رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے لیے ایک اور ایمنسٹی اسکیم کی تیاریاں
3 فیصد ٹیکس پرخفیہ اثاثے ظاہرکرنے کی پیشکش کی جائے گی،4رکنی پارلیمانی کمیٹی نے سفارشات کوحتمی شکل دیدی
پارلیمانی پینل نے منگل کو ریئل اسٹیٹ سیکٹر کے لیے ایک اور ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کی تجویز کوحتمی شکل دے دی جس کے تحت سرمایہ کاروں کو 3 فیصد کی معمولی شرح سے ٹیکس کی ادائیگی پر خفیہ اثاثے ظاہر کرنے کی پیشکش کی جائے گی۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی ذیلی مجلس نے ریئل اسٹیٹ سیکٹر کے نمائندوں کے ساتھ بات چیت کے بعد اپنی سفارشات کو حتمی شکل دے دی، اجلاس سے قبل کمیٹی نے وزیرخزانہ اسحق ڈار اور وزیراعظم کے خصوصی معاون برائے ریونیو ہارون اختر خان سے بھی ان کی رائے لی۔
اجلاس کے اختتام پر سب کمیٹی کے رکن میاں عبدالمنان نے کہاکہ 3فیصد ریٹ پر ایمنسٹی کی پیشکش کی جائے گی، اس معاملے پر وزیرخزانہ اور وزیراعظم کے خصوصی معاون برائے ریونیو کو بھی اعتماد میں لیاگیا ہے۔ ایمنسٹی اسکیم کی پارلیمنٹ سے منظوری لینے کے واحد مقصد سے سب کمیٹی قائم کردی گئی ہے کیونکہ اس بار حکومت مکمل ذمے داری لینے کے موڈ میں نہیں ہے۔
4رکنی کمیٹی کا اجلاس کنوینر اور مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی سعید احمد خان کی زیرصدارت ہوا،کمیٹی کے 4 ارکان میں سے 3 کا تعلق حکمراں جماعت ہے جبکہ چوتھے رکن رشید احمد گوڈیل کا تعلق ایم کیوایم سے ہے، سب کمیٹی میں مرکزی اپوزیشن جماعتوں پی پی پی اور پی ٹی آئی کی کوئی نمائندگی نہیں۔
ایمنسٹی کی ضرورت حکومت کی جانب سے جائیداد کی فیئر مارکیٹ ویلیوز پر خریدوفروخت پر ٹیکس کٹوتیوں کے مقصد سے انکم ٹیکس آرڈیننس میں یکم جولائی کو متعارف کرائی گئیں ترامیم کے باعث پیدا ہوئیں تاہم 1ماہ کے اندر ہی حکومت پسپا ہو گئی اور 31جولائی کو صدارتی آرڈیننس کے نفاذ کے ذریعے پراپرٹی ڈیلرز کے اتفاق رائے سے طے پانے والی پراپرٹی ویلیوایشن کا نفاذ کردیا گیا، اب ریئل اسٹیٹ سیکٹر اس شرح پر بھی ٹیکس دینے کو تیار نہیں جس پر وہ خود راضی ہوا تھا، وہ اب ان ریٹس میں کمی اور حکومت کی جانب سے ٹیکس ایمنسٹی کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنے خفیہ اثاثے ظاہر کرسکیں.
مجوزہ ایمنسٹی حکمراں جماعت کے ارکان پارلیمنٹ اور پراپرٹی ڈیلرز کی زبردست لابنگ کا بھی نتیجہ ہے جو ملک کے بڑے شہروں میں پراپرٹی قیمتوں کی نئی ویلیوایشن ٹیبلز کی وجہ سے مارکیٹ کے بیٹھ جانے کا دعویٰ کر رہے ہیں، حکمراں جماعت کے لاہور سے ایم این اے پرویز ملک، وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور ان جیسے دیگر افراد نے وزیراعظم پر زور دیا ہے کہ اس بار جامع ایمنسٹی اسکیم دی جائے۔
ٹیکس ماہرین کے مطابق جولائی میں ریئل اسٹیٹ سیکٹر کے ساتھ طے پانے والی ڈیل کے شعبے کے مسائل سے مکمل طور پر نمٹنے میں ناکام کے بعد حالیہ ایمنسٹی اسکیم گزشتہ 3سال میں چوتھی ہوگی جس کے تحت غیررسمی معیشت میں گردش کرنے والا 75فیصد کالادھن سفید کیا جائے گا۔ پراپرٹی ڈیلرز 1 فیصد کی شرح پر ایمنسٹی کامطالبہ کر رہے ہیں تاہم ایف بی آر کے نمائندے ڈاکٹر محمد اقبال اس کے سخت مخالف ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اسٹینڈرڈ انکم ٹیکس ریٹ 35 فیصد تک ہے، ایمنسٹی اسکیم اسٹینڈرڈ ریٹس پر ٹیکس دینے والوں خصوصاً تنخواہ دار طبقے کی حوصلہ شکنی کرے گی۔
فی الوقت پراپرٹی کی خریدوفروخت پر صوبائی سطح پر ٹیکسز کا تعین ڈی سی ریٹس پر کیا جا رہا ہے جبکہ وفاقی ٹیکسوں کی ادائیگی ایف بی آر کے جاری کردہ پراپرٹی ریٹس کی بنیاد پر ہو رہی ہے، ڈیلرز صوبائی ٹیکسوں اور وفاقی ٹیکسوں کے لیے 2 الگ قیمتیں دے رہے ہیں تاہم حقیقی پراپرٹی ریٹس تو ایف بی آر ریٹس سے بھی کہیں زیادہ ہیں اور اس حقیقت کا اعتراف ارکان پارلیمنٹ اور ریئل اسٹیٹ سیکٹر کے نمائندوں نے منگل کو بھی کیا۔
میاں منان کا کہنا ہے کہ حکومت 1ماہ کے اندر ایمنسٹی اسکیم کے نفاذ کی کوشش کر ے گی اور اس کی تیزی سے منظوری کے لیے خزانہ کی قومی اسمبلی اور سینیٹ کے قائمہ کمیٹیوں کا مشترکہ اجلاس بھی بلایا جا سکتا ہے، ٹیکس ایمنسٹی پیکیج قومی اسمبلی کے آئندہ سیشن میں پیش کیا جا سکتا ہے، ایمنسٹی کو موثر بنانے کیلیے زیرغور انکم ٹیکس (ترمیمی) آرڈیننس 2016 کے حتمی مسودے میں نئی ترامیم تجویز کی جائیں گی جو حکومت نے چند ماہ قبل پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں پیش کیا تھا تاکہ اس ڈیل کو مستقل قانونی تحفظ مل سکے جو رواں سال جولائی میں ریئلٹی سیکٹر کے ساتھ طے پائی تھی۔ سعید احمد خان نے کہاکہ سب کمیٹی متعلقہ شقوں میں ترامیم تجویز کرنے کے لیے پھراجلاس طلب کرسکتی ہے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی ذیلی مجلس نے ریئل اسٹیٹ سیکٹر کے نمائندوں کے ساتھ بات چیت کے بعد اپنی سفارشات کو حتمی شکل دے دی، اجلاس سے قبل کمیٹی نے وزیرخزانہ اسحق ڈار اور وزیراعظم کے خصوصی معاون برائے ریونیو ہارون اختر خان سے بھی ان کی رائے لی۔
اجلاس کے اختتام پر سب کمیٹی کے رکن میاں عبدالمنان نے کہاکہ 3فیصد ریٹ پر ایمنسٹی کی پیشکش کی جائے گی، اس معاملے پر وزیرخزانہ اور وزیراعظم کے خصوصی معاون برائے ریونیو کو بھی اعتماد میں لیاگیا ہے۔ ایمنسٹی اسکیم کی پارلیمنٹ سے منظوری لینے کے واحد مقصد سے سب کمیٹی قائم کردی گئی ہے کیونکہ اس بار حکومت مکمل ذمے داری لینے کے موڈ میں نہیں ہے۔
4رکنی کمیٹی کا اجلاس کنوینر اور مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی سعید احمد خان کی زیرصدارت ہوا،کمیٹی کے 4 ارکان میں سے 3 کا تعلق حکمراں جماعت ہے جبکہ چوتھے رکن رشید احمد گوڈیل کا تعلق ایم کیوایم سے ہے، سب کمیٹی میں مرکزی اپوزیشن جماعتوں پی پی پی اور پی ٹی آئی کی کوئی نمائندگی نہیں۔
ایمنسٹی کی ضرورت حکومت کی جانب سے جائیداد کی فیئر مارکیٹ ویلیوز پر خریدوفروخت پر ٹیکس کٹوتیوں کے مقصد سے انکم ٹیکس آرڈیننس میں یکم جولائی کو متعارف کرائی گئیں ترامیم کے باعث پیدا ہوئیں تاہم 1ماہ کے اندر ہی حکومت پسپا ہو گئی اور 31جولائی کو صدارتی آرڈیننس کے نفاذ کے ذریعے پراپرٹی ڈیلرز کے اتفاق رائے سے طے پانے والی پراپرٹی ویلیوایشن کا نفاذ کردیا گیا، اب ریئل اسٹیٹ سیکٹر اس شرح پر بھی ٹیکس دینے کو تیار نہیں جس پر وہ خود راضی ہوا تھا، وہ اب ان ریٹس میں کمی اور حکومت کی جانب سے ٹیکس ایمنسٹی کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنے خفیہ اثاثے ظاہر کرسکیں.
مجوزہ ایمنسٹی حکمراں جماعت کے ارکان پارلیمنٹ اور پراپرٹی ڈیلرز کی زبردست لابنگ کا بھی نتیجہ ہے جو ملک کے بڑے شہروں میں پراپرٹی قیمتوں کی نئی ویلیوایشن ٹیبلز کی وجہ سے مارکیٹ کے بیٹھ جانے کا دعویٰ کر رہے ہیں، حکمراں جماعت کے لاہور سے ایم این اے پرویز ملک، وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور ان جیسے دیگر افراد نے وزیراعظم پر زور دیا ہے کہ اس بار جامع ایمنسٹی اسکیم دی جائے۔
ٹیکس ماہرین کے مطابق جولائی میں ریئل اسٹیٹ سیکٹر کے ساتھ طے پانے والی ڈیل کے شعبے کے مسائل سے مکمل طور پر نمٹنے میں ناکام کے بعد حالیہ ایمنسٹی اسکیم گزشتہ 3سال میں چوتھی ہوگی جس کے تحت غیررسمی معیشت میں گردش کرنے والا 75فیصد کالادھن سفید کیا جائے گا۔ پراپرٹی ڈیلرز 1 فیصد کی شرح پر ایمنسٹی کامطالبہ کر رہے ہیں تاہم ایف بی آر کے نمائندے ڈاکٹر محمد اقبال اس کے سخت مخالف ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اسٹینڈرڈ انکم ٹیکس ریٹ 35 فیصد تک ہے، ایمنسٹی اسکیم اسٹینڈرڈ ریٹس پر ٹیکس دینے والوں خصوصاً تنخواہ دار طبقے کی حوصلہ شکنی کرے گی۔
فی الوقت پراپرٹی کی خریدوفروخت پر صوبائی سطح پر ٹیکسز کا تعین ڈی سی ریٹس پر کیا جا رہا ہے جبکہ وفاقی ٹیکسوں کی ادائیگی ایف بی آر کے جاری کردہ پراپرٹی ریٹس کی بنیاد پر ہو رہی ہے، ڈیلرز صوبائی ٹیکسوں اور وفاقی ٹیکسوں کے لیے 2 الگ قیمتیں دے رہے ہیں تاہم حقیقی پراپرٹی ریٹس تو ایف بی آر ریٹس سے بھی کہیں زیادہ ہیں اور اس حقیقت کا اعتراف ارکان پارلیمنٹ اور ریئل اسٹیٹ سیکٹر کے نمائندوں نے منگل کو بھی کیا۔
میاں منان کا کہنا ہے کہ حکومت 1ماہ کے اندر ایمنسٹی اسکیم کے نفاذ کی کوشش کر ے گی اور اس کی تیزی سے منظوری کے لیے خزانہ کی قومی اسمبلی اور سینیٹ کے قائمہ کمیٹیوں کا مشترکہ اجلاس بھی بلایا جا سکتا ہے، ٹیکس ایمنسٹی پیکیج قومی اسمبلی کے آئندہ سیشن میں پیش کیا جا سکتا ہے، ایمنسٹی کو موثر بنانے کیلیے زیرغور انکم ٹیکس (ترمیمی) آرڈیننس 2016 کے حتمی مسودے میں نئی ترامیم تجویز کی جائیں گی جو حکومت نے چند ماہ قبل پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں پیش کیا تھا تاکہ اس ڈیل کو مستقل قانونی تحفظ مل سکے جو رواں سال جولائی میں ریئلٹی سیکٹر کے ساتھ طے پائی تھی۔ سعید احمد خان نے کہاکہ سب کمیٹی متعلقہ شقوں میں ترامیم تجویز کرنے کے لیے پھراجلاس طلب کرسکتی ہے۔