الفاظ سے زیادہ ان کے مطلب کی اہمیت ہے
بدقسمتی سے ریاستی اداروں میں جو بدعنوانی کے خاتمے پر مامور ہیں وہ اپنے بالادستوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر سکتے
KARACHI:
سپریم کورٹ آف پاکستان میں پانامہ گیٹ سکینڈل پر ہونے والی تحقیقات میں رخنہ اندازی کی خاطر درخواست دہندگان میں سے ایک نے مطالبہ کیا 400 یا ان سے زیادہ افراد کی انکوائری کی جائے لیکن چیف جسٹس آف پاکستان نے یہ کہہ کر یہ مطالبہ مسترد کر دیا کہ اس طرح تو 20 سالہ منصوبہ بنانا پڑے گا، حضرت عمرؓ کی مثال دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ حکمرانوں کا احتساب عام لوگوں سے مختلف ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انھوں نے خود اپنے احتساب کی پیشکش کی تھی لیکن مسلم لیگ ن کے حامی سینیٹ اور دیگر جگہوں پر شریف فیملی کے خلاف انکوائری روکنے کی بڑی شد و مد سے کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر کسی سرکاری عہدے کے حامل ایک شخص پر کرپشن کا الزام لگتا ہے تو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی ذمے داری بھی اس پر عاید ہوتی ہے۔
اعلیٰ ترین سرکاری مناصب کے حامل افراد کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے عمل کے بارے میں مثالی یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔ گورننس کے عمل کی اخلاقی اعلیٰ ظرفی کسی کی رسائی سے باہر ہونی چاہیے نہ وہ خود اور نہ ہی ان کے رشتہ دار/ قریبی عزیز اور دوست احباب ملکی قوانین کی خلاف ورزی کر سکیں جس کے لیے وہ قانونی سقم یا اسمارٹ اکاؤنٹنٹس کے ذریعے کاروبار کریں اور اس طرح رقوم کی منتقلی کا بندوبست کریں یہ رقوم سرکاری شعبے کی ہوں اور وہ از خود احتساب کی دعوت دیں۔
بدقسمتی سے ریاستی اداروں میں جو بدعنوانی کے خاتمے پر مامور ہیں وہ اپنے بالادستوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر سکتے کیونکہ اس طرح خود انھیں گرفت میں آنے کا ڈر رہتا ہے۔ اگرچہ سپریم کورٹ نے یہ امید دلائی ہے کہ اگر بے لاگ احتساب کیا جائے تو اس سے پاکستان کو تبدیل کیا جا سکتا ہے لیکن پانامہ گیٹ سکینڈل کے بارے میں ٹھوس شواہد ہی موجود نہیں ہیں۔
سپریم کورٹ تحقیقاتی جرنلسٹوں کے بین الاقوامی کنسورشم (آئی سی آئی جے) سے صرف درخواست ہی کر سکتی ہے کہ پانامہ گیٹ سکینڈل میں لگائی جانے والی رقوم کی تفصیلات اپنے ڈیٹا بیس پر رکھ دی جائیں۔ نیب کی طرف سے پیش کیے گئے اس عذر کو سپریم کورٹ نے مایوس کن قرار دیا ہے کہ وہ کہ ٹھوس ثبوتوں کے بغیر کوئی تحقیقات نہیں کر سکتے۔
اس کے ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے یاد دہانی کرائی ہے کہ قومی احتساب آرڈیننس (این اے او) کے سیکشن (5)9 کے تحت نیب کو سرکاری عہدیداروں کے خلاف تحقیقات کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہے۔ بالخصوص ایسے حکام کے خلاف تحقیقات جن کے بارے میں یہ واضح نظر آ رہا ہو کہ وہ اپنی آمدنی کے معلوم ذرایع سے زیادہ دولت اکٹھی کر رہے ہیں اس میں ٹیکس نادھندگی کے معاملات بھی شامل ہیں۔ نیب کی پلی بار گین کی پالیسی پر بھی اعتراضات موجود ہیں۔
پاکستان بار کونسل ٹی او آرز کے حوالے سے سپریم کورٹ کے اختیارات کا جائزہ لے رہی ہے تاکہ اس امر کا تعین کیا جا سکے کہ عدالتی حکام کس طرح سرکاری افسروں کی کرپشن کے راستے بند کر سکتے ہیں۔ پاکستان کو کرپشن کی بنا پر روزانہ 133ملین (تیرہ کروڑ تیس لاکھ) امریکی ڈالر کا خسارہ برداشت کرنا پڑتا ہے جب کہ زیادہ تر ملزم احتساب سے بچ جاتے ہیں کیونکہ وہ عمومی رسائی سے بالاتر ہوتے ہیں۔
اپنے سرکاری عہدے کا فائدہ اٹھانا اور اسے اپنے نجی مفادات کے لیے استعمال کرنا پاکستان میں عام رواج بن گیا ہے۔ ''قانون کی حکمرانی'' کا تصور صرف خیالی بات بن کر رہ گیا ہے اور جب قانون نافذ کرنے والے افسران خود قانون شکنی کا ارتکاب کرنے لگیں تو صورت حال اور زیادہ خراب ہو جاتی ہے۔
حال ہی میں ایک سیاہ شیشوں والی لگژری گاڑی نے جس کو پولیس موبائل اسکارٹ کر رہی تھی کراچی کی ایک سروس روڈ پر تقریباً آدھے میل تک مخالف سمت سے آنے کے باعث پورا ٹریفک روک دیا حالانکہ اس سڑک پر واضح طور پر ''نو انٹری'' کا ٹریفک سائن لگا ہوا تھا، جس کے نتیجے میں یہ بدترین ٹریفک جام ہو گیا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جن کی ذمے داری میں قانون کی بالادستی کو قائم رکھنا ہے وہ خود کس بیدردی سے قانون شکنی کا ارتکاب کرتے ہیں۔
ہمارے قانون شہادت کی خلاف ورزی سے انصاف کی روح مجروح ہو جاتی ہے جو کہ کسی بھی آئینی نظام کی بنیاد ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مجرم اور دہشت گرد اپنی واردات کرنے کے بعد بہ آسانی مفرور ہو جاتے ہیں۔ بہت سے مجرموں کا تعلق منظم جرائم کے گروہوں سے ہوتا ہے بلکہ ان کے ڈانڈے کئی سیاسی پارٹیوں سے بھی ملتے ہیں جو عدالتوں سے بہت آسانی بچ کر نکل جاتے ہیں۔
وکی پیڈیا کے مطابق اگر کوئی قانون کے لفظوں کے بجائے اس کی روح کا احترام کرتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ قانون سازی کرنے والوں کے مقاصد کی دل سے پابندی کر رہا ہے، بے شک الفاظ کو مدنظر نہ بھی رکھا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ عدالتوں سے ایسے مجرم بھی رہا ہو جاتے ہیں جن کے خلاف شہادتیں ناکافی ہوتی ہیں۔
دوسری طرف یہ بات بھی ہے کہ ہمارے بعض سیاستدان بھی اپنی نااہلی اور ناقص کارکردگی کا بوجھ اعلیٰ عدالتوں پر ڈال دیتے ہیں۔ اگر ملزم کو کسی قانونی شق کا سہارا لے کر بچنے کا موقع مل جاتا ہے تب بھی انصاف کی روگردانی ہوتی ہے۔
جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کی اصطلاح ممکن ہے زیادہ پرانی نہ ہو لیکن اس کا تحقیقاتی اداروں کی طرف سے بہت استعمال ہوتا ہے۔ اس اصطلاح میں ججوں' پراسیکیوٹرز کسٹمز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر مشتمل ٹیمیں تشکیل دی جاتی ہیں۔
عمومی طور پر جے آئی ٹی کے لیے معینہ مدت تفویض کی جاتی ہے اور جب ایک جے آئی ٹی اپنی تحقیقات مکمل کر لیتی ہے تو اسے بند کر دیا جاتا ہے۔ لہٰذا جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ کو بیان حلفی کے طور پر لیا جانا چاہیے اور اس کی تحقیقات کو قانونی حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔ مسلم لیگ ن کے اسپن ڈاکٹرز پانامہ لیکس کی تحقیقات میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کر رہے کہ پی ایم اور ان کی فیملی کو اس سے مبرا قرار دیا جا سکے۔