اولاد کو اقتدار میں لانے کے لیے وقفہ ضروری

عمران خان کا پلس پوائنٹ یہ ہے کہ وہ جو کچھ بھی ہیں اپنی حد تک ہیں

sajid.ali@express.com.pk

باخبر ذریعوں سے معلوم ہوا ہے کہ ہمارے ملک کے مقتدر حلقے ایک ایسا قانون بنوانے پر غور کررہے ہیں جس کے تحت ایک ''بیٹھے ہوئے وزیراعظم'' کی اولاد ملک کے اس اہم ترین عہدے پر فائز نہیں ہوسکے گی، یا درمیان میں کم از کم چار سال کا وقفہ دیا جائے گا، اس سلسلے میں وہ شخصیتیں جو برسر اقتدار ہیں اور وہ بھی جو برسر اقتدار آسکتی ہیں ملک و قوم کے وسیع تر مفاد اور عوام کی خواہشات کے احترام میں یہ قربانی دینے کو تیار ہوگئی ہیں۔

اس قانون کی ضرورت اس لیے پڑی کہ ہمارے ملک میں ایسے سیاسی خانوادوں کا خاصا عمل دخل ہوگیا ہے جو اگر قسمت سے ملک کے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز ہوگئے ہیں تو اس بات کو اپنا حق سمجھنے لگے ہیں کہ ان کی اولاد بھی ملک اور عوام پر راج کرے اور نسل در نسل ایک رائل فیملی کی طرح ایک ہی خاندان کی حکمرانی قائم و دائم رہے۔ بعض دوسرے ملکوں میں بھی بادشاہت ہے لیکن وہاں یہ انسٹی ٹیوشن وزارت عظمیٰ سے بالکل الگ ہوتا ہے۔

دور کیوں جائیے، دنیا کے ایک بڑے جمہوری ملک انگلستان کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں ملکہ سربراہ مملکت ہیں مگر محض ایک ''فگر ہیڈ'' جب کہ رموز مملکت وزیراعظم اور ان کی پارٹی چلارہی ہے۔ اسی قسم کا شاہی نظام ہمیں بعض دوسرے ملکوں میں بھی نظر آتا ہے جہاں بادشاہ اور ملکہ محلوں تک محدود ہیں، جن سے عوام کی محض جذباتی وابستگی ہے، ایسے بادشاہ اور ملکائیں ایک علامت ہوتے ہیں اور اپنے ایک لگے بندھے خاندان سے ہی باری باری بادشاہ، ملکہ، شہزادے، اور شہزادیاں پیدا کرتے رہتے ہیں انھیں لوگ دل و جان سے قبول کرتے اور چاہتے ہیں۔

ہمارے ملک میں سیاست دانوں نے بعض دوسرے ملکوں کے بادشاہوں اور ملکاؤں سے یہ نسخہ مستعار لیا ہے اگر کوئی وزیراعظم بنتا ہے اور کچھ میعاد گزارتا ہے تو پھر کوشش کرتا ہے کہ اس کی اولاد بھی وزارت عظمیٰ کا مزہ چکھے اور اس عہدے پر سرفراز ہو۔ بغیر اس بات کو خاطر میں لائے کہ جو صلاحیت اور خوبیاں اس میں ہیں وہ اس کی اولاد میں بھی ہیں یا نہیں؟

اگر ہمارے وزیراعظم اچھی صلاحیت تجربے اور مقبولیت کے حامل ہوں اور ملک کو ''گڈ گورننس'' کے ذریعے اچھی طرح چلارہے ہوں اور پھر آگے چل کر ان کی یہ صلاحیتیں جو God Gifted ہوتی ہیں ان کی اولاد میں منتقل ہوجائیں تو یہ تسلسل ملک اور عوام کو فائدہ پہنچاسکتا ہے۔ اولاد والدین کے مقابلے میں عوام کی زیادہ ہمدرد ثابت ہوسکتی ہیں۔ اس کے برعکس اگر بڑوں نے ہی کوئی تیر نہیں مارا ہو تو چھوٹوں کو مسلط کرنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ عوام جیسا کہ ہمیں اندازہ ہے نسل در نسل حکومت کرنے والے ایسے ''شاہی خاندانوں'' کو پسند نہیں کرتے، تاہم بدقسمتی سے وہ کچھ کر بھی نہیں سکتے، کیوںکہ ان کی قسمت میں محض بے بسی سے پیچ و تاب کھانا اور یہ سب کچھ برداشت کرنا لکھا ہے۔

ادھر پدرم وزیراعظم بود کہتے ہوئے منہ میں سونے کا نوالہ لے کر پیدا ہونے والے سے یہ توقع کرنا کہ وہ عوام کے فائدے کا کوئی کام کرے گا، ایسا ہی ہے جیسے آپ کسی معذور شخص سے کوہ ہمالیہ سر کرنے کی امید باندھ لیں۔ مثلاً کسی ایسے صوبائی یا وفاقی حکمراں سے جس کے باپ دادا نے کبھی بس اور ویگن میں سفر نہ کیا ہو یہ آس باندھ لینا کہ وہ کراچی میں ماس ٹرانزٹ سسٹم لے آئے گا، بے وقوفوں کی جنت میں سیر کرنے کے مترادف ہوگا۔


ہم سمجھ رہے تھے کہ اس اہم اور حساس موضوع پر محض لفاظی اور اشاروں کنایوں میں ہی کچھ لکھنے سے کام چل جائے گا، مگر اتنا کچھ لکھنے لکھانے کے بعد بھی ہمارے کالم کا پیٹ نہیں بھرا ہے اور ہم معذرت کے ساتھ اپنے ملک میں موجود شاہی خاندانوں کے بارے میں اصل حقائق اور ٹو دی پوائنٹ لکھنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

اس قسم کا نسل در نسل چلنے والا ہمارے یہاں پہلا خاندان بھٹو صاحب کا تھا، وہ بلاشبہ اس ملک کے گونا گوں اوصاف کے حامل پہلے عوامی رہنما تھے، ان کے داغ مفارقت دینے کے بعد جسے ان کے ماننے والے عدالتی قتل اور شہادت قرار دیتے ہیں، کچھ عرصے کے لیے بیگم نصرت بھٹو نے پارٹی کی قیادت سنبھالی مگر پھر وہ وقت آیا جب بے نظیر بھٹو وزارت عظمیٰ پر فائز ہوئیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ ان میں کئی لحاظ سے اپنے عظیم باپ کی جھلک نظر آتی تھی، پھر انھیں بھی بڑے افسوس ناک انداز میں شہید کردیا گیا، پھر قرعۂ فال بلاول بھٹو زرداری کے نام نکلا، وہ یقیناً اپنی عظیم والدہ کی طرح اعلیٰ تعلیم یافتہ اور کئی خوبیوں کے حامل ہیں لیکن ابھی انھیں اپنے آپ کو ثابت کرنا باقی ہے، وہ جب تک کراچی میں جو ایک لحاظ سے سندھ کی Window ہے، کچھ کرکے نہیں دکھائیںگے ان کا اپنے آپ کو دوسرے صوبوں سے منوانے اور قومی رہنما بننے کا خواب ادھورا ہی رہے گا، ابھی تک ان کی اور ان کی پارٹی کی مقبولیت محض سندھ تک محدود ہے۔

یہی بات کم و بیش شریف فیملی کے بارے میں کہی جاسکتی ہے کہ مجموعی طور پر شریف برادران اور مسلم لیگ ن کی مقبولیت پنجاب تک محدود ہے، اس فرق کے ساتھ جب کہ پیپلزپارٹی مرکزی حکومت سے دور ہے۔ مسلم لیگ اپنی پنجاب کی برتری کی بنیاد پر پورے ملک پر حکومت کررہی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ شریف برادران نے موقع ملنے پر پنجاب میں زبردست ترقیاتی کام کیے ہیں مگر ابھی تک بوجوہ ان کے سمندر سے دوسرے صوبوں کو محض شبنم ہی ملی ہے، خاص طور پر سندھ اور بلوچستان کو ان کی طرف سے خصوصی توجہ کی ضرورت ہے، کم از کم وہ ملک کے بڑے شہروں کو اورنج ٹرین جیسے منصوبے تحفے میں دے سکتے ہیں اور اس طرح ملک کے تمام طبقوں کے مقبول رہنما بن سکتے ہیں۔

شریف برادران کو اپنے خاندان کے بارے میں اس تاثر کو بھی دور کرنا ہوگا کہ وہ Dynasty بنانا چاہتے ہیں، کسی گدی نشین کی طرح اپنے بعد کسی بیٹے یا بیٹی کو بٹھانا چاہتے ہیں، آپ جتنا زیادہ اور جلدی اس تاثر کو دور کریںگے آپ کی مقبولیت میں اتنا ہی زیادہ اضافہ ہوگا، ہاں وقت آنے پر آپ کے خاندان کے بیٹے اور بیٹیاں خالصتاً میرٹ پر اہم ذمے داریاں سنبھال سکتے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ آپ اپنی کارکردگی بہتر بنائیں عوام کے فائدے کے کام کریں تاکہ لوگ خود آپ کی طویل العمری اور درازیٔ حکومت اور دیرپا اقتدار کی دعائیں کرنے لگیں۔

اب کچھ تذکرہ عمران خان کا، ابھی تک وہ یہ تاثر دینے میں کامیاب رہے ہیں کہ نہ وہ کسی برسر اقتدار کی اولاد میں اور نہ اپنی اولاد میں سے کسی کو اپنی جگہ Install کرکے جائیں گے، اپنے خاندان کے بیشتر لوگوں کو اپنوں نے خود سے دور رکھا ہے، بظاہر وہ جانشینی کے اس فلسفے کے مخالف لگتے ہیں کہ ایک تو خود کوئی خاص کارنامہ نہ کریں اور پھر چلتے وقت عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لیے خود سے بدتر لوگوں کو مسلط کرکے چلے جائیں۔

اس کے ساتھ ہی ابھی تک عمران خان اور ان کی پارٹی جو خیبر پختونخوا میں برسر اقتدار ہے اپنے اس صوبے کو کوئی آئیڈیل صوبہ بنانے میں ناکام رہے ہیں، کم از کم دور سے کوئی ایسا کارنامہ نظر نہیں آتا جو دوسرے صوبوں کے لیے قابل تقلید اور اچھی مثال بن سکے۔ اب بھی وقت ہے کہ وہ خاص طور پر صحت، تعلیم اور (Emancipation of Women) کے شعبوں میں دوسرے صوبوں سے ہٹ کر بلکہ آگے بڑھ کر کچھ کرکے دکھائیں اور اگر واقعی کرچکے ہوں تو اپنے میڈیا منیجرز کو جھنجھوڑ کر جگائیں کہ وہ ملک کے باقی حصوں کے عوام کو کے پی کے حکومت کی کارکردگی سے آگاہ کریں تاکہ آیندہ عام انتخابات میں باقی صوبوں کے عوام بھی پی ٹی آئی کو ووٹ دیں۔

بہرحال عمران خان کا پلس پوائنٹ یہ ہے کہ وہ جو کچھ بھی ہیں اپنی حد تک ہیں اور ان کے بعد عمران کی اولاد میں سے کوئی بھی عوام پر ان کی مرضی کے خلاف مسلط نہیں ہوگا۔
Load Next Story