قوموں کی بقا کے لیے کہانی کیوں ضروری ہے
عبرانی زبان کی ایک کہاوت ہے کہ خدا نے انسان کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ اسے کہانیاں پسند ہیں۔
PESHAWAR:
ہماے بچپن کے خوابوں میں سے ایک خواب قصّہ خوانی بازار پہنچنا بھی تھا۔ جب ہم ایک دنیا سے ہوتے ہوئے آخرکار بچوں کے ساتھ پہلی مرتبہ پشاور پہنچنے میں کامیاب ہوگئے، تو سچی بات ہے، بچے تو اس جگہ کو دیکھ کر بہت ہی مایوس ہوے لیکن ہم تصور ہی تصور میں ہزاروں سال پہلے یہاں آنے والے چین، وسط ایشیا اور دور دراز کے ملکوں کے تاجروں کو سرد راتوں میں نان بائی کی دکان کے باہر بان کے پلنگوں پر کوئلے کی انگیٹھیوں یہ لکڑیوں کے الاؤ کے گرد بیٹھ کر، گرم سماوار سے اٹھتی ہوئی بھاپ کے ارغوانی دھوئیں میں قہوے سے لطف اندوز ہوتے اپنے اپنے دیسوں کی کہانیاں سناتے دیکھ سکتے تھے۔ سچ ہے کہ کہانی سنانے کا فن دنیا کے قدیم ترین فنون میں سے ایک ہے۔
عبرانی زبان کی ایک کہاوت ہے کہ خدا نے انسان کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ اسے کہانیاں پسند ہیں۔ کوئٹہ سے تعلّق رکھنے والی ہماری ایک ہزارہ دوست نے ہماری فرمائش پرایک دفعہ ہمیں فارسی کا ایک شعر سنایا، جس کا مطلب تھا کہ دنیا کے لوگ بچوں کی طرح ہیں، تو تم انہیں جب کوئی بات سمجھانا چاہو، تو اسے کہانی کی صورت بیان کرو۔ قرآن اور دیگر آسمانی کتب کے اسلوب میں بھی ہمیں کہانی کی اہمیت نظر آتی ہے۔ جگہ جگہ قرآن اپنی بات سمجھانے کے لیے چھوٹی اور کہیں بڑی تمثیلوں کا استعمال کرتا ہے۔
اس کے علاوہ چاہے، وہ یونان کا ہومر ہو، جس نے اپنی قوم کی داستانوں کو اپنے نغموں کے ذریعے امر کر دیا یا بابل کے معلّق باغات کی کہانیاں ہوں، سلطنت روما اور ہندوستان کی داستانیں ہوں، تمام قدیم تہذیبوں کے احوال دیو مالائی کہانیوں ہی کے ذریعہ ہم تک پہنچے اور اسی فن نے ان قوموں کی شناخت کو برقرار رکھا۔
ہم دوسری جماعت میں تھے، جب سرمئی رنگ کے کپڑے میں منڈھی ہارڈ کوَر والی روسی لوک کہانیاں ابّو گھر لائے تھے۔ آف وائٹ گلیزڈ کاغذ پر کمپیوٹرائزڈ پریس کے چھوٹے چھوٹے باریک حروف کی تصویرآج بھی ذہن پر نقش ہے، ہم انہیں مہینوں بار بار پڑھتے رہے۔ گو کتاب میں ایک بھی تصویر نہ تھی مگر الفاظ سے جو نقشہ کھینچا گیا تھا، اس کے ذریعہ تخیّل ہی تخیّل میں ہم اکثر روسی برف زاروں میں جا پہنچتے۔
اب یادوں کی برات میں جو براتی بچے ہیں، ان میں شاہ بلوط کے درخت، سفید برف کے درمیان مسافروں کا گھوڑا گاڑیوں میں سفر، اور ایک بڑی دل چسپ حکایت ''کلہاڑی کی لپسی'' موجود ہے۔ اس کہانی میں ایک مسافررات کے وقت ایک گاؤں میں ایک کنجوس بڑھیا کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے، جو گھر میں کھانے کے لیے کچھ نہ ہونے کا بہانہ کرتی ہے، مسافر سمجھ جاتا ہے کہ بڑھیا سے کچھ نکلوانا آسان کام نہیں اور اسے کہتا ہے ''کوئی بات نہیں میں تمہارے اور اپنے لیے کلہاڑی کی لپسی (سالن) بنا لیتا ہوں، تھوڑا سا پانی ہے تو دے دو''۔ بڑھیا حیرت اور بے یقینی سے پانی اور دیگچا حوالے کر دیتی ہے کہ کلہاڑی سے لپسی کیسے بن سکتی ہے؟
پانی دیگچے میں ڈال مسافر کلہاڑی سے اسے ہلانے لگتا ہے۔ ''بہت مزے کی بن رہی ہے لیکن اگر تھوڑا سا نمک ہوتا، تو مزہ دوبالا ہو جاتا''۔ بڑھیا نمک دے دیتی ہے ''اگر تھوڑی سی سبزی مل جاتی تو لطف دو بالا ہو جاتا اور کیا شاندار لپسی تیار ہوتی'' ۔۔۔۔۔اور یوں وہ مسافر باتیں بنا بنا کر بڑھیا سے ایک ایک کر کے سالن بنانے کا سارا سامان حاصل کر لیتا ہے۔ شاید صدیوں پہلے لکھی گئی اس کہانی سے آج مارکیٹنگ اور سیلز پرسنز کی ٹریننگ کی جا سکتی ہے کہ کس طرح لالچ اور تجسس کے انسانی جذبات کوان سے مال نکلوانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ دیس دیس کی کہانیا ں بھی ہم میں سے بہتوں کو یاد ہوں گی، جس میں ایک بڑھیا سے 'بارہ مہینے' ملنے کے لیے آتے ہیں اور وہ سب مہینوں یعنی سب موسموں کی تعریف کرتی ہے، جس پر خوش ہو کر وہ مہینے اسے انعام دیتے ہیں۔ انعام کے لالچ میں اس کی ایک ناشکری پڑوسن بھی اسی راستے میں جا کھڑی ہو جاتی ہے لیکن 'مہینوں' سے ملاقات پر ہر مہینے کی برائی کرتی ہے، جس پر مہینے اس سے ناراض ہو جاتے ہیں۔ سزا کیا دیتے ہیں، یہ تو یاد نہیں لیکن ایسی کہانیوں کے اختتام مجھے یاد ہیں، زیادہ تر سبق آموز ہوتے اورماحول ایسا تخلیق کیا جاتا کہ پڑھنے والا چاہے بچہ ہو یا بڑا کتاب بند کرنے کے بعد بھی دنوں اس کہانی میں زندہ رہتا۔
اور فکشن یعنی افسانہ تو خیر، اب تو دنیا بھر میں نان فکشن میں بھی اسٹوری یعنی کہانی کا لفظ مستعمل ہے۔ صحافت سے منسلک لوگ نیوز ہو یا فیچر اسے اسٹوری یعنی کہانی ہی کہتے ہیں۔ جرنلزم کی تعلیم دینے والے ادارے ہوں یا تخلیقی علوم مثلاً فیچر فلم اور ڈاکومنٹری فلم میکنگ، creative writing ہو یا ایڈورٹائیزنگ، طالب علموں کو کہانی بننے کا فن ضرور سکھاتے ہیں کہ ان تمام فنون کا مقصد کمیونیکشن ہے، جو کہانی ہی کے ذریعہ ممکن ہے۔ یعنی آپ کوئی خبر لکھیں یا اداریہ؛ پڑھنے والے کے لیے شروع سے آخر تک اسے کہانی کی صورت دینا ہو گی ورنہ آپ کی بات محض ایک موضوع ہے، جسے ترتیب میسّر نہیں۔
لکھنے کے شوقین افراد اکثر کہتے ہیں ہمیں بھی لکھنا سکھایے، ہمارے ذھن میں آئیڈیاز بہت ہوتے ہیں، جو ہم شیئر کرنا چاہتے ہیں مگر مضمون کی شکل نہیں دے پاتے۔ دراصل آئیڈیاز کی یہی ترتیب، جس کے ذریعے مصنّف قاری کے ذہن کوشروع سے آخر تک ساتھ لے کر چلے اور اپنی بات اس کے ذہن میں اتا رتا جاتا ہے۔ کہانی بننے کا فن، چاہے وہ فلم میکنگ میں استعمال ہو یا سیریل ڈرامے میں، اخبار کا کوئی فیچر ہو، یا کسی شیمپو کا اشتہار، یا نصاب کی کتا ب کا کوئی مضمون، فائینل پروڈکٹ کہانی ہی کہلاتی ہے، بل کہ ہوتی ہے۔
حال ہی میں ٹیلی کاسٹ ہونے والا ڈراما "اڈ اری" کہانی کاری کی اچھی مثال تھا، جس میں بہت سادہ پلاٹ کے ذریعہ ایک ایسے معاشرتی مسئلے کو خوب صورتی سے واضح کیا گیا، جس کی جڑیں ہمارے معاشرے میں بہت گہری ہیں لیکن جسے چھوٹا مسئلہ سمجھ کر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔
ادب کی کوئی بھی صنف ہو، کہانی بُننے کا فن اس کی اساس ہے۔ آج کے دور میں اس فن کا سیکھنا اور اسے پروان چڑھانا تفریح کے علاوہ قوموں کی بقا کے لیے بھی بہت ضروری ہے، اسی کے ذریعے قوم کو اپنی شناخت پر فخر کرنا سکھایا جاتا ہے۔
مجھے معلوم ہے پاکستان میں بہت سے دانشورکہلانے والے لوگ مجھ سے اختلاف کریں گے اور اسے پروپیگنڈے کا نام دیں گے مگر کیا کریں، امریکا ہو، کینیڈا ہو یا جرمنی اور بھارت؛ آج دنیا کا ہر قا بل ذکر ملک؛ قوم کو اس کی شناخت سے جوڑنے کے لیے کہانی کا ہی سہارا لیتا ہے۔ ذرا ہالی ووڈ کی کسی ایک فلم کا نام بتا دیں، جس میں امریکیوں کو ولن اور عراقیوں یا افغانیوں کو ہیرو دکھایا گیا ہو؟۔
یہ بھی کہانی کاری ہی ہے، جس کے ذریعے امریکیوں کو سا ری دنیا کے ہمدرد اور بہادری کی اعلیٰ مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور عربوں کو وحشی اور گنوار۔۔۔ اور ہم ہی کیا، خود عرب بھی یہ فلمیں شوق سے دیکھتے ہیں اور امریکیوں کو ہیرو مانتے ہیں۔ اب بالی ووڈ بھی اسی روش پر چل نکلا ہے اور چاہے ہمیں پسند آئے یا یا نہ آئے، ایک متوسط ذہن ایسی کہانیوں کو قبول کرتا ہے۔ اس کا متبادل، متاثر کن کہانی پر مبنی فلمیں اورناول ہی ہو سکتے ہیں، درسی اور بے زار کرنے والے تحقیقی مضامین نہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اس فن کی اہمیت کو سمجھا جائے اور مونٹیسوری سے لے کر اعلیٰ تعلیمی اداروں تک اس فن کی مختلف صورتوں میں ترویج کی جائے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بہت سے لکھنے والے بغیر سیکھے بھی بہت اچھا لکھتے ہیں لیکن آج دنیا میں یہ فن سائنس بن چکا ہے۔ دنیا کے بیشتر ملکوں میں اس فن کی تعلیم دینے کے لیے مستقل ادارے موجود ہیں، جن میں شارٹ ڈاکومینٹریز سے لے کر ناول اور خود نوشت تک کو کہانی کی شکل دینے کے گر سکھائے جاتے ہیں، جن سے دس بارہ سال کا بچہ بھی فلم یا شارٹ اسٹوری کے ذریعے اپنے فنی سفر کا آغاز کرسکتا ہے۔
آج اگر ہم روایتی سوچ کا مظاہرہ کرتے رہے اور ان علوم کو محض تفریحی ادب اور کھیل تماشے کا نام دے کر نظر انداز کرتے رہے، تو قوم جو پہلے ہی سوشل میڈیا اور غیر ملکی ثقافت کے سیلاب میں بہی چلی جاتی ہے، اپنی شناخت پر تفاخر کا احساس کھو بیٹھے گی۔
ہماے بچپن کے خوابوں میں سے ایک خواب قصّہ خوانی بازار پہنچنا بھی تھا۔ جب ہم ایک دنیا سے ہوتے ہوئے آخرکار بچوں کے ساتھ پہلی مرتبہ پشاور پہنچنے میں کامیاب ہوگئے، تو سچی بات ہے، بچے تو اس جگہ کو دیکھ کر بہت ہی مایوس ہوے لیکن ہم تصور ہی تصور میں ہزاروں سال پہلے یہاں آنے والے چین، وسط ایشیا اور دور دراز کے ملکوں کے تاجروں کو سرد راتوں میں نان بائی کی دکان کے باہر بان کے پلنگوں پر کوئلے کی انگیٹھیوں یہ لکڑیوں کے الاؤ کے گرد بیٹھ کر، گرم سماوار سے اٹھتی ہوئی بھاپ کے ارغوانی دھوئیں میں قہوے سے لطف اندوز ہوتے اپنے اپنے دیسوں کی کہانیاں سناتے دیکھ سکتے تھے۔ سچ ہے کہ کہانی سنانے کا فن دنیا کے قدیم ترین فنون میں سے ایک ہے۔
عبرانی زبان کی ایک کہاوت ہے کہ خدا نے انسان کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ اسے کہانیاں پسند ہیں۔ کوئٹہ سے تعلّق رکھنے والی ہماری ایک ہزارہ دوست نے ہماری فرمائش پرایک دفعہ ہمیں فارسی کا ایک شعر سنایا، جس کا مطلب تھا کہ دنیا کے لوگ بچوں کی طرح ہیں، تو تم انہیں جب کوئی بات سمجھانا چاہو، تو اسے کہانی کی صورت بیان کرو۔ قرآن اور دیگر آسمانی کتب کے اسلوب میں بھی ہمیں کہانی کی اہمیت نظر آتی ہے۔ جگہ جگہ قرآن اپنی بات سمجھانے کے لیے چھوٹی اور کہیں بڑی تمثیلوں کا استعمال کرتا ہے۔
اس کے علاوہ چاہے، وہ یونان کا ہومر ہو، جس نے اپنی قوم کی داستانوں کو اپنے نغموں کے ذریعے امر کر دیا یا بابل کے معلّق باغات کی کہانیاں ہوں، سلطنت روما اور ہندوستان کی داستانیں ہوں، تمام قدیم تہذیبوں کے احوال دیو مالائی کہانیوں ہی کے ذریعہ ہم تک پہنچے اور اسی فن نے ان قوموں کی شناخت کو برقرار رکھا۔
ہم دوسری جماعت میں تھے، جب سرمئی رنگ کے کپڑے میں منڈھی ہارڈ کوَر والی روسی لوک کہانیاں ابّو گھر لائے تھے۔ آف وائٹ گلیزڈ کاغذ پر کمپیوٹرائزڈ پریس کے چھوٹے چھوٹے باریک حروف کی تصویرآج بھی ذہن پر نقش ہے، ہم انہیں مہینوں بار بار پڑھتے رہے۔ گو کتاب میں ایک بھی تصویر نہ تھی مگر الفاظ سے جو نقشہ کھینچا گیا تھا، اس کے ذریعہ تخیّل ہی تخیّل میں ہم اکثر روسی برف زاروں میں جا پہنچتے۔
اب یادوں کی برات میں جو براتی بچے ہیں، ان میں شاہ بلوط کے درخت، سفید برف کے درمیان مسافروں کا گھوڑا گاڑیوں میں سفر، اور ایک بڑی دل چسپ حکایت ''کلہاڑی کی لپسی'' موجود ہے۔ اس کہانی میں ایک مسافررات کے وقت ایک گاؤں میں ایک کنجوس بڑھیا کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے، جو گھر میں کھانے کے لیے کچھ نہ ہونے کا بہانہ کرتی ہے، مسافر سمجھ جاتا ہے کہ بڑھیا سے کچھ نکلوانا آسان کام نہیں اور اسے کہتا ہے ''کوئی بات نہیں میں تمہارے اور اپنے لیے کلہاڑی کی لپسی (سالن) بنا لیتا ہوں، تھوڑا سا پانی ہے تو دے دو''۔ بڑھیا حیرت اور بے یقینی سے پانی اور دیگچا حوالے کر دیتی ہے کہ کلہاڑی سے لپسی کیسے بن سکتی ہے؟
پانی دیگچے میں ڈال مسافر کلہاڑی سے اسے ہلانے لگتا ہے۔ ''بہت مزے کی بن رہی ہے لیکن اگر تھوڑا سا نمک ہوتا، تو مزہ دوبالا ہو جاتا''۔ بڑھیا نمک دے دیتی ہے ''اگر تھوڑی سی سبزی مل جاتی تو لطف دو بالا ہو جاتا اور کیا شاندار لپسی تیار ہوتی'' ۔۔۔۔۔اور یوں وہ مسافر باتیں بنا بنا کر بڑھیا سے ایک ایک کر کے سالن بنانے کا سارا سامان حاصل کر لیتا ہے۔ شاید صدیوں پہلے لکھی گئی اس کہانی سے آج مارکیٹنگ اور سیلز پرسنز کی ٹریننگ کی جا سکتی ہے کہ کس طرح لالچ اور تجسس کے انسانی جذبات کوان سے مال نکلوانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ دیس دیس کی کہانیا ں بھی ہم میں سے بہتوں کو یاد ہوں گی، جس میں ایک بڑھیا سے 'بارہ مہینے' ملنے کے لیے آتے ہیں اور وہ سب مہینوں یعنی سب موسموں کی تعریف کرتی ہے، جس پر خوش ہو کر وہ مہینے اسے انعام دیتے ہیں۔ انعام کے لالچ میں اس کی ایک ناشکری پڑوسن بھی اسی راستے میں جا کھڑی ہو جاتی ہے لیکن 'مہینوں' سے ملاقات پر ہر مہینے کی برائی کرتی ہے، جس پر مہینے اس سے ناراض ہو جاتے ہیں۔ سزا کیا دیتے ہیں، یہ تو یاد نہیں لیکن ایسی کہانیوں کے اختتام مجھے یاد ہیں، زیادہ تر سبق آموز ہوتے اورماحول ایسا تخلیق کیا جاتا کہ پڑھنے والا چاہے بچہ ہو یا بڑا کتاب بند کرنے کے بعد بھی دنوں اس کہانی میں زندہ رہتا۔
اور فکشن یعنی افسانہ تو خیر، اب تو دنیا بھر میں نان فکشن میں بھی اسٹوری یعنی کہانی کا لفظ مستعمل ہے۔ صحافت سے منسلک لوگ نیوز ہو یا فیچر اسے اسٹوری یعنی کہانی ہی کہتے ہیں۔ جرنلزم کی تعلیم دینے والے ادارے ہوں یا تخلیقی علوم مثلاً فیچر فلم اور ڈاکومنٹری فلم میکنگ، creative writing ہو یا ایڈورٹائیزنگ، طالب علموں کو کہانی بننے کا فن ضرور سکھاتے ہیں کہ ان تمام فنون کا مقصد کمیونیکشن ہے، جو کہانی ہی کے ذریعہ ممکن ہے۔ یعنی آپ کوئی خبر لکھیں یا اداریہ؛ پڑھنے والے کے لیے شروع سے آخر تک اسے کہانی کی صورت دینا ہو گی ورنہ آپ کی بات محض ایک موضوع ہے، جسے ترتیب میسّر نہیں۔
لکھنے کے شوقین افراد اکثر کہتے ہیں ہمیں بھی لکھنا سکھایے، ہمارے ذھن میں آئیڈیاز بہت ہوتے ہیں، جو ہم شیئر کرنا چاہتے ہیں مگر مضمون کی شکل نہیں دے پاتے۔ دراصل آئیڈیاز کی یہی ترتیب، جس کے ذریعے مصنّف قاری کے ذہن کوشروع سے آخر تک ساتھ لے کر چلے اور اپنی بات اس کے ذہن میں اتا رتا جاتا ہے۔ کہانی بننے کا فن، چاہے وہ فلم میکنگ میں استعمال ہو یا سیریل ڈرامے میں، اخبار کا کوئی فیچر ہو، یا کسی شیمپو کا اشتہار، یا نصاب کی کتا ب کا کوئی مضمون، فائینل پروڈکٹ کہانی ہی کہلاتی ہے، بل کہ ہوتی ہے۔
حال ہی میں ٹیلی کاسٹ ہونے والا ڈراما "اڈ اری" کہانی کاری کی اچھی مثال تھا، جس میں بہت سادہ پلاٹ کے ذریعہ ایک ایسے معاشرتی مسئلے کو خوب صورتی سے واضح کیا گیا، جس کی جڑیں ہمارے معاشرے میں بہت گہری ہیں لیکن جسے چھوٹا مسئلہ سمجھ کر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔
ادب کی کوئی بھی صنف ہو، کہانی بُننے کا فن اس کی اساس ہے۔ آج کے دور میں اس فن کا سیکھنا اور اسے پروان چڑھانا تفریح کے علاوہ قوموں کی بقا کے لیے بھی بہت ضروری ہے، اسی کے ذریعے قوم کو اپنی شناخت پر فخر کرنا سکھایا جاتا ہے۔
مجھے معلوم ہے پاکستان میں بہت سے دانشورکہلانے والے لوگ مجھ سے اختلاف کریں گے اور اسے پروپیگنڈے کا نام دیں گے مگر کیا کریں، امریکا ہو، کینیڈا ہو یا جرمنی اور بھارت؛ آج دنیا کا ہر قا بل ذکر ملک؛ قوم کو اس کی شناخت سے جوڑنے کے لیے کہانی کا ہی سہارا لیتا ہے۔ ذرا ہالی ووڈ کی کسی ایک فلم کا نام بتا دیں، جس میں امریکیوں کو ولن اور عراقیوں یا افغانیوں کو ہیرو دکھایا گیا ہو؟۔
یہ بھی کہانی کاری ہی ہے، جس کے ذریعے امریکیوں کو سا ری دنیا کے ہمدرد اور بہادری کی اعلیٰ مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور عربوں کو وحشی اور گنوار۔۔۔ اور ہم ہی کیا، خود عرب بھی یہ فلمیں شوق سے دیکھتے ہیں اور امریکیوں کو ہیرو مانتے ہیں۔ اب بالی ووڈ بھی اسی روش پر چل نکلا ہے اور چاہے ہمیں پسند آئے یا یا نہ آئے، ایک متوسط ذہن ایسی کہانیوں کو قبول کرتا ہے۔ اس کا متبادل، متاثر کن کہانی پر مبنی فلمیں اورناول ہی ہو سکتے ہیں، درسی اور بے زار کرنے والے تحقیقی مضامین نہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اس فن کی اہمیت کو سمجھا جائے اور مونٹیسوری سے لے کر اعلیٰ تعلیمی اداروں تک اس فن کی مختلف صورتوں میں ترویج کی جائے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بہت سے لکھنے والے بغیر سیکھے بھی بہت اچھا لکھتے ہیں لیکن آج دنیا میں یہ فن سائنس بن چکا ہے۔ دنیا کے بیشتر ملکوں میں اس فن کی تعلیم دینے کے لیے مستقل ادارے موجود ہیں، جن میں شارٹ ڈاکومینٹریز سے لے کر ناول اور خود نوشت تک کو کہانی کی شکل دینے کے گر سکھائے جاتے ہیں، جن سے دس بارہ سال کا بچہ بھی فلم یا شارٹ اسٹوری کے ذریعے اپنے فنی سفر کا آغاز کرسکتا ہے۔
آج اگر ہم روایتی سوچ کا مظاہرہ کرتے رہے اور ان علوم کو محض تفریحی ادب اور کھیل تماشے کا نام دے کر نظر انداز کرتے رہے، تو قوم جو پہلے ہی سوشل میڈیا اور غیر ملکی ثقافت کے سیلاب میں بہی چلی جاتی ہے، اپنی شناخت پر تفاخر کا احساس کھو بیٹھے گی۔