ٹرین حادثات اور انسانی غلطیاں
زخمی ڈرائیور نے ابتدائی بیان میں کہاکہ حادثے کے وقت اس کی آنکھوں میں اندھیرا آگیا تھا۔
BRISBANE:
حالیہ ٹرین حادثے کے نتیجے میں اپنی منزل کے قریب پہنچ جانے والے دو درجن کے قریب مسافر اپنی منزل اور جانیں دونوں گنوا بیٹھے اور درجنوں زخمی ہوئے۔ حادثہ اس وقت پیش آیا جب پنجاب سے کراچی پہنچنے والی دو ٹرینیں آپس میں ٹکرا گئیں۔ حادثے پر وزیر ریلوے نے مرنے والوں کے لواحقین کے لیے 15 لاکھ اور زخمیوں کے لیے 5 لاکھ روپے امداد کا اعلان کیا ہے۔
ان ناحق انسانی جانوں کے ضیاع پر حسب دستور وزیراعظم، صدر، وزرائے اعلیٰ، گورنر، چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین اور قائد حزب اختلاف کے تعزیتی بیانات جاری ہوئے۔ حادثے کی رپورٹ طلب کرلی گئی ہے۔ معمول کے مطابق انکوائری کمیٹی بھی قائم کردی گئی ہے۔
قائمہ کمیٹی برائے ریلوے کے اجلاس میں سعد رفیق نے بتایاکہ گزشتہ 6 سال میں وقوع پذیر حادثات کے واقعات کی رپورٹ طلب کرلی گئی ہے، حالیہ ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈرائیوروں نے پہلے پیلے اور پھر سرخ سگنل کو نظر انداز کیا، وہ کسی کام میں لگے ہوئے تھے، ٹرین کی رفتار انتہائی تیز تھی، دونوں نے ایمرجنسی بریک لگانے کی کوشش نہیں کی بلکہ خود چھلانگ لگا دی اور مسافروں کو بچانے کے بجائے اپنی جان بچانے کو ترجیح دی۔
زخمی ڈرائیور نے ابتدائی بیان میں کہاکہ حادثے کے وقت اس کی آنکھوں میں اندھیرا آگیا تھا۔ وزیر ریلوے نے قائمہ کمیٹی کو بتایاکہ ٹرین حادثے کی تفصیلی رپورٹ آئندہ 8 دنوں میں آجائے گی، ڈرائیور کو سب کچھ اگلنا پڑے گا۔ قائمہ کمیٹی کو بتایاگیا کہ حالیہ زیادہ تر حادثات انسانی غلطی سے ہوئے ہیں، ریلوے حادثات میں سزاؤں کے نظام میں تبدیلی کی ضرورت ہے، ریلوے قواعد و ضوابطہ میں تبدیلی کرنا ہوگی، گزشتہ 3 سال کے ریلوے حادثات کے مقدمات زیر التوا ہیں، ان پر سخت سزا دی جائے گی، سخت سزاؤں کی صورت میں ملازمین کی ہڑتال کی دھمکیوں سے ہرگز بلیک میل نہیں ہوں گے۔
انھوں نے کہا کہ صوبوں کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ لیول کراسنگ کے لیے اپنا حصہ دیں، اس سلسلے میں انھیں خطوط ارسال کیے گئے مگر سوائے پنجاب کے کسی صوبے نے اپنا حصہ نہیں دیا، اگر لیول کراسنگ ہوجائے تو 50 فی صد سے زائد حادثات سے بچا جا سکتا ہے۔ قائمہ کمیٹی کے سربراہ نوید قمر نے استفسار کیاکہ جب ڈرائیور کی آنکھوں میں اندھیرا آگیا تو وہ خود کیسے کودا؟ حادثات سے بچنے کے لیے انسانی غلطیوں کو روکنے کے اقدماات کیے جائیں۔
ریلوے حادثات کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ بڑے بڑے حادثات ٹرینوں کے آپس میں ٹکرانے یا پٹریوں سے اتر جانے کی وجہ سے رونما ہوئے ہیں، جن میں انسانی غلطی اور لاپرواہی کا عنصر شامل ہے۔ 2009 میں جمعہ گوٹھ کے اسی مقام پر ایک مسافر ٹرین اور مال گاڑی کے تصادم میں درجنوں انسان اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ حادثے کی وجہ ٹرین کو سرخ سگنل نہ دینا تھا۔ 1991 میں گھوٹکی کے قریب ٹرین و مال گاڑی میں تصادم کے نتیجے میں سیکڑوں افراد ہلاک و زخمی ہوئے تھے۔
2005 میں اسی مقام پر تین ٹرینوں کے تصادم میں 150 کے قریب زندگیاں لقمہ اجل بنی تھیں، ریلوے کی تاریخ کا سب سے بڑا حادثہ 1990 میں سانگی کے مقام پر دو ٹرینوں کے ٹکرانے سے رونما ہوا تھا جس میں 350 سے زائد مسافروں کی ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ اس المناک واقعے نے ریلوے کے پورے شیڈول کو تلپٹ کرکے رکھ دیا تھا۔
ہم اس وقت اسٹڈی ٹور کرکے راولپنڈی سے کراچی آرہے تھے کہ پنڈی اسٹیشن پر ہی اخبار میں اس ٹرین حادثے کی دو کالمی خبر پڑھنے کو ملی جس کو مسافروں نے معمول کی خبر سمجھ کر نظر انداز کردیا، پھر سفر کرتے کرتے ایسا وقت آیا کہ جائے حادثہ سے پہلے تمام ٹرینیں مختلف ٹریکس پر آگے پیچھے جمع کی جاتی رہیں، ان کے ڈرائیورز و دیگر عملہ بھی ٹرینوں کے آگے ریلوے لائنوں پر بیٹھے تھے، اس وقت کمیونیکیشن کا حالیہ نظام نہیں تھا، مسافر ریلوے گارڈز، ڈرائیورز، پولیس ودیگر عملہ سے معلومات لینے، گفتگو کرنے اور چہ میگوئیوں میں مصروف تھے، ہم بھی ان کی گفتگو سن رہے تھے۔
ڈرائیورز بتارہے تھے کہ مظلوم اور جواب طلب ان ہی کا طبقہ ہے، جب کوئی حادثہ رونما ہوتا ہے تو تمام شعبوں کے سربراہ اپنے اپنے شعبوں کو بچانے میں لگ جاتے ہیں، اس بات کی کوششیں کرتے ہیں کہ سگنلپنگ، انجینئرنگ یا کسی بھی شعبے کی غلطی ڈرائیور کے اوپر تھوپ دی جائے، جس کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا ہے اگر ٹرین میں کوئی واردات ہوجائے تو حفاظت پر مامور ریلوے پولیس اہلکار سیٹوں کے نیچے چھپ کر اپنی جانیں بچانے کی فکر کرتے ہیں۔
ٹرینوں کی دیر سویر کی صورت میں بھی ڈرائیورز پر دباؤ آتا ہے کہ بروقت منزل مقصود پر پہنچائیں، چاہیں ریلوے لائن کیسی بھی ہو، رفتار سے زیادہ تیز چلانا پڑے اور جواب طلبی بھی ڈرائیورز سے کی جاتی ہے۔
اس حادثے کے موقع پر ہم پر یہ حقیقت پہلی مرتبہ منکشف ہوئی کہ دوران سفر ٹرین ڈرائیورز اور آپریشن ڈپارٹمنٹ کے درمیان کوئی کمیونیکیشن نہیں ہوتا، وہ رات دن کیبن سے ہلائی جانے والی لالٹین کی روشنی کے اشارے اور سگنل پر محو سفر رہتے ہیں۔
ہم نے ڈرائیور سے دریافت کیا کہ اگر دوران سفر ٹرین خراب ہوجائے تو وہ آپریشن کو کیسے آگاہ کرتے ہیں تو اس نے بتایاکہ اول تو ٹرین درمیان میں رک جائے تو دوسری ٹرین کو وہاں سے گزرنے کی اجازت ہی نہیں دی جاتی، دوئم یہ کہ ہمیں انتظامیہ نے پٹاخے دیے ہوئے ہیں جو ہم ریلوے لائن پر دوڑتے ہوئے مختلف فاصلوں پر جاکر باندھ دیتے ہیں تاکہ اگر کوئی ٹرین اس ٹریک پر آبھی جائے تو اس کا ڈرائیور پٹاخہ پھٹنے کی آواز سے چوکس ہوجائے اور دوسرے اور تیسرے پٹاخے تک پہنچنے پر گاڑی کو روک لے۔
ہمیں ان ادھیڑ عمر ڈرائیوروں کی صحت و تندرستی ان کی ظاہری فٹنس دیکھ کر اور ان کی بات چیت کے انداز سے محسوس ہورہاتھا کہ ان کے میڈیکل چیک اپ، صحت و تندرستی اور تعلیم کا کوئی خاطر خواہ بندوبست یا معیار نہیں ہے۔ ان غیر مستعد و بے سروسامان ڈرائیورز کے ہاتھوں میں ہزاروں زندگیاں دے دی جاتی ہیں۔ اس جدید سائنسی دور میں روایتی طریقے سے ہدایات، ہاتھوں سے پٹڑیوں کو تبدیل کرنا، لالٹین کو کھڑکیوں سے ہلاکر ٹرینوں کو ہدایات دینا خطرناک عمل ہے ریلوے کے نظام کو عصر حاضر کے تقاضوں اور سائنسی سہولیات سے مزین کرکے بہتر اور محفوظ بنانا چاہیے تاکہ لوگ ٹرینوں کا سفر بے خوف و خطر اور محفوظ طریقے سے کرسکیں۔
دیگر ٹرانسپورٹ کے مقابلے میں ریلوے سے فضائی آلودگی بھی انتہائی کم ہوتی ہے اس پر اخراجات بھی کم آتے ہیں۔ مسافت اور سامان کی ترسیل سستا اور محفوظ ترین ذریعہ ہے۔ ریلوے کا معزز مسافروں خصوصاً بچوں اور نوجوانوں کے لیے مشاہدات سے بھرپور ہوتا ہے، انھیں سفر کے دوران خوبصورت مقامات، کھیت کھلیان، دریا پہاڑ مختلف تعمیرات،کارخانوں، ملک کے طول و عرض، جغرافیہ اور تاریخ سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔
پاکستان ریلوے حقیقتاً قومی اثاثہ ہے جس کی حفاظت کی جانی چاہیے جس میں حکمران اور سیاست دان مجرمانہ غفلت کا شکار بلکہ اسے لوٹنے اور تباہ کرنے میں شریک رہے ہیں۔ ریلوے کی اربوں روپے کی اراضی پر منظم طور پر قبضہ اور تجاوزات قائم کرکے پٹرول پمپس، شاپنگ سینٹرز، رہائشی عمارتیں، کچی آبادیاں آباد کرلی گئیں۔ کرپشن، چوری، لوٹ مار کے علاوہ اسٹیشنوں پر کھڑی بوگیاں پر اسرار طریقے سے جل کر خاکستر ہوجاتی ہیں، اس کے حادثات سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ 15 ارب روپے سالانہ سے زائد بتایا جاتا ہے۔
نیب کا دعویٰ ہے کہ اس نے ریلوے کی اربوں روپے کی اراضی کو تجاوزات ختم کراکے وا گزار کرایا ہے۔ ریلوے کے موجودہ وزیر نے مختصر دورانیہ میں ریلوے کے خسارہ زدہ اور تباہ حال محکمہ کو اپنے پیروں پر کھڑا کردیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت نقل و حمل اور سامان کی ترسیل کے اس ارزاں ذریعے کی اہمیت پر سنجیدگی اختیار کرتے ہوئے اسے جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے فوری اور ہنگامہ نوعیت کے اقدامات کرے، اس پر خرچ کیا جانے والا پیسہ بلاواسطہ طور پر اس ملک و قوم کی طرف ہی لوٹے گا۔ ضرورت سنجیدگی اختیار کرنے کی ہے۔
حالیہ ٹرین حادثے کے نتیجے میں اپنی منزل کے قریب پہنچ جانے والے دو درجن کے قریب مسافر اپنی منزل اور جانیں دونوں گنوا بیٹھے اور درجنوں زخمی ہوئے۔ حادثہ اس وقت پیش آیا جب پنجاب سے کراچی پہنچنے والی دو ٹرینیں آپس میں ٹکرا گئیں۔ حادثے پر وزیر ریلوے نے مرنے والوں کے لواحقین کے لیے 15 لاکھ اور زخمیوں کے لیے 5 لاکھ روپے امداد کا اعلان کیا ہے۔
ان ناحق انسانی جانوں کے ضیاع پر حسب دستور وزیراعظم، صدر، وزرائے اعلیٰ، گورنر، چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین اور قائد حزب اختلاف کے تعزیتی بیانات جاری ہوئے۔ حادثے کی رپورٹ طلب کرلی گئی ہے۔ معمول کے مطابق انکوائری کمیٹی بھی قائم کردی گئی ہے۔
قائمہ کمیٹی برائے ریلوے کے اجلاس میں سعد رفیق نے بتایاکہ گزشتہ 6 سال میں وقوع پذیر حادثات کے واقعات کی رپورٹ طلب کرلی گئی ہے، حالیہ ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈرائیوروں نے پہلے پیلے اور پھر سرخ سگنل کو نظر انداز کیا، وہ کسی کام میں لگے ہوئے تھے، ٹرین کی رفتار انتہائی تیز تھی، دونوں نے ایمرجنسی بریک لگانے کی کوشش نہیں کی بلکہ خود چھلانگ لگا دی اور مسافروں کو بچانے کے بجائے اپنی جان بچانے کو ترجیح دی۔
زخمی ڈرائیور نے ابتدائی بیان میں کہاکہ حادثے کے وقت اس کی آنکھوں میں اندھیرا آگیا تھا۔ وزیر ریلوے نے قائمہ کمیٹی کو بتایاکہ ٹرین حادثے کی تفصیلی رپورٹ آئندہ 8 دنوں میں آجائے گی، ڈرائیور کو سب کچھ اگلنا پڑے گا۔ قائمہ کمیٹی کو بتایاگیا کہ حالیہ زیادہ تر حادثات انسانی غلطی سے ہوئے ہیں، ریلوے حادثات میں سزاؤں کے نظام میں تبدیلی کی ضرورت ہے، ریلوے قواعد و ضوابطہ میں تبدیلی کرنا ہوگی، گزشتہ 3 سال کے ریلوے حادثات کے مقدمات زیر التوا ہیں، ان پر سخت سزا دی جائے گی، سخت سزاؤں کی صورت میں ملازمین کی ہڑتال کی دھمکیوں سے ہرگز بلیک میل نہیں ہوں گے۔
انھوں نے کہا کہ صوبوں کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ لیول کراسنگ کے لیے اپنا حصہ دیں، اس سلسلے میں انھیں خطوط ارسال کیے گئے مگر سوائے پنجاب کے کسی صوبے نے اپنا حصہ نہیں دیا، اگر لیول کراسنگ ہوجائے تو 50 فی صد سے زائد حادثات سے بچا جا سکتا ہے۔ قائمہ کمیٹی کے سربراہ نوید قمر نے استفسار کیاکہ جب ڈرائیور کی آنکھوں میں اندھیرا آگیا تو وہ خود کیسے کودا؟ حادثات سے بچنے کے لیے انسانی غلطیوں کو روکنے کے اقدماات کیے جائیں۔
ریلوے حادثات کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ بڑے بڑے حادثات ٹرینوں کے آپس میں ٹکرانے یا پٹریوں سے اتر جانے کی وجہ سے رونما ہوئے ہیں، جن میں انسانی غلطی اور لاپرواہی کا عنصر شامل ہے۔ 2009 میں جمعہ گوٹھ کے اسی مقام پر ایک مسافر ٹرین اور مال گاڑی کے تصادم میں درجنوں انسان اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ حادثے کی وجہ ٹرین کو سرخ سگنل نہ دینا تھا۔ 1991 میں گھوٹکی کے قریب ٹرین و مال گاڑی میں تصادم کے نتیجے میں سیکڑوں افراد ہلاک و زخمی ہوئے تھے۔
2005 میں اسی مقام پر تین ٹرینوں کے تصادم میں 150 کے قریب زندگیاں لقمہ اجل بنی تھیں، ریلوے کی تاریخ کا سب سے بڑا حادثہ 1990 میں سانگی کے مقام پر دو ٹرینوں کے ٹکرانے سے رونما ہوا تھا جس میں 350 سے زائد مسافروں کی ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ اس المناک واقعے نے ریلوے کے پورے شیڈول کو تلپٹ کرکے رکھ دیا تھا۔
ہم اس وقت اسٹڈی ٹور کرکے راولپنڈی سے کراچی آرہے تھے کہ پنڈی اسٹیشن پر ہی اخبار میں اس ٹرین حادثے کی دو کالمی خبر پڑھنے کو ملی جس کو مسافروں نے معمول کی خبر سمجھ کر نظر انداز کردیا، پھر سفر کرتے کرتے ایسا وقت آیا کہ جائے حادثہ سے پہلے تمام ٹرینیں مختلف ٹریکس پر آگے پیچھے جمع کی جاتی رہیں، ان کے ڈرائیورز و دیگر عملہ بھی ٹرینوں کے آگے ریلوے لائنوں پر بیٹھے تھے، اس وقت کمیونیکیشن کا حالیہ نظام نہیں تھا، مسافر ریلوے گارڈز، ڈرائیورز، پولیس ودیگر عملہ سے معلومات لینے، گفتگو کرنے اور چہ میگوئیوں میں مصروف تھے، ہم بھی ان کی گفتگو سن رہے تھے۔
ڈرائیورز بتارہے تھے کہ مظلوم اور جواب طلب ان ہی کا طبقہ ہے، جب کوئی حادثہ رونما ہوتا ہے تو تمام شعبوں کے سربراہ اپنے اپنے شعبوں کو بچانے میں لگ جاتے ہیں، اس بات کی کوششیں کرتے ہیں کہ سگنلپنگ، انجینئرنگ یا کسی بھی شعبے کی غلطی ڈرائیور کے اوپر تھوپ دی جائے، جس کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا ہے اگر ٹرین میں کوئی واردات ہوجائے تو حفاظت پر مامور ریلوے پولیس اہلکار سیٹوں کے نیچے چھپ کر اپنی جانیں بچانے کی فکر کرتے ہیں۔
ٹرینوں کی دیر سویر کی صورت میں بھی ڈرائیورز پر دباؤ آتا ہے کہ بروقت منزل مقصود پر پہنچائیں، چاہیں ریلوے لائن کیسی بھی ہو، رفتار سے زیادہ تیز چلانا پڑے اور جواب طلبی بھی ڈرائیورز سے کی جاتی ہے۔
اس حادثے کے موقع پر ہم پر یہ حقیقت پہلی مرتبہ منکشف ہوئی کہ دوران سفر ٹرین ڈرائیورز اور آپریشن ڈپارٹمنٹ کے درمیان کوئی کمیونیکیشن نہیں ہوتا، وہ رات دن کیبن سے ہلائی جانے والی لالٹین کی روشنی کے اشارے اور سگنل پر محو سفر رہتے ہیں۔
ہم نے ڈرائیور سے دریافت کیا کہ اگر دوران سفر ٹرین خراب ہوجائے تو وہ آپریشن کو کیسے آگاہ کرتے ہیں تو اس نے بتایاکہ اول تو ٹرین درمیان میں رک جائے تو دوسری ٹرین کو وہاں سے گزرنے کی اجازت ہی نہیں دی جاتی، دوئم یہ کہ ہمیں انتظامیہ نے پٹاخے دیے ہوئے ہیں جو ہم ریلوے لائن پر دوڑتے ہوئے مختلف فاصلوں پر جاکر باندھ دیتے ہیں تاکہ اگر کوئی ٹرین اس ٹریک پر آبھی جائے تو اس کا ڈرائیور پٹاخہ پھٹنے کی آواز سے چوکس ہوجائے اور دوسرے اور تیسرے پٹاخے تک پہنچنے پر گاڑی کو روک لے۔
ہمیں ان ادھیڑ عمر ڈرائیوروں کی صحت و تندرستی ان کی ظاہری فٹنس دیکھ کر اور ان کی بات چیت کے انداز سے محسوس ہورہاتھا کہ ان کے میڈیکل چیک اپ، صحت و تندرستی اور تعلیم کا کوئی خاطر خواہ بندوبست یا معیار نہیں ہے۔ ان غیر مستعد و بے سروسامان ڈرائیورز کے ہاتھوں میں ہزاروں زندگیاں دے دی جاتی ہیں۔ اس جدید سائنسی دور میں روایتی طریقے سے ہدایات، ہاتھوں سے پٹڑیوں کو تبدیل کرنا، لالٹین کو کھڑکیوں سے ہلاکر ٹرینوں کو ہدایات دینا خطرناک عمل ہے ریلوے کے نظام کو عصر حاضر کے تقاضوں اور سائنسی سہولیات سے مزین کرکے بہتر اور محفوظ بنانا چاہیے تاکہ لوگ ٹرینوں کا سفر بے خوف و خطر اور محفوظ طریقے سے کرسکیں۔
دیگر ٹرانسپورٹ کے مقابلے میں ریلوے سے فضائی آلودگی بھی انتہائی کم ہوتی ہے اس پر اخراجات بھی کم آتے ہیں۔ مسافت اور سامان کی ترسیل سستا اور محفوظ ترین ذریعہ ہے۔ ریلوے کا معزز مسافروں خصوصاً بچوں اور نوجوانوں کے لیے مشاہدات سے بھرپور ہوتا ہے، انھیں سفر کے دوران خوبصورت مقامات، کھیت کھلیان، دریا پہاڑ مختلف تعمیرات،کارخانوں، ملک کے طول و عرض، جغرافیہ اور تاریخ سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔
پاکستان ریلوے حقیقتاً قومی اثاثہ ہے جس کی حفاظت کی جانی چاہیے جس میں حکمران اور سیاست دان مجرمانہ غفلت کا شکار بلکہ اسے لوٹنے اور تباہ کرنے میں شریک رہے ہیں۔ ریلوے کی اربوں روپے کی اراضی پر منظم طور پر قبضہ اور تجاوزات قائم کرکے پٹرول پمپس، شاپنگ سینٹرز، رہائشی عمارتیں، کچی آبادیاں آباد کرلی گئیں۔ کرپشن، چوری، لوٹ مار کے علاوہ اسٹیشنوں پر کھڑی بوگیاں پر اسرار طریقے سے جل کر خاکستر ہوجاتی ہیں، اس کے حادثات سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ 15 ارب روپے سالانہ سے زائد بتایا جاتا ہے۔
نیب کا دعویٰ ہے کہ اس نے ریلوے کی اربوں روپے کی اراضی کو تجاوزات ختم کراکے وا گزار کرایا ہے۔ ریلوے کے موجودہ وزیر نے مختصر دورانیہ میں ریلوے کے خسارہ زدہ اور تباہ حال محکمہ کو اپنے پیروں پر کھڑا کردیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت نقل و حمل اور سامان کی ترسیل کے اس ارزاں ذریعے کی اہمیت پر سنجیدگی اختیار کرتے ہوئے اسے جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے فوری اور ہنگامہ نوعیت کے اقدامات کرے، اس پر خرچ کیا جانے والا پیسہ بلاواسطہ طور پر اس ملک و قوم کی طرف ہی لوٹے گا۔ ضرورت سنجیدگی اختیار کرنے کی ہے۔