غنڈہ راج
نریندر مودی کے بھارت کے وزیراعظم بننے کے بعد ہندوغنڈوں کی دہشتگردانہ سرگرمیوں میں پہلے سے کئی گنا زیادہ اضافہ ہوگیا ہے
LONDON:
برصغیر کو انگریزوں کے چنگل سے چھڑانے کے لیے ویسے تو کئی والیان ریاستوں نے انگریزوں کا بہادری سے مقابلہ کیا تھا جن میں نواب سراج الدولہ سے لے کر جھانسی کی رانی لکشمی بائی کے نام قابل ذکر ہیں مگر جس بہادری اور بے جگری سے ٹیپو سلطان نے انگریزوں کا راستہ روکا اور انھیں کئی معرکوں میں عبرت ناک شکستیں دیں وہ تاریخ کا روشن باب ہیں۔ انگریز جب ٹیپو سے جنگوں میں نہ جیت سکے تو ریاست کے اعلیٰ عہدے داروں کو لالچ دے کر اپنے ساتھ ملالیا اور ان کے ذریعے ریاست کو کمزور کرکے اپنے مقاصد میں کامیاب ہوگئے۔
ٹیپو انگریزوں کے ساتھ لڑتے ہوئے ہی شہید ہوئے وہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے، ان کی ریاست میں ہندوؤں کو مسلمانوں کے برابر حقوق حاصل تھے۔ ان کی ہندو رعایا ان سے اتنی خوش تھی کہ وہ ریاست کی بقا اور سلامتی کے لیے انگریزوں سے ہر لڑائی میں پیش پیش رہی۔ ٹیپو سلطان کی اپنی رعایا سے محبت دلجوئی اور ان کی خوشحالی کے لیے کیے گئے اقدامات نے انھیں شہادت کے بعد بھی زندہ رکھا۔ مسلمان ہی نہیں ہندو بھی ہر سال ان کی پیدائش کے دن ان کی یاد کو تازہ کرنے کے لیے شاندار تقریبات کا انعقاد کرتے چلے آرہے ہیں۔ ہندو اور مسلمانوں کے مطالبے پر اب یہ دن ہر سال سرکاری سطح پر منایا جاتا ہے۔ اس دن پوری ریاست کرناٹک میں رنگا رنگ تقریبات منعقدکی جاتی ہیں۔
نریندر مودی کے بھارت کے وزیراعظم بننے کے بعد ہندو غنڈوں کی دہشتگردانہ سرگرمیوں میں پہلے سے کئی گنا زیادہ اضافہ ہوگیا ہے۔ وہ مسلمانوں کا قتل عام تو کر ہی رہے تھے اب انھوں نے مسلمان مشاہیرکے سلسلے میں تقریبات کو منعقد کرنا بھی مشکل بنادیا ہے۔ کرناٹک ریاست میں سرکاری سطح پر ہر سال منائی جانے والی ٹیپو سلطان کی پیدائش کے دن کی تقریبات کو بھی ہندو غنڈوں نے مشکل میں ڈال دیا ہے۔ گزشتہ سال منعقد ہونے والی تقریبات کو ان غنڈوں نے درہم برہم کرنے کی کوشش کی تھی۔ چار مسلمانوں کو شہیدکردیاگیا تھا۔ بعد میں سرکاری سطح پر منائی جانے والی ان تقریبات کو عدالت میں چیلنج کردیا تھا۔
حال ہی میں کرناٹک ہائی کورٹ نے ہندو غنڈوں کے خلاف فیصلہ دے کر ان تقریبات کو سرکاری سطح پر جاری رکھنے کی اجازت دے دی ہے۔ اس فیصلے کے آنے کے بعد بی جے پی اور آر ایس ایس کے غنڈوں نے ایک پریس کانفرنس منعقد کرکے ہندوؤں اور مسلمانوں کے ہر دلعزیز حکمران ٹیپو سلطان کو ہندوؤں کا قاتل قرار دیا ہے اور انھوں نے دھمکی دی ہے کہ ریاستی سرپرستی میں منعقد ہونے والی تقریبات کو بزور طاقت روک دیا جائے گا۔ اس وقت کرناٹک میں کانگریسی حکومت برسر اقتدار ہے کانگریس کی ہمیشہ پالیسی مسلمانوں کو رجھانے کی رہی ہے یہ اور بات ہے کہ اس پارٹی میں بعض بی جے پی ذہنیت والے لوگ بھی موجود ہیں تاہم پھر بھی کانگریس میں اکثریت معتدل لوگوں کی ہے جو سیکولر ازم پر یقین رکھتے ہیں۔
ٹیپو سلطان کی پیدائش کی تقریبات پورے کرناٹک میں 10 نومبر کو منائی جارہی ہیں انھیں سبوتاژ کرنے کی دھمکیوں کے جواب میں حکومت نے ہندو غنڈوں سے نمٹنے کے لیے سخت سیکیورٹی انتظامات کرلیے ہیں۔ ریاست کے چیف سیکریٹری نے کہاہے کہ گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی بی جے پی اور آر ایس ایس کے غنڈوں کو تقریبات میں مداخلت کی اجازت نہیں دی جائے گی، کرناٹک کے وزیراعلیٰ سدھا رمیا نے ایک بیان میں کہاہے کہ وہ غنڈوں کی دھمکیوں سے مرعوب نہیں ہوںگے اور ٹیپو سلطان جینتی کو شایان شان طور پر منایا جائے گا۔ انھوں نے ٹیپو سلطان کو ایک عظیم حکمران اور ہندو مسلمانوں کا محبوب رہنما قرار دیا ہے۔ انھوں نے ریاست کی تمام اقوام سے اس دن کو نہایت تزک واحتشام سے منانے کی اپیل کی ہے۔
دوسری جانب بی جے پی اور آر ایس ایس کے غنڈوں نے آج 10 نومبر کو پوری ریاست میں ہنگامے کرانے کا پلان تشکیل دے دیا ہے۔ ہندو انتہا پسند ٹیپو سلطان کو دوسرا اورنگزیب قرار دیتے ہیں حالانکہ اورنگزیب خود ایک غیر متعصب بادشاہ تھا اس کے دور میں ہندوؤں کو اپنے مذہبی عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کی مکمل آزادی تھی۔ اس کے دور میں کئی نئے مندر سرکاری خرچ پر تعمیر کیے گئے تھے۔ عام ہندو رعایا خوشحال اور مطمئن تھی۔ اورنگزیب کی لڑائی ملک کے غداروں اور سرکشوں سے تھی اس وقت سب سے زیادہ سرکش مہاراشٹر کا راجا شیواجی تھا جو چھپ کر وار کرنے میں ماہر تھا۔ وہ اورنگزیب کی حکومت کے خلاف سرگرم تھا مگر ہر لڑائی میں اورنگزیب کے ہاتھوں شکست کھاتا رہا۔
شیواجی کا اورنگزیب سے ضرور تنازعہ تھا مگر وہ مسلمانوں کا دشمن نہیں تھا اگر وہ مسلمانوں کا دشمن ہوتا تو اس کی فوج کا ایک جنرل مسلمان ابراہیم خان نہ ہوتا ان کی نیوی میں بھی کئی مسلمان اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے، در اصل شیواجی اور اورنگزیب میں صرف اقتدار کی جنگ تھی جو برسوں چلتی رہی، بھارت میں قائم شیوسینا اسی شیوا جی کے نام پر قائم کی گئی ہے مگر اس کے خالق بال ٹھاکرے نے اس تنظیم کو اپنی مسلم دشمنی کی بنا پر مسلم دشمن بنادیا ہے۔ اس وقت بھارت کی تمام ہندو انتہا پسند پارٹیاں مسلم دشمنی کی بنیاد پر چل رہی ہیں جنھیں مسلم دشمن بنانے والے در اصل انگریز تھے جنھوں نے ہندوستان پر تقسیم کرو اور راج کرو کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف کرنے کے لیے ڈاکٹر بال کرشن شیو رام منیحے، ڈاکٹر کیشوبلی رام ہیدگور، ڈاکٹر گول ولکر اور ویر ساواکر جیسے انتہا پسندو ہندو لیڈروں کا سہارا لیا تھا۔
ہندوستان کے گورنر جنرل لارڈ کرزن نے حکمت کے تحت ہندوؤں کو غیرت دلاتے ہوئے انھیں مسلمانوں کا سدا غلام رہنے کا طعنہ دیا تھا، کرزن کے اس بیان نے ہندوؤں میں مسلمانوں کے خلاف پہلی دفعہ نفرت کی لہر دوڑائی تھی ۔ان کے بعد کرزن نے ہندو رہنماؤں کو مسلمانوں کے خلاف مہم چلانے کے لیے راضی کرلیا تھا پھر انگریزوں کی مدد سے مسلمانوں کے مذہبی عقائد کے خلاف مہم چلائی گئی۔ نازیبا کتابیں لکھوائی گئیں مگر ان کے لکھنے والوں کو مسلمانوں نے موت کے گھاٹ اتاردیا۔
دونوں قوموں کے درمیان نفرت بڑھانے میں پھر انگریز نواز ہندو مہاسبھا اور آر ایس ایس پیش پیش رہیں مگر پھر بھی ان کی نفرت انگیز مہم کا عام ہندوؤں نے کم ہی اثر لیا وہ 1857ء کی جنگ کی طرح خلافت تحریک میں بھی مسلمانوں کے شانہ بشانہ ہندوستان کو انگریزوں سے پاک کرنے کے لیے قدم بڑھاتے رہے۔ آج مہاسبھا اور آر ایس ایس تنظیمیں پاکستان کی سب سے بڑی دشمن بنی ہوئی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ان کی ہی مسلم کش پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان وجود میں لایاگیا انھوں نے آزادی کے پہلے سے ہی ہندوستان میں جگہ جگہ مسلم کش فسادات کروانا شروع کر دیے تھے، صوبہ بہار کے مسلمان ان کی دہشتگردی سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے تھے۔1946ء کے فسادات سب سے زیادہ بھیانک تھے جن میں ہزاروں مسلمانوں کو شہید کردیاگیا تھا، ملتان میں عاشورے کے دن مسلمانوں کا قتل عام کرایاگیا۔
ایک اور شہر گڑھ مکتیشر میں مسلمانوں کا قتل عام کرکے ان کی جائیدادوں کو نذر آتش کردیاگیا تھا اس کے علاوہ کئی علاقوں میں مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنانے کی مہم شروع کی گئی جس سے مسلمانوں میں ان کے خلاف سخت غم و غصہ پیدا ہوا، کانگریس پارٹی اگرچہ اوپر سے مسلمانوں کے حق میں تھی مگر اندرونی طور پر اس کے کئی لیڈر مہاسبھا سے ملے ہوئے تھے مشہور کانگریسی لیڈر ولبھ بھائی پٹیل جو آزادی کے بعد بھارت کے وزیر داخلہ بنے تھے مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن تھے وہ در پردہ مہاسبھا کے ممبر تھے۔
مولانا ابوالکلام آزاد کے مطابق گاندھی کو قتل کرانے میں اس کا اہم کردار تھا۔ اب آزادی کے بعد بھی یہ پارٹیاں مسلمانوں کی سب سے بڑی دشمن ہیں۔ لیکن ان کی نفرت کی پالیسی سے پہلے ہی ہندوستان تین ملکوں میں تقسیم ہوچکا ہے اور اب کئی ٹکڑوں میں بٹتا نظر آرہا ہے۔
برصغیر کو انگریزوں کے چنگل سے چھڑانے کے لیے ویسے تو کئی والیان ریاستوں نے انگریزوں کا بہادری سے مقابلہ کیا تھا جن میں نواب سراج الدولہ سے لے کر جھانسی کی رانی لکشمی بائی کے نام قابل ذکر ہیں مگر جس بہادری اور بے جگری سے ٹیپو سلطان نے انگریزوں کا راستہ روکا اور انھیں کئی معرکوں میں عبرت ناک شکستیں دیں وہ تاریخ کا روشن باب ہیں۔ انگریز جب ٹیپو سے جنگوں میں نہ جیت سکے تو ریاست کے اعلیٰ عہدے داروں کو لالچ دے کر اپنے ساتھ ملالیا اور ان کے ذریعے ریاست کو کمزور کرکے اپنے مقاصد میں کامیاب ہوگئے۔
ٹیپو انگریزوں کے ساتھ لڑتے ہوئے ہی شہید ہوئے وہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے، ان کی ریاست میں ہندوؤں کو مسلمانوں کے برابر حقوق حاصل تھے۔ ان کی ہندو رعایا ان سے اتنی خوش تھی کہ وہ ریاست کی بقا اور سلامتی کے لیے انگریزوں سے ہر لڑائی میں پیش پیش رہی۔ ٹیپو سلطان کی اپنی رعایا سے محبت دلجوئی اور ان کی خوشحالی کے لیے کیے گئے اقدامات نے انھیں شہادت کے بعد بھی زندہ رکھا۔ مسلمان ہی نہیں ہندو بھی ہر سال ان کی پیدائش کے دن ان کی یاد کو تازہ کرنے کے لیے شاندار تقریبات کا انعقاد کرتے چلے آرہے ہیں۔ ہندو اور مسلمانوں کے مطالبے پر اب یہ دن ہر سال سرکاری سطح پر منایا جاتا ہے۔ اس دن پوری ریاست کرناٹک میں رنگا رنگ تقریبات منعقدکی جاتی ہیں۔
نریندر مودی کے بھارت کے وزیراعظم بننے کے بعد ہندو غنڈوں کی دہشتگردانہ سرگرمیوں میں پہلے سے کئی گنا زیادہ اضافہ ہوگیا ہے۔ وہ مسلمانوں کا قتل عام تو کر ہی رہے تھے اب انھوں نے مسلمان مشاہیرکے سلسلے میں تقریبات کو منعقد کرنا بھی مشکل بنادیا ہے۔ کرناٹک ریاست میں سرکاری سطح پر ہر سال منائی جانے والی ٹیپو سلطان کی پیدائش کے دن کی تقریبات کو بھی ہندو غنڈوں نے مشکل میں ڈال دیا ہے۔ گزشتہ سال منعقد ہونے والی تقریبات کو ان غنڈوں نے درہم برہم کرنے کی کوشش کی تھی۔ چار مسلمانوں کو شہیدکردیاگیا تھا۔ بعد میں سرکاری سطح پر منائی جانے والی ان تقریبات کو عدالت میں چیلنج کردیا تھا۔
حال ہی میں کرناٹک ہائی کورٹ نے ہندو غنڈوں کے خلاف فیصلہ دے کر ان تقریبات کو سرکاری سطح پر جاری رکھنے کی اجازت دے دی ہے۔ اس فیصلے کے آنے کے بعد بی جے پی اور آر ایس ایس کے غنڈوں نے ایک پریس کانفرنس منعقد کرکے ہندوؤں اور مسلمانوں کے ہر دلعزیز حکمران ٹیپو سلطان کو ہندوؤں کا قاتل قرار دیا ہے اور انھوں نے دھمکی دی ہے کہ ریاستی سرپرستی میں منعقد ہونے والی تقریبات کو بزور طاقت روک دیا جائے گا۔ اس وقت کرناٹک میں کانگریسی حکومت برسر اقتدار ہے کانگریس کی ہمیشہ پالیسی مسلمانوں کو رجھانے کی رہی ہے یہ اور بات ہے کہ اس پارٹی میں بعض بی جے پی ذہنیت والے لوگ بھی موجود ہیں تاہم پھر بھی کانگریس میں اکثریت معتدل لوگوں کی ہے جو سیکولر ازم پر یقین رکھتے ہیں۔
ٹیپو سلطان کی پیدائش کی تقریبات پورے کرناٹک میں 10 نومبر کو منائی جارہی ہیں انھیں سبوتاژ کرنے کی دھمکیوں کے جواب میں حکومت نے ہندو غنڈوں سے نمٹنے کے لیے سخت سیکیورٹی انتظامات کرلیے ہیں۔ ریاست کے چیف سیکریٹری نے کہاہے کہ گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی بی جے پی اور آر ایس ایس کے غنڈوں کو تقریبات میں مداخلت کی اجازت نہیں دی جائے گی، کرناٹک کے وزیراعلیٰ سدھا رمیا نے ایک بیان میں کہاہے کہ وہ غنڈوں کی دھمکیوں سے مرعوب نہیں ہوںگے اور ٹیپو سلطان جینتی کو شایان شان طور پر منایا جائے گا۔ انھوں نے ٹیپو سلطان کو ایک عظیم حکمران اور ہندو مسلمانوں کا محبوب رہنما قرار دیا ہے۔ انھوں نے ریاست کی تمام اقوام سے اس دن کو نہایت تزک واحتشام سے منانے کی اپیل کی ہے۔
دوسری جانب بی جے پی اور آر ایس ایس کے غنڈوں نے آج 10 نومبر کو پوری ریاست میں ہنگامے کرانے کا پلان تشکیل دے دیا ہے۔ ہندو انتہا پسند ٹیپو سلطان کو دوسرا اورنگزیب قرار دیتے ہیں حالانکہ اورنگزیب خود ایک غیر متعصب بادشاہ تھا اس کے دور میں ہندوؤں کو اپنے مذہبی عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کی مکمل آزادی تھی۔ اس کے دور میں کئی نئے مندر سرکاری خرچ پر تعمیر کیے گئے تھے۔ عام ہندو رعایا خوشحال اور مطمئن تھی۔ اورنگزیب کی لڑائی ملک کے غداروں اور سرکشوں سے تھی اس وقت سب سے زیادہ سرکش مہاراشٹر کا راجا شیواجی تھا جو چھپ کر وار کرنے میں ماہر تھا۔ وہ اورنگزیب کی حکومت کے خلاف سرگرم تھا مگر ہر لڑائی میں اورنگزیب کے ہاتھوں شکست کھاتا رہا۔
شیواجی کا اورنگزیب سے ضرور تنازعہ تھا مگر وہ مسلمانوں کا دشمن نہیں تھا اگر وہ مسلمانوں کا دشمن ہوتا تو اس کی فوج کا ایک جنرل مسلمان ابراہیم خان نہ ہوتا ان کی نیوی میں بھی کئی مسلمان اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے، در اصل شیواجی اور اورنگزیب میں صرف اقتدار کی جنگ تھی جو برسوں چلتی رہی، بھارت میں قائم شیوسینا اسی شیوا جی کے نام پر قائم کی گئی ہے مگر اس کے خالق بال ٹھاکرے نے اس تنظیم کو اپنی مسلم دشمنی کی بنا پر مسلم دشمن بنادیا ہے۔ اس وقت بھارت کی تمام ہندو انتہا پسند پارٹیاں مسلم دشمنی کی بنیاد پر چل رہی ہیں جنھیں مسلم دشمن بنانے والے در اصل انگریز تھے جنھوں نے ہندوستان پر تقسیم کرو اور راج کرو کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف کرنے کے لیے ڈاکٹر بال کرشن شیو رام منیحے، ڈاکٹر کیشوبلی رام ہیدگور، ڈاکٹر گول ولکر اور ویر ساواکر جیسے انتہا پسندو ہندو لیڈروں کا سہارا لیا تھا۔
ہندوستان کے گورنر جنرل لارڈ کرزن نے حکمت کے تحت ہندوؤں کو غیرت دلاتے ہوئے انھیں مسلمانوں کا سدا غلام رہنے کا طعنہ دیا تھا، کرزن کے اس بیان نے ہندوؤں میں مسلمانوں کے خلاف پہلی دفعہ نفرت کی لہر دوڑائی تھی ۔ان کے بعد کرزن نے ہندو رہنماؤں کو مسلمانوں کے خلاف مہم چلانے کے لیے راضی کرلیا تھا پھر انگریزوں کی مدد سے مسلمانوں کے مذہبی عقائد کے خلاف مہم چلائی گئی۔ نازیبا کتابیں لکھوائی گئیں مگر ان کے لکھنے والوں کو مسلمانوں نے موت کے گھاٹ اتاردیا۔
دونوں قوموں کے درمیان نفرت بڑھانے میں پھر انگریز نواز ہندو مہاسبھا اور آر ایس ایس پیش پیش رہیں مگر پھر بھی ان کی نفرت انگیز مہم کا عام ہندوؤں نے کم ہی اثر لیا وہ 1857ء کی جنگ کی طرح خلافت تحریک میں بھی مسلمانوں کے شانہ بشانہ ہندوستان کو انگریزوں سے پاک کرنے کے لیے قدم بڑھاتے رہے۔ آج مہاسبھا اور آر ایس ایس تنظیمیں پاکستان کی سب سے بڑی دشمن بنی ہوئی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ان کی ہی مسلم کش پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان وجود میں لایاگیا انھوں نے آزادی کے پہلے سے ہی ہندوستان میں جگہ جگہ مسلم کش فسادات کروانا شروع کر دیے تھے، صوبہ بہار کے مسلمان ان کی دہشتگردی سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے تھے۔1946ء کے فسادات سب سے زیادہ بھیانک تھے جن میں ہزاروں مسلمانوں کو شہید کردیاگیا تھا، ملتان میں عاشورے کے دن مسلمانوں کا قتل عام کرایاگیا۔
ایک اور شہر گڑھ مکتیشر میں مسلمانوں کا قتل عام کرکے ان کی جائیدادوں کو نذر آتش کردیاگیا تھا اس کے علاوہ کئی علاقوں میں مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنانے کی مہم شروع کی گئی جس سے مسلمانوں میں ان کے خلاف سخت غم و غصہ پیدا ہوا، کانگریس پارٹی اگرچہ اوپر سے مسلمانوں کے حق میں تھی مگر اندرونی طور پر اس کے کئی لیڈر مہاسبھا سے ملے ہوئے تھے مشہور کانگریسی لیڈر ولبھ بھائی پٹیل جو آزادی کے بعد بھارت کے وزیر داخلہ بنے تھے مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن تھے وہ در پردہ مہاسبھا کے ممبر تھے۔
مولانا ابوالکلام آزاد کے مطابق گاندھی کو قتل کرانے میں اس کا اہم کردار تھا۔ اب آزادی کے بعد بھی یہ پارٹیاں مسلمانوں کی سب سے بڑی دشمن ہیں۔ لیکن ان کی نفرت کی پالیسی سے پہلے ہی ہندوستان تین ملکوں میں تقسیم ہوچکا ہے اور اب کئی ٹکڑوں میں بٹتا نظر آرہا ہے۔