حسین آباد  فوڈ اسٹریٹ کے مسائل ٹریفک جام صفائی کا فقدانعوام پریشان

دنیا بھر سے جب بھی لوگ پاکستان کا دورہ کرتے ہیں تو مہمان نوازی کے ساتھ کھانے کی لذّتوں کو بھی ہمیشہ یاد رکھتے ہیں۔


عمر زیدی November 10, 2016
شہر قائد کی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ شہر کے امن اور ٹریفک کی مسائل پر خصوصی توجّہ دی جائے۔ فوٹو: فائل

پاکستان اپنی روایتوں اور تہذیب و ثقافت کے ساتھ اپنے پکوانوں کے لیے بھی مشہور ہے۔ دنیا بھر سے جب بھی لوگ پاکستان کا دورہ کرتے ہیں تو مہمان نوازی کے ساتھ کھانے کی لذّتوں کو بھی ہمیشہ یاد رکھتے ہیں۔ لذت کام و دہن کا ایسا ہی ایک مرکز کراچی کے علاقے حسین آباد میں قائم فوڈ اسٹریٹ ہے۔

حسین آباد، کراچی کا ایک قدیم علاقہ ہے۔ اس کے اطراف میں کریم آباد، عزیز آباد، عائشہ منزل، واٹر پمپ، شریف آباد اور نارتھ ناظم آباد کے علاقے شامل ہیں۔ حسین آباد میں رہائش پذیر بیشتر افراد کا تعلق میمن، اسماعیلی اور گجراتی برادری سے ہے، جو پاکستان کی معاشی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ حسین آباد کا نام میمن برادری اور تحریک پاکستان کے ایک عظیم راہ نما سر حسین آدم جی کے نام پر رکھا گیا ہے۔

حسین آباد فوڈ اسٹریٹ میں کھانے پینے کی چھوٹی بڑی تقریباً 150 دکانیں ہیں۔ یہاں فوڈ اسٹریٹ کب قائم ہوئی؟ اس حوالے سے متضاد آراء پائی جاتی ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہاں فوڈ اسٹریٹ آج سے پچاس سال پہلے سے قائم ہے، لیکن یہ عوام کی نظروں میں جب آئی جب آج سے دس سال پہلے ایک بڑی اور مشہور فوڈ چینز نے اپنا کاروبار یہاں شروع کیا۔ تاہم ایک آئس کریم پارلر کے مالک سے بات کرکے اندازہ ہوا کہ آج سے بیس پچیس سال پہلے یہاں سات دکانیں ہوا کرتی تھیں، پھر جیسے جیسے علاقے اور اس کے قرب و جوار میں آبادی کا تناسب بڑھنے لگا، تو ان ساری دکانوں کا کاروبار بھی چمک اٹھا اور عوام کی اس دل چسپی کو دیکھتے ہوئے علاقے میں رہائش پذیر میمن برادری نے بھاری سرمائے سے دکانیں خرید کر وہاں ریسٹورنٹ کھول لیے۔ یوں یہ علاقہ آج شہر کی ایک بڑی فوڈ اسٹریٹ میں تبدیل ہوچکا ہے۔



یوں تو شہر قائد کی بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے شہر میں جا بہ جا فوڈ اسٹریٹس بن گئی ہیں جن میں سب سے قدیم برنس روڈ کی فوڈ اسٹریٹ ہے۔ اس کے علاوہ کراچی کے پوش علاقوں بوٹ بیسن، دو دریا، بہادر آباد اور نارتھ ناظم آباد کے علاقے فائیو اسٹار کے قریب واقع فوڈ اسٹریٹ بھی اب کھانے پینے کے بڑے مراکز شمار ہوتے ہیں، لیکن ایک چیز جو حسین آباد کی فوڈ اسٹریٹ کو باقی فوڈ اسٹریٹ سے ممتاز بناتی ہے اور وہ ہے متوسط طبقے کی دل چسپی اور استطاعت۔ اگر ہم کھانے پینے کی چیزوں کا موازنہ آج سے دس بارہ سال پہلے کی چیزوں سے کریں تو منہگائی نے عام آدمی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے لیکن کھانے پینے کے شوقین افراد اب بھی اپنے بجٹ میں خاص حصہ ہوٹلنگ کے لیے نکالتے ہیں۔

منہگائی کی بابت ہم نے وہاں آئے ہوئے محمد وسیم سے پوچھا جو مع اپنے اہل و عیال اورنگی ٹاؤن سے آئے تھے نے کہا ''منہگائی کے اس دور میں ہم جیسے لوگ کچھ نہ کچھ کر کے مہینے دو مہینے میں گھر سے باہر کھانے کے لیے بجٹ نکال ہی لیتے ہیں لیکن وہ بے چارہ غریب آدمی کیا کرے جو اپنے گھر کا دال دلیا بھی مشکل سے چلاتا ہو۔''

قیمتوں میں کمی کے حوالے سے پرائس کنٹرول کمیٹی کی کارکردگی کے بارے میں جاننے کے لیے ہم نے وہاں قائم ایک قدیم ریسٹورنٹ کے انچارج حاجی بلال سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا: ''قانون تو ہے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا، اگر ہم قیمتیں کم کر بھی دیں تو آس پاس کے تقریباً تمام ریسٹورنٹس ہم سے قیمتیں واپس بحال کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں، جو ہمیں قبول کرنا پڑتا ہے اور ویسے بھی ہم یہاں کاروبار کر رہے ہیں، فلاحی ادارہ نہیں چلا رہے۔''



فوڈ اسٹریٹ پر قائم ریسٹورنٹس میں دیسی، فاسٹ فوڈ، ولایتی اور چائنیز سمیت کھانے کی متعدد اقسام دست یاب ہیں۔ یہاں کی خاص ڈش کوئلہ کڑاھی ہے جو شہر بھر سے لوگ کھانے آتے ہیں۔ یہاں کھانے کے لیے آئے ہوئے بیشتر افراد کا تعلق قرب و جوار کے علاقوں جن میں عزیز آباد، عائشہ منزل، نارتھ ناظم آباد، شریف آباد اور واٹرپمپ سے ہوتا ہے۔

ایک انتہائی سنگین مسئلہ جو اس فوڈ اسٹریٹ کی چکا چوند کو مانند کرتا ہے اور وہ ہے بے ہنگم ٹریفک اور اس کا جام ہونا۔ فوڈ اسٹریٹ پر دو رویہ سڑک ہے جو میمن فاؤنڈیشن سے لے کر تبّہ ہارٹ اسپتال تک ہے اور اس کے بیچوں بیچ دونوں اطراف میں کھانے پینے کی متعدد دکانیں ہیں۔

اب صورت حال یہ ہوتی ہے کہ اسی سڑک پر بڑی والی مسافر کوچز، چنگ چی رکشے، موٹر سائیکلیں اور چھوٹی بڑ ی گاڑیاں دونوں اطراف میں چل رہی ہوتی ہیں، پھر پان والوں نے اپنے کیبن اور دکان داروں نے اپنے تکّہ بوٹی کے پھٹے سڑک کے کنارے لگائے ہوئے ہیں اور تابوت میں آخری کیل کھانے اور تفریح کی غرض سے آئے ہوئے لوگ اپنی گاڑیاں پارک کر کے ٹھونک دیتے ہیں جس کے نتیجے میں شدید ٹریفک کا شور، گاڑیوں کے ہارن کی آوازیں سماعت پر برا اثر ڈالتی ہیں اور کھانا کھانے اور تفریح کی غرض سے آئے ہوئے افراد اور علاقہ مکینوں کو خاصی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ نہ صرف روڈ کو چوڑا کرنے کے لیے اقدامات کرے، بل کہ ان دکان داروں کے خلاف بھی کاروائی عمل میں لائی جائے جو اپنے سامان روڈ پر لگا کر دوسروں کو تکلیف پہنچاتے ہیں۔ شہر قائد پچھلے کئی سالوں سے دہشت گردی کی آماج گاہ بنا ہوا ہے، بم دھماکے، ٹارگیٹ کلنگ، بھتّا خوری، اغواء برائے تاوان، اسٹریٹ کرائم اور ان جیسے ان گنت جرائم عروس البلاد کی خوب صورتی کو گہنا رہے ہیں، ان حالات کا اثر یہاں کی فوڈ اسٹریٹ پر بھی ہوا۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ بھتّا خوری کی لعنت یہاں اب بھی موجود ہے گو کہ پہلے سے ذرا کمی آئی ہے لیکن بہرحال یہاں کے دکان داروں کو شدید تحفّظات ہیں۔



بھتا نہ دینے پر سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جاتی ہیں بل کہ گزشتہ سال تو ایک ہوٹل کے مالک کو نامعلوم افراد نے بھتّا نہ دینے کی پاداش میں ٹارگیٹ کلنگ کا نشانہ بنایا تھا۔ لوگ اس حوالے سے بات کرنے سے یا تو خوف زدہ تھے یا بات کرنا ہی نہیں چاہ رہے تھے۔ ایک دکان دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس بات کی تصدیق کی کہ یہاں آج بھی بھتّے کی پرچیاں دن دہاڑے پھینک کر بھتّا وصولی کی جاتی ہے اور اس حوالے سے ہم نے متعلقہ حکام تک اپنی بات بھی پہنچائی ہے مگر اب تک کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔

صفائی ستھرائی کے کچھ خاص انتظامات دیکھنے کو نہیں ملے لیکن کم از کم برنس روڈ کی فوڈ اسٹریٹ سے بہتر تھے۔ اس بابت جب دکان داروں سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ہم سے جتنا ہوسکتا ہے ہم کرتے ہیں، دکانوں کے اندر صفائی ستھرائی کی ذمہ داری ہماری ہے لیکن دکانوں کے باہر صفائی کی ذمہ داری KMC انتظامیہ پر عاید ہوتی ہے۔

اکثر دکان داروں نے شکایت کی کہ KMC کا عملہ ان کے گاہکوں سے گاڑیوں کی پارکنگ کی رشوت بھی طلب کرتا ہے۔ ایک دکان دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہاں قائم کئی ریسٹورنٹ کنڈے لگا کر بجلی چوری کر رہے ہیں اور اس کا باقاعدہ بھتّا متعلقہ محکمے کا عملہ ہفتہ وار وصول کرتا ہے۔ اکثر پولیس والے بھی مفت کھانا کھا کر چلے جاتے ہیں اور پیسے مانگنے پر سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے ہیں۔

شہر قائد کی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ شہر کے امن اور ٹریفک کی مسائل پر خصوصی توجّہ دی جائے۔ ایمرجینسی بنیادوں پر شہر کے ٹریفک مسائل کو حل کیا جائے تا کہ عروس البلاد کی خوب صورتی و حسن مانند نہ پڑے اور یہ شہر امن اور امن پسندوں کا گہوارہ بن جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں