امریکی انتخابات۔ منافقت کا خاتمہ
جمہوریت کا ضمیر ہی تعصب سے اٹھتا ہے۔ الیکشن ہوں یا پارٹی سیاست
جمہوریت کا ضمیر ہی تعصب سے اٹھتا ہے۔ الیکشن ہوں یا پارٹی سیاست، معاشرے میں موجود تضادات، تعصبات، گروہی اختلافات حتیٰ کہ ذاتی اور خاندانی دشمنیوں سے بھر پور فائدہ اٹھانے کا نام جمہوریت ہے۔ جب تک کسی بھی معاشرے کو دو یا دو سے زیادہ انتہاؤں میں تقسیم نہ کر دیا جائے جمہوری نظام کا پودا ثمر آور نہیں ہو سکتا۔ جیسا معاشرہ ہوگا ویسے ہی تعصبات جمہوری طرز سیاست میں کھل کر سامنے آتے جائیں گے۔ اگر معاشرے میں نظریاتی اور اعلیٰ انسانی مقاصد کے حصول کی سوچ میں اختلاف رکھنے والے اکثریت میں ہوں گے تو انتخابات اور پارٹی سیاست میں بھی ویسی ہی سوچ غالب رہے گی۔
ایک گروہ اخلاقی اقدار، معاشرتی اصلاح اور قدیم خاندانی طرز زندگی کے احیاء کی بات کرے گا تو دوسرا معاشی ترقی، انسانی حقوق اور جدید بے لگام بدلتی اقدار کی حمایت میں آواز بلند کرے گا۔ نظریات کی یہ لڑائی جمہوری سیاست میں دونوں گروہوں کو اس قدر سخت مؤقف اپنانے پر مجبور کر دیتی ہے کہ کوئی اپنی بات سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ لیکن جہاں معاشرہ نظریاتی سیاست کے بجائے روایتی گروہی سیاست کا امین ہو اور دنیا کے اکثر معاشرے اسی طرح تقسیم ہوئے ہیں' وہاں جمہوری سیاست تعصبات، نفرت، غصہ، انتقام اور تصادم کے عروج پر ہوتی ہے۔
گزشتہ تین سو سال کی جمہوری تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ اس نظام نے انسانی حقوق، عدل و مساوات، عوام کی بالادستی اور آمریت سے نجات کے جو کھوکھلے نعرے بلند کیے تھے وہ سب کے سب وقت گزرنے اور اس نظام کے بالغ ہونے کے ساتھ ہی تعصبات اور نفرتوں کے سیلاب میں بہہ گئے۔ ہر ملک کے جمہوری سیاسی نظام نے لوگوں کوایک سبق سکھایا کہ یہ الیکشن سسٹم اور پارٹی سیاست تمام عوام کے لیے پیدا نہیں ہوئی بلکہ یہ اکثریت کی بدترین آمریت کے لیے تخلیق کی گئی ہے۔ یعنی ایک گروہ جس کی اکثریت ہے اگر وہ کسی دوسرے کمزور اور چھوٹے گروہ کے خلاف متحد ہو جائے تو پھر وہ اسے جمہوری طور پر شکست دے کر اس کا جینا دوبھر کر سکتا ہے۔
امریکی معاشرے کی دو سو تیس (230) سالہ جمہوری تاریخ کا نچوڑ آخر کار یہ نکلا کہ وہ تمام تر تعصبات اور نفرتیں جو دلوں میں موجود تھیں انھوں نے جمہوری منافقت کا لبادہ تار تار کر دیا اور سفید فام اکثریت نے متحد ہو کر یہ ثابت کر دیا کہ وہ سیاہ فام امریکیوں، مسلمانوں اور تارکین وطن کی اقلیت کو کیسے شکست دیتے ہیں اور پورے امریکی معاشرے پر کیسے اپنے تعصب کا راج نافذ کرتے ہیں۔ دنیا کا ہر جمہوری ملک اب اسی راستے پر گامزن ہے اور اس کا آغاز دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت سے ہوا تھا۔ وہ ملک جس کی سیاست کی بنیاد اس منافقت پر مبنی تھی کہ وہ سیکولر ہیں، تمام مذاہب کا احترام کرتے ہیں۔
انسانوں کو رنگ، نسل اور مذہب سے بالاتر ہوکر برابر سمجھتے ہیں۔ لیکن بھلا ہو اس جمہوری سیاست اور جمہوری نظام کا کہ اس نے بار بار کے انتخابات سے بھارت میں موجود ہندو اکثریت کو یہ یقین دلا دیا کہ اگر تم ہندو مذہب کے نام پر اکٹھا ہو جاؤ تو پھر تمہیں کوئی الیکشن میں شکست نہیں دے سکے گا۔ کوئی تمہیں اقتدار میں آنے سے نہیں روک سکے گا۔ پھر وہی ہوا، جمہوری بھارت کی تخلیق کے ٹھیک انچاس (49) سال بعد 19 مارچ 1998ء میں متعصب ترین ہندو تنظیموں کی آشیرباد اور ہندو اکثریت ووٹ کی بدولت اٹل بہاری واجپائی ایک ہندو ''مُلا'' کی نفسیات لے کر حکمران بنا۔ لیکن ابھی جمہوری نظام کی منافقت جاری تھی۔ ابھی سیکولرازم، برابری اور انسانی حقوق کے نعروں کے بغیر پارٹی چلانا اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔
ابھی شاید ہندو اکثریت کے دماغ میں اپنی اکثریت کی آمریت کے نفاذ کا سودا نہیں سمایا تھا' لیکن جمہوری انتخابات نے اس تعصب اور نکھار دیا، اور سنوار دیا۔ گجرات کی ریاست میں اسی بدترین ہندو اکثریت کی جمہوری آمریت نریندر مودی کی وزارت اعلیٰ کی صورت موجود تھی۔ اس نے جس طرح مسلمان اقلیت کے خون سے ہولی کھیلی، اس جمہوری تجربے نے پورے بھارت کے ہندو ووٹر کو یقین دلا دیا کہ اگر تم اکٹھے ہو جاؤ تو پھر ان مسلمان، عیسائی، سکھ اور دیگر اقلیتوں کو کیسے غلام بنا سکتے ہو، کیسے ان کا قتل عام کرنے کے باوجود بھی ڈکٹیٹر نہیں، جائز جمہوری حکمران کہلا سکتے ہو۔ پھر وہی ہوا، گجرات کی جمہوری اکثریت کی آمریت پورے بھارت پر نریندر مودی کی صورت میں نافذ کر دی گئی۔
بھارت کا جمہوری معاشرہ اپنے تعصبات کو نکھارنے اور سنوارنے اور منافقت کا لبادہ اتارنے میں صرف پچاس سال میں کامیاب ہو گیا جب کہ امریکی معاشرے کو سفید فام اکثریت کے تعصبات کو نکھارنے، سنوارنے اور منافقت کا لبادہ اتارنے میں دو سو تیس (230) سال لگ گئے اور بالآخر ڈونلڈ ٹرمپ اور سوئے ہوئے امریکی سفید فام کے اندر چھپے ہوئے رنگ کے تعصب اور اس سوئے ہوئے امریکی عیسائی کے اندر سے مذہبی تعصب کو جگانے میں کامیاب ہو گیا اور آج جمہوریت کی معراج یعنی اکثریت کی آمریت امریکا میں نافذ ہو گئی۔
امریکی معاشرے کے تعصب کے بارے میں ایک ایسی خاتون مصنفہ کا تبصرہ ان دنوں انتہائی مقبول ہے جس نے امریکی معاشرے کے تعصبات کو انتہائی نچلی سطح پر پرکھا، دیکھا اور برتا ہے۔ بیتھنی سینٹ جیمز (Bethany St. James)۔ بیس سال تک Escort Service یعنی قانونی طوائف کی زندگی گزارنے والی یہ خاتون جسے امریکی معاشرے میں آج بھی ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے، اس نے اپنا یہ پیشہ ترک کیا۔ ایک چرچ میں جاکر مذہبی تعلیم حاصل کی اور پھر امریکی معاشرے کی غلاظتوں پر مضامین لکھنے شروع کیے۔ اس نے اپنے تمام مضامین میں امریکی معاشرے کے اندر چھپے ہوئے تعصبات کو سامنے لانے کی کوشش کی۔ وہ اپنی اس کوشش کو ''Existance of Endurance'' ''یعنی برداشت کا وجود'' قرار دیتی ہے۔
اس نے امریکی معاشرے کی تصویر اپنے ایک مضمون Stereotyping and Prejudice in Beleive and Well in American Socity (امریکی معاشرے میں تعصبات اور لکیر کی فقیر زندگی بہت اہم ہیں)۔ اس مضمون میں وہ امریکی عوام کے تعصبات کو ان الفاظ میں بیان کرتی ہے۔ ''تمام اعلیٰ مقام اور پیشہ ور خواتین کنواری اور تنہا ہوتی ہیں۔ تمام لاطینی امریکی غیر قانونی تارکین وطن ہیں۔ تمام سفید فام اپنے آپ کو برتر سمجھتے ہیں۔ تمام ہم جنس پرست مرد بزدل اور نسوانی ہوتے ہیں۔ تمام عیسائی بائبل کا پرچار کرتے ہیں اور ہم جنس پرستوں سے نفرت کرتے ہیں۔ تمام سیاہ فام افریقی امریکی خیرات پر پلتے ہیں۔
تمام نیویارک کے رہنے والے اکھڑ اور بدتمیز ہیں اور تمام سیاستدان چالباز اور فراڈ ہیں۔'' وہ کہتی ہے ان فقروں کے پڑھنے کے بعد آپ کے جسم میں ایک سنسنی ضرور دوڑی ہوگی۔ لیکن یہ امریکی معاشرے کی ایک بدترین حقیقت ہے اور یہ میں نے اپنی زندگی کے ان تجربات سے نچوڑی ہے جو مجھے ہر طرح کے امریکی کے ساتھ انتہائی قربت کے لمحات میں حاصل ہوئے۔ اس نے اپنا شہرہ آفاق مضمون Steady Decline of Affection in America ''امریکا میں جذبہ ترحم کا خاتمہ'' لکھا تو ٹیلی ویژن پر اسے بلا کر رگیدنا شروع کیا گیا۔ اس نے کہا کہ میرے لیے کوئی حیرت کی بات نہ تھی کہ جب امریکیوں کی اکثریت یہ ماننے سے کو تیار نہ تھی کہ ایک طوائف بھی پڑھی لکھی ہو سکتی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے کچھ نہیں کیا۔ اس نے امریکی معاشرے میں تعصبات کا گہرائی سے مطالعہ کیا۔ اس کو معلوم ہوگیا کہ امریکا کا انسانی حقوق، برابری و مساوات اور جذبہ خیر خواہی کا لبادہ ایک منافقت ہے۔ امریکی سفید فام متعصب ہے، امریکی عیسائی مذہبی منافرت پر یقین رکھتا ہے اور امریکی عوام ایک اہم عہدے اور پیسے کے اعتبار سے کامیاب خاتون کو تنہا اور خاندانی طور پر ناکام تصور کرتے ہیں۔ اسے یقین تھا کہ اگر اس نے ان تعصبات کو نعرہ بنا لیا تو پھر جمہوریت اور جمہوری نظام کا تو خمیر ہی تعصب سے اٹھتا ہے۔ وہاں فتح اسی تعصب کی ہوتی ہے جس کی اکثریت ہو۔ اکثریت کا تعصب، اکثریت کی جمہوری آمریت قائم کرتا ہے اور بالآخر منافقت کا خاتمہ کرتا ہے۔ یہ صرف ابھی دو جمہوریتوں بھارت اور امریکا میں ہوا ہے۔ باقیوں کا انتظار کرو۔
ایک گروہ اخلاقی اقدار، معاشرتی اصلاح اور قدیم خاندانی طرز زندگی کے احیاء کی بات کرے گا تو دوسرا معاشی ترقی، انسانی حقوق اور جدید بے لگام بدلتی اقدار کی حمایت میں آواز بلند کرے گا۔ نظریات کی یہ لڑائی جمہوری سیاست میں دونوں گروہوں کو اس قدر سخت مؤقف اپنانے پر مجبور کر دیتی ہے کہ کوئی اپنی بات سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ لیکن جہاں معاشرہ نظریاتی سیاست کے بجائے روایتی گروہی سیاست کا امین ہو اور دنیا کے اکثر معاشرے اسی طرح تقسیم ہوئے ہیں' وہاں جمہوری سیاست تعصبات، نفرت، غصہ، انتقام اور تصادم کے عروج پر ہوتی ہے۔
گزشتہ تین سو سال کی جمہوری تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ اس نظام نے انسانی حقوق، عدل و مساوات، عوام کی بالادستی اور آمریت سے نجات کے جو کھوکھلے نعرے بلند کیے تھے وہ سب کے سب وقت گزرنے اور اس نظام کے بالغ ہونے کے ساتھ ہی تعصبات اور نفرتوں کے سیلاب میں بہہ گئے۔ ہر ملک کے جمہوری سیاسی نظام نے لوگوں کوایک سبق سکھایا کہ یہ الیکشن سسٹم اور پارٹی سیاست تمام عوام کے لیے پیدا نہیں ہوئی بلکہ یہ اکثریت کی بدترین آمریت کے لیے تخلیق کی گئی ہے۔ یعنی ایک گروہ جس کی اکثریت ہے اگر وہ کسی دوسرے کمزور اور چھوٹے گروہ کے خلاف متحد ہو جائے تو پھر وہ اسے جمہوری طور پر شکست دے کر اس کا جینا دوبھر کر سکتا ہے۔
امریکی معاشرے کی دو سو تیس (230) سالہ جمہوری تاریخ کا نچوڑ آخر کار یہ نکلا کہ وہ تمام تر تعصبات اور نفرتیں جو دلوں میں موجود تھیں انھوں نے جمہوری منافقت کا لبادہ تار تار کر دیا اور سفید فام اکثریت نے متحد ہو کر یہ ثابت کر دیا کہ وہ سیاہ فام امریکیوں، مسلمانوں اور تارکین وطن کی اقلیت کو کیسے شکست دیتے ہیں اور پورے امریکی معاشرے پر کیسے اپنے تعصب کا راج نافذ کرتے ہیں۔ دنیا کا ہر جمہوری ملک اب اسی راستے پر گامزن ہے اور اس کا آغاز دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت سے ہوا تھا۔ وہ ملک جس کی سیاست کی بنیاد اس منافقت پر مبنی تھی کہ وہ سیکولر ہیں، تمام مذاہب کا احترام کرتے ہیں۔
انسانوں کو رنگ، نسل اور مذہب سے بالاتر ہوکر برابر سمجھتے ہیں۔ لیکن بھلا ہو اس جمہوری سیاست اور جمہوری نظام کا کہ اس نے بار بار کے انتخابات سے بھارت میں موجود ہندو اکثریت کو یہ یقین دلا دیا کہ اگر تم ہندو مذہب کے نام پر اکٹھا ہو جاؤ تو پھر تمہیں کوئی الیکشن میں شکست نہیں دے سکے گا۔ کوئی تمہیں اقتدار میں آنے سے نہیں روک سکے گا۔ پھر وہی ہوا، جمہوری بھارت کی تخلیق کے ٹھیک انچاس (49) سال بعد 19 مارچ 1998ء میں متعصب ترین ہندو تنظیموں کی آشیرباد اور ہندو اکثریت ووٹ کی بدولت اٹل بہاری واجپائی ایک ہندو ''مُلا'' کی نفسیات لے کر حکمران بنا۔ لیکن ابھی جمہوری نظام کی منافقت جاری تھی۔ ابھی سیکولرازم، برابری اور انسانی حقوق کے نعروں کے بغیر پارٹی چلانا اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔
ابھی شاید ہندو اکثریت کے دماغ میں اپنی اکثریت کی آمریت کے نفاذ کا سودا نہیں سمایا تھا' لیکن جمہوری انتخابات نے اس تعصب اور نکھار دیا، اور سنوار دیا۔ گجرات کی ریاست میں اسی بدترین ہندو اکثریت کی جمہوری آمریت نریندر مودی کی وزارت اعلیٰ کی صورت موجود تھی۔ اس نے جس طرح مسلمان اقلیت کے خون سے ہولی کھیلی، اس جمہوری تجربے نے پورے بھارت کے ہندو ووٹر کو یقین دلا دیا کہ اگر تم اکٹھے ہو جاؤ تو پھر ان مسلمان، عیسائی، سکھ اور دیگر اقلیتوں کو کیسے غلام بنا سکتے ہو، کیسے ان کا قتل عام کرنے کے باوجود بھی ڈکٹیٹر نہیں، جائز جمہوری حکمران کہلا سکتے ہو۔ پھر وہی ہوا، گجرات کی جمہوری اکثریت کی آمریت پورے بھارت پر نریندر مودی کی صورت میں نافذ کر دی گئی۔
بھارت کا جمہوری معاشرہ اپنے تعصبات کو نکھارنے اور سنوارنے اور منافقت کا لبادہ اتارنے میں صرف پچاس سال میں کامیاب ہو گیا جب کہ امریکی معاشرے کو سفید فام اکثریت کے تعصبات کو نکھارنے، سنوارنے اور منافقت کا لبادہ اتارنے میں دو سو تیس (230) سال لگ گئے اور بالآخر ڈونلڈ ٹرمپ اور سوئے ہوئے امریکی سفید فام کے اندر چھپے ہوئے رنگ کے تعصب اور اس سوئے ہوئے امریکی عیسائی کے اندر سے مذہبی تعصب کو جگانے میں کامیاب ہو گیا اور آج جمہوریت کی معراج یعنی اکثریت کی آمریت امریکا میں نافذ ہو گئی۔
امریکی معاشرے کے تعصب کے بارے میں ایک ایسی خاتون مصنفہ کا تبصرہ ان دنوں انتہائی مقبول ہے جس نے امریکی معاشرے کے تعصبات کو انتہائی نچلی سطح پر پرکھا، دیکھا اور برتا ہے۔ بیتھنی سینٹ جیمز (Bethany St. James)۔ بیس سال تک Escort Service یعنی قانونی طوائف کی زندگی گزارنے والی یہ خاتون جسے امریکی معاشرے میں آج بھی ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے، اس نے اپنا یہ پیشہ ترک کیا۔ ایک چرچ میں جاکر مذہبی تعلیم حاصل کی اور پھر امریکی معاشرے کی غلاظتوں پر مضامین لکھنے شروع کیے۔ اس نے اپنے تمام مضامین میں امریکی معاشرے کے اندر چھپے ہوئے تعصبات کو سامنے لانے کی کوشش کی۔ وہ اپنی اس کوشش کو ''Existance of Endurance'' ''یعنی برداشت کا وجود'' قرار دیتی ہے۔
اس نے امریکی معاشرے کی تصویر اپنے ایک مضمون Stereotyping and Prejudice in Beleive and Well in American Socity (امریکی معاشرے میں تعصبات اور لکیر کی فقیر زندگی بہت اہم ہیں)۔ اس مضمون میں وہ امریکی عوام کے تعصبات کو ان الفاظ میں بیان کرتی ہے۔ ''تمام اعلیٰ مقام اور پیشہ ور خواتین کنواری اور تنہا ہوتی ہیں۔ تمام لاطینی امریکی غیر قانونی تارکین وطن ہیں۔ تمام سفید فام اپنے آپ کو برتر سمجھتے ہیں۔ تمام ہم جنس پرست مرد بزدل اور نسوانی ہوتے ہیں۔ تمام عیسائی بائبل کا پرچار کرتے ہیں اور ہم جنس پرستوں سے نفرت کرتے ہیں۔ تمام سیاہ فام افریقی امریکی خیرات پر پلتے ہیں۔
تمام نیویارک کے رہنے والے اکھڑ اور بدتمیز ہیں اور تمام سیاستدان چالباز اور فراڈ ہیں۔'' وہ کہتی ہے ان فقروں کے پڑھنے کے بعد آپ کے جسم میں ایک سنسنی ضرور دوڑی ہوگی۔ لیکن یہ امریکی معاشرے کی ایک بدترین حقیقت ہے اور یہ میں نے اپنی زندگی کے ان تجربات سے نچوڑی ہے جو مجھے ہر طرح کے امریکی کے ساتھ انتہائی قربت کے لمحات میں حاصل ہوئے۔ اس نے اپنا شہرہ آفاق مضمون Steady Decline of Affection in America ''امریکا میں جذبہ ترحم کا خاتمہ'' لکھا تو ٹیلی ویژن پر اسے بلا کر رگیدنا شروع کیا گیا۔ اس نے کہا کہ میرے لیے کوئی حیرت کی بات نہ تھی کہ جب امریکیوں کی اکثریت یہ ماننے سے کو تیار نہ تھی کہ ایک طوائف بھی پڑھی لکھی ہو سکتی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے کچھ نہیں کیا۔ اس نے امریکی معاشرے میں تعصبات کا گہرائی سے مطالعہ کیا۔ اس کو معلوم ہوگیا کہ امریکا کا انسانی حقوق، برابری و مساوات اور جذبہ خیر خواہی کا لبادہ ایک منافقت ہے۔ امریکی سفید فام متعصب ہے، امریکی عیسائی مذہبی منافرت پر یقین رکھتا ہے اور امریکی عوام ایک اہم عہدے اور پیسے کے اعتبار سے کامیاب خاتون کو تنہا اور خاندانی طور پر ناکام تصور کرتے ہیں۔ اسے یقین تھا کہ اگر اس نے ان تعصبات کو نعرہ بنا لیا تو پھر جمہوریت اور جمہوری نظام کا تو خمیر ہی تعصب سے اٹھتا ہے۔ وہاں فتح اسی تعصب کی ہوتی ہے جس کی اکثریت ہو۔ اکثریت کا تعصب، اکثریت کی جمہوری آمریت قائم کرتا ہے اور بالآخر منافقت کا خاتمہ کرتا ہے۔ یہ صرف ابھی دو جمہوریتوں بھارت اور امریکا میں ہوا ہے۔ باقیوں کا انتظار کرو۔