ٹرمپ کی غیر متوقع جیت اور دنیا پر پڑنے والے اثرات

انتہاپسندی صرف غریب اور کم تعلیم یافتہ ممالک کا ہی مسئلہ نہیں ہے بلکہ امریکا جیسے کےعوام بھی اس آگ میں جھلس رہے ہیں۔

ٹرمپ کی جیت کے بعد بین الاقوامی میڈیا ہاؤس کے ہیوی ویٹ انتخابی تجزیے اور تبصرے بھی صرف دیوانے کا خواب ہی ثابت ہوئے۔

بعض اوقات ہمارے اردگرد ایسی غیر متوقع چیزیں ظہور پزیر ہوجاتی ہیں جن پر نا چاہتے ہوئے بھی یقین کرنا ہی پڑتا ہے، جیسے اگر آپ موٹر سائیکل پر سفر کر رہے ہوں اور اچانک آپ کے سامنے کوئی دیوانہ آجائے تو آپ نہ صرف ہکا بکا رہ جاتے ہیں بلکہ یہ سب کچھ آپ کے لئے ناقابل یقین بھی ہوتا ہے۔ بس ایسا ہی کچھ ہوا امریکا کے صدارتی انتخابات میں جب ایک جارحانہ مزاج کے مالک نا تجربہ کار سیاستدان نے بظاہر ایک اچھی وضع قطع اور خوش اخلاق نظر آنے والی تجربہ کار سیاستدان کو شکست دے دی۔

گزشتہ روز امریکا میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کا مجھ سمیت کروڑوں افراد کو بالکل بھی اندازہ نہیں تھا بلکہ بین الاقوامی میڈیا کے بڑے بڑے طرم خان بشمول واشنگٹن پوسٹ، سی این این، الجزیرہ اور فاکس نیوز کے انتخابی تجزیے اور تبصرے بھی دیوانے کا خواب ہی ثابت ہوئے اور ڈونلڈ ٹرمپ ہر قسم کی رکاوٹ کو عبور کرتے ہوئے وائٹ ہاؤس پہنچ گئے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کس قدر غیر متوقع تھی اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ کسی انگریزی اخبار نے ان کی جیت پر 'اوو! مائی گاڈ' کی سرخی لگائی تو کسی نے کہا کہ ''امریکیوں! تم ایسا نہیں کرسکتے''۔ بات یہاں ختم نہیں ہوئی کیونکہ ایک اخبار نے ٹرمپ کو ''دماغی مریض'' بھی قرار دیا۔ ٹرمپ کی جیت کے بعد یہ اندازہ تو ہوگیا تھا کہ امریکی قوم اب بُری طرح تقسیم ہوچکی ہے، لیکن اِس حوالے سے یقین تب ہوا جب انتخابات میں شکست سے دوچار ہونے والی ہلیری کلنٹن نے بھی اپنی تقریر میں کہا کہ امریکی قوم ہمارے تصور سے بھی زیادہ منقسم ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ بچپن سے ہی متنازع شخصیت کے مالک رہے ہیں۔ ٹرمپ کی حرکتوں سے تنگ والدین نے انہیں 13 برس کی عمر میں سدھارنے اور انسان بنانے کے لئے ملٹری اسکول بھیج دیا۔ پھر جب ریسلنگ کی دنیا میں قدم رکھا تو بے ایمانی کی حد کو پہنچ گئے اور اپنے حق میں فیصلے لینے کے لیے پیسے کو پانی کی طرح بہایا۔ یہی نہیں جب رئیل اسٹیٹ بزنس سے منسلک ہوئے تو بے ہودہ زبان اور دست درازی ان کا وطیرہ بن گئی۔ شوبز کی دنیا سے وابستگی بھی انہی خصلتوں سے بھری ہوئی ہے، اپنی فنکاری اور عیاری سے نام اور پیسہ تو ضرور کمایا لیکن ساتھ ہی روپوں کی ریل پیل سے درجنوں خواتین کو نہ صرف جنسی طور پر ہراساں کیا بلکہ خواتین کے بارے میں ان کے متنازع بیان کی ویڈیو کے علاوہ میکسیکو کی سرحد سیل کرنے، سیاہ فام امریکیوں اور مسلمانوں کے خلاف بیانات کی وجہ سے انہیں صدارتی مہم کے دوران شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔

ان سب عوامل کے باوجود امریکی عوام نے ڈونلڈ ٹرمپ کو 538 میں سے 289 الیکٹورل ووٹ دے کر کامیاب کرایا جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ انتہا پسندی صرف غریب اور کم تعلیم یافتہ ممالک کا ہی مسئلہ نہیں ہے بلکہ امریکا جیسے پڑھے لکھے اور مضبوط معیشت کے حامل ملک کے عوام بھی اس آگ میں جھلس رہے ہیں۔ اب جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کو وائٹ ہاؤس کی کنجی مل چکی ہے اور اوباما ٹرمپ ملاقات کے بعد اقتدار منتقلی کا باقاعدہ سلسلسہ بھی شروع ہوچکا ہے تو کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا صدر بننا ہی امریکی زوال کا آغاز ہے اور اسی اظہار کا خیال انتخابی مہم کے دوران براک اوبامہ بھی کرچکے ہیں کہ،
اگر ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے صدر منتخب ہوئے تو امریکا کا زوال شروع ہوجائے گا۔

لیکن شاید ایسا خیال بارک اوبامہ اور چند تجزیہ کاروں کا نہیں بلکہ عوام کی بڑی تعداد بھی ایسا ہی سمجھتی ہے، یہی وجہ ہے کہ واشنگٹن، نیویارک، سان فرانسسکو سمیت متعدد شہروں میں ہزاروں افراد لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں جو ڈونلڈ ٹرمپ کو صدر ماننے سے انکار کررہے ہیں۔


احتجاج اپنی جگہ، لیکن ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ امریکا میں پاکستان کی طرح احتجاج کی بنیاد پر حکومت کا خاتمہ ممکن نہیں ہے، تاریخ بہرحال یہی بتاتی ہے۔ اِس لیے ہمیں اب سمجھ لینا چاہیے کہ امریکا میں اگلے چار سال ٹرمپ ہی بطور صدر اپنی ذمہ داری نبھاتے رہیں گے۔ اِس لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ اُن عوامل پر بات کریں جس کی بنیاد پر دنیا میں تبدیلیوں کا امکان ہے۔ اِس وقت ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے 100 روز کا پلان بھی واضح کردیا ہے اور اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ شامی پناہ گزین اور غیر قانونی تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کے اعلان پر کس حد تک عمل درآمد کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ امریکا میں موجود مسلمان بالخصوص پاکستانی کمیونٹی کے لئے حالات مزید مشکل ہوجائیں گے۔ ایسا کہنے کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے انتخابی مہم کے دوران دیے جانے والے وہ بیانات ہیں جن میں انہوں نے اپنا جھکاؤ بھارت کی جانب کیا تھا، اور دوسری وجہ ریپبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک بھارتی نژاد نمائندے کا انٹرویو ہے۔ ایک انٹرویو میں اُن سے جب پوچھا گیا کہ پاکستان کے حوالے سے ٹرمپ کا کیا رویہ دیکھنے کو مل سکتا ہے؟ جس پر انہوں نے کہا کہ
دیکھیے سب سے پہلے تو پاکستان کی امداد روکی جائے گی، اور اب سے جو بھی امداد دی جائے گی وہ شرائط کی بنیاد پر ہوگی جس میں اولین شرط تو یہ ہوگی کہ پاکستان میں مدارس کو بند کیا جائے۔

پھر جب پوچھا گیا کہ امریکا میں مسلمانوں کے حوالے سے ٹرمپ کیا سوچتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب میں کہا کہ
یہ عین ممکن ہے کہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو امریکا میں مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑے لیکن نئی امریکی حکومت بھارتی مسلمانوں کو ناصرف سہولیات فراہم کرے گی بلکہ نئے آنے والوں کی حوصلہ افزائی بھی کرے گی۔

دوسری اہم ترین بات یہ کہ ٹرمپ کی آمد کے بعد ایشیاء شاید سب سے زیادہ متاثر ہو۔ کیونکہ ٹرمپ جہاں روس و بھارت کے ساتھ تعلقات کو اچھی بنیادوں پر استوار کرنے کے خواش مند ہیں وہیں چین و پاکستان کے ساتھ معاملات میں کشیدگی کے خدشات موجود ہیں۔ ایسی صورتحال میں خطہ عدم توازن کا شکار ہوسکتا ہے جس کے اثرات پوری دنیا کو برداشت کرنے ہوں گے۔

ایشیاء کا ذکر ہو اور مشرق وسطی کو بھول جایا جائے یہ ممکن نہیں ہے۔ ٹرمپ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو کن بنیادوں پر جاری رکھیں گے ابھی اِس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل ازوقت ہے لیکن ہاں یہ ضرور یقین ہے کہ ٹرمپ کی فتح کے بعد اسرائیل کو سہولیات اور ایران کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اسرائیل کو حمایت ملنے کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ بدقسمتی سے فلسطینیوں کے لیے آنے والے دن ایک بار پھر مشکل ثابت ہوسکتے ہیں۔ دوسری طرف عراق و شام کے حوالے سے بھی پالیسیاں اہمیت کی حامل ہیں۔ آیا شام میں اِسی طرح معصوم بچوں اور انسانوں کو لہو بہایا جاتا رہے گا یا اِس حوالے سے کچھ عملی اقدام اُٹھانے کی کوشش کی جائے گی اور سب سے اہم بات یہ کہ عراق میں داعش کے خلاف سنجیدگی سے ایکشن لینے کا فیصلہ ہوگا یا پھر دھوکہ دہی کا سلسلہ جاری رہے گا۔

بہر کیف امریکا کے صدارتی انتخابات سے 2 چیزیں تو واضح ہوتی ہیں۔ اول تو یہ کہ آپ سروے کے ذریعے کسی بھی امیدوار کو فتح یا شکست نہیں دلواسکتے اور دوم یہ جب امریکا جیسے تعلیم یافتہ ملک کی عوام انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور سروے کی بنیاد پر ہلیری کلنٹن کو صدر نہیں بنوا سکی تو پھر پاکستان جیسے ملک میں عمران خان جیسے سیاسی رہنما کیونکر صرف سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر عوامی مقبولیت کی بناء پر اس ملک کے وزیراعظم بننے کا خواب دیکھتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔
Load Next Story