ظفر جمال بلوچ مرحوم کے نام
ظفرجمال بلوچ کے ساتھ ذاتی طورپرمیری کوئی قربت نہیں تھی
یہ گزشتہ جون کاکوئی آخری دن تھا۔ معلوم ہواکہ اسلامی جمعیت طلبہ کے سابق ناظم اعلیٰ ظفرجمال بلوچ طویل علالت کے بعد شیخ زاید اسپتال میں انتقال فرماگئے ہیں۔ یہ خبرسنتے ہی ایک لمحے کے لیے یوں محسوس ہواکہ جیسے دل کے اندرہی اندرکوئی چیزایک چھماکے کے ساتھ ٹوٹ کے گری ہے۔
گزشتہ روزسہ پہرکومنصورہ ان کے جنازہ میں شرکت کے لیے پہنچاتوپتا چلاکہ مجھے تاخیر سے اطلاع ملی ہے۔ ان کاجسدخاکی ایک روز پہلے ہی جھنگ لے جایا جاچکا تھا، جہاں ان کوسپردخاک بھی کردیا گیا تھا۔ میں نے برادرمکرم سلیم منصورخالدکوفون کیااوران کے ساتھ ہی تعزیت کرکے دل کا بوجھ ہلکا کیااورواپس آگیا۔
ظفرجمال بلوچ کے ساتھ ذاتی طورپرمیری کوئی قربت نہیں تھی، مگران کے نام اورکام کے ساتھ اسکول کے زمانے سے ہی اس طرح کی شناسائی پیداہو گئی کہ ان سے دور رہ کربھی ہمیشہ ان سے ایک گوناقربت کااحساس رہا۔ شروع سردیوں کی وہ شام مجھے آج بھی یاد ہے۔ گجرات گھرکے دروازے پرکسی نے دستک دی۔ باہر نکلاتواسلامی جمعیت طلبہ کے سرگرم کارکن سیدحسنات احمداپنی دل آویز مسکراہٹ لیے کھڑے تھے۔ ان کے عقب میں مشتاق فاروقی صاحب نے اسکول کی دیوارکے ساتھ ٹیک لگا رکھی تھی اورعینک اتارکراس کے شیشے صاف کررہے تھے۔ حسنات میرے ہم عمرطالب علم تھے اوربعدمیںان سے بڑی گہری دوستی بھی ہوگئی۔
مشتاق فاروقی صاحب مگرہم دونوں سے کافی سینئرتھے اوران دنوں نشترمیڈیکل کالج ملتان میں ایم بی بی ایس کے طالب علم تھے۔ خیر، ادھر ادھر کی باتوں کے انھوںنے دوپمفلٹ مجھے پڑھنے کے لیے دیے 'سلامتی کاراستہ' جومولانا مودوی کالکھا ہوا تھا اور 'خالدکے نام'جس پرظفرجمال بلوچ کانام بطورمصنف درج تھا۔ یہ خطوط انھوں نے جیل سے اپنے کسی بچپن کے دوست خالدکے نام لکھے تھے۔ ان دنوں زنداں نامے پڑھنے کا ویسے ہی بڑاکریزتھا۔ میں نے بھی یہ خطوط بڑی دلچسپی سے پڑھے۔
سرورق پران کی تصویرنہیں تھی۔مگران کے نام اور بھٹودورکی طلبہ تحریکوں میں ان کے کردارکے پس منظرمیں ان کاجوسراپاذہن میں ابھرتا تھا، وہ کسی بھاری بھرکم بلوچ نوجوان سردارکاتھا۔ پہلی بارجب میں نے ان کوجمعیت کے ایک جلسے میں دیکھاتوسخت مایوسی ہوئی کیونکہ ان کااصل سراپااس کے بالکل برعکس تھے، درمیانہ سا قد، منحنی سا بدن، معمولی نقش ونگاراورعام سادہ سا لباس۔ تاہم بعدمیں جب ان کی تقریرسنی اوران کے ساتھ کچھ گفتگو کا موقع ملاتومحسوس ہوا کہ اس نحیف ونزاربدن میں واقعی ایک شعلہ جوالہ بھڑک رہاہے۔
ظفرجمال بلوچ نے1949ء میں ضلع جھنگ کے گاوںچک 175میں آنکھ کھولی۔ان کے والدبائیں بازوکے خیالات رکھنے والے آدمی تھے۔ابتدائی تعلیم غازی آباداورجھنگ صدرسے پائی۔اسلامیہ ہائی اسکول جھنگ سے میٹرک اورگورنمنٹ کالج جھنگ سے گریجویشن کی۔ بعد ازاں کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات اور ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ 1966 میں جمعیت کے رکن بنے۔ مغربی پاکستان یونٹ کے جنرل سیکریٹری اور بعدمیںصوبہ پنجاب کے ناظم رہے۔
16ستمبر1972ء کو تسنیم عالم منظرکی شہادت کے بعدان کی جگہ ناظم اعلی منتخب ہوئے اورپھرمسلسل تین برس تک اس منصب پرفائزرہے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعدجماعت اسلامی سے وابستہ ہوگئے۔1977ء میں پاکستان قومی اتحاد کے ٹکٹ پرجھنگ سے الیکشن لڑا۔فیصل آباد اورلاہورجماعت کے سیکریٹری جنرل اورکوئٹہ جماعت کے امیرکے علاوہ1981ء میں کچھ عرصہ کے لیے مرکزی اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل بھی رہ چکے ہیں۔ 1989ء سے 1995ء تک امریکا میں رہے، جہاں اسلامک سرکل آف نارتھ امریکا کی مجلس شوری کے رکن مقررکیے گئے۔
زندگی کاآخری دوراپنے آبائی ضلع جھنگ میں گزارا، جہاں مقامی امارت بھی کی اوروکالت بھی کی اورغالباًاپناکوئی اسکول وغیرہ بھی چلارہے تھے۔ ظفرجمال بلوچ کی زندگی کااہم ترین دورمگروہی ہے، جب بطور اسٹوڈنٹ لیڈرانھوںنے بھٹودورمیں دواہم تحریکوں 'بنگلہ دیش نامنظور' اور'ختم نبوت' میں طلبہ کی قیادت کی اوراس دوران میں قیدوبندکی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ ظفر جمال بلوچ کس مزاج کے اسٹوڈنٹ لیڈراور انسان تھے، اس کااندازہ اس دورمیںبھٹو صاحب کے ساتھ ہونے والی ان کی ملاقات کی روداد سن کر بھی ہوتاہے۔
کہتے ہیں کہ بھٹوصاحب نے مصطفیٰ کھرگورنرپنجاب کے ذریعے جمعیت کے جن تین عہدیداروںکوملاقات کی دعوت دی تھی،ان میں پنجاب یونیورسٹی یونین کے صدر جاویدہاشمی، انجینئرنگ یونیورسٹی یونین کے صدراحمدبلال محبوب کے علاوہ ظفرجمال بلوچ بھی شامل تھے، جو پنجاب یونٹ کے ناظم تھا۔ ان دنوں جمعیت دفترمیں ابھی ٹیلی فون بھی نہیں لگاتھا، لہٰذاگورنرکے سیکریٹری نے قریبی تارگھرفون کرکے ظفرجمال بلوچ کو بلایا اورکہا کہ بھٹوصاحب نے آپ تینوں کوملاقات کے لیے مری بلایاہے اوریہ حکم بھی دیاہے کہ میں اس کے لیے ہوائی جہازکے ٹکٹ بھی آپ کو پہنچا دوں۔
ظفرجمال بلوچ نے کہاکہ آپ نے جن تین طلبہ کے نام لیے ہیں، ان میں ہمارے ناظم اعلی تسنیم عالم منظرکانام نہیں ہے۔ ان کے بغیرہمارے آنے کاکوئی سوال نہیں ہے، ہم ان کے ساتھ ہی آئیں گے اورآپ کے ٹکٹ پرنہیں، بلکہ اپنے خرچہ پرآئیں گے۔چنانچہ گزشتہ روز اپنے ناظم اعلیٰ کی قیادت میں ہی ظفرجمال، جاویدہاشمی اوراحمد بلال محبوب مری پہنچے، بھٹوصاحب شملہ مذاکرات پرجانے سے پہلے ہرشعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افرادسے ملاقاتیں کررہے تھے۔ یہ اطلاع ملنے پرکہ جمیعت کا وفد پہنچ گیا ہے، اندرسے بھٹوصاحب کا سیکریٹری برآمد ہوا اور کہا کہ بھٹو صاحب آپ کواندربلارہے ہیں۔
ظفرجمال بلوچ نے پوچھاکہ کیا بھٹوصاحب اکیلے ہی بیٹھے ہیںیاان کے پاس کچھ اورلوگ بھی ہیں۔ سیکریٹری نے کہا، پی ایس ایف کے کچھ لڑکے بیٹھے ہیںاور وہ بھی آپ سے ملیں گے۔ ظفرجمال بلوچ نے کہا، جب تک وہ پی ایس ایف کے لڑکوں کو باہرنہیں نکالیں گے، ہم ملاقات کے لیے اندرنہیں جائیں گے۔ کیونکہ ان کی موجودگی میں ملنا ان لاکھوں طلبہ کی توہین ہوگی، جنھوں نے ان کومستردکرکے ہم پر اعتماد کیا ہے۔ سیکریٹری نے کہا، بھائی میں یہ کہنے کی جرات نہیں کر سکتا۔ پھرسیکریٹری کے مشورہ پر ہی جاویدہاشمی نے اندرجاکر بھٹو صاحب سے یہ بات کہی۔ تھوڑی دیرمیں پی ایس ایف کے کارکن منہ لٹکائے باہرآرہے تھے۔
بھٹوصاحب نے پیغام بھیجا کہ میںنے ان کوفارغ کردیاہے، اب آپ لوگ اندرآجائیں۔اندرکی ملاقات کی کہانی ظفرجمال بلوچ اس طرح سناتے تھے، بھٹو صاحب نے کہا، دیکھومیں طلبہ ہی کی وجہ سے اقتدارمیںآیا ہوں، مگردکھ اس بات کاہے کہ جب میرے پاس تمھیں دینے کے لیے کچھ نہیں تھا، اس وقت تم نے مجھ سے تعاون کیااوراب جب میں تمھیں کچھ دے سکتا ہوں توتم میری مخالفت کررہے ہیں۔ اورپھرتم لوگ مجھ سے کس لیے ناراض ہو؛کیاسردارشوکت حیات کے لیے، جس کومیں نے سینما کا پرمٹ دے دیاہے اوراب اس کو مجھ سے بڑھ کر اسلام جمہوریت اورملک کاکوئی خیرخواہ نظر نہیں آتا۔ یا ممتاز دولتانہ کے لیے، جس کومیں نے سفیر مقرر کیا ہے، اور اس کواب مجھ میں ہرطرح کی خوبیاں نظر آنے لگی ہیں یا خان قیوم خان کے لیے جس کو میں نے وزیرداخلہ بنادیاہے اوراب وہ دن رات میری تعریفیں کرتا رہتا ہے۔
کیا تم ان کرپٹ لوگوں کے لیے مجھ سے لڑتے ہو۔ غالباًتسنیم عالم منظرنے کہاکہ جناب، ہمارے لیڈرمولانامودودی ہیں،اگرانھوں نے بھی آپ سے کچھ مانگاہے توبتادیں۔اس پربھٹو صاحب خاموش ہوگئے اورکہا، میں ان کی بات نہیں کررہاتھا۔بھٹو صاحب کی عادت تھی کہ جو بھی ان سے ملنے کے لیے جاتا، وہ اس کی سنتے کم اوراپنی سناتے زیادہ تھے۔ ہم نے یہ حکمت عملی اختیارکی کہ جہاں وہ سانس لینے کے لیے رکتے، ہم باری باری بولناشروع کردیتے۔ میں نے اپنی باری پرکہا، بھٹوصاحب، یہ جوآپ نے جلسوں میں ہاتھ کھڑے کرواکرعوامی فیصلے سنانے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے، مہربانی فرماکراس کوختم کردیں،کل کویہ آپ ہی کے لیے نقصان دہ ہوگا۔
انھوں نے سوال کیا، کیسے۔ میں نے کہا، ابھی پچھلے دنوں پنجاب یونیورسٹی میں الیکشن ہوئے، افتخارتاری اور مصطفے کھرکی مداخلت کی کوشش پر طالب علم مشتعل ہوگئے۔جلوس نکلااورنعرے لگاتا ہوا پنجاب اسمبلی کے باہرپہنچ گیا، جہاںانھوں نے ہاتھ کھڑے کیے اورنعرے لگائے کہ تاری اورکھرکوپھانسی دو۔ وہ لوگ جو آج ہاتھ کھڑے کرکے تاری اورکھرکی پھانسی کامطالبہ کر رہے ہیں، کل وہ ہاتھ کھڑے کرکے اس سے آگے کابھی کوئی مطالبہ کرسکتے ہیں۔
جیسے ہی میں نے بات مکمل کی، بھٹو صاحب نے کہا، نہیں اب میں ہاتھ کھڑے نہیں کراؤں گا، میں ہاتھ کھڑے نہیں کراؤں گا، میں اسمبلی میںبات کروں گا۔ ملاقات کے بعدجب ہم اٹھنے لگے توبھٹوصاحب نے ایک ہاتھ اپنی پتلون کی جیب میں رکھااوردوسرا ہاتھ مصافحے کے لیے آگے بڑھایا۔ جواباًہم میں سے بھی جس جس نے پتلون پہن رکھی تھی،اس نے بھی شعوری طور پرایک ہاتھ پتلون کی جیب میں رکھااوردوسرامصافحے کے لیے آگے بڑھایا۔ میں نے شلوارقمیص پہن رکھی تھی۔ میں نے ایک ہاتھ کمر پر رکھ لیا اور دوسرا بڑھا دیا۔ ہم باہرآئے توان کاملٹری سیکریٹری جودروازے پرکھڑایہ منظردیکھ رہاتھا، کہنے لگا، آپ کو معلوم نہیں آپ ملک کے صدر سے مل رہے ہیں۔
میں نے کہاکہ انھیں معلوم نہیں تھاکہ وہ ملک کی منتخب طلبہ قیادت سے مل رہے ہیں۔ظفرجمال بلوچ کے ساتھ مسئلہ مگریہی ہواکہ بعد کو زندگی بھر کے لیے وہ اپنے اس طالب علمی کے دور کے اسیر ہو کر رہ گئے، جس کی وجہ سے جہاں عملی زندگی میں ان کے لیے کئی مسائل پیداہوئے، وہاں جماعت بھی ان کی صلاحیت کار سے خاطرخواہ فائدہ نہ اٹھاسکی۔ وہ جہاں بھی رہے اورجہاں بھی گئے، بے چین، بے کل اورمضطرب ہی رہے ؛ بہرحال اب وہ اپنے رب کے حضورپہنچ گئے ہیں، جہاں قرارہی قرارہے۔