چلو چلو مال روڈ چلو

کیا سب ڈنڈے، تشدد، جیل اور تھانے ان پڑھ شہریوں کے لئے؟ پنجاب کے نابینا افراد کے لئے ہیں؟ کسانوں کے لئے ہیں؟


اس احتجاج کے پیچھے جو بھی محرکات ہیں اور جو لوگ مریضوں کی رسوائی اور اذیت کا باعث بنے ہیں ان کو قرار واقعی سزا دی جانی چاہیئے۔ فوٹو: فائل

منٹو کے افسانے ہوں یا مستنصر حسین تارڑ کے سفرنامے، فیس بک کے اسٹیٹس ہوں یا ٹوئٹر کی ٹوئٹس، لاہوری کھانے ہوں یا ڈاچی ایکسپریس کے نظارے، لاہور کا چڑیا گھر ہو یا باغِ جناح کا رومانس آپ کو جابجا مال روڈ کا تذکرہ ضرور ملے گا، مگر پاکستانی نیوز چینلز کا شاید ہی کوئی بلیٹن ہو جس میں مال روڈ کی داستان نہ ہو۔

پنجاب اسمبلی کا مال روڈ پر ہونا اس کی سارے رومانس کو داغ دار کررہا ہے۔ آئے روز ہونے والے دھرنوں سے ایک جانب شہریوں کو جہاں شدید پریشانیوں کا سامنا ہے، وہیں ٹریفک جام روزانہ کا معمول بنا ہوا ہے۔ لیکن اسمبلی کے باسیوں کے کانوں پر تو جوں تک نہیں رینگتی انہیں اپنی مراعات اور دھاندلیوں کے شور شرابے میں عوام کے شکوے اور شکایات پر کان دھرنے کی فرصت ہی میسر ہی نہیں۔

مال روڈ پر پہلا دھرنا کس نے دیا؟ کیوں دیا؟ یہاں دھرنے کا خیال کس کا تھا؟ تاریخ دان اور راوی اس پر تاحال خاموش ہیں، جب سبھی لوگ خاموش ہیں تو بھلا ہمیں بولنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس تحریر کا لکھنے کا خیال تو مجھے حالیہ دھرنے کے مناظر سے لطف اندوز ہونے کے بعد آیا۔ میں اور میرا دوست عمر پریس کلب سے کھانے کے بعد اچھرہ کی جانب عازم سفر تھے کہ دھرنے کی وجہ سے رش میں پھنس کر رہ گئے۔ کافی تگ و دو کے بعد ہماری موٹر سائیکل مقام دھرنا تک پہنچی، عمر سے مشاورت کے بعد ایک جگہ موٹر سائیکل پارک کرکے دھرنے کی کوریج کے لئے آنے والے صحافی دوستوں کے ہمراہ مناظر دیکھنے لگے۔

میڈیا کے دوست ''میٹر چل رہا ہے؟''، ''جنریٹر آن ہے؟''، ''گاڑیوں کے انٹینے آن کر دئیے ہیں؟'' جیسے جملوں کے شور میں مگن تھے۔ جبکہ میری نظر نوجوان ڈاکٹروں کے دل کش دھرنے پر ٹکی ہوئی تھی۔ میری پہلی نظر خوبرو خواتین ڈاکٹرز کے ایک گروپ پر پڑی۔ سر پر رنگ برنگ چھتریاں تانے، آنکھوں پر خوبصورت چشمے سجائے سیلفیاں لے رہی تھیں۔ چند ایک ہیڈ نرسز منرل واٹر کی بوتلیں غٹ غٹ پی رہی تھیں۔ چند نوجوان ڈاکٹرز موٹر سائیکل سواروں کے ساتھ ہاتھا پائی میں مصروف اور کچھ بریانی کے ڈبوں پر ہاتھ صاف کرنے میں مگن تھے۔ لیکن سب اس طرح مست نہیں تھے بلکہ نوجوان طبیبوں کا ایک گروپ اپنے مطالبات کے حق میں بینر لئے بیٹھا بھی نظر آیا۔ سچ پوچھیے تو ڈاکٹرز کا دھرنا، دھرنے سے زیادہ کسی فئیر ویل پارٹی کا منظر پیش کررہا تھا۔

اب آتے ہیں اُس نقطے کی جانب کہ آخر یہ دھرنا کیوں دیا جارہا ہے؟ میو اسپتال میں مریض اور اس کے رشتے داروں پر ڈاکٹرز نے تشدد کیا۔ یہ صرف الزام نہیں بلکہ ڈاکٹر گردی بعد میں ثابت بھی ہوئی۔ جب معاملہ واضح ہوگیا تو ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن میو اسپتال کے صدر ڈاکٹر شہریار نیازی کو ٹریننگ سے فارغ کرکے ایک سال کے لئے میو اسپتال سے نکال دیا گیا۔ معاملہ یہاں نہیں رکا بلکہ محکمہ اسپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر نے وائے ڈی اے کے ڈاکٹرز، ایک نرس اور دیگر اسٹاف کیخلاف کارروائی کرنے کا بھی نوٹیفکیشن جاری کیا۔ ڈپٹی سپرٹینڈنٹ ڈاکٹر صدف دستگیر کا تبادلہ کردیا گیا۔ نرس لبنیٰ ثمر کو جنرل اسپتال جبکہ ڈیٹا آپریٹر افتخار احمد کو میو اسپتال سے شاہدرہ اسپتال بھیج دیا گیا اور پروفیسر ڈاکٹر اصغر نقی کو اس حوالے سے وارننگ جاری کی گئی۔ اسی طرح میو اسپتال کے پولیس چوکی انچارج اے ایس آئی ریاض احمد کیخلاف کارروائی کیلئے ڈی آئی جی آپریشنز لاہور کو لکھا گیا۔

بس غلطی کے خلاف یہ کارروائی ہونے کی دیر تھی کہ ینگ ڈاکٹرز کا لہو گرم ہوگیا اور وہ انتظامیہ کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے اور دھرنا دینے کے لئے مال روڈ کا انتخاب کیا۔ جمہوری ممالک میں احتجاج کرنا، اپنے مطالبات منظور کرانے کے لئے اربابِ اختیار سے احتجاج کرنا لوگوں کا حق ہے۔ مگر پاکستان میں الٹی گنگا بہتی ہے۔ یہاں تو چوری اور سینہ زوری عروج پر ہے۔ اب آپ نوجوان ڈاکٹرز کو ہی دیکھ لیجیئے۔ ڈاکٹرز قوم کے مسیحا ہوتے ہیں، زخموں پر مرہم رکھتے ہیں مگر یہ نوجوان دوائی کی جگہ دھلائی کرتے ہیں۔ اگر ان کے خلاف قانون حرکت میں آئے تو قانون ہی کو سبق سکھانے کے لئے نکل پڑتے ہیں۔ نوجوان مسیحاؤں کے اس عمل کی وجہ سے میو اسپتال میں بیمار بچی جان کی بازی ہار گئی، سینکڑوں آپریشنز منسوخ کئے جاچکے ہیں، ایمرجنسی اور بیرونی مریضوں کے شعبے مکمل بند ہیں۔

جہاں ایک طرف اسپتال میں مریض خوار ہو رہے ہیں وہیں دوسری جانب لاہور کی مرکزی اور اہم شاہراہ کے بند ہونے سے لاہوری شدید اذیت میں مبتلا ہیں۔ ڈاکٹرز کا مطالبہ ہے کہ ان کے صدر صاحب کو بحال کیا جائے، جبکہ محکمہ صحت کی انتظامیہ اپنے فیصلے پر قائم ہے جو کہ درست فیصلہ ہے اور آئندہ مریضوں کے ساتھ ایسا سلوک ہونے سے روکنے کے لئے بہترین بھی ہے۔

پنجاب حکومت کا اس سارے معاملے کے دوران خاموش تماشائی بن کر رہنا ناقابل فہم ہے۔ دھرنا ختم کرانے کے لئے کوئی انتظامات نہیں کئے جارہے۔ گزشتہ روز پنجاب حکومت کے ترجمان زعیم قادری کا کہنا تھا کہ ڈاکٹرز تعلیم یافتہ ہیں۔ ان پر سختی کرنا اور ان کے خلاف کارروائی کرنا اچھا نہیں لگتا۔ یہ جواب جہاں سنجیدہ لوگوں کے لئے مضحکہ خیز ہے وہیں گڈ گورننس کے دعوؤں کی قلعی بھی کھول رہا ہے۔ جناب سے کوئی پوچھے کہ کیا سب ڈنڈے، تشدد، جیل اور تھانے ان پڑھ شہریوں کے لئے؟ پنجاب کے نابینا افراد کے لئے ہیں؟ کسانوں کے لئے ہیں؟ نہیں حضور ایسا بالکل بھی نہیں ہونا چاہیئے۔ ریاست کے ہر شہری کو آئین یکساں حقوق فراہم کرتا ہے۔ مظاہرین کے جائز مطالبات پورے کرنا جہاں آپ کا فرض بنتا ہے وہیں اپنی یونینز کے سہارے حکومت کو بلیک میل اور عوام کو رسوا کرکے ناجائز مطالبات پیش کرنے والوں کی گوشمالی کرنا بھی آپ ہی کی ذمہ داری ہے۔

پنجاب حکومت کے عہدیداران ایک بار اسپتالوں میں خوار ہونے والے مریضوں اور ان کے لواحقین کو دیکھ لیں تو شاید انہیں احساس ہو کہ جب درد ہوتا ہے تو اس کا احساس کیسا ہوتا ہے۔ میو اسپتال پنجاب کا سب سے بڑا اسپتال ہے اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کے لئے ایک درسگاہ بھی ہے۔ محکمہ صحت ہی کے افراد لاہور کے گرد و نواح سے آئے ہوئے بے بس اور مجبور مریضوں کی حالت زار دیکھ لیں۔ ایمرجنسی گیٹ کے سامنے دھوپ اور دھول میں بیٹھی ہوئی عورتوں پر ایک نظر ہی ڈال لیں تو شاید ان کی آنکھیں کھل سکیں کہ نجی کلینکس میں علاج معالجے کے لئے جن کے پاس موٹی رقوم نہیں وہ دوا کے لئے کتنے جتن کرتے ہیں۔

ینگ ڈاکٹرز کا یہ احتجاج نیا نہیں ہے، گزشتہ سال بھی کئی دن تک ان کا احتجاج چلتا رہا جو کہ وزیراعلیٰ کی ذاتی مداخلت کے بعد ہی ختم ہوا تھا۔ بہرحال اس احتجاج کے پیچھے جو بھی محرکات ہیں اور جو لوگ مریضوں کی رسوائی اور اذیت کا باعث بنے ہیں ان کو قرار واقعی سزا دی جانی چاہیئے۔ مگر ساتھ ساتھ اسپتالوں میں موجود مریضوں کے لواحقین کو بھی اپنے رویوں پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ ڈاکٹرز، نرسز اور دیگر اسٹاف کے ساتھ آپ کا بہترین رویہ ہی آپ کے مریض کی بہترین نگہداشت کا ضامن ہے۔ اگر آپ کی پہنچ حکام بالا تک ہے تو ذرا ان مریضوں کا بھی سوچئے جن کی پہنچ صرف اسپتال کے مین گیٹ تک ہی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں