سڑکوں کو سپریم کورٹ بنا دیں
ملک کی تمام بڑی سڑکیں چیف جسٹس‘ آئی جی‘ وزیراعلیٰ‘ وزیراعظم اور پارلیمنٹ بن چکی ہیں
آپ پرسوں کی مثال لے لیجیے' پولیس نے کراچی میں دو لوگ گرفتار کر لیے' ایک پر اختلافی تقاریر کا الزام تھا اور دوسرے پر فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کا' گرفتاری سے اگلے دن پچاس ساٹھ لوگ ملیر میں اکٹھے ہوئے اور نیشنل ہائی وے بند کر دی' آدھ گھنٹے میں ہزاروں گاڑیاں کھڑی ہو گئیں' ریلوے کی مین لائین بھی قریب تھی' پاکستان ایکسپریس گزری' ہجوم نے ٹرین پر پتھراؤ شروع کر دیا' انجن کے شیشے ٹوٹ گئے' ٹرینوں کی آمدورفت بھی رک گئی' ہجوم کی وجہ سے دکانیں' پٹرول پمپس اور گھروں کی کھڑکیاں دروازے بھی بند ہو گئے۔
پولیس نے مظاہرین سے مذاکرات کیے لیکن وہ ملزمان کی باعزت رہائی کے بغیر سڑک کھولنے کے لیے تیار نہیں تھے' عوام اس دوران دفتروں اور گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے' نیشنل ہائی وے پر سو کلو میٹر تک ٹریفک بلاک تھی' اسکول وینیں بھی پھنس گئیں اور ایمبولینسز بھی سٹک ہو کر رہ گئیں' مسافروں کی فلائیٹس بھی مس ہو گئیں اور نوکری کے لیے انٹرویو دینے والے انٹرویو بھی نہ دے سکے' ڈیلیوری ٹرک بھی پھنس گئے اور ٹرالر اور کنٹینر بھی الجھ گئے' ہزاروں گاڑیوں نے لاکھوں ٹن دھواں پیدا کیا اور یہ مہلک دھواں بھی آبادیوں کے پھیپھڑوں میں جذب ہو گیا' میڈیا پہنچا اور اس نے عوام کو لائیو تھیٹر دکھانا شروع کر دیا۔
یہ سلسلہ ساڑھے آٹھ گھنٹے چلتا رہا' پولیس نے اس دوران تین بار مذاکرات کیے لیکن یہ تینوں مذاکرات کامیاب نہ ہو سکے' پولیس نے 13 گرفتار مظاہرین بھی سڑک کی ایک لین کھولنے کی شرط پر رہا کر دیے مگر احتجاجیوں نے رہائیوں کے باوجود سڑک نہ کھولی یہاں تک کہ ساڑھے آٹھ گھنٹے بعد پولیس مظاہرین پر آنسو گیس اور لاٹھی چارج پر مجبور ہو گئی' شیلنگ کی دیر تھی' مظاہرین بھاگ کر گلیوں میں غائب ہو گئے' پولیس نے پیچھا کیا' چند نوجوانوں نے اہلکاروں پر پتھراؤ کیا مگر یہ سلسلہ بھی ایک آدھ گھنٹے میں ختم ہو گیا' تاہم پولیس کو ٹریفک بحال کرنے میں چار گھنٹے لگ گئے' ساڑھے آٹھ گھنٹے کی تاخیر کے بعد ٹرینیں بھی بحال ہو گئیں لیکن اس دوران لوگوں کو جو کوفت' پریشانی اور تکلیف ہوئی' آپ اس کا اندازہ نہیں کر سکتے۔
یہ کیا ہے؟ یہ اس ملک کے ایک شہر کا ایک دن کا ایک واقعہ ہے' آپ اگر تفصیل میں جائیں تو آپ کو معلوم ہو گا ملک کی تمام بڑی سڑکیں چیف جسٹس' آئی جی' وزیراعلیٰ' وزیراعظم اور پارلیمنٹ بن چکی ہیں' ملک میں جب بھی جس کا بھی دل چاہتا ہے یہ سڑک پر لاش رکھ کر ٹریفک بلاک کر دیتا ہے' یہ دو ٹائر لاتا ہے' سڑک کے درمیان رکھتا ہے' آگ لگاتا ہے اور نامنظور' نامنظور' گو' گو کے نعرے لگانے لگتا ہے اور یوں چند سیکنڈ میں بیچارے شہری اپنے تمام حقوق سے محروم ہو جاتے ہیں' مریض ایمبولینس میں مر جاتے ہیں' مسافر فلائیٹس سے رہ جاتے ہیں' بچے اسکولوں' کالجوں اور یونیورسٹیوں میں نہیں پہنچ پاتے' دفتر جانے والے دفتر' گھر جانے والے گھر اور مارکیٹ جانے والے مارکیٹ نہیں پہنچتے اور لوگ نوکریوں' امتحانوں اور ڈاکٹروں سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔
آپ کسی دن شہر کی کسی مرکزی سڑک پر نکل جائیں آپ کو وہاں کوئی نہ کوئی تماشا ضرور ملے گا' لوگوں کو پولیس تنگ کرتی ہے تویہ مرکزی سڑک پر سینہ کوبی شروع کر دیتے ہیں' لوگ جج تک اپنی فریاد پہنچانا چاہتے ہیں تویہ سڑک پر لیٹ جاتے ہیں اور یہ تنخواہوں میں اضافہ چاہتے ہیں' یہ اپنی کچی نوکری کو پکا کرنا چاہتے ہیں' یہ اپنے پے اسکیل کو وسیع کرنا چاہتے ہیں اور یہ اگر اپنے مریض کا بروقت آپریشن کرانا چاہتے ہیں تو یہ شہر کی مرکزی شاہراہ پر دھرنا دے کر بیٹھ جائیں گے' میڈیا آئے گا' کیمرے اور مائیک لگیں گے اور ان کا کام ہو جائے گا لیکن ان کے کام کی وجہ سے جن ہزاروں لوگوں کو تکلیف پہنچی وہ کہاں جائیں' وہ کہاں فریاد کریں' یہ شاید ان لوگوں کا مسئلہ نہیں' عام لوگ خواہ جہنم میں چلے جائیں ان لوگوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
آپ لاہور کی مال روڈ کو دیکھ لیجیے' یہ روڈ دس برسوں سے احتجاج کا شکار ہے' یہ ڈاکٹروں' نرسوں اور اساتذہ کی احتجاج گاہ بن چکی ہے' راولپنڈی میں مری روڈ' فیض آباد' ایکسپریس وے اور فیصل ایونیو بھی اکثر کسی نہ کسی دھرنے کا ہدف رہتی ہے' کراچی کی نیشنل ہائی وے اور شاہراہ فیصل پر بھی ٹائر جلتے بجھتے رہتے ہیں' کوئٹہ میں لاشیں سڑکوں پر رکھنے کا رواج عام ہے اور آپ اگر ذرا سی ریسرچ کریں گے تو آپ کو پشاور کی سڑکیں بھی احتجاج کا شکار نظر آئیں گی' آپ کسی دن جی ٹی روڈ کا جائزہ بھی لے لیں آپ کو یہ بھی جگہ جگہ سے بند ملے گی' آپ کو اس کے کسی نہ کسی پورشن پر کوئی نہ کوئی دھڑا قابض نظر آئے گا' یہ کیا ہے' یہ کیوں ہے اور اس کا ذمے دار کون ہے؟ میں ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کو اس صورتحال کا ذمے دار سمجھتا ہوں' کیسے؟
کیا یہ سچ نہیں ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر آصف علی زرداری تک پاکستان پیپلزپارٹی نے تمام بڑی سیاسی کامیابیاں سڑکوں پر حاصل کیں' بھٹو کا سیاسی کیریئر ٹرین سے شروع ہوا تھا' یہ ایوب خان کی کابینہ سے نکلنے کے بعد ٹرین میں سوار ہوئے' ہر ریلوے اسٹیشن پر تقریر کی اور لاہور پہنچتے پہنچتے لیڈر بن گئے' اس دن ریلوے کا سارا شیڈول خراب ہو گیا تھا' ٹرینیں پانچ پانچ گھنٹے لیٹ تھیں' ایوب خان کے خلاف پوری تحریک سڑکوں پر پروان چڑھی' مشرقی پاکستان بھی سڑکوں پر بنگلہ دیش بنا' بھٹو کے خلاف تحریک نے بھی سڑکوں پر جنم لیا۔
جنرل ضیاء الحق کو بھی سڑکوں نے الیکشن کرانے پر مجبور کیا' میاں نواز شریف کو بھی سڑکوں نے صنعت کار سے سیاستدان بنایا' بے نظیر بھٹو بھی سڑکوں کے ذریعے مشرق کی بیٹی بنی' عدلیہ بحالی کی تحریک بھی سڑکوں پر پروان چڑھی' جنرل مشرف کا یونیفارم بھی سڑکوں نے اتارا' آصف علی زرداری بھی سڑکوں کے ذریعے دبئی منتقل ہوئے' عمران خان کو بھی سڑکوں نے قائد تبدیلی بنایا اور میاں نوازشریف بھی اب سڑکوں کی وجہ سے پانامہ کے شکنجے میں آئے ہیں لہٰذا عوام جب یہ دیکھتے ہیں ہمارے سیاستدان سڑکیں' ریلوے ٹریک اور شہر بند کر کے عظیم قائدین بن جاتے ہیں۔
یہ سڑک سے وزیراعظم ہاؤس اور ایوان صدر پہنچ جاتے ہیں تویہ بھی سڑکوں کو امرت دھارا مان لیتے ہیں' یہ بھی فیل ہونے کے بعد سڑک بلاک کرتے ہیں اور پورا امتحانی نظام تبدیل کرا دیتے ہیں' یہ سڑک بلاک کر کے کچی نوکریوں کو پکا کرا لیتے ہیں' یہ اپنی تنخواہیں بڑھا لیتے ہیں' یہ اپنی معطلی ری ورس کرا لیتے ہیں' یہ ایس ایچ او' ڈی ایس پی اور ایس پی کو فارغ کرا دیتے ہیں' یہ قاتل کو گرفتار کرا دیتے ہیں اور یہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کو سوموٹو نوٹس پر مجبور کر دیتے ہیں' عوام سمجھتے ہیں سڑکیں ہماری عدالت' پولیس اسٹیشن' وزیراعلیٰ' وزیراعظم' صدر اور پارلیمنٹ ہیں' عوام کے یہ خیالات غلط بھی نہیں ہیں۔
ملک میں جب آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ سڑکیں کریں گی اور جب الیکشن میں دھاندلی کے خلاف جوڈیشل کمیشن اور پانامہ لیکس پر لارجر بینچ سڑکیں بنوائیںگی تو پھر عوام انصاف کے لیے لاشیں سڑکوں پر کیوں نہیں رکھیں گے' یہ تنخواہوں میں اضافے کے لیے سڑکیں بلاک کیوں نہیں کریں گے اور یہ پے اسکیل' نوکری کی بحالی اور مستقل ملازمت کے لیے سڑکوں پر پٹیشن دائر کیوں نہیں کریں گے 'یہ ہو رہا ہے اور یہ اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک ہم اپنی سوچ نہیں بدلتے۔
ہمارے پاس اب دو آپشن بچتے ہیں' ہم سڑکوں کو اپنا آئین' قانون' ضابطہ' عدالت' سسٹم اور اقتدار اعلیٰ ڈکلیئر کر دیں' لوگ آئیں' یہ جتنی دیر سڑک بلاک رکھ سکیں ' یہ جتنے لوگوں کو بنیادی حقوق' سکون اور آرام سے محروم کر سکیں ان کے اتنے مطالبات مان لیے جائیں' انھیں اتنا انصاف دے دیا جائے یا پھر ہم یہ سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیں۔
سپریم کورٹ حکم جاری کرے ملک کا جو بھی شہری' لیڈر یا ادارہ کوئی مرکزی شاہراہ بند کرے گا ریاست اسے مجرم سمجھے گی' یہ اس کے خلاف پوری فورس استعمال کرے گی' یہ اس سے املاک اور شہریوں کی تکلیف کا ہرجانہ بھی وصول کر ے گی اور جو شخص ہجوم کو لیڈ کرے گا وہ سرکاری عہدے کے لیے ''ڈس کوالی فائی'' ہو جائے گا' سپریم کورٹ حکم جاری کرے حکومت ملک میں درجن بھر تحریر اور تقسیم اسکوائر بنا دے' عوام نے جتنا احتجاج کرنا ہے یہ وہاں جا کر کریں لیکن انھیں سڑک بلاک کرنے کا کوئی حق نہیں ہو گا' یہ راستہ نہیں روک سکیں گے۔
چیف جسٹس آف پاکستان یہ کام بہت آسانی سے کر سکتے ہیں' یہ ایک حکم جاری کریں گے اور عوام کو سکھ کا سانس مل جائے گا اور اگر چیف جسٹس کے پاس وقت نہیں ہے تو پھر یہ مہربانی فرما کر سڑکوں کو سپریم کورٹ کا درجہ دے دیں' یہ شاہراہوں کو فل بینچ ڈکلیئر کر دیں' لوگ سڑکوں پر آئیں اور اپنے فیصلے کرا لیں' نہ وکیل کا خرچہ اور نہ تاریخ پر تاریخ' بس دو ٹائر جلیں' دس گھنٹے ٹریفک بلاک ہو اورلوگوں کے مطالبات منظور ہو جائیں' بات ختم' انصاف ہو گیا۔
پولیس نے مظاہرین سے مذاکرات کیے لیکن وہ ملزمان کی باعزت رہائی کے بغیر سڑک کھولنے کے لیے تیار نہیں تھے' عوام اس دوران دفتروں اور گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے' نیشنل ہائی وے پر سو کلو میٹر تک ٹریفک بلاک تھی' اسکول وینیں بھی پھنس گئیں اور ایمبولینسز بھی سٹک ہو کر رہ گئیں' مسافروں کی فلائیٹس بھی مس ہو گئیں اور نوکری کے لیے انٹرویو دینے والے انٹرویو بھی نہ دے سکے' ڈیلیوری ٹرک بھی پھنس گئے اور ٹرالر اور کنٹینر بھی الجھ گئے' ہزاروں گاڑیوں نے لاکھوں ٹن دھواں پیدا کیا اور یہ مہلک دھواں بھی آبادیوں کے پھیپھڑوں میں جذب ہو گیا' میڈیا پہنچا اور اس نے عوام کو لائیو تھیٹر دکھانا شروع کر دیا۔
یہ سلسلہ ساڑھے آٹھ گھنٹے چلتا رہا' پولیس نے اس دوران تین بار مذاکرات کیے لیکن یہ تینوں مذاکرات کامیاب نہ ہو سکے' پولیس نے 13 گرفتار مظاہرین بھی سڑک کی ایک لین کھولنے کی شرط پر رہا کر دیے مگر احتجاجیوں نے رہائیوں کے باوجود سڑک نہ کھولی یہاں تک کہ ساڑھے آٹھ گھنٹے بعد پولیس مظاہرین پر آنسو گیس اور لاٹھی چارج پر مجبور ہو گئی' شیلنگ کی دیر تھی' مظاہرین بھاگ کر گلیوں میں غائب ہو گئے' پولیس نے پیچھا کیا' چند نوجوانوں نے اہلکاروں پر پتھراؤ کیا مگر یہ سلسلہ بھی ایک آدھ گھنٹے میں ختم ہو گیا' تاہم پولیس کو ٹریفک بحال کرنے میں چار گھنٹے لگ گئے' ساڑھے آٹھ گھنٹے کی تاخیر کے بعد ٹرینیں بھی بحال ہو گئیں لیکن اس دوران لوگوں کو جو کوفت' پریشانی اور تکلیف ہوئی' آپ اس کا اندازہ نہیں کر سکتے۔
یہ کیا ہے؟ یہ اس ملک کے ایک شہر کا ایک دن کا ایک واقعہ ہے' آپ اگر تفصیل میں جائیں تو آپ کو معلوم ہو گا ملک کی تمام بڑی سڑکیں چیف جسٹس' آئی جی' وزیراعلیٰ' وزیراعظم اور پارلیمنٹ بن چکی ہیں' ملک میں جب بھی جس کا بھی دل چاہتا ہے یہ سڑک پر لاش رکھ کر ٹریفک بلاک کر دیتا ہے' یہ دو ٹائر لاتا ہے' سڑک کے درمیان رکھتا ہے' آگ لگاتا ہے اور نامنظور' نامنظور' گو' گو کے نعرے لگانے لگتا ہے اور یوں چند سیکنڈ میں بیچارے شہری اپنے تمام حقوق سے محروم ہو جاتے ہیں' مریض ایمبولینس میں مر جاتے ہیں' مسافر فلائیٹس سے رہ جاتے ہیں' بچے اسکولوں' کالجوں اور یونیورسٹیوں میں نہیں پہنچ پاتے' دفتر جانے والے دفتر' گھر جانے والے گھر اور مارکیٹ جانے والے مارکیٹ نہیں پہنچتے اور لوگ نوکریوں' امتحانوں اور ڈاکٹروں سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔
آپ کسی دن شہر کی کسی مرکزی سڑک پر نکل جائیں آپ کو وہاں کوئی نہ کوئی تماشا ضرور ملے گا' لوگوں کو پولیس تنگ کرتی ہے تویہ مرکزی سڑک پر سینہ کوبی شروع کر دیتے ہیں' لوگ جج تک اپنی فریاد پہنچانا چاہتے ہیں تویہ سڑک پر لیٹ جاتے ہیں اور یہ تنخواہوں میں اضافہ چاہتے ہیں' یہ اپنی کچی نوکری کو پکا کرنا چاہتے ہیں' یہ اپنے پے اسکیل کو وسیع کرنا چاہتے ہیں اور یہ اگر اپنے مریض کا بروقت آپریشن کرانا چاہتے ہیں تو یہ شہر کی مرکزی شاہراہ پر دھرنا دے کر بیٹھ جائیں گے' میڈیا آئے گا' کیمرے اور مائیک لگیں گے اور ان کا کام ہو جائے گا لیکن ان کے کام کی وجہ سے جن ہزاروں لوگوں کو تکلیف پہنچی وہ کہاں جائیں' وہ کہاں فریاد کریں' یہ شاید ان لوگوں کا مسئلہ نہیں' عام لوگ خواہ جہنم میں چلے جائیں ان لوگوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
آپ لاہور کی مال روڈ کو دیکھ لیجیے' یہ روڈ دس برسوں سے احتجاج کا شکار ہے' یہ ڈاکٹروں' نرسوں اور اساتذہ کی احتجاج گاہ بن چکی ہے' راولپنڈی میں مری روڈ' فیض آباد' ایکسپریس وے اور فیصل ایونیو بھی اکثر کسی نہ کسی دھرنے کا ہدف رہتی ہے' کراچی کی نیشنل ہائی وے اور شاہراہ فیصل پر بھی ٹائر جلتے بجھتے رہتے ہیں' کوئٹہ میں لاشیں سڑکوں پر رکھنے کا رواج عام ہے اور آپ اگر ذرا سی ریسرچ کریں گے تو آپ کو پشاور کی سڑکیں بھی احتجاج کا شکار نظر آئیں گی' آپ کسی دن جی ٹی روڈ کا جائزہ بھی لے لیں آپ کو یہ بھی جگہ جگہ سے بند ملے گی' آپ کو اس کے کسی نہ کسی پورشن پر کوئی نہ کوئی دھڑا قابض نظر آئے گا' یہ کیا ہے' یہ کیوں ہے اور اس کا ذمے دار کون ہے؟ میں ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کو اس صورتحال کا ذمے دار سمجھتا ہوں' کیسے؟
کیا یہ سچ نہیں ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر آصف علی زرداری تک پاکستان پیپلزپارٹی نے تمام بڑی سیاسی کامیابیاں سڑکوں پر حاصل کیں' بھٹو کا سیاسی کیریئر ٹرین سے شروع ہوا تھا' یہ ایوب خان کی کابینہ سے نکلنے کے بعد ٹرین میں سوار ہوئے' ہر ریلوے اسٹیشن پر تقریر کی اور لاہور پہنچتے پہنچتے لیڈر بن گئے' اس دن ریلوے کا سارا شیڈول خراب ہو گیا تھا' ٹرینیں پانچ پانچ گھنٹے لیٹ تھیں' ایوب خان کے خلاف پوری تحریک سڑکوں پر پروان چڑھی' مشرقی پاکستان بھی سڑکوں پر بنگلہ دیش بنا' بھٹو کے خلاف تحریک نے بھی سڑکوں پر جنم لیا۔
جنرل ضیاء الحق کو بھی سڑکوں نے الیکشن کرانے پر مجبور کیا' میاں نواز شریف کو بھی سڑکوں نے صنعت کار سے سیاستدان بنایا' بے نظیر بھٹو بھی سڑکوں کے ذریعے مشرق کی بیٹی بنی' عدلیہ بحالی کی تحریک بھی سڑکوں پر پروان چڑھی' جنرل مشرف کا یونیفارم بھی سڑکوں نے اتارا' آصف علی زرداری بھی سڑکوں کے ذریعے دبئی منتقل ہوئے' عمران خان کو بھی سڑکوں نے قائد تبدیلی بنایا اور میاں نوازشریف بھی اب سڑکوں کی وجہ سے پانامہ کے شکنجے میں آئے ہیں لہٰذا عوام جب یہ دیکھتے ہیں ہمارے سیاستدان سڑکیں' ریلوے ٹریک اور شہر بند کر کے عظیم قائدین بن جاتے ہیں۔
یہ سڑک سے وزیراعظم ہاؤس اور ایوان صدر پہنچ جاتے ہیں تویہ بھی سڑکوں کو امرت دھارا مان لیتے ہیں' یہ بھی فیل ہونے کے بعد سڑک بلاک کرتے ہیں اور پورا امتحانی نظام تبدیل کرا دیتے ہیں' یہ سڑک بلاک کر کے کچی نوکریوں کو پکا کرا لیتے ہیں' یہ اپنی تنخواہیں بڑھا لیتے ہیں' یہ اپنی معطلی ری ورس کرا لیتے ہیں' یہ ایس ایچ او' ڈی ایس پی اور ایس پی کو فارغ کرا دیتے ہیں' یہ قاتل کو گرفتار کرا دیتے ہیں اور یہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کو سوموٹو نوٹس پر مجبور کر دیتے ہیں' عوام سمجھتے ہیں سڑکیں ہماری عدالت' پولیس اسٹیشن' وزیراعلیٰ' وزیراعظم' صدر اور پارلیمنٹ ہیں' عوام کے یہ خیالات غلط بھی نہیں ہیں۔
ملک میں جب آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ سڑکیں کریں گی اور جب الیکشن میں دھاندلی کے خلاف جوڈیشل کمیشن اور پانامہ لیکس پر لارجر بینچ سڑکیں بنوائیںگی تو پھر عوام انصاف کے لیے لاشیں سڑکوں پر کیوں نہیں رکھیں گے' یہ تنخواہوں میں اضافے کے لیے سڑکیں بلاک کیوں نہیں کریں گے اور یہ پے اسکیل' نوکری کی بحالی اور مستقل ملازمت کے لیے سڑکوں پر پٹیشن دائر کیوں نہیں کریں گے 'یہ ہو رہا ہے اور یہ اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک ہم اپنی سوچ نہیں بدلتے۔
ہمارے پاس اب دو آپشن بچتے ہیں' ہم سڑکوں کو اپنا آئین' قانون' ضابطہ' عدالت' سسٹم اور اقتدار اعلیٰ ڈکلیئر کر دیں' لوگ آئیں' یہ جتنی دیر سڑک بلاک رکھ سکیں ' یہ جتنے لوگوں کو بنیادی حقوق' سکون اور آرام سے محروم کر سکیں ان کے اتنے مطالبات مان لیے جائیں' انھیں اتنا انصاف دے دیا جائے یا پھر ہم یہ سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیں۔
سپریم کورٹ حکم جاری کرے ملک کا جو بھی شہری' لیڈر یا ادارہ کوئی مرکزی شاہراہ بند کرے گا ریاست اسے مجرم سمجھے گی' یہ اس کے خلاف پوری فورس استعمال کرے گی' یہ اس سے املاک اور شہریوں کی تکلیف کا ہرجانہ بھی وصول کر ے گی اور جو شخص ہجوم کو لیڈ کرے گا وہ سرکاری عہدے کے لیے ''ڈس کوالی فائی'' ہو جائے گا' سپریم کورٹ حکم جاری کرے حکومت ملک میں درجن بھر تحریر اور تقسیم اسکوائر بنا دے' عوام نے جتنا احتجاج کرنا ہے یہ وہاں جا کر کریں لیکن انھیں سڑک بلاک کرنے کا کوئی حق نہیں ہو گا' یہ راستہ نہیں روک سکیں گے۔
چیف جسٹس آف پاکستان یہ کام بہت آسانی سے کر سکتے ہیں' یہ ایک حکم جاری کریں گے اور عوام کو سکھ کا سانس مل جائے گا اور اگر چیف جسٹس کے پاس وقت نہیں ہے تو پھر یہ مہربانی فرما کر سڑکوں کو سپریم کورٹ کا درجہ دے دیں' یہ شاہراہوں کو فل بینچ ڈکلیئر کر دیں' لوگ سڑکوں پر آئیں اور اپنے فیصلے کرا لیں' نہ وکیل کا خرچہ اور نہ تاریخ پر تاریخ' بس دو ٹائر جلیں' دس گھنٹے ٹریفک بلاک ہو اورلوگوں کے مطالبات منظور ہو جائیں' بات ختم' انصاف ہو گیا۔