لاک ڈاؤن اسماگ اور نواس داماد

کسی بھی زبان کی تشکیل میں تو ہرخاص وعام کا شعوری و غیرشعوری دخل یا حصہ ہوتا ہے


فیس بک پر ہی جاری بحث میں کسی نے کہا کہ Smogکا ترجمہ دُخانی دھند بہتر ہے۔ فوٹو؛ فائل

گزشتہ دنوں ایک انگریزی مرکب ہم سب کی سماعت و بصارت پر بہت حاوی رہا، Lock down۔تمام ٹیلی وژن چینل اور اخبارات ایک آکسفرڈ پلٹ (Oxford-returned)سیاست داں کی تقریر سے خوشہ چینی کرتے ہوئے، لاک ڈاؤن کی تکرار کرتے رہے۔

اب یہ تو اُس شخص کی عنایت ہے کہ وہ (خواہ بربِنائے ضرورت ہی سہی)، ہر جگہ قومی زبان بولتا ہے اور کہیں غیرضروری انگریزی کا استعمال نہیں کرتا ، مگر قابل ِذکر اور لائق ِ غور نکتہ یہ ہے کہ اگر اسے اس ترکیب کا اردو متبادل نہیں معلوم تو کیا ذرائع ابلاغ میں کوئی بھی نہیں جانتا ( نا جاننا چاہتا ہے ) کہ اس کا آسان اردو ترجمہ ہے: بندش۔ اسی طرح ایک لفظ ہماری زباںدانی کو بھی چیلنج کرتا دکھائی دے رہا ہے، Smog۔اس کے بارے میں فی الحال فیس بک پر مختلف حضرات نے طبع آزمائی شروع کی ہے تاکہ ہمارے ٹی وی چینل اور اخبارات درست ترجمہ کرسکیں۔

ایک چینل نے پہلے تو اسے 'آلودہ دھند' قراردیا......(سوال یہ ہے کہ پاک صاف دھند کونسی ہوتی ہے)...پھر کہا، 'گرد آلود دھند' ]یعنی وہ دھند جس میں گرد(گاف پر زبر) شامل ہو[.....،انگریزی اصطلاح میں تو ایسا کچھ نہیں۔ ذرا توجہ فرمائیں کہ انگریزی میں یہ لفظ دو الفاظ ، اسموک[Smoke]اور فاگ ۔یا۔ فَوگ [Fog]کو ملا کر بنایا گیا ہے۔یاران نکتہ داں کے لیے عرض کرتا ہوں کہ مرحوم ڈاکٹر شان الحق حقی کی مرتبہ (مرتب =میم پر پیش، رے پر زبر، تے پر تشدید اور زبرکا مطلب ، ترتیب دیاہوا، ترتیب دیاگیا۔تے کے نیچے زیر ہوتو اس کا مطلب ہے ترتیب دینے والا)آکسفرڈ انگلش ۔اردو ڈکشنری میں Smogکترجمہ ''دُخانی کُہرا'' کیا ہے۔

آگے بڑھنے سے قبل یہ ضروری ہے کہ ناواقفین کے لیے کچھ بنیادی اصول بیان کیے جائیں۔کسی بھی زبان کی تشکیل میں تو ہرخاص وعام کا شعوری و غیرشعوری دخل یا حصہ ہوتا ہے، مگر زبان کی سند اور معیار کے لیے ہمیشہ اہل زبان، لغات اور ماہرین لسانیات سے رجوع کیا جاتا ہے، ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی غیر اہل زبان یہ کہے کہ اردو کا فُلاں لفظ ، اہل زبان یا لغات کے لحاظ سے جو رائج ہے، مشکل ہے ، ہم تو اسے یوں کہیں گے، بولیں گے یا استعمال کریں گے۔

کوئی عرب آکے نہیں کہہ سکتا کہ نیشنل نا کہو، ہم تو ناسیونال کہتے ہیں، لہٰذا تم بھی یہی اپنالو۔کسی زبان میں کوئی لفظ ، ترکیب یا اصطلاح شامل کرنے کے لیے اُس کا مزاج آشنا ہونا لازم ہے۔یہ وضاحت اس لیے ضروری ہے کہ لوگ اپنی کم علمی، ناقص تعلیم وتربیت اور آموزش سے پَرے رہنے کی روش کے سبب، بڑے آرام سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ جناب لغات میں لکھا ہوا یہ لفظ تو مشکل ہے، یوں ناکرلیں۔یاد رکھیے کہ جب کوئی خبر، اطلاع یا علمی مواد ، ذرائع ابلاغ کی کسی بھی قسم کے ذریعے سے لوگوں تک پہنچانا مقصود ہوگا ، معیاری زبان ہی استعمال ہوگی۔ کوئی اگر چالو زبان [Slang]یا سُوقیانہ (بازاری ) زبان استعمال کرے گا تو ہرگز قابل قبول نہ ہوگا۔

فیس بک پر ہی جاری بحث میں کسی نے کہا کہ Smogکا ترجمہ دُخانی دھند بہتر ہے، کسی نے کہا کہ آلودہ دھند ہی صحیح ہے تو کسی نے مشورہ دیا کہ دھواند کرلیں، کسی نے تجویز دی کہ دھندواں ٹھیک رہے گا تو کسی نے فرمایا کہ گردھند۔ان تمام کی خدمت میں عرض ہے کہ پہلے انگریزی لفظ کا مفہوم سمجھیں، پھر لغات میں دستیاب ترجمے پر غورکریں اور اس کے بعد، اگر آپ اہل زبان ہیں تو تمام نزاکتوں کے پیش نظر ایسا لفظ ایجاد کریں جو فقط آسان ہی نہ ہو، بامعنی بھی ہو۔

بات کی بات ہے کہ اردومیں یہ محاورے پہلے سے رائج ہیں:

۱۔گھرمیں نہیں دانے، میاں چلے بھُنانے اور ۲۔ہاتھ نا مُٹھی، ہَڑبَڑا اُٹھی

پھر(غالباً دیگر زبانوں سے اختلاط کے سبب ) یہ محاورہ بھی رواج پاگیا: جیب میں نہیں دھیلا ، دیکھنے چلے میلہ (اگرآپ کو میلا درست لگے تو یونہی لکھ لیں، مگر وہ مَیلا بمعنی گندہ سے مماثل ہوجائے گا،لہٰذا احتیاط لازم ہے).....اب سنیے ایک مزے کی بات.....میمنوں نے اپنی سہولت کے لیے کیا خو ب محاورہ ایجاد کیا ہے: اوقات نہیں پکوڑوں کی، باتیں کروڑوں کی۔چالو زبان [Slang]یا مذاق کی حدتک تو اس کا استعمال بُرا نہیں، مگر کوئی بھی اسے معیاری اردو کا محاورہ سمجھ کر استعمال نہیں کرے گا۔ایسی اوربھی کئی مثالیں ہیں۔لوگ اپنی نجی گفتگو میں پنجابی لفظ 'ایویں'(ایسے ہی، یونہی) ، سندھی لفظ 'چَریا' (پاگل)یا دیگر علاقائی زبانوں کے ایسے ہی الفاظ اپنی بات واضح اور مختصر کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، مگر یہ بول چال کی زبان ہے، کتابی، معیاری اور اخباری زبان نہیں۔خاکسار موزوں اور برمحل استعمال کے لیے کسی علاقائی زبان سے استفادہ کرنے کا ہرگز مخالف نہیں، بلکہ قائل و عمل پیرا ہے۔ میری ایک ہائیکو میرے مجموعہ کلام ''خوش کُن ہے پَت جھَڑ'' میں شامل کچھ یوں ہے:

مانو پیار پکھی

گوری سے سرگوشی میں

کہہ گئی ایک سکھی

(سہیل احمدصدیقی)

اب اس میں پکھی سے مراد پرندہ ہے جو ناصرف سندھی لفظ ہے ، بلکہ قدیم اردومیں بھی تلاش کرنے پر مل جائے گا، باقی کون سا لفظ ہے جو اس سارے منظر کو نامانوس کردے؟

ابھی ہفتے کو ہمارے ایک قدرے بزرگ دوست نے اپنی ساس کا استفسار دُہرایا کہ وہ اپنی نواسی کے ہونے والے شوہرکو کس رشتے سے یاد کریں یعنی جیسے بیٹی کا شوہر، داماد کہلاتا ہے ،وہ کیا کہلائے گا۔خاکسار نے برجستہ کہا: نواسی کاشوہر، نواس داماد۔اور ہاتھ کے ہاتھ دومثالیں بھی دیں جو اُنہیں بھی یاد تھیں: بھانج داماد اور بھتیج داماد۔ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اہل زبان اپنی ضرورت کے تحت ، کوئی بھی لفظ یا ترکیب ایجاد کرلیتے ہیں۔کوئی کہہ سکتا ہے کہ اردو لغات میں لفظ نواس ایک اور معنی میں بھی ملتا ہے تو عرض یہ ہے کہ وہ لفظ مشہور نہیں۔

کچھ عرصہ قبل ایک اور قدرے بزرگ دوست نے کینیڈا سے ٹیلی فون کرکے دریافت کیا کہ آیا کاوش ، لفظ کوشش کی جمع ہے۔خاکسار نے تردید کرتے ہوئے کہا کہ یہ دونوں الگ الفاظ ہیں۔کہیں اور بھی سنا تھا کہ لوگ ایسا سمجھتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں