سرکاری اداروں میں صرف عیاشی چل رہی ہے چیف جسٹس پاکستان
ہمارا کلچر ہے کہ سچ نہیں بولنا، چیف جسٹس پاکستان کے ریمارکس
چیف جسٹس پاکستان انور ظہیر جمالی کا کہنا ہے کہ عیاشی صرف سرکاری اداروں میں چل رہی ہے جب کہ نجی اداروں میں تو بیکار ملازم کو ایک دن بھی برداشت نہیں کیاجاتا۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے پی ٹی سی ایل ملازم کی ترقی سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف نظر ثانی درخواست کی سماعت کی۔ عدالت نے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے اپیل منظور کرلی۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے استفسار کیا کہ ہائی کورٹ نے پی ٹی سی ایل ملازم اعجازاحمد کی براہ راست ترقی کا حکم کیسے دے دیا، ہائی کورٹ کسی بھی ملازم کو براہ راست ترقی کا حکم نہیں دے سکتی۔
چیف جسٹس پاکستان کا اپنے ریمارکس میں کہنا تھا کہ عیاشی صرف سرکاری اداروں میں چل رہی ہے، نجی اداروں میں تو بیکار ملازم کو ایک دن بھی برداشت نہیں کیاجاتا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماراکلچر ہے کہ سچ نہیں بولنا، وکلا مکر نہ جائیں اس لیے عدالتی کارروائی کو بھی ریکارڈ کیا جاتا ہے۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے پی ٹی سی ایل ملازم کی ترقی سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف نظر ثانی درخواست کی سماعت کی۔ عدالت نے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے اپیل منظور کرلی۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے استفسار کیا کہ ہائی کورٹ نے پی ٹی سی ایل ملازم اعجازاحمد کی براہ راست ترقی کا حکم کیسے دے دیا، ہائی کورٹ کسی بھی ملازم کو براہ راست ترقی کا حکم نہیں دے سکتی۔
چیف جسٹس پاکستان کا اپنے ریمارکس میں کہنا تھا کہ عیاشی صرف سرکاری اداروں میں چل رہی ہے، نجی اداروں میں تو بیکار ملازم کو ایک دن بھی برداشت نہیں کیاجاتا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماراکلچر ہے کہ سچ نہیں بولنا، وکلا مکر نہ جائیں اس لیے عدالتی کارروائی کو بھی ریکارڈ کیا جاتا ہے۔