انتخابی اصلاحات میں تاخیر کیوں
الیکشن کمیشن اور ارباب اختیار 2018 کے انتخابات سے قبل الیکٹورل شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے انتہائی ضروری اقدام کریں
GHALLANAI:
سپریم کورٹ نے این اے 110سیالکوٹ میں دھاندلی اور بے قاعدگیوں کے الزامات مسترد کرتے ہوئے عام انتخابات میں مذکورہ حلقے سے کامیاب امیدوار خواجہ آصف کے خلاف تحریک انصاف کے امیدوار عثمان ڈار کی اپیل خارج کر دی، چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میںفل بنچ نے مختصر فیصلہ سنایا، تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔
عدالتی فیصلہ کی روشنی میں اس حقیقت کو تقویت ملتی ہے کہ شفاف انتخابی عمل اور ضروری اصلاحات کے بغیر انتخابی نتائج سے متعلق عدم اطمینان اور مقدمات و انتخابی عذرداریوں کا دراز سلسلہ ختم نہیں ہوگا۔ قبل ازیں خواجہ آصف کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے اپنے دلائل نمٹاتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ عثمان ڈار کی درخواست میں حتمی نتیجے پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا گیا، ریٹرننگ افسر اور کامیاب امیدوار پر ملی بھگت اور ووٹوں کے بیگ چھپانے کا الزام عائد کیا گیا ۔تاہم چیف جسٹس نے اپنے سابق تجربہ کی روشنی میں کہا کہ انھوں نے بطور قائم مقام چیف الیکشن کمشنر ذمے داریاں نبھائی ہیں، الیکشن پراسیس میں خامیاں موجود ہیں لیکن کوئی اس کو دور کرنے کے لیے تیار نہیں کیونکہ جمود کا فائدہ حکمران طبقے کو ہوتا ہے، چیف جسٹس کی صائب رائے تھی کہ جب تک انتخابی اصلاحات نہیں ہوتیں اور متعلقہ آرٹیکل کے سیکشن 44 پرعمل نہیں کیاجاتا ایسی چیزیں سامنے آتی رہیں گی۔
یہاں قابل ذکر بات وہی ہے جس کے فقدان کی بات چیف جسٹس نے کی ہے، ہم فی الحقیقت ایک فرسودہ اور ناقص انتخابی نظام میں اصلاحات کی اہمیت اور افادیت کو بھی خاطر میں نہیں لاتے ، بایو میٹرک سسٹم تک ہمیں گوارا نہیں، جب کہ انتخابی اصلاحات کے بغیر شفاف، قابل اعتبار اور فالٹ فری الیکشن نتائج جن کی صداقت کو کوئی چیلنج نہ کرسکے کوئی ایسا نرالا یا ڈراؤنا خواب نہیں جسے حکومت اور اپوزیشن مل کر شرمندہ تعبیر نہ کرسکیں۔ اس لیے لازم ہے کہ الیکشن کمیشن اور ارباب اختیار 2018 کے انتخابات سے قبل الیکٹورل شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے انتہائی ضروری اقدام کریں۔