NEW DELHI:
گڈانی کے ہولناک سانحے کے اسرار سے پردہ اٹھانے کی کوششیں جاری ہیں اور یکم نومبر کوایک بہت بڑے جاپانی آئل ٹینکر میں جو کچھ ہوا اس کے حوالے سے متضاد اطلاعات مل رہی ہیں۔
سرکاری ذرائع سے ہلاک ہونے والوں اور لاپتہ افراد کے مختلف اعدادوشمار دینے سے پتہ چلتا ہے کہ حکام اس سانحے پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سروس سے ہٹائے گئے ایم ٹی ایسس نامی 24ہزارٹن کے بحری آئل ٹینکر پر یکے بعد دیگرے ہونے والے دھماکوں کے نتیجے میں آگ بھڑ ک آتھی تھی۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان کے ایک اہم مشیر جان اچکزئی کے مطابق 70لوگوں کی ہلاکت کی تصدیق ہوچکی ہے جبکہ سانحے کے بعد سے 90 سے زائد لاپتہ ہیں۔ ادھر پولیس کا کہنا ہے کہ دھماکوں میں 26 مزدور ہلاک ہوئے جبکہ 50 زخمی ہیں۔ جان اچکزئی نے بتایا کہ ہم زخمیوں اور ہلاکتوں کے حوالے سے مزید معلومات اکٹھی کر رہے ہیں۔ ایکسپریس ٹریبیون کے رابطہ کرنے پر انھوں نے بتایا کہ عام حالات میں اس حجم کے جہاز کو توڑنے کیلیے 400کارکن کام کر رے ہیں۔
لسبیلہ سے حکمران ن لیگ کے ایک صوبائی قانون ساز ہلاکتوں کی تعداداس سے بھی بڑھا کر پیش کرتے ہیں ۔ رکن صوبائی اسمبلی پرنس احمد علی احمدزئی نے بتایا کہ 100سے زائدلوگ ہلاک ہوئے ہیں جبکہ درجنوں زخمی ہوئے جن میں سے 8کی حالت تشویشناک ہے۔ انھوں نے مزید کہاکہ ہلاکتوں کی تعداد اس سے بھی بڑھ سکتی ہے۔
احمد زئی نے وزیر اعلیٰ بلوچستان کے ہمراہ خود جائے وقوع کا دورہ کیا ہے۔یہ بہت بڑا بحری جہاز توڑنے کیلیے گڈانی شپ بریکنگ یارڈ کے پلاٹ نمبر54پر لایا گیا تھا ،احمد زئی نے مزید بتایا کہ عملے کے وہ لوگ جو جہاز کو یارڈ پر لائے ان میں سے 18بھارتی تھے۔ اس واقعے کے بعد سے وہ لاپتہ ہیں۔ اچکزئی نے ان بھارتیوں کی مذکورہ بحری جہاز ایم ٹی ایسس پر موجودگی کی نہ تو تصدیق کی ہے اور نہ ہی اس کی تردید کی ہے۔
ایس پی لسبیلہ ضیا مندوخیل جو اس کیس پر پولیس کی جانب سے تحقیقات کر رہے ہیں وہ ہلاکتوں کی تعداد 27 بتاتے ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد ان کے نزدیک28ہے۔ انھوں نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ ہلاک ہونے والے افراد میں سے 10کاتعلق دیر سے تھا ،9کا مظفر گڑھ سے جبکہ 5کا گڈانی اور 3کا کراچی سے تھا۔ ان کے نزدیک 4 مزدور لاپتہ ہیں اور انہیں بھی مردہ تصور کرنا چاہیے ، ان میں سے 2 کا تعلق گڈانی سے ہے جبکہ دو کا تعلق کراچی سے ہے۔ جب بحری جہاز میں آگ لگی تو 80سے85افراد بحری جہاز پر کام کر رہے تھے۔
اس سے بھی دلچسپ ایس ایچ او گڈانی رحمت اللہ چٹھہ کا موقف ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ یہ کبھی پتہ نہ چل سکے کہ جہاز پر کتنے مزدو ر کام کر رہے تھے۔ بڑا ٹھیکدار گل زمین جو مزدوروں کا ریکارڈ رکھتا تھا صرف وہی ایک ایسا شخص ہے جو کہ مزدوروں کی ٹھیک ٹھیک تعداد بتا سکتا تھالیکن وہ بھی اس حادثے میں ہلاک ہوچکا ہے۔ کمشنر قلات محمد ہاشم نے بتایا ہے کہ جہاز پر موجود 'تمام 26' مزدور ہلاک ہوگئے ہیں جن میں سے22کا تعلق دیر سے جبکہ 4کا تعلق پنجاب سے تھا۔
ثناء اللہ نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا ہے کہ میں اپنے ساتھ 8افراد کی میتیں لے کر آیا تھا ، وہاں کم از کم 11میتوں کا تعلق دیر، سوات، اور شانگلہ سے تھا۔ حب کے علاقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ علاقے کے 11 کارکن حادثے کے دن سے لاپتہ ہیں۔
ایم پی اے ثنا اللہ نے مزید کہا کہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے 53افراد زخمی ہیں،انھوں نے اس شبہے کا اظہار کیا کہ حکام کچھ چھپا رہے ہیں، جب میں اپنے ضلع کے لوگوں کی میتیں لینے کیلیے پہنچا تو مجھے بتایا گیا کہ ایک شخص جسے میں ڈھونڈ رہا تھا وہ ہلاک ہونے والوں میں شامل نہیں ہے لیکن چونکہ میں حکام کے جواب سے مطمئن نہیں تھا اس لیے میں خود نیچے اترا اور میں نے اس شخص کی میت لاش دیکھی جسے میں تلاش کر رہا تھا۔
ایم پی اے ثنا اللہ کو یقین ہے کہ لاپتہ افراد میں بہت بڑی تعداد بنگالی نژاد افراد کی ہے ۔ثنا اللہ نے بتایا کہ جب جہاز پر آگ لگی تو وہ جہاز پر چائے بنا رہے تھے۔ پلاٹ نمبر 17,18اور19کا مالک نذیر خان تو بہت ہی بڑھا چڑھا کر تعداد بتارہا ہے۔نذیر خان کے مطابق اس حادثے میں 250افراد ہلا ک ہوئے ہیں ۔اپنے اس دعوے کے ثبوت کے طو پر وہ بتاترے ہیں کہ اتنے بڑے جہاز کو توڑنے کیلیے کم از کم 600افراد پر مشتمل افرادی قوت چاہیے۔