’’کچھ اور‘‘ کرنا پڑے گا
پاکستان کو صرف ’’جمہوریت‘‘ نہیں ’’صاف ستھری حکومت‘‘ کی ضرورت ہے جو سپریم کورٹ کے فیصلوں پر آنکھیں بند کر کے عمل کرے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے شدید جیالے قسم کے ملتانی قومی اسمبلی کے حلقہ نمبر 151 میں عبدالقادر گیلانی کی جیت سے بہت زیادہ خوش نہیں ہیں۔ انھیں یقین کی حد تک گمان تھا کہ سپریم کورٹ کے ہاتھوں رسوا ہو کر معزول شدہ وزیر اعظم گیلانی نے اپنے شہر کے لوگوں میں ہمدردی کے جذبات جگائے ہیں۔ ان کے بیٹے کو دیوانہ وار ووٹ دے کر وہ اس تذلیل کا بدلہ چکا دیں گے۔ جونیئر گیلانی کو اپنے حریف پر کم از کم 40 سے 50 ہزار ووٹوں کی برتری حاصل ہو گی مگر جب ووٹوں کی صندوقچیاں کھلیں تو یہ برتری سسک سسک کر بھی 4 ہزار ووٹوں سے زیادہ نہ بڑھ پائی۔
ٹھنڈے دل سے انتخابی نتائج کا تجزیہ کرنے والے البتہ ان اداس جیالوں کو تسلی دینے کے لیے مختلف حقائق اور عوامل کا تذکرہ کر رہے ہیں۔ سب سے زیادہ دوش الیکشن کمیشن کی طرف سے بنائے گئے ان ضوابط کو دیا جا رہا ہے جو اب امیدواروں کو اپنے ووٹر پولنگ اسٹیشنوں پر لانے کی اجازت نہیں دیتے۔ الیکشن کمیشن نے از خود 80 بسیں مہیا کیں۔ وہ صرف ان 29 پولنگ اسٹیشنوں کے ووٹروں کے لیے تھیں جن کے گھر ووٹ بھگتانے والے مقامات سے 2 کلومیٹر دوری پر واقع تھے۔
پیپلز پارٹی والے دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے ووٹر غریب ہیں۔ انھیں گھروں سے لانا ہوتا ہے۔ الیکشن کمیشن کی بسیں ان کے جن ممکنہ ووٹروں کو لائیں وہ اکثر ایسے مقامات پر اُتارے گئے جہاں ان کے ووٹ فہرستوں میں موجود ہی نہ تھے۔ کافی واقعات بتائے جا رہے ہیں جہاں ''پکّے ووٹروں'' نے 3 گھنٹے سے زیادہ کی بھاگ دوڑ کے بعد اپنا پولنگ اسٹیشن ڈھونڈا۔ زیادہ تر لوگ ملتان کی گرمی سے تنگ آ کر ووٹ ڈالے بغیر گھروں کو لوٹ گئے۔
ملتان سے باہر بیٹھے تجزیہ کاروں کو یہ سب کہانیاں بدتر از گناہ قسم کی عذرفروشیاں سنائی دیتی ہیں۔ ان کی اکثریت کا فوری تاثر تو یہی تھا کہ ملک سکندر بوسن کے چھوٹے بھائی کا بطور ''آزاد امیدوار'' اتنے سارے ووٹ لے جانا اگر کوئی سیاسی پیغام دیتا ہے تو صرف اتنا کہ اگر پاکستان مسلم لیگ کے محب وطن لوگ، تبدیلی کے نشان کے ساتھ مل کر جماعت اسلامی کی پارسا چھتری کے نیچے اکٹھے ہو کر ذوالفقار علی بھٹو کی بنائی جماعت کے امیدواروں کے خلاف صرف ایک امیدوار کھڑا کرنے پر متفق ہو جائیں تو آیندہ انتخابات میں پیپلز پارٹی ہمیشہ کی موت مر جائے گی۔ اس کی داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔
پاکستان کے عوام کی بہتری اور خوش حالی کے غم میں مبتلا کالم نگاروں اور تجزیہ کاروں نے یہ ساری باتیں اپنی طلسماتی زبان میں تفصیل سے لکھیں۔ نواز شریف کے چند متین و فہیم مشیروں نے اپنے طور پر چپکے چپکے ان کالموں کے حوالے سے عمران خان کے قریبی لوگوں سے روابط بھی استوار کیے مگر ''تبدیلی کا نشان'' ڈٹا ہوا ہے۔ اسے خبر ہے کہ آیندہ کی حکومت وہ بنائے گا جو پنجاب سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرے گا۔ ''باریوں'' سے بیزار انقلابیوں کے لیے اس حوالے سے پیپلز پارٹی کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ مقابلہ تو نواز شریف سے ہے جو 1980ء کی دہائی میں سیاسی افق پر ابھرا اور ابھی تک غروب ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ عمران خان نوجوان نسل اور اپنی زندگی میں پہلی بار ووٹ ڈالنے کے لیے بے چین شہری اشرافیہ اور پڑھی لکھی مڈل کلاس کی دیوانہ وار محبت کے سبب پنجاب کو نواز شریف سے چھین لینے کا تہیہ کیے بیٹھے ہیں۔ ان کی جماعت سے اتحاد کیا تو ''نیا چہرہ'' ہونے کی کشش کھو بیٹھیں گے۔ قصہ مختصر فی الحال نواز شریف اور عمران خان کے درمیان کسی سیاسی یا بالآخر انتخابی اتحاد کے امکانات نظر نہیں آ رہے۔ انہی امکانات کے نظر نہ آنے سے اسلام آباد کے طاقتور ڈرائنگ روموں میں محفلیں برپا کرنے والے ایک بار پھر بڑی حقارت سے لوگوں کو خبردار کر رہے ہیں کہ حالات ایسے ہی رہے جیسے آجکل نظر آ رہے ہیں تو ''میکیاولی کا پاکستانی شاگرد'' آصف علی زرداری 2013ء کے بعد بھی صدر ِپاکستان رہ سکتا ہے اور کوئی بعید نہیں کہ اس کی جماعت آیندہ مرکزی حکومت میں ایک طاقتور حصہ دار بھی بن جائے خواہ اپنا وزیر اعظم بنوائے بغیر۔ جی کچھ اسی طرح کی واردات جو منموہن سنگھ اور بھارت میں کانگریس کی دوسری حکومت کی صورت میں نظر آ رہی ہے۔
ہمیں اب بتایا جا رہا ہے کہ پاکستان کو صرف ''جمہوریت'' نہیں ''صاف ستھری حکومت'' کی ضرورت ہے جو سپریم کورٹ کے فیصلوں پر آنکھیں بند کر کے عمل کرے۔ اپنے اقتدار کو ''دیہاڑی لگانے'' میں صرف نہ کرے۔ امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرے۔ ڈرون حملے رکوائے۔ افغانستان کو غیرملکی قبضے سے آزاد کروائے۔ بھارت سے کاروبار تو کرے مگر کشمیر کی آزادی بھی یقینی بنائے۔ ویسے بھی دھندا ٹھپ ہو چکا ہے۔ بجلی نہیں ہے۔ ملکی اور غیر ملکی قرض خوفناک حد تک بڑھ چکے ہیں۔ معیشت کو ایک حاذق حکیم کی تلاش ہے جو کڑوی دوائیاں تیار کر کے ہمارے حلق میں اُتار سکے۔
ایسے لوگوں کی نظر میں ملتان میں ہونے والا ضمنی انتخاب ''جمہوریت'' کی ایک جھلک تو دکھاتا ہے مگر ''صاف ستھری حکومت'' بنانے کے امکان کو معدوم تر کر دیتا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے ''چوروں اور لٹیروں'' نے اپنے چار سالہ دور اقتدار میں اربوں روپے بنا لیے ہیں۔ انتخابات کے دن وہ بند تجوریوں کے منہ کھولیں گے اور ووٹ خرید لیں گے۔ آیندہ انتخاب کروانے سے پہلے ضروری ہے کہ قوم کی لوٹی ہوئی دولت کو واپس لایا جائے اور ''چوروں اور لٹیروں'' کو کڑے احتساب سے گزار کر عبرت کا نشان بنا دیا جائے۔
اسلام آباد کے امیر اور طاقت ور ڈرائنگ روموں میں بیٹھے قوم کے غم خوار جو باتیں کر رہے ہیں ان سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا۔ مصیبت مگر یہ ہے کہ ہمارے ہاں سب کچھ آئین کے مطابق ہونا ہے جس کے تحفظ کی قسم آزاد عدلیہ اور بے باک میڈیا تقریباً ہر روز اُٹھایا کرتے ہیں۔ اب آئین تو انتخابات کروانے کے لیے کسی عبوری حکومت کو 60 سے 90 روز دیتا ہے۔ یہ دن ''قابل، ایماندار اور محب وطن ٹیکنوکریٹس'' کی حکومت کو اتنی مہلت نہیں دیتے کہ وہ پاکستان کے برسوں سے جمع ہوتے مسائل کے حل کی راہیں ڈھونڈ کر ملک کو بہتری اور خوشحالی کی منزل کی طرف گامزن کر سکیں۔
شاید اسی منزل کی طرف پیش قدمی کو ممکن بنانے کے لیے اب ایئرفورس سے ریٹائر ہونے والے ایک لطیف نامی افسر نے اُردو زبان میں مضامین لکھنے شروع کر دیے ہیں۔ لطیف کے کثافت بھرے مضمون کے ساتھ ہی ساتھ وزارت خارجہ سے فارغ ہونے والے ایک ہلالی صاحب بھی اپنی دھانسو انگریزی کے ساتھ میدان میں اُتر آئے ہیں۔ دونوں کو ملتان کے ضمنی انتخاب کے حوالے سے وہی دُکھ محسوس ہوئے ہیں جن کا میں تذکرہ کر چکا ہوں۔ لطیف نامی افسر نے جسٹس فخرالدین کی بطور چیف الیکشن کمشنر حلف اٹھانے کے دوسرے روز ہی ان کی ''غیرجانبداری'' پر کچھ اعتراضات بھی بیان کر دیے ہیں۔ ان کا بنایا مصرعہ اب اور بہت زیادہ ''لطیف'' لوگ بڑے تواتر سے اٹھائیں گے۔ فضا بنانی ہے تو صرف ایک پیغام دینے کے لیے اور وہ یہ کہ پاکستان کو ''جمہوریت'' نہیں ''صاف ستھری حکومت'' چاہیے' اپنے اندر بے شمار ترامیم کے باوجود پاکستان کا موجودہ آئین ایسی حکومت کے قیام میں مددگار ثابت نہیں ہو رہا' ''کچھ اور'' کرنا پڑے گا۔ لطیف نامی افسر نے اسی ضمن میں کچھ راستے سپریم کورٹ کو بھی دکھائے ہیں۔ پتہ نہیں ہماری آزاد عدلیہ کے چمک دار ستاروں نے ان کا مضمون پڑھا بھی ہے یا نہیں۔