امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مظاہرے
امریکا کے دیگر شہروں میں ہونے والے مظاہرے زیادہ تر پرامن رہے
امریکی صدارتی انتخاب میں ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے خلاف امریکا بھر میں گزشتہ دو روز سے پھوٹ پڑنے والے مظاہروں میں شدت آ گئی ہے۔ مظاہرین نے نہ صرف ٹرمپ کے پُتلے بلکہ امریکی پرچم بھی نذر آتش کیے جس سے واضح ہوتا ہے کہ امریکی عوام میں مخالفت کا یہ غبار کس حد تک بھر چکا ہے۔
جمہوری ریاستوں میں عوام کو اظہار رائے کی آزادی کا حق حاصل ہوتا ہے لیکن امریکا میں غیر متوقع طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب کے بعد عوام کی جانب سے جو ردعمل سامنے آیا ہے وہ سپر پاور امریکا کے انتخابات کی تاریخ میں اب تک کا سب سے بڑا مخالفانہ ردعمل ہے۔ امریکی انتخابات میں پرامن ووٹنگ اور بحسن وخوبی انتقال اقتدار نیز ہارنے والے امیدواروں کی جانب سے حریف کا خیرمقدم ہی امریکی انتخابات کا حسن رہا ہے۔ لیکن حالیہ انتخاب کے بعد عوام کا ردعمل ظاہر کرتا ہے کہ امریکا میں اب مخالفانہ رجحانات کا ابال اپنی انتہا تک پہنچ چکا ہے۔
بلاشبہ اس میں زیادہ قصور ڈونلڈ ٹرمپ کی متنازعہ شخصیت اور ان کے پالیسی بیانات کا بھی ہے جس نے نہ صرف امریکی عوام بلکہ دنیا کے بیشتر ریاستوں کو ان کے خلاف کر دیا۔ حالیہ مظاہروں میں نیویارک میں ہزاروں افراد نے ٹرمپ ٹاور کی جانب مارچ کیا اور ڈونلڈ ٹرمپ کی امیگریشن، ماحولیات ، ہم جنس پرستی اور اسقاط حمل کے بارے میں پالیسیوں کے خلاف نعرے بازی کی۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق اس احتجاج میں شریک سیکڑوں افراد کو پولیس نے حراست میں لے لیا ہے۔
امریکا کے دیگر شہروں میں ہونے والے مظاہرے زیادہ تر پرامن رہے تاہم کیلیفورنیا کے علاقے اوکلینڈ میں کچھ مظاہرین نے دکانوں کے شیشے توڑے اور پولیس پر پتھراؤ کیا، جس کے جواب میں پولیس نے آنسو گیس پھینکی۔ اس کے علاوہ لاس اینجلس، اوریگن، فلاڈیلفیا، بوسٹن، سیاٹل اور سان فرانسسکو میں بھی مظاہرے ہوئے جہاں کچھ علاقوں میں بطور احتجاج لوگوں نے امریکی پرچم بھی جلائے۔ فرد واحد کی مخالفت میں اپنی ہی ریاست کا پرچم جلانے کا واقعہ بھی امریکا کی تاریخ میں سیاہ حرفوں سے لکھا جائے گا۔
امریکی اقلیتوں کی جانب سے اس خوف کا برملا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ٹرمپ کی کامیابی سے نسل پرستی بڑھے گی، ملک میں موجود نسل پرست اور متعصب عناصر مزید بے باک ہو جائیں گے۔ امریکی عوام کے احتجاج سے قطع نظر دنیا بھر کے صدور، وزرائے اعظم اور مقتدر رہنماؤں کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کو صدر بننے پر مبارک باد دینے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
گزشتہ روز نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بارک اوباما نے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کی جس میں اقتدار کی منتقلی سمیت دیگر اہم امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اگرچہ امریکی صدارتی انتخاب کے نتائج غیر متوقع ہیں لیکن یہ امریکی عوام کا جمہوری طریقہ سے کیا گیا انتخاب ہے، انتخابی مہم اور اس میں دیے گئے بیانات ماضی کا حصہ بن چکے ہیں اور اب امید ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ بلاامتیاز تمام امریکیوں کے حقوق کا خیال اور دیگر ریاستوں کے ساتھ بہتر تعلقات کی جانب پیش قدمی کریں گے۔
جمہوری ریاستوں میں عوام کو اظہار رائے کی آزادی کا حق حاصل ہوتا ہے لیکن امریکا میں غیر متوقع طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب کے بعد عوام کی جانب سے جو ردعمل سامنے آیا ہے وہ سپر پاور امریکا کے انتخابات کی تاریخ میں اب تک کا سب سے بڑا مخالفانہ ردعمل ہے۔ امریکی انتخابات میں پرامن ووٹنگ اور بحسن وخوبی انتقال اقتدار نیز ہارنے والے امیدواروں کی جانب سے حریف کا خیرمقدم ہی امریکی انتخابات کا حسن رہا ہے۔ لیکن حالیہ انتخاب کے بعد عوام کا ردعمل ظاہر کرتا ہے کہ امریکا میں اب مخالفانہ رجحانات کا ابال اپنی انتہا تک پہنچ چکا ہے۔
بلاشبہ اس میں زیادہ قصور ڈونلڈ ٹرمپ کی متنازعہ شخصیت اور ان کے پالیسی بیانات کا بھی ہے جس نے نہ صرف امریکی عوام بلکہ دنیا کے بیشتر ریاستوں کو ان کے خلاف کر دیا۔ حالیہ مظاہروں میں نیویارک میں ہزاروں افراد نے ٹرمپ ٹاور کی جانب مارچ کیا اور ڈونلڈ ٹرمپ کی امیگریشن، ماحولیات ، ہم جنس پرستی اور اسقاط حمل کے بارے میں پالیسیوں کے خلاف نعرے بازی کی۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق اس احتجاج میں شریک سیکڑوں افراد کو پولیس نے حراست میں لے لیا ہے۔
امریکا کے دیگر شہروں میں ہونے والے مظاہرے زیادہ تر پرامن رہے تاہم کیلیفورنیا کے علاقے اوکلینڈ میں کچھ مظاہرین نے دکانوں کے شیشے توڑے اور پولیس پر پتھراؤ کیا، جس کے جواب میں پولیس نے آنسو گیس پھینکی۔ اس کے علاوہ لاس اینجلس، اوریگن، فلاڈیلفیا، بوسٹن، سیاٹل اور سان فرانسسکو میں بھی مظاہرے ہوئے جہاں کچھ علاقوں میں بطور احتجاج لوگوں نے امریکی پرچم بھی جلائے۔ فرد واحد کی مخالفت میں اپنی ہی ریاست کا پرچم جلانے کا واقعہ بھی امریکا کی تاریخ میں سیاہ حرفوں سے لکھا جائے گا۔
امریکی اقلیتوں کی جانب سے اس خوف کا برملا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ٹرمپ کی کامیابی سے نسل پرستی بڑھے گی، ملک میں موجود نسل پرست اور متعصب عناصر مزید بے باک ہو جائیں گے۔ امریکی عوام کے احتجاج سے قطع نظر دنیا بھر کے صدور، وزرائے اعظم اور مقتدر رہنماؤں کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کو صدر بننے پر مبارک باد دینے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
گزشتہ روز نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بارک اوباما نے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کی جس میں اقتدار کی منتقلی سمیت دیگر اہم امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اگرچہ امریکی صدارتی انتخاب کے نتائج غیر متوقع ہیں لیکن یہ امریکی عوام کا جمہوری طریقہ سے کیا گیا انتخاب ہے، انتخابی مہم اور اس میں دیے گئے بیانات ماضی کا حصہ بن چکے ہیں اور اب امید ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ بلاامتیاز تمام امریکیوں کے حقوق کا خیال اور دیگر ریاستوں کے ساتھ بہتر تعلقات کی جانب پیش قدمی کریں گے۔