بچوں کے گھر سے بھاگنے کے اسباب
اپنے آشیانوں کو دارالامان بنائیے تاکہ آپ کی اولاد امن و سکون سے رہے اور بے راہ روی کا شکار نہ ہو
گھر پورے خاندان کے لیے امن و امان کی قرار گاہ ہوتا ہے۔ اس مضبوط قلعے کے حصار میں بسنے والوں کی آبرو، عزتِ نفس، مال اور جان سب کچھ محفوظ ہوتی ہے۔ ایک چھت کے نیچے غم اور خوشیاں سانجھی ہوتی ہیں، اس کے آنگن میں نسلیں پروان چڑھتی ہیں، اور یہ نعمت قابل صد شکر ہے۔
لیکن آج ہمارے معاشرے میں نوجوان بچے اور بچیاں اپنے اس راحت کدے گھر کو خیرباد کیوں کہہ دیتی ہیں۔۔۔ ؟
یہ سوال جتنا اہم ہے اس کا جواب اتنا ہی تلخ ہے۔ عموماً اس کی وجوہات گھریلو ناچاقی، معاشی مشکلات، تنگ دستی، بھوک و افلاس، باہمی اعتماد کا فقدان، بلاوجہ مارپیٹ اور بات بات پر ڈانٹ ڈپٹ وغیرہ بیان کی جاتی ہیں، جو بچوں کو گھروں سے نکلنے پر مجبور کرتی ہیں۔ ہمیں ان وجوہات سے کوئی اختلاف نہیں ہونا چاہیے کہ یہ مبنی بر صداقت ہیں۔ اس مسئلے کا حل محض وجوہات بتانا نہیں بل کہ ان وجوہات کو حل کرنا ہے، جس کے لیے ہمارا معاشرہ تاحال تیار نہیں اور حالات کو دیکھ کر اندازہ ہو رہا ہے کہ دور دور تک اس کا امکان بھی نہیں۔ لیکن خدائی اصول '' نصیحت کرو کیوں کہ نصیحت فائدہ دیتی ہے'' کے مطابق اپنی معلومات، مشاہدات اور تجربات کی حد تک چند بنیادی باتوں پر قارئین کی توجہ ضروری سمجھتا ہوں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں اپنے گھریلو نظام کا ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے، کہ ہم اپنے بچوں کو کیسا ماحول دے رہے ہیں؟ کیا اس میں بچوں کی تعلیم و تربیت صحیح خطوط پر ہو رہی ہے ؟ لیکن اس سے بھی پہلے یہ ضروری ہے کہ ہم تعلیم و تربیت کے صحیح خطوط کسے سمجھتے ہیں؟ ہر شخص اپنی ذہنی اختراع کو تعلیم و تربیت کا معیار سمجھنے کے بجائے معلم انسانیت صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیش کردہ تعلیم اور مربی اعظمؐ کے مرتب کردہ نظام تربیت کو ہی معیار بنائے اور پھر اسی کے مطابق گھریلو نظام کی بنیادیں رکھے۔
بچوں کی تربیت کے دو پہلو ہیں، جسمانی اور اخلاقی۔ جسمانی طور پر اپنے اہل خانہ کو تن درست رکھنے کے لیے اچھی اور مناسب خوراک کا بندوبست کیا جائے تاکہ ایسے بچوں کی بہ دولت صحت مند معاشرہ تشکیل پا سکے، جب کہ اخلاقی، روحانی اور علمی تربیت کے لیے عمدہ تعلیم، اچھے معلم، اچھی تعلیم گاہیں اور اچھا ماحول دیا جائے تاکہ ان کی بہ دولت صالح افراد کا مقدس معاشرہ تشکیل پا سکے۔
پیدائش کے بعد اسلامی تعلیمات کے مطابق سارے امور انجام دیں مثلاً گھٹی دینا، نومولود کے کان میں آذان و اقامت کہنا، ان کا اچھا نام رکھنا، عقیقہ کرنا، سر کے بال مونڈنا اور بالوں کی مقدار کے برابر چاندی یا اس کی رقم صدقہ کرنا، ختنہ کرنا۔ جب بچہ بولنا شروع ہو تو اسے کلمہ طیبہ اور اﷲ کے مبارک نام یاد کرانا، قرآن کریم کی تعلیم دینا، نماز قائم کرنے کی عادت ڈالنا، سچ بولنے کا خوگر بنانا، بڑوں کا ادب سکھانا، طہارت و غسل کا طریقہ سمجھانا، مسنون اعمال کا پابند بنانا، رات کو جلد سونے اور صبح کو جلد اٹھنے کا عادی بنانا، عقائد اسلامیہ اور روزمرہ کے ضروری مسائل کی تعلیم دلوانا، کسی اﷲ والے سے اصلاحی تعلق قائم کرانا، ان میں دنیا و آخرت بہتر بنانے کی فکر پیدا کرنا، ان کی غیرمناسب حرکات اور غلطیوں کی پیار و محبت اور بہ قدر ضرورت بازپرس سے اصلاح کرنا، غیر اخلاقی باتوں اور کاموں سے روکنا اور معاشرتی جرائم کے ماحول سے انتہائی نگہداشت میں رکھنا، غلط سوسائٹی، دوستی اور تعلقات سے دور رکھنا۔
تمام ایسے ذرائع و آلات سے دور رکھنا جن سے بچوں میں غیر شعوری طور پر فکری و تہذیبی فساد پیدا ہوتا ہے۔ مثلاً فحش ویب سائٹس اور سوشل میڈیا کا غلط استعمال۔ ان کے لیے معیاری عصری تعلیم گاہوں کا انتخاب کرنا، بچوں کے ہوم ورک کی نگرانی کرنا، ہر کام کو سلیقہ مندی سے کرنے کا عادی بنانا، اچھے کاموں پر خوب حوصلہ افزائی جب کہ غلط کاموں پر مناسب انداز میں احساس ندامت دلانا، ان کی جسمانی صحت کا بھرپور خیال رکھنا، ورزش، کھیل کود کے لیے انہیں وقت دینا، معیاری خوراک دینا اگرچہ سادہ ہی ہو، بازاری مضر صحت اشیاء سے پرہیز کرانا وغیرہ۔ ال غرض ان کو بھرپور پیار دینا اور ان کی تمام ضروریات کو پورا کرنا اولاد کی تربیت کہلاتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ بلوغ کے بعد بچے اور بچی کی رضامندی معلوم کرکے مناسب رشتے مل جانے پر جلد ہی نکاح کر دینا۔
اگر بہ طور والدین یا سرپرست ہونے کے آپ بچوں کی پسند کو کسی وجہ سے درست نہیں دیکھ رہے تو انہیں اعتماد میں لے کر پیار و محبت سے انہیں قائل کرنے کی کوشش کریں ورنہ بچوں اور بچیوں میں بغاوت کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے جس کے باعث وہ اپنے ہی پیارے گھر اور گھر والوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنا شروع کرتے ہیں اور نتیجتاً اپنے اس مسکن کو خیر باد کہہ دیتے ہیں۔
ہم اپنے بچوں کی تربیت کیسی کر رہے ہیں ؟
اگر تربیت اچھی کر رہے ہیں تو یہی اولاد آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اور اگر ہم تربیت میں غفلت برت رہے ہیں یا انہیں وقت نہیں دے پا رہے تو ہماری یہ نسل بگڑ جائے گی۔ پھر انہیں نافرمان ہونے کے طعنے دینا اپنی غلطیوں کو پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہوگا۔ جس پر باضمیر لوگوں کا ضمیر ملامت کیے بغیر نہیں رہے گا۔ اس لیے بچوں کو سدھارنے سے پہلے خود کو سدھاریں۔ اپنے گھروں کو ''دارالامان'' بنائیے تاکہ آپ کی اولا گھروں سے نکل کر کسی اور ''دارالامان'' کو نہ تلاشتی پھرے۔
لیکن آج ہمارے معاشرے میں نوجوان بچے اور بچیاں اپنے اس راحت کدے گھر کو خیرباد کیوں کہہ دیتی ہیں۔۔۔ ؟
یہ سوال جتنا اہم ہے اس کا جواب اتنا ہی تلخ ہے۔ عموماً اس کی وجوہات گھریلو ناچاقی، معاشی مشکلات، تنگ دستی، بھوک و افلاس، باہمی اعتماد کا فقدان، بلاوجہ مارپیٹ اور بات بات پر ڈانٹ ڈپٹ وغیرہ بیان کی جاتی ہیں، جو بچوں کو گھروں سے نکلنے پر مجبور کرتی ہیں۔ ہمیں ان وجوہات سے کوئی اختلاف نہیں ہونا چاہیے کہ یہ مبنی بر صداقت ہیں۔ اس مسئلے کا حل محض وجوہات بتانا نہیں بل کہ ان وجوہات کو حل کرنا ہے، جس کے لیے ہمارا معاشرہ تاحال تیار نہیں اور حالات کو دیکھ کر اندازہ ہو رہا ہے کہ دور دور تک اس کا امکان بھی نہیں۔ لیکن خدائی اصول '' نصیحت کرو کیوں کہ نصیحت فائدہ دیتی ہے'' کے مطابق اپنی معلومات، مشاہدات اور تجربات کی حد تک چند بنیادی باتوں پر قارئین کی توجہ ضروری سمجھتا ہوں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں اپنے گھریلو نظام کا ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے، کہ ہم اپنے بچوں کو کیسا ماحول دے رہے ہیں؟ کیا اس میں بچوں کی تعلیم و تربیت صحیح خطوط پر ہو رہی ہے ؟ لیکن اس سے بھی پہلے یہ ضروری ہے کہ ہم تعلیم و تربیت کے صحیح خطوط کسے سمجھتے ہیں؟ ہر شخص اپنی ذہنی اختراع کو تعلیم و تربیت کا معیار سمجھنے کے بجائے معلم انسانیت صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیش کردہ تعلیم اور مربی اعظمؐ کے مرتب کردہ نظام تربیت کو ہی معیار بنائے اور پھر اسی کے مطابق گھریلو نظام کی بنیادیں رکھے۔
بچوں کی تربیت کے دو پہلو ہیں، جسمانی اور اخلاقی۔ جسمانی طور پر اپنے اہل خانہ کو تن درست رکھنے کے لیے اچھی اور مناسب خوراک کا بندوبست کیا جائے تاکہ ایسے بچوں کی بہ دولت صحت مند معاشرہ تشکیل پا سکے، جب کہ اخلاقی، روحانی اور علمی تربیت کے لیے عمدہ تعلیم، اچھے معلم، اچھی تعلیم گاہیں اور اچھا ماحول دیا جائے تاکہ ان کی بہ دولت صالح افراد کا مقدس معاشرہ تشکیل پا سکے۔
پیدائش کے بعد اسلامی تعلیمات کے مطابق سارے امور انجام دیں مثلاً گھٹی دینا، نومولود کے کان میں آذان و اقامت کہنا، ان کا اچھا نام رکھنا، عقیقہ کرنا، سر کے بال مونڈنا اور بالوں کی مقدار کے برابر چاندی یا اس کی رقم صدقہ کرنا، ختنہ کرنا۔ جب بچہ بولنا شروع ہو تو اسے کلمہ طیبہ اور اﷲ کے مبارک نام یاد کرانا، قرآن کریم کی تعلیم دینا، نماز قائم کرنے کی عادت ڈالنا، سچ بولنے کا خوگر بنانا، بڑوں کا ادب سکھانا، طہارت و غسل کا طریقہ سمجھانا، مسنون اعمال کا پابند بنانا، رات کو جلد سونے اور صبح کو جلد اٹھنے کا عادی بنانا، عقائد اسلامیہ اور روزمرہ کے ضروری مسائل کی تعلیم دلوانا، کسی اﷲ والے سے اصلاحی تعلق قائم کرانا، ان میں دنیا و آخرت بہتر بنانے کی فکر پیدا کرنا، ان کی غیرمناسب حرکات اور غلطیوں کی پیار و محبت اور بہ قدر ضرورت بازپرس سے اصلاح کرنا، غیر اخلاقی باتوں اور کاموں سے روکنا اور معاشرتی جرائم کے ماحول سے انتہائی نگہداشت میں رکھنا، غلط سوسائٹی، دوستی اور تعلقات سے دور رکھنا۔
تمام ایسے ذرائع و آلات سے دور رکھنا جن سے بچوں میں غیر شعوری طور پر فکری و تہذیبی فساد پیدا ہوتا ہے۔ مثلاً فحش ویب سائٹس اور سوشل میڈیا کا غلط استعمال۔ ان کے لیے معیاری عصری تعلیم گاہوں کا انتخاب کرنا، بچوں کے ہوم ورک کی نگرانی کرنا، ہر کام کو سلیقہ مندی سے کرنے کا عادی بنانا، اچھے کاموں پر خوب حوصلہ افزائی جب کہ غلط کاموں پر مناسب انداز میں احساس ندامت دلانا، ان کی جسمانی صحت کا بھرپور خیال رکھنا، ورزش، کھیل کود کے لیے انہیں وقت دینا، معیاری خوراک دینا اگرچہ سادہ ہی ہو، بازاری مضر صحت اشیاء سے پرہیز کرانا وغیرہ۔ ال غرض ان کو بھرپور پیار دینا اور ان کی تمام ضروریات کو پورا کرنا اولاد کی تربیت کہلاتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ بلوغ کے بعد بچے اور بچی کی رضامندی معلوم کرکے مناسب رشتے مل جانے پر جلد ہی نکاح کر دینا۔
اگر بہ طور والدین یا سرپرست ہونے کے آپ بچوں کی پسند کو کسی وجہ سے درست نہیں دیکھ رہے تو انہیں اعتماد میں لے کر پیار و محبت سے انہیں قائل کرنے کی کوشش کریں ورنہ بچوں اور بچیوں میں بغاوت کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے جس کے باعث وہ اپنے ہی پیارے گھر اور گھر والوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنا شروع کرتے ہیں اور نتیجتاً اپنے اس مسکن کو خیر باد کہہ دیتے ہیں۔
ہم اپنے بچوں کی تربیت کیسی کر رہے ہیں ؟
اگر تربیت اچھی کر رہے ہیں تو یہی اولاد آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اور اگر ہم تربیت میں غفلت برت رہے ہیں یا انہیں وقت نہیں دے پا رہے تو ہماری یہ نسل بگڑ جائے گی۔ پھر انہیں نافرمان ہونے کے طعنے دینا اپنی غلطیوں کو پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہوگا۔ جس پر باضمیر لوگوں کا ضمیر ملامت کیے بغیر نہیں رہے گا۔ اس لیے بچوں کو سدھارنے سے پہلے خود کو سدھاریں۔ اپنے گھروں کو ''دارالامان'' بنائیے تاکہ آپ کی اولا گھروں سے نکل کر کسی اور ''دارالامان'' کو نہ تلاشتی پھرے۔