احتجاج ختم کروانے کی یقین دہانی کرادی۔

یوں بچوں نے نانا ابو کی سمجھ داری اور ٹھیک وقت پر تشریف آوری کو غنیمت جانا اور چپ ہو رہے۔ اب جبکہ امی ابو کمرے میں چلے گئے ہیں، بچے سر جوڑ کر بیٹھے ہیں کہ انہیں نہ تو کھانا ملا نہ عیاشی۔ یہ کیا معاملہ ہوا۔

اور ستم ظریف یہ کہ عبد اللہ بچوں کے فیس بُک فرینڈز کے ڈر سے پیٹ پر ہاتھ رکھے، بُری طرح ہنسی کو روکنے کی ناکام کوشش کررہا ہے کہ پتلی تماشہ کے سفید دھاگے تو صاف نظر آتے ہیں مگر وہ آنکھیں جو جذبات سے چندھیا جائیں، انہیں کیا نظر آئے؟۔

نوٹ:- اس تحریر کا کسی بھی ملک کے سیاسی حالات سے کوئی تعلق نہیں۔ کسی بھی قسم کی مماثلت آپ کی اپنی ذہنی اختراع ہے۔ مصنف خدا کو حاضر ناظر جان کے کسی بھی ٹینکی کے لیک ہونے یا الہام کے پلانٹڈ ہونے سے مکمل ناواقفیت کا اعلان کرتا ہے۔ اپنے تجزیے کے ذمہ دار آپ خود ہوں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔
Load Next Story