ٹرمپ کی کامیابی سے نسل پرستی بڑھے گی امریکی اقلیتوں کا خوف
9 سالہ بیٹی کو تشویش ہے امریکا چھوڑنا پڑے گا، بچے اپنی شناخت سے شرمائیں گے، سارہ حیدر
امریکا بھر میں مسلمان ٹرمپ کی جیت کو صدمے اور تشویش کے ملے جلے جذبات کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ یتیم بچوں کے ایک گروپ کیلیے کام کرنیوالی مسلمان خاتون سارہ حیدر کا کہنا ہے کہ ان کی 9سالہ بیٹی کو تشویش ہے کہ اگر ٹرمپ نے واشنگٹن کی باگ ڈور سنبھال لی تو اسے امریکا چھوڑنے پر مجبور کر دیاجائیگا۔
سارہ حیدر کو خود بھی ابھی تک یقین نہیں آرہا کہ ڈونلڈ منتخب ہوگئے ہیں، وہ بتاتی ہیں کہ ''میں یقین نہیں کر سکتی کہ اس قسم کے منفی خیالات رکھنے والا کوئی شخص بھی ووٹنگ میں کامیاب ہوسکتا ہے۔ٹرمپ کی صدارت کا مطلب ہوگا کہ اس ملک میں موجود نسل پرست اور متعصب عناصر اب مزید بے باک ہوجائیں گے۔ انھوں نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے سب سے بڑا خوف یہ ہے کہ میرے بچوں کو ٹرمپ کے دور میں اپنے آپ کو مسلمان کہلواتے ہوئے شرم محسوس ہوسکتی ہے۔
شکاگو میں بزنس کنسلٹنٹ کے طور پر کام کرنے والے رضوان قادر ہلیری کلنٹن کے انتخاب کیلیے پرامید تھے۔ انھوں نے بتایا کہ جب انھوں نے ابتدائی پول نتائج میں ری پبلکن امیدوار کو جیتتے دیکھتے پایا تو وہ یہ دعا کرتے ہوئے بستر پر گر گئے کہ کوئی سیاسی معجزہ ہوجائے اور ہلیری جیت جائیں اور صبح جب میں اٹھوں تو وہ ملک کی صدر ہوںلیکن ایسا نہیں ہوپایا۔قادر نے باور کرایا کہ ایوان نمائندگان کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد اب تو ری پبلکن پارٹی سرکاری طور پر بھرپور طریقے سے ڈرائیونگ سیٹ پر آگئی ہے۔
بوسٹن میں رہنے والی ایک مصنفہ لنڈا کے ورتھیمیر جو خصصی طور پر مذہب ، عدم برداشت وغیرہ کے امور پر لکھتی ہیں انھوں نے بھی نومنتخب صدر کے تقسیم کرنے والے لب ولہجے کے بارے میں تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ '' میں بہت پریشان ہوں، ان کا لب و لہجہ پوری انتخابی مہم کے دوران منقسم کرنے والارہا ہے ۔ مجھے نہیں لگتا کہ ایک ٹائیگر اپنی دھاریاں تبدیل کر سکتا ہے۔
میرا خیال ہے کہ حالیہ انتخابات نے امریکا بھر کی اقلیتوں کو ایک بہت خوفزدہ کردینے والا پیغام بھیجا ہے۔ جہاں بہت سے مسلمان امریکیوں نے ٹرمپ سے بیزاری کا اظہار کیا وہیں بولنگ بروک سے ری پبلکن پارٹی کے سخت حامی اور عہدیدار طلعت رشید کا خیال ہے کہ ٹرمپ کے امریکا میں مسلمان کمیونٹی کے بارے میں ارادے منفی نہیں ہیں۔انھوں نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ سیاست میں حصہ لیں تاکہ ان کی آوازیں سنی جاسکیں۔رشید نے مزید کہا کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ مزید فعال ہوں اور ری پبلکنز تک رسائی حاصل کریں۔
62سالہ طلعت رشید کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم جانبدار رہ کر اور صرف ڈیموکریٹک پارٹی کی حمایت کرنا افورڈ نہیں کر سکتے۔ رشید ٹرمپ کے بھرپور حامی رہے ہیں اور انھیں بالعموم اپنی ہی کمیونٹی کے لوگوں کی جانب سے تنقید کا سامنا رہتا ہے کیونکہ کمیونٹی کے ارکان سمجھتے ہیں کہ طلعت جس شخص کی حمایت کر رہے ہیں اس کے دل میں اسلام کی بہت کم عزت پائی جاتی ہے۔تاہم رشید جنھوں نے ٹرمپ سے فنڈریزنگ ایونٹس پر نجی ملاقاتیں بھی کی ہیں ان کاکہنا ہے کہ ری پبلکن رہنما مین صلاحیت ہے کہ وہ جو وعدے کرتے ہین وہ پورے کر سکیں۔ان کا موقف ہے کہ امریکا میں اسلامو فوبیا ترمپ نے شروع نہیں کیا اور نہ ہی ٹرمپ کے ساتھ یہ ختم ہوگا۔
رشید نہ صرف ایلینائز سے ری پبلکن پارتی کے منتخب رکن ہیں بلکہ وہ جنوری 2017کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی منصوبہ بندی بھی کیے ہوئے ہیں۔ یونیورسٹی آف شکاگو میں کمیونٹی بیسڈ ریسرچ اینڈ ایکسپیرنشیل لرننگ کے ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر کرس اسکریبل نے بھی اقلیوں کے خلاف تقریریں کرنے والے ری پبلکن رہنام کی کامیابی پر مایوسی کا اظہار کای ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ٹرمپ نے اپنے آپ کو ریس بیٹنگ میں الجھایا ہے ۔ان کی زبان پہلے سے موجود تعصبات کو ہوادیتی ہے اور ان کی کامیابی سے نسل پرست تنظیمیں غالباً خوشی سے پھولے نہیں سمارہی ہوں گی۔
نیوویسٹرن یونیورسٹی کے 42سالہ پروفیسر سیزر ٹورس جن کا تعلق میکسیکو سے ہے وہ کہتے ہیں کہ ٹرمپ کے بیانات پر انھیں مایوسی ہوئی بالخصوص جوکچ انہوں نے امریکا میں لاطینی کمیونٹی کے حوالے سے کہا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں لاطینی باشندوں کو زنابالجبر کرنے کا مرتکب قرار دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے خوف کے جذبات تو محسوس نہیں ہوئے لیکن میں اب بھی وہ غصہ محسوس کر سکتا ہوں جو ڈونلڈ ٹرمپ کے خیالات پر بہت سے لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوا۔ انہوں نے نفرت اور تعصب کا ساتھ نہ دینے کی ترغیب دیتے ہوئے کہا کہ ' ہم ڈر کر نہیں رہ سکتے کیونکہ وہ (ٹرمپ) تو یہی چاہتا ہے کہ ہم خوفزدہ رہیں اور میں اسے یہ طاقت دینے سے انکار کرتا ہوں۔''
ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی سے پریشان بنجمن اینڈرسن کا کہنا ہے کہ وہ سفیدفام انتہاپسندوں سے خوفزدہ رتھے جو کہ ری پبلکن امیدوار کی کامیابی سے براہ راست طاقتور ہوئے ہیں۔ 31سالہ بنجمن یونیورسٹی آف ایلینائز کے عمرانی علوم کے شعبے کے طالب علم ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ '' پہلے ہی بہت سے تنفرت پر مبنی جرائم رنگ کی بنیاد پر اور مسلمان امریکیوں کے خلاف ہورہے ہیں، یہ سب کچھ بہت خوفزدہ کرنے والا ہے کیونکہ اس سے نفرت پر مبنی جرائم کو ہوا ملے گی اور اس سے سفید فام نسل پرستوں کو مزید طاقت ملے گی۔
وسکونسن سے تعلق رکھنے والے 28سالہ امام نعمان حسین نے نمازیوں سے کہا ہے کہ وہ پرامن رہیں۔ کسی پریشانی کی ضرورت نہیں ہے نہ ہی امریکا چھورڑ کرجانے کی ضرورت ہے ۔ ہم رجائیت پسند کمیونٹی کے طور پر اس ملک میں موجود رہیں گے قطع نظر اس کے کہ ملک پر کون حکومت کر رہا ہے۔
سارہ حیدر کو خود بھی ابھی تک یقین نہیں آرہا کہ ڈونلڈ منتخب ہوگئے ہیں، وہ بتاتی ہیں کہ ''میں یقین نہیں کر سکتی کہ اس قسم کے منفی خیالات رکھنے والا کوئی شخص بھی ووٹنگ میں کامیاب ہوسکتا ہے۔ٹرمپ کی صدارت کا مطلب ہوگا کہ اس ملک میں موجود نسل پرست اور متعصب عناصر اب مزید بے باک ہوجائیں گے۔ انھوں نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے سب سے بڑا خوف یہ ہے کہ میرے بچوں کو ٹرمپ کے دور میں اپنے آپ کو مسلمان کہلواتے ہوئے شرم محسوس ہوسکتی ہے۔
شکاگو میں بزنس کنسلٹنٹ کے طور پر کام کرنے والے رضوان قادر ہلیری کلنٹن کے انتخاب کیلیے پرامید تھے۔ انھوں نے بتایا کہ جب انھوں نے ابتدائی پول نتائج میں ری پبلکن امیدوار کو جیتتے دیکھتے پایا تو وہ یہ دعا کرتے ہوئے بستر پر گر گئے کہ کوئی سیاسی معجزہ ہوجائے اور ہلیری جیت جائیں اور صبح جب میں اٹھوں تو وہ ملک کی صدر ہوںلیکن ایسا نہیں ہوپایا۔قادر نے باور کرایا کہ ایوان نمائندگان کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد اب تو ری پبلکن پارٹی سرکاری طور پر بھرپور طریقے سے ڈرائیونگ سیٹ پر آگئی ہے۔
بوسٹن میں رہنے والی ایک مصنفہ لنڈا کے ورتھیمیر جو خصصی طور پر مذہب ، عدم برداشت وغیرہ کے امور پر لکھتی ہیں انھوں نے بھی نومنتخب صدر کے تقسیم کرنے والے لب ولہجے کے بارے میں تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ '' میں بہت پریشان ہوں، ان کا لب و لہجہ پوری انتخابی مہم کے دوران منقسم کرنے والارہا ہے ۔ مجھے نہیں لگتا کہ ایک ٹائیگر اپنی دھاریاں تبدیل کر سکتا ہے۔
میرا خیال ہے کہ حالیہ انتخابات نے امریکا بھر کی اقلیتوں کو ایک بہت خوفزدہ کردینے والا پیغام بھیجا ہے۔ جہاں بہت سے مسلمان امریکیوں نے ٹرمپ سے بیزاری کا اظہار کیا وہیں بولنگ بروک سے ری پبلکن پارٹی کے سخت حامی اور عہدیدار طلعت رشید کا خیال ہے کہ ٹرمپ کے امریکا میں مسلمان کمیونٹی کے بارے میں ارادے منفی نہیں ہیں۔انھوں نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ سیاست میں حصہ لیں تاکہ ان کی آوازیں سنی جاسکیں۔رشید نے مزید کہا کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ مزید فعال ہوں اور ری پبلکنز تک رسائی حاصل کریں۔
62سالہ طلعت رشید کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم جانبدار رہ کر اور صرف ڈیموکریٹک پارٹی کی حمایت کرنا افورڈ نہیں کر سکتے۔ رشید ٹرمپ کے بھرپور حامی رہے ہیں اور انھیں بالعموم اپنی ہی کمیونٹی کے لوگوں کی جانب سے تنقید کا سامنا رہتا ہے کیونکہ کمیونٹی کے ارکان سمجھتے ہیں کہ طلعت جس شخص کی حمایت کر رہے ہیں اس کے دل میں اسلام کی بہت کم عزت پائی جاتی ہے۔تاہم رشید جنھوں نے ٹرمپ سے فنڈریزنگ ایونٹس پر نجی ملاقاتیں بھی کی ہیں ان کاکہنا ہے کہ ری پبلکن رہنما مین صلاحیت ہے کہ وہ جو وعدے کرتے ہین وہ پورے کر سکیں۔ان کا موقف ہے کہ امریکا میں اسلامو فوبیا ترمپ نے شروع نہیں کیا اور نہ ہی ٹرمپ کے ساتھ یہ ختم ہوگا۔
رشید نہ صرف ایلینائز سے ری پبلکن پارتی کے منتخب رکن ہیں بلکہ وہ جنوری 2017کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی منصوبہ بندی بھی کیے ہوئے ہیں۔ یونیورسٹی آف شکاگو میں کمیونٹی بیسڈ ریسرچ اینڈ ایکسپیرنشیل لرننگ کے ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر کرس اسکریبل نے بھی اقلیوں کے خلاف تقریریں کرنے والے ری پبلکن رہنام کی کامیابی پر مایوسی کا اظہار کای ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ٹرمپ نے اپنے آپ کو ریس بیٹنگ میں الجھایا ہے ۔ان کی زبان پہلے سے موجود تعصبات کو ہوادیتی ہے اور ان کی کامیابی سے نسل پرست تنظیمیں غالباً خوشی سے پھولے نہیں سمارہی ہوں گی۔
نیوویسٹرن یونیورسٹی کے 42سالہ پروفیسر سیزر ٹورس جن کا تعلق میکسیکو سے ہے وہ کہتے ہیں کہ ٹرمپ کے بیانات پر انھیں مایوسی ہوئی بالخصوص جوکچ انہوں نے امریکا میں لاطینی کمیونٹی کے حوالے سے کہا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں لاطینی باشندوں کو زنابالجبر کرنے کا مرتکب قرار دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے خوف کے جذبات تو محسوس نہیں ہوئے لیکن میں اب بھی وہ غصہ محسوس کر سکتا ہوں جو ڈونلڈ ٹرمپ کے خیالات پر بہت سے لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوا۔ انہوں نے نفرت اور تعصب کا ساتھ نہ دینے کی ترغیب دیتے ہوئے کہا کہ ' ہم ڈر کر نہیں رہ سکتے کیونکہ وہ (ٹرمپ) تو یہی چاہتا ہے کہ ہم خوفزدہ رہیں اور میں اسے یہ طاقت دینے سے انکار کرتا ہوں۔''
ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی سے پریشان بنجمن اینڈرسن کا کہنا ہے کہ وہ سفیدفام انتہاپسندوں سے خوفزدہ رتھے جو کہ ری پبلکن امیدوار کی کامیابی سے براہ راست طاقتور ہوئے ہیں۔ 31سالہ بنجمن یونیورسٹی آف ایلینائز کے عمرانی علوم کے شعبے کے طالب علم ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ '' پہلے ہی بہت سے تنفرت پر مبنی جرائم رنگ کی بنیاد پر اور مسلمان امریکیوں کے خلاف ہورہے ہیں، یہ سب کچھ بہت خوفزدہ کرنے والا ہے کیونکہ اس سے نفرت پر مبنی جرائم کو ہوا ملے گی اور اس سے سفید فام نسل پرستوں کو مزید طاقت ملے گی۔
وسکونسن سے تعلق رکھنے والے 28سالہ امام نعمان حسین نے نمازیوں سے کہا ہے کہ وہ پرامن رہیں۔ کسی پریشانی کی ضرورت نہیں ہے نہ ہی امریکا چھورڑ کرجانے کی ضرورت ہے ۔ ہم رجائیت پسند کمیونٹی کے طور پر اس ملک میں موجود رہیں گے قطع نظر اس کے کہ ملک پر کون حکومت کر رہا ہے۔