عالمی بینک کی خوش کن رپورٹ مگر…
یورپی یونین کی جانب سے دی جانے والی سہولتوں سے بھی خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا
عالمی بینک کی ششماہی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی معیشت مستحکم ہو رہی ہے اور مالی سال2015-16ء کے دوران پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح4.7 فیصد رہی جوگزشتہ8 برسوں میں سب سے زیادہ ہے، پاکستان میں غربت کی شرح بھی کم ہوئی ہے تاہم عالمی بینک نے پاکستان میںسرمایہ کاری کی شرح میں کمی اور برآمدی مسابقت میں کمی پر تحفظات کا اظہارکرتے ہوئے تنبیہ بھی کی ہے۔
حکومت کے دعوؤں کے مطابق پاکستان میں بڑی تیزی سے معاشی ترقی ہو رہی ہے اور معیشت مستحکم ہے جس پر عالمی بینک کی رپورٹ بھی مہر تصدیق ثبت کر رہی ہے۔ اسٹاک ایکس چینجز میں بھی بہتری کے اشاریے بھی معاشی استحکام کو ظاہر کر رہے۔ حکومت ملک بھر میں موٹرویز اور سڑکوں کا جال بچھا رہی ہے' سی پیک کا منصوبہ بھی اسی حکومت کے دور میں تیزی سے پایہ تکمیل کی جانب بڑھ رہا ہے جو یقیناً اس خطے کے لیے گیم چینجر ثابت ہو گا۔
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ 2018ء میں ملک بھر سے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہو جائے گا۔ حکومت کے دعوؤں اور عالمی بینک کی رپورٹ کو ہم چیلنج نہیں کرتے' حکومت ترقی کا جو دعویٰ کر رہی ہے اس کا زیادہ تر تعلق تعمیراتی شعبے سے ہے۔ اگر زندگی کے دیگر شعبوں کا جائزہ لیا جائے تو صورت حال زیادہ بہتر نظر نہیں آتی۔۔ خبروں کے مطابق حکومت نے پاور سیکٹر میں سرکلرڈیٹ ادا کرنے کے لیے بینکوں سے 136.5بلین روپے قرضہ لیا تھا مگر ''معاشی ترقی'' اتنی تیزی سے ہوئی کہ وہ بینکوں کو یہ قرضہ واپس کرنے میں ناکام ہوگئی۔
محکمہ شماریات کی جاری کردہ ماہانہ رپورٹ کو بھی کسی طور پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جس کے مطابق رواں مالی سال کے ابتدائی چار مہینوں میں برآمدات کی مالیت 6.31 فیصد گھٹ کر 6ارب 43کروڑ ڈالر رہ گئی جب کہ اس کے مقابلے میں درآمدات 8.60فیصد کے اضافے سے 15ارب 75کروڑ دس لاکھ ڈالر تک جا پہنچیں' اس طرح برآمدات میں کمی اور درآمدات میں اضافے کے نتیجے میں تجارتی خسارہ 22فیصد کے نمایاں اضافے سے 9ارب 31کروڑ 90لاکھ ڈالر تک پہنچ گیا جب کہ یہی تجارتی خسارہ گزشتہ مالی سال سات ارب 63کروڑ 90لاکھ ڈالر تھا۔
ان اعدادوشمار سے یہ اندازہ لگانا قطعی نا ممکن نہیں کہ حکومت نے درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافے کے لیے صنعتی شعبے کی ترقی کے لیے کیا کردار ادا کیا۔ بیمار صنعتیں ابھی تک بحال نہیں ہو سکیں' کراچی میں دم توڑتی ہوئی اربوں ڈالر کی اسٹیل مل حکومتی ترقی کے دعوؤں سے میل نہیں کھاتی۔ توانائی کے بحران کے باعث ٹیکسٹائل سیکٹر بھی شکوہ سنج ہے، یورپی یونین کی جانب سے دی جانے والی سہولتوں سے بھی خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا۔ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارا صنعتی سیکٹر ترقی کی اس نہج پر نہیں پہنچ سکا کہ ہم یورپی منڈی میں اپنا اہم مقام بنا سکیں۔ ترقی یافتہ ممالک کو چھوڑیں' ہم بھارت ہمسایہ ممالک کے ساتھ بھی برآمدات کے شعبوں میں حکومت کوئی کارنامہ سرانجام نہیں دے سکی۔
ایران' ترکی' آذربائیجان اور وسط ایشیا کے ساتھ ہی تجارتی تعلقات بہتر بنائے جاتے تو نہ صرف صنعتی شعبے کو مہمیز ملتی بلکہ روز گار کے بھی وسیع مواقع پیدا ہوتے۔ زرعی شعبے کی حالت بھی دگرگوں ہے' زرعی مداخل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، غیرمعیاری کھاد اورناقص بیجوں کے باعث کسان خود کو روز بروز پسماندگی کا شکار ہوتے دیکھ کر زرعی شعبے سے کنارہ کشی کرتا چلا جا رہا ہے جس کا ماحصل زرعی شعبہ کی تیزی سے تنزلی کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔ زرخیز زرعی زمینوں کو ہاؤسنگ اسکیموں کے نام پر ختم کیا جا رہا ہے جس کا نتیجہ آج عوام مہنگی اجناس اور سبزیوں کی صورت میں بھگت رہی ہے۔
عوامی سطح پر حکومتی ترقی کا جائزہ لیا جائے تو اس کے آثار دور دور تک نظر نہیں پڑتے۔ عام آدمی کی حالت بہتر ہونے کے بجائے روز بروز پتلی ہوتی چلی جا رہی ہے۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور روز گار کے محدود مواقع کے باعث بڑھتے ہوئے اخراجات کو محدود آمدن کے دائرے میں لانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ایک مخصوص طبقہ ضرور امیر ہوا ہے جس کی دولت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔
سرکاری اداروں میں کرپشن کم ہونے کے بجائے تیزی سے بڑھی ہے' ملکی دولت ٹیکنیکل طریقے سے لوٹنے میں بیوروکریسی اور حکومتی اشرافیہ ایک ہی پیج پر نظر آتے ہیں۔ یہ طبقہ بغیر محنت کیے اور ان دیکھے ذرایع کی بدولت امیر سے امیر تر ہوتا چلا جا رہا ہے اور اس کے دامن پر کرپشن کے الزامات لگنے کے باوجود اس کا کوئی داغ دکھائی نہیں دیتا۔ ترقی وہ ہے جو حکومتی ایوانوں میں دکھائی نہ دے بلکہ عام آدمی کی دہلیز پر بھی نظر آئے۔