مناجاتِ مقبول قرآن و احادیث کی روشنی میں

تعالیٰ نے ماں کی دعا کو اس قدرت طاقت دی ہے کہ ماں کی دعا عرش کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔

نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی کھلی کتاب کی مانند ہے جس کے تمام باب روشن اور واضح ہیں اور ہر خاص و عام پر منکشف اور عیاں ہیں۔ فوٹو : فائل

دعا کی اہمیت کا ذکر نہ صرف قرآن مجید میں ہے بل کہ اس کی اہمیت حدیث شریف میں بھی واضح نظر آتی ہے۔ دعا کی اہمیت کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اگر دعا صدق دل سے کی جائے تو یہ سیدھی عرش پر پہنچ جاتی ہے۔ دعا کے شرف قبولیت کے لیے ضروری ہے کہ اسے اس یقین کامل اور خلوص دل کے ساتھ کیا جائے کہ یہ دعا بارگاہ الٰہی میں قبولیت کا شرف حاصل کرے گی اور اگر دعا قبول نہ ہو تو اس میں بھی خدا کی کوئی مصلحت پوشیدہ خیال کی جائے۔ ضروری نہیں تمام دعائیں ہی بارگار الٰہی میں قبولیت کا درجہ حاصل کریں۔

نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ تم میں جس شخص کے لیے دعا کا دروازہ کھول دیا گیا یعنی دعا مانگنے کی توفیق دے دی گئی، اس کے لیے رحمت کے دروازے کھول دیے گئے۔ دعا کی فضیلت و اہمیت کا اندازہ ہم اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ جو دعائیں قبولیت کے درجے پر پہنچ جاتی ہیں ان کے فوائد تو حاصل ہوئے ہی، بل کہ جو دعائیں قبول نہیں ہوں گی ان کا ثواب بھی آخرت میں ملے گا۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: اﷲ تعالیٰ سے جو دعائیں مانگی جاتی ہیں ان میں اﷲ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسند یہ ہے کہ اس سے دنیا اور آخرت میں عافیت کی دعا مانگی جائے۔ اس لیے مومنین کی دعاؤں میں دنیا کے ساتھ آخرت میں عافیت کی دعائیں بھی شامل ہوتی ہیں۔

قرآن مجید میں اﷲ نے دعا کے متعلق جا بہ جا ارشاد فرمایا ہے کہ دعا مانگنا ہے تو اپنے رب سے مانگو، وہ تمہاری دعائیں قبول فرمائے گا۔ اﷲ تعالیٰ نے ماں کی دعا کو اس قدرت طاقت دی ہے کہ ماں کی دعا عرش کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ اس کے علاوہ دکھے ہوئے دل کی بددعا میں شدید اثر ہوتا ہے کہ دکھے ہوئے دل کے متعلق کہا جاتا ہے کہ دکھا ہوا دل خود ایک بددعا کی گزرگاہ بن جاتا ہے۔ بددعا کبھی زبان سے نہیں دی جاتی وہ آنسو جو بے بسی کے عالم میں پلکوں پر اٹکا رہ جاتا ہے، بہ ذات خود ایک بددعا ہوتا ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم بددعاؤں سے بچے رہیں اور ہمیشہ دعاؤں کے حصار میں رہیں۔ کچھ لوگوں کی دعائیں جلد قبولیت کے درجے پر پہنچ جاتی ہیں۔ اس لیے ایسے لوگوں کی دعاؤں کے حصار میں رہنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان کے لیے تکلیف کا باعث نہ ہوں۔

دعا کی قبولیت کی پہلی شرط خلوص دل ہے۔ دعا کے بارے میں کامل یقین رکھیے کہ خلوص دل سے نکلی ہوئی دعا ہمیشہ قبول ہوتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ قبولیت انسان کی مرضی کے مطابق ہو یا اﷲ کی رضا کے مطابق ہو۔ خوش قسمت لوگ اپنی خواہشات کو اﷲ کی رضا کے تابع رکھنے میں کام یاب ہوجاتے ہیں۔ ان کی دعا اپنی مرضی کے مطابق پوری ہو یا نہ ہو ان کے لیے دونوں صورتیں برابر ہوتی ہیں۔ تقدیر کو دنیا کی کوئی طاقت بھی نہیں بدل سکتی، سوائے دعا کے۔

حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا (قضا) قدر سے بچنے کی کوئی تدبیر فائدہ نہیں دیتی ہاں اﷲ سے دعا مانگنا اس آفت و مصیبت میں جو نازل نہیں ہوئی اور بے شک بلا نازل ہونے کو ہے کہ دعا اس سے جا ملتی ہے۔ بس قیامت تک دونوں میں کش مکش رہتی ہے اور انسان دعا کی بہ دولت اس بلا سے بچ جاتا ہے۔

دعا کی اہمیت اور فضیلت کو سمجھتے ہوئے انسان کو دعا کی اہمیت سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہیے کیوں کہ دعا انسان کے ہاتھ میں ایسی کنجی کی مانند ہے جو تمام بند دروازوں کو کھول دینے کی طاقت رکھتی ہے۔


نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی کھلی کتاب کی مانند ہے جس کے تمام باب روشن اور واضح ہیں اور ہر خاص و عام پر منکشف اور عیاں ہیں۔ قرآن مجید کے بعد حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی رشد و ہدایت کا عظیم سرچشمہ ہے بل کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی قرآن مجید کا عملی نمونہ پیش کرتی ہے۔ راہ نمائی اور ہدایت کے طالب اگر حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی کے معمولات پر ہی نظر ڈالیں تو ان کو نہ صرف اپنے معمولات زندگی کے متعلق بآسانی راہ نمائی حاصل ہوسکے گی بل کہ ان کو کئی مسائل کا حل بھی مل جائے گا۔ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی کے معمولات کو ان کے جان نثار صحابہ کرام ؓ نے تحریری شکل میں محفوظ کرلیا تھا تاکہ آنے والی نسلیں ان کی زندگی و شخصیت سے فیض یاب ہوسکیں۔

اﷲ نے حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو دونوں جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ اس لیے ان کی زندگی اور شخصیت تمام انسانیت پر عیاں کردی گئی۔ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے تبسم کے متعلق حضرت عبداﷲ بن حارثؓ فرماتے ہیں میں نے حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے زیادہ تبسم کرنے والا نہیں دیکھا۔ حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ کا ہنسنا صرف تبسم ہوتا تھا۔ حضرت حسن ابن علیؓ سے روایت ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم چلنے کے لیے قدم اٹھاتے تو قوت سے پاؤں اکھڑتے تھے۔ چلنے میں ایسا معلوم ہوتا کہ گویا کسی بلندی سے اتر رہے ہیں۔

آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی مجالس میں وقار سنجیدگی اور متانت کی فضا ہر وقت قائم رہتی تھی۔ لیکن آپ صلی اﷲ علیہ وسلم صحابہ کرام ؓ کے ساتھ بے تکلف دوست اور ایک خوش مزاج ساتھی کی حیثیت سے بھی میل جول رکھتے تھے۔ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی عادت طبیہ تھی کہ فجر کی نماز کے بعد بیٹھ جاتے اور لوگوں سے ان کے خواب پوچھتے اور ان کی تعبیر بتاتے تھے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سفر کے لیے خود روانہ ہوتے یا کسی اور کو روانہ فرماتے تو جمعرات کے روز کو روانگی کے لیے مناسب خیال فرماتے۔ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سخاوت میں بے مثال تھے۔

حضرت عائشہؓ جو آپؐ کو تمام بیویوں میں سے زیادہ محبوب تھیں۔ آپؐ کی سخاوت کے متعلق فرماتی ہیں کہ ایک دن رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس چھے اشرفیاں تھیں، چار تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے خرچ کردیں اور دو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس بچ گئیں۔ ان کی وجہ سے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو تمام رات نیند نہ آئی۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ نے عرض کیا یہ معمولی بات ہے، صبح ان کو خیرات کر دیجیے گا۔

حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اے حمیرا (حضرت عائشہ صدیقہؓ کا لقب) کیا خبر ہے میں صبح تک زندہ ہوں یا نہیں۔ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم میں بہت زیادہ عاجزی اور انکساری تھی۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ صحابہؓ کے نزدیک حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے زیادہ محبوب کوئی شخص دنیا میں نہیں تھا۔ اس کے باوجود پھر بھی وہ حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کو دیکھ کر کھڑے نہیں ہوتے تھے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ بات پسند نہ تھی۔

حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی کو ان کے صحابہؓ اور جان نثاروں نے تو تحریری شکل میں محفوظ کرلیا۔ لیکن غیر مسلم دانش ور جنہوں نے حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق صرف پڑھا یا سنا تھا، وہ بھی حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعریف میں رطب اللسان نظر آتے ہیں۔ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی کھلی اور روشن کتاب کی مانند ہے، جس کو پڑھ کر غیر مسلم دانش ور بھی استفادہ کرتے ہیں۔ آپؐ کی تعلیمات تمام عالم انسانیت کیے لیے روشن و تاب ناک مستقبل کی نوید ہیں۔ ہمیں آپؐ کے اسوہ حسنہ سے صحیح معنوں میں راہ نمائی حاصل کرکے اپنی زندگی اسلام کے مطابق گزارنے کی سعی کرنی چاہیے۔

 
Load Next Story