پھوپیاں اور مامے…
’’ مبارک ہووے تہانوں سب نوں … ڈونل ٹریمپ ساڈا سب دا ماما بن گیا جے!‘‘
'' مبارک ہووے تہانوں سب نوں ... ڈونل ٹریمپ ساڈا سب دا ماما بن گیا جے!'' اس نوجوان نے دکان میں داخل ہو کر بلند آواز میں کہا، اس سے نہ صرف امریکی انتخابات کے نتیجے کا علم ہوا ، ساتھ ہی ہلکی سی مسکراہٹ ہونٹوں کو چھو گئی، دل ہی دل میں اس کے ڈونلڈ ٹرمپ کے نام کی ادائیگی پر بھی ہنسی آئی اور سوچ کہ اگر ہیلری جیت جاتی تو وہ اس دکان میں کس طرح اطلاع کرتا۔ ظاہر ہے کہ کہتا، '' مبارک ہووے تہانوں سب نوں، ہیلری ساڈی پھوپھی بن گئی جے!!'' امریکی انتخابات کے غیر متوقع نتائج کو زیر بحث لانا اس کالم کا مقصد نہیں، اس کالم میں، میں آپ سب سے سوال کرتی ہوں کہ کیوں ہم ہر منفی رویے کے حامل لوگوںکو مامے اور پھوپیاں کہتے ہیں؟
ہماری پنجابی زبان کی حد تک ماما اور پھوپی اس طرح کہے جاتے ہیں جیسے کسی نے گالی دے دی ہو، فلاں ہمارا ماما لگتا ہے یا زیادہ پھوپی بننے کی ضرورت نہیں وغیرہ۔ یہ رویے اور سوچ ہم میں تربیت کے اولین برسوں میں inject کر دی جاتی ہے اسی لیے ہم رشتوں کی اہمیت اور ان کے مقام کے بارے میں عمر بھر تضاد کا شکار رہتے ہیں۔ ہماری پھوپی لاکھ اچھی ہو مگر ہماری ماں ہمیں کبھی اسے ہماری خالہ سے بہتر نہیں سمجھتی اور ماما جتنا بھی اچھا ہو، ابا کو اس میں ہزار خامیاں نظر آ جاتی ہیں، ہمیں بتایا جاتا ہے کہ چار ہی رشتے اہم ہیں، باپ، ماں، بھائی اور بہن...باقی ہر رشتے میں ہم ہمیشہ انھیں بنیادی رشتوں کی جھلک ڈھونڈتے رہتے ہیں۔
کبھی ہم کسی کو منہ بولی ماں بناتے ہیں، کبھی بھائی اور کبھی بہن... اپنے دس بہن بھائی بھی ہوں پھر بھی پگ بدل بھائی اور دوپٹہ بدل بہنیں ماضی میں بھی ہماری روایات کا حصہ رہی ہیں اور اب بھی ہیں۔ چاچی میں تو آپ کو اپنی ماں جیسا سمجھتی ہوں، خالہ ماں جیسی ہوتی ہے، پھوپھی کو بھی ماں کی طرح سمجھنا چاہیے... چاچا میں آپ میں اور ابا میں کوئی فرق نہیں سمجھتا، ماما جی آپ میرے باپ جیسے ہیں، تایا جی میں آپ کو اپنے باپ سے بھی آگے سمجھتا ہوں !! ایسے فقرے ہم سب زندگی میں کبھی نہ کبھی ضرور بولتے ہیں، جہاں رشتوں میں کسی باعث دراڑیں پڑنے لگتی ہیں اور اپنی محبت اور اطاعت کا یقین دلانا پڑتا ہے-
بیٹی سسرال جاؤ گی تو اپنی ساس کو ماں جیسا سمجھنا، سسر کو باپ کی مانند اور نند کو بہن کی طرح چاہنا، دیور جیٹھ تمہارے بھائیوں جیسے ہیں۔ کیوں ، آخر کیوں ؟؟ کیوں ہم بیٹی کو نہیں کہتے کہ تمہارے شوہر کے ماں باپ جو کہ تمہارے ساس اور سسر ہیں، ان کا احترام اور تابعداری کرنا، ان کی حکم عدولی نہ کرنا انھیں ہمیشہ معتبر بنانا اور ان کے سامنے عاجزی سے بات کرنا۔ تمہارے شوہر کی بہنیں تمہاری نندیں ہیں، ان سے ان کے بھائی کو دور نہ کرنا، بہن بھائیوں میں نفاق اور جھگڑے کا باعث نہ بننا، ان کی چھوٹی چھوٹی ضروریات اور خواہشات کو پورا کرنا اور ان سے اسی طرح محبت کرنا جس طرح ان کا بھائی اس سے کرتا ہے۔ تمہارے شوہر کے بھائی، تمہارے نا محرم ہیں مگر ان کی عزت اور توقیر کرنا، ان کے اور اپنے بیچ ایک حد فاصل رکھنا، بھائیوں جیسی بے تکلفی سے اجتناب کرنا تا کہ زندگی کے کسی موڑ پر اس رشتے کے باعث اختلافات نہ ہوں۔
جب بیٹیوں کو گھروں سے رخصت کرتے وقت والدین ان کے اذہان میں ایسے ابہام پیدا کرتے ہیں تو وہ ہمیشہ رشتوں کو الٹ پلٹ کرنے میں مصروف رہتی ہیں، نہ انھیں ساس ماں جیسی لگتی ہے نہ سسر باپ جیسا، نہ نند بہن جیسی نہ دیور بھائی جیسا۔ اسی لیے سسرالی رشتوں سے اس میں کھنچاؤ پیدا ہو جاتا ہے اور اس کے عوضانے میں شوہر اپنے گھر میں ہونے والے ہر غلط کام کا ذمے دار اپنے سسرال اور وہاں سے لائی گئی تربیت کو قرار دیتا ہے، ان کے مابین بھی تناؤ رہتا ہے اور گھر کا ماحول خراب ، بچے اسی کھینچا تانی میں پرورش پاتے ہیں اور ان کے ذہنوںمیں یہ بات پختہ ہو جاتی ہے کہ دنیا میں دو لوگ غلط ہیں، مامے اور پھوپیاں۔
کیوں نہ کوشش کی جائے کہ رشتوں کو ان ہی کے نام سے خوب صورت بنایا جائے ، ساس اور بہو کو ساس اور بہو ہی کہا جائے مگر لوگ کہیں کہ کیا مثالی ساس بہو ہیں!! احترام اور تخاطب کے لیے بے شک ساس اپنی بہو کو بیٹی اور بہو اپنی ساس کو امی کہے، دل سے ایک دوسرے کا احترام کریں، ایک دوسرے کے جذبات کی قدر کریں ، خواہ مخواہ تنقید اور اختلاف رائے سے گریزکریں، بات بے بات نکتہ چینی نہ کریں۔ حقیقت کو تسلیم کریں، جو مقام ماں کا بیٹے کے لیے ہے اسے بہو تبدیل کرنے کی کوشش نہ کرے اور جو عورت ایک شخص کی بیوی کی حیثیت سے نئے گھر میں آتی ہے اسے ساس اس کا جائز اور اہم مقام دے، اسے اس گھر میں آنے سے پہلے کتنی تکلیف سے اپنے وجود کو اس گھر سے detach کرنا پڑتا ہے جہاں اس نے اپنی زندگی کے بیسیوں سال خوشیوں کے ہنڈولے میں جھولتے ہوئے اور پورے مان سے گزارے ہوتے ہیں، اس کے اس المیے کو ہی کافی سمجھیں اور اسے اپنے نئے گھر میں بسنے میں، دل لگانے میں اور مان کے ساتھ رہنے میں مدد کریں۔
بہوؤں کو بھی نئے گھر میں آ کر پہلے خاموشی سے یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ اس گھر کا نظام کیا ہے جو کہ اس کے وہاں آنے سے قبل سال ہا سال سے چل رہا ہے، شادی کے اگلے دن پرانے چولہے کی لپائی شروع کر دینا آپ کے سگھڑاپے نہیں بلکہ اتاولے پن کو ثابت کرتا ہے۔ نئے گھر میں اپنا مقام بنانے کے لیے پہلے سب لوگوں کو یہ یقین دلانا پڑتا ہے کہ آپ کے لیے وہ سب اہم ہیں، آپ ان کے گھر کے طریقے کو سمجھیں اور اسے آہستگی سے اپنانا شروع کریں۔ اپنی ساس اور سسر کو یقین دلائیں کہ آپ ان کے گھر میں ایڈجسٹ ہونے کی کوشش کر رہی ہیں تا کہ وہ اس میں آپ کی مدد کریں، کوئی غلطی ہوجائے تو اس کی معافی مانگ لینے میں کوئی حرج نہیں۔ شوہر سے محبت اور توجہ کی توقع کریں مگر اس کے وجود کو بانٹنا نہ شروع کردیں، شادی اس لیے نہیں ہوتی کہ ایک شخص آپ کو اس طرح مل جائے کہ اس سے قبل کے اس کے سارے رشتے اس طرح ختم ہو جائیں جیسے ربڑ ، پنسل کے لکھے کو مٹا دیتا ہے۔
اللہ کے نظام میں ہر چیز اپنے طریقے پر چلتی ہے، کوئی یہ نہ سوچے کہ ان کے پرانے رشتے آپ کو space نہیں دے رہے کیونکہ وہ تیس برسوں سے ان کے ساتھ ہیں اور آپ ابھی ان کی زندگی میں شامل ہوئی ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہوتا، ہماری زندگی میں نئے نئے لوگ شامل ہوتے رہتے ہیں اور وہ اپنے حصے کا پیار اور توجہ پاتے رہتے ہیں، جیسے عمر کے ہر دور میں ہمارے دوست بنتے رہتے ہیں، ہماری اولاد اور پھر ان کی اولاد... جب جب ان کا وقت مقرر ہے وہ ہماری زندگیوں میںشامل ہوتے ہیں اور ان کے آنے تک ہم اپنے پیار کو تقسیم کرنا نہیں بلکہ ضرب دینا سیکھ لیتے ہیں۔
پیار کو بانٹنے کا طریقہ ہی یہ ہے کہ اسے تقسیم کرنے کی بجائے ضرب دی جائے، باپ کا پیار، ماں کا پیار، بہن بھائیوں کا پیار... یہ سب اپنی اپنی جگہ، ایک بیوی آکر اس سارے پیار کو ختم نہیں کر سکتی، اگر یہ سارے لوگ اپنی سوچ کو منفی نہ کر لیں۔ اپنے بچوں کی سب اچھی اور بری عادات کا والدین، کم ازکم ماؤں کو ضرور علم ہوتا ہے، وہی عادات اگر شادی کے بعد بھی جاری و ساری رہیں تو اس کا الزام بہو کو نہ دیں، وہ تو چار دن میں آپ کے پوتڑوں کے بگڑے ہوئے لال کو سدھار نہیں سکتی، اس کے ناتواں کندھوں پر وہ ذمے داری نہ ڈالیں جسے آپ خود نہیں نبھا سکے۔
دو فریقین کی یہ گھریلو جنگیں ، اگلی نسل کی تربیت میں کئی سقم چھوڑ دیتی ہیں اور وہ ہمیشہ ان رشتوں کو اپنے باپ اور ماں کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ماں اپنے بچے کو لوری سناتی ہے، '' چندا ماما دور کے... '' تو ساس سوچتی ہے چندا چاچا کیوں نہیں۔ ماں اپنی بیٹی سے ہر ہر بات میں بہو کا موازنہ کرتی ہے تو بہو کے دل میں اس کے خلاف گرہ بندھ جاتی ہے۔ اسی لیے یہ بچے جب بڑے ہوتے ہیں تو ہر برا کہنے اور کرنے والے کو ماما اور پھوپی بنا لیتے ہیں... ویسے کیا ہمارے لیے صرف امریکا کا صدر ہی '' ماما '' ہوتا ہے؟
ہماری پنجابی زبان کی حد تک ماما اور پھوپی اس طرح کہے جاتے ہیں جیسے کسی نے گالی دے دی ہو، فلاں ہمارا ماما لگتا ہے یا زیادہ پھوپی بننے کی ضرورت نہیں وغیرہ۔ یہ رویے اور سوچ ہم میں تربیت کے اولین برسوں میں inject کر دی جاتی ہے اسی لیے ہم رشتوں کی اہمیت اور ان کے مقام کے بارے میں عمر بھر تضاد کا شکار رہتے ہیں۔ ہماری پھوپی لاکھ اچھی ہو مگر ہماری ماں ہمیں کبھی اسے ہماری خالہ سے بہتر نہیں سمجھتی اور ماما جتنا بھی اچھا ہو، ابا کو اس میں ہزار خامیاں نظر آ جاتی ہیں، ہمیں بتایا جاتا ہے کہ چار ہی رشتے اہم ہیں، باپ، ماں، بھائی اور بہن...باقی ہر رشتے میں ہم ہمیشہ انھیں بنیادی رشتوں کی جھلک ڈھونڈتے رہتے ہیں۔
کبھی ہم کسی کو منہ بولی ماں بناتے ہیں، کبھی بھائی اور کبھی بہن... اپنے دس بہن بھائی بھی ہوں پھر بھی پگ بدل بھائی اور دوپٹہ بدل بہنیں ماضی میں بھی ہماری روایات کا حصہ رہی ہیں اور اب بھی ہیں۔ چاچی میں تو آپ کو اپنی ماں جیسا سمجھتی ہوں، خالہ ماں جیسی ہوتی ہے، پھوپھی کو بھی ماں کی طرح سمجھنا چاہیے... چاچا میں آپ میں اور ابا میں کوئی فرق نہیں سمجھتا، ماما جی آپ میرے باپ جیسے ہیں، تایا جی میں آپ کو اپنے باپ سے بھی آگے سمجھتا ہوں !! ایسے فقرے ہم سب زندگی میں کبھی نہ کبھی ضرور بولتے ہیں، جہاں رشتوں میں کسی باعث دراڑیں پڑنے لگتی ہیں اور اپنی محبت اور اطاعت کا یقین دلانا پڑتا ہے-
بیٹی سسرال جاؤ گی تو اپنی ساس کو ماں جیسا سمجھنا، سسر کو باپ کی مانند اور نند کو بہن کی طرح چاہنا، دیور جیٹھ تمہارے بھائیوں جیسے ہیں۔ کیوں ، آخر کیوں ؟؟ کیوں ہم بیٹی کو نہیں کہتے کہ تمہارے شوہر کے ماں باپ جو کہ تمہارے ساس اور سسر ہیں، ان کا احترام اور تابعداری کرنا، ان کی حکم عدولی نہ کرنا انھیں ہمیشہ معتبر بنانا اور ان کے سامنے عاجزی سے بات کرنا۔ تمہارے شوہر کی بہنیں تمہاری نندیں ہیں، ان سے ان کے بھائی کو دور نہ کرنا، بہن بھائیوں میں نفاق اور جھگڑے کا باعث نہ بننا، ان کی چھوٹی چھوٹی ضروریات اور خواہشات کو پورا کرنا اور ان سے اسی طرح محبت کرنا جس طرح ان کا بھائی اس سے کرتا ہے۔ تمہارے شوہر کے بھائی، تمہارے نا محرم ہیں مگر ان کی عزت اور توقیر کرنا، ان کے اور اپنے بیچ ایک حد فاصل رکھنا، بھائیوں جیسی بے تکلفی سے اجتناب کرنا تا کہ زندگی کے کسی موڑ پر اس رشتے کے باعث اختلافات نہ ہوں۔
جب بیٹیوں کو گھروں سے رخصت کرتے وقت والدین ان کے اذہان میں ایسے ابہام پیدا کرتے ہیں تو وہ ہمیشہ رشتوں کو الٹ پلٹ کرنے میں مصروف رہتی ہیں، نہ انھیں ساس ماں جیسی لگتی ہے نہ سسر باپ جیسا، نہ نند بہن جیسی نہ دیور بھائی جیسا۔ اسی لیے سسرالی رشتوں سے اس میں کھنچاؤ پیدا ہو جاتا ہے اور اس کے عوضانے میں شوہر اپنے گھر میں ہونے والے ہر غلط کام کا ذمے دار اپنے سسرال اور وہاں سے لائی گئی تربیت کو قرار دیتا ہے، ان کے مابین بھی تناؤ رہتا ہے اور گھر کا ماحول خراب ، بچے اسی کھینچا تانی میں پرورش پاتے ہیں اور ان کے ذہنوںمیں یہ بات پختہ ہو جاتی ہے کہ دنیا میں دو لوگ غلط ہیں، مامے اور پھوپیاں۔
کیوں نہ کوشش کی جائے کہ رشتوں کو ان ہی کے نام سے خوب صورت بنایا جائے ، ساس اور بہو کو ساس اور بہو ہی کہا جائے مگر لوگ کہیں کہ کیا مثالی ساس بہو ہیں!! احترام اور تخاطب کے لیے بے شک ساس اپنی بہو کو بیٹی اور بہو اپنی ساس کو امی کہے، دل سے ایک دوسرے کا احترام کریں، ایک دوسرے کے جذبات کی قدر کریں ، خواہ مخواہ تنقید اور اختلاف رائے سے گریزکریں، بات بے بات نکتہ چینی نہ کریں۔ حقیقت کو تسلیم کریں، جو مقام ماں کا بیٹے کے لیے ہے اسے بہو تبدیل کرنے کی کوشش نہ کرے اور جو عورت ایک شخص کی بیوی کی حیثیت سے نئے گھر میں آتی ہے اسے ساس اس کا جائز اور اہم مقام دے، اسے اس گھر میں آنے سے پہلے کتنی تکلیف سے اپنے وجود کو اس گھر سے detach کرنا پڑتا ہے جہاں اس نے اپنی زندگی کے بیسیوں سال خوشیوں کے ہنڈولے میں جھولتے ہوئے اور پورے مان سے گزارے ہوتے ہیں، اس کے اس المیے کو ہی کافی سمجھیں اور اسے اپنے نئے گھر میں بسنے میں، دل لگانے میں اور مان کے ساتھ رہنے میں مدد کریں۔
بہوؤں کو بھی نئے گھر میں آ کر پہلے خاموشی سے یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ اس گھر کا نظام کیا ہے جو کہ اس کے وہاں آنے سے قبل سال ہا سال سے چل رہا ہے، شادی کے اگلے دن پرانے چولہے کی لپائی شروع کر دینا آپ کے سگھڑاپے نہیں بلکہ اتاولے پن کو ثابت کرتا ہے۔ نئے گھر میں اپنا مقام بنانے کے لیے پہلے سب لوگوں کو یہ یقین دلانا پڑتا ہے کہ آپ کے لیے وہ سب اہم ہیں، آپ ان کے گھر کے طریقے کو سمجھیں اور اسے آہستگی سے اپنانا شروع کریں۔ اپنی ساس اور سسر کو یقین دلائیں کہ آپ ان کے گھر میں ایڈجسٹ ہونے کی کوشش کر رہی ہیں تا کہ وہ اس میں آپ کی مدد کریں، کوئی غلطی ہوجائے تو اس کی معافی مانگ لینے میں کوئی حرج نہیں۔ شوہر سے محبت اور توجہ کی توقع کریں مگر اس کے وجود کو بانٹنا نہ شروع کردیں، شادی اس لیے نہیں ہوتی کہ ایک شخص آپ کو اس طرح مل جائے کہ اس سے قبل کے اس کے سارے رشتے اس طرح ختم ہو جائیں جیسے ربڑ ، پنسل کے لکھے کو مٹا دیتا ہے۔
اللہ کے نظام میں ہر چیز اپنے طریقے پر چلتی ہے، کوئی یہ نہ سوچے کہ ان کے پرانے رشتے آپ کو space نہیں دے رہے کیونکہ وہ تیس برسوں سے ان کے ساتھ ہیں اور آپ ابھی ان کی زندگی میں شامل ہوئی ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہوتا، ہماری زندگی میں نئے نئے لوگ شامل ہوتے رہتے ہیں اور وہ اپنے حصے کا پیار اور توجہ پاتے رہتے ہیں، جیسے عمر کے ہر دور میں ہمارے دوست بنتے رہتے ہیں، ہماری اولاد اور پھر ان کی اولاد... جب جب ان کا وقت مقرر ہے وہ ہماری زندگیوں میںشامل ہوتے ہیں اور ان کے آنے تک ہم اپنے پیار کو تقسیم کرنا نہیں بلکہ ضرب دینا سیکھ لیتے ہیں۔
پیار کو بانٹنے کا طریقہ ہی یہ ہے کہ اسے تقسیم کرنے کی بجائے ضرب دی جائے، باپ کا پیار، ماں کا پیار، بہن بھائیوں کا پیار... یہ سب اپنی اپنی جگہ، ایک بیوی آکر اس سارے پیار کو ختم نہیں کر سکتی، اگر یہ سارے لوگ اپنی سوچ کو منفی نہ کر لیں۔ اپنے بچوں کی سب اچھی اور بری عادات کا والدین، کم ازکم ماؤں کو ضرور علم ہوتا ہے، وہی عادات اگر شادی کے بعد بھی جاری و ساری رہیں تو اس کا الزام بہو کو نہ دیں، وہ تو چار دن میں آپ کے پوتڑوں کے بگڑے ہوئے لال کو سدھار نہیں سکتی، اس کے ناتواں کندھوں پر وہ ذمے داری نہ ڈالیں جسے آپ خود نہیں نبھا سکے۔
دو فریقین کی یہ گھریلو جنگیں ، اگلی نسل کی تربیت میں کئی سقم چھوڑ دیتی ہیں اور وہ ہمیشہ ان رشتوں کو اپنے باپ اور ماں کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ماں اپنے بچے کو لوری سناتی ہے، '' چندا ماما دور کے... '' تو ساس سوچتی ہے چندا چاچا کیوں نہیں۔ ماں اپنی بیٹی سے ہر ہر بات میں بہو کا موازنہ کرتی ہے تو بہو کے دل میں اس کے خلاف گرہ بندھ جاتی ہے۔ اسی لیے یہ بچے جب بڑے ہوتے ہیں تو ہر برا کہنے اور کرنے والے کو ماما اور پھوپی بنا لیتے ہیں... ویسے کیا ہمارے لیے صرف امریکا کا صدر ہی '' ماما '' ہوتا ہے؟