پیچھا کرتی تلخ حقیقتیں
کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ ہم اپنا سر دیوار سے پٹخ رہے ہیں
کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ ہم اپنا سر دیوار سے پٹخ رہے ہیں۔ جو حالات چل رہے ہیں، انھیں دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل نہیں کہ اچھی حکمرانی اور سماجی ترقی کے حوالے سے ہمارے ذہنوں میں جو تصورات ہیں، وہ شا ید کبھی حقیقت کا روپ نہ دھار سکیں۔
اسٹیٹس کو کی قوتیں اس قدر مضبوط ہوچکی ہیں کہ ان کے ہوتے ، بہتری کا ہر امکان دم توڑ چکا ہے۔ جب سے ہوش سنبھالا ہے، چہار سو کٹھ پتلیوںکا تماشہ ہی دیکھا ہے، جو کسی نہ کسی شکل میں آج تک جاری ہے۔ دنیا آگے کی طرف بڑھ رہی ہے، مگر ہم مسلسل پیچھے کی طرف جا رہے ہیں۔ غلطیاں کہاں کہاں اور کس کس سے ہوئیں؟ یہ طویل داستان ہے، جسے نہ دہرانے ہی میں عافیت ہے، مگر یہ طے ہے کہ جو بنانا چاہا تھا ، وہ بہرحال نہیں بن سکا۔
عجب طرفہ تماشہ ہے کہ جب بھی سیاسی حکومتیں بنتی ہیں، تو آپس میں جوتم پیزار شروع ہوجاتی ہے۔ آمریت کا محور و مقصود اس کے اپنے مخصوص ادارہ جاتی مفادات کی تکمیل ہوتا ہے۔ عام آدمی جس کے نام پر سارے کھیل کھیلے جاتے ہیں، ہر دو صورتوں میں بے فیض ہی رہتا ہے۔ سیاسی حکومتیں گوکہ خود بھی کمزور اور استعداد کی کمی کا شکار ہوتی ہیں، مگر محدود اختیارات اور کم وسائل کے باوجود ہمیشہ ان غلطیوں اور کوتاہیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کرتی رہی ہیں، جو آمریتوں کے دور میں سرزد ہوئی ہوتی ہیں۔
ایوب خان نے طاقت کے زعم میں یہ سمجھ لیا کہ حب الوطنی کا منبع صرف انھی کی ذات ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ تین دریا بھارت کے حوالے کردیے۔ ملک میں صوبائی، نسلی اور لسانی عصبیت کی سرپرستی کی۔ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ صنعتی ترقی ایوب خان کے دور میں ہوئی، جو قطعی غلط مفروضہ ہے۔ صنعتکاری کا عمل1952میں کولمبو پلان کے تحت شروع ہوا۔ جو ان کے دور میں بام عروج پر ضرور پہنچا اور پھر روبہ زوال بھی ہوا، کیونکہ1965کی جنگ نے نموپذیر معیشت کو نقصان پہنچایا۔
یحییٰ خان نے ملک ہی دولخت کردیا۔93 ہزار پاکستانی جنگی قیدی بن گئے۔ بھٹو مرحوم کی سیاسی حکومت نے کمزور پچ پر کھیلتے ہوئے شملہ معاہدہ کیا اور نہ صرف اپنے قیدی رہا کرائے بلکہ مغربی پاکستان کے زیر قبضہ علاقے بھی وا کرا لیے۔ ملک کو متفقہ آئین دیا، مگر انھیں ان خدمات کا صلہ یہ ملا کہ چند برسوں بعد تختہ دار پر لٹکا دیے گئے۔ جنرل ضیا جہاد کے نام پر فساد کا وہ بیج بو کر گئے، جس کی فصل آج تک پورا ملک کاٹ رہا ہے۔ 60 ہزار سے زائد بے گناہ لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
آج ملک میں اسلحہ اور منشیات کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ کسی بھی فرد کی زندگی محفوظ نہیں ہے۔ وہ ملک جو کبھی حنا کی خوشبو سے مہکتا تھا، آج چہار سو بارود کی بو بسی ہوئی ہے۔ وہ نوجوان جن کے لبوں پر کبھی نغمے مچا کرتے تھے، آج ان سے دشنام طرازیوں اور مغلظات کا لاوا بہہ رہا ہے۔ سیاچن کا مسئلہ انھی کے دور میں کھڑا ہوا۔ بعد میں آنے والی حکومتوں پر یہ پابندی کہ وہ خارجہ پالیسی میں مداخلت نہیں کریں گی۔
بجٹ عالمی مالیاتی اداروں اور ریاستی منصوبہ سازوں کی مرضی سے بنائیں گی۔ ایسے میں سماجی ترقی کے لیے مونگ پھلی کا دانہ بھی نہیں بچ پایا۔ پھر بھی الزم انھی پر آیا اور کسی کو مدت مکمل نہیں کرنے دی گئی۔ اس بھٹو کی بیٹی کو سیکیورٹی رسک قراردیا گیا، جس نے اسلامی سربراہ کانفرنس کے ذریعہ ملک کا وقار بلند کیا۔ ایک اور صاحب نے کارگل میں ایڈونچر کیا کہ پھر واپس آنا پڑا۔ جب سیاسی وزیراعظم نے امریکی صدر کلنٹن کے تعاون سے ملک کو اس دلدل سے نکالا، تو اسی وزیراعظم پر غداری کا ٹھپہ لگ گیا۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ جب غلامی Genesکا حصہ بن جائے، تو آزادی راس نہیں آتی۔ خواہش رہتی ہے کہ کوئی نہ کوئی سر پہ سوار رہے اور اس کی تابعداری کی جائے۔ دو سو برس برطانیہ کی غلامی کی۔ بھلا یہ نمک خواری Genes سے کیسے نکل جاتی۔ جیسے ہی نام نہاد آزادی ملی، امریکا کے نا چاہتے ہوئے اس کی گود میں جا بیٹھے۔ معاملہ صرف دو سو برس پر محیط تاریخ کا نہیں ہے۔ غلامانہ ذہنیت کا سلسلہ5ہزار برس پر محیط ہے۔ آریاؤں کی آمد سے آج تک ہمارے ہیرو حملہ آور ہی رہے ہیں۔ حنیف رامے مرحوم نے اپنی کتاب پنجاب کا مقدمہ میں لکھا کہ راجہ پورس اور راجہ رنجیت سنگھ کے بعد پنجاب کی ماؤں نے نر بچہ جننا چھوڑ دیا۔
ہم اپنے بچوں کے نام فخریہ سکندر یا سکندر بخت رکھتے ہیں، مگر پورس رکھتے ہوئے جان جاتی ہے۔ حالانکہ دونوں ہی غیر مسلم تھے۔ پھر ایک کے نام سے اتنی عقیدت اور دوسرے سے نفرت، اسی غلامانہ سوچ کا مظہر ہے۔ یہی کچھ حال سندھ کا ہے، جہاں کوئی بھیل یا کوہلی کتنا ہی قابل کیوں نہ ہوجائے کبھی وزارت اعلیٰ پر فائز نہیں ہوا یہ مسند سیدوں سمیت دیگر حملہ آور قبائل کے لیے مختص ہوچکی ہے۔
ہمارے حکمران سمجھتے ہیں کہ جس طرح اپنے عوام کو ٹافیاں دے بہلاتے ہیں،اسی طرح امریکی حکمرانوں کو بھی گولیاں دے کر بیوقوف بنا لیں گے۔ سرد جنگ کی بات اور تھی۔ امریکا بھی دانستہ بیوقوف بنتا رہا، مگر اب دنیا بدل چکی ہے۔ اسے نئے اور طاقتور حلیف میسر آگئے ہیں، جن میں اس کے مفادات کا تحفظ کرنے کا پوٹینشل ہے۔ ایسی صورت میں وہ کیونکر ان لوگوں کی طرف توجہ دے جو عالمی سیاست میں بے مصرف ہوچکے ہیں۔ جب امریکا نے آنکھیں پھیریں تو نئے آقاؤں کی تلاش شروع ہوئی۔
سابق امریکی سفیر رابرٹ اوکلے نے کئی برس پہلے نیویارک میں ہونے والی ایک تقریب میں کہا کہ ''سیاست میں دوستی نام کی کسی چیزکا وجود نہیں ہوتا، بلکہ مفادات ہوتے ہیں، جو ممالک کو ایک دوسرے کے قریب لاتے ہیں۔ ہم نے پاکستان سے جو کام لیا، اس کی بروقت اور مطلوبہ رقم سے بڑھ کر ادائیگی کی۔ مگر پاکستان نے ہم سے جو وعدے کیے، ان پرکبھی مکمل عمل نہیں کیا۔''
بزرگوں کا قول ہے کہ غلامی عزت نفس ختم کردیتی ہے۔ اس کی عملی شکل اپنے یہاں نظر آتی ہے۔ کیونکہ امریکا کی ناراضی کے بعد ہمارے منصوبہ ساز اور بہت سے دانشور ایک نئے نوآبادیاتی نظام کا حصہ بننے کے لیے بے چین و بے تاب ہیں۔ وہ غلامی چین کی ہے۔ بڑے بڑے پڑھے لکھے جغادری قسم کے دانشور اور تجزیہ نگار پاک چین دوستی کے نام پر جو قلابے ملا رہے ہیں، انھیں سن کر سن پچاس سے اسی تک کے عشرے کے وہ دانشور نما بیوروکریٹس یا بیوروکریٹس نما دانشور یاد آجاتے ہیں، جو امریکا کی قصیدہ خوانی کرتے نہیں تھکتے تھے۔
اس زمانے میں بائیں بازو کے ان دانشوروں کو ملک دشمن اور قوم کا غدار قرار دیا جاتا تھا، جو امریکا کے استعماری کردار پر تنقید کرتے ہوئے اس کی کاسہ لیسی سے گریز کا مشورہ دیا کرتے تھے۔ آج ان قلمکاروں کو ملک دشمن کہا جا رہا ہے، جو چین کے ساتھ معاہدوں میں احتیاط کا مشورہ دے رہے ہیں۔ سولہویں صدی میں جہانگیر نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو تجارت کی اجازت دے کر اس کی برصغیر میں حکمرانی کا دروازہ کھولا تھا۔ آج کے جہانگیر(ریاستی منصوبہ ساز) ایک نئی ایسٹ انڈیا کمپنی کے لیے راستہ کھول رہے ہیں۔ خدا خیر کرے۔
اب اس عمر میں یہ سننا پڑرہا ہے کہ جو چین کے ساتھ بڑھتی پینگوں کا مخالف ہے، وہ وطن دشمن ہے۔خیر کوئی بات نہیں، دیگر الزامات کی طرح یہ الزام بھی سہہ لیں گے، مگر یہ یقین ہے کہ 25سے30برس بعدجب ہم نہ ہوں گے، طوق غلامی گلے میں ڈالنے کی خواہش مند اشرافیہ اس وقت چین پر تنقید کرتے ہوئے کسی نئے آقا کی غلامی میں جانے کی تیاریوں میں مصروف ہوگی اور یہ جملے دہرائے جارہے ہوںگے کہ'' ہماری دوستی شہد سے زیادہ میٹھی، سمندروں سے زیادہ گہری اور آسمانوں سے بلند ہے'' تو عالم برزخ میںہماری روح ایک بار پھر تڑپ اٹھے گی۔
کاش کہ ہم جوکی روٹی نمک یا پیازکے ٹکڑے سے کھاکر پیٹ بھرلیتے ، مگر یکسو ہوکر قومی ترقی کے لیے جدوجہد کرتے، تو شاید آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتے۔تاریخ کے صفحات پر کم ازکم ایک نظر ڈال لیتے کہ جن سے آج امداد کے تمنائی ہیں،کل وہ ہم سے بھی بدتر حالت میں تھے، مگر اپنے سیاسی عزم اور بصیرت سے وہ اس مقام تک پہنچے ہیں کہ ہم جیسوں کی مدد کرسکیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اپنے Genesمیں رچی بسی غلامی کو اپنے سماجی شعورکی تلوار سے کاٹ کر ایک باوقار و باحوصلہ قوم بننے کا سفر شروع کریں اور اغیارکی امداد اور قرضوں پر انحصار کرنے کے بجائے خود قرضہ اور امداد دینے والے بن سکیں۔