آخر یہ کیا ہو رہا ہے
کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ ہمارے موجودہ حکمران محاورے کے مطابق بم کو لات مارنے کا شغف رکھتے ہیں
افسوس آج بے بنیاد اور بے ثبوت الزام تراشی، ایک دوسرے پر ہر معاملے میں شکوک و شبہات اب ہمارے قومی کلچر کا جزو اعظم ہے۔ اپنی ذمے داریوں کی ادائیگی سے انحراف، دوسروں پر الزامات اور اپنی حق تلفی کا شکوہ معاشرے کے تمام طبقات میں عام ہے، جس کے نتیجے میں معاشرے میں بے اعتمادی اور مایوسی بڑھ رہی ہے جو ترقی کے سفر کے لیے زہر قاتل ہے۔
صوبہ سندھ میں تقریباً ڈیڑھ عشرے سے گورنری کے منصب پر فائز ڈاکٹر عشرت العباد اور کراچی شہری حکومت کے سابق ناظم اور پاک سرزمین پارٹی کے بانی اور قائد مصطفی کمال کی جانب سے سنگین الزامات عاید کیے جانے اور پھر ان کے خلاف ڈاکٹر عشرت العباد کی کم و بیش اسی درجے کے سنگین الزامات پر مبنی شدید رد عمل کی بنا پر نہایت سنجیدہ سوالات پیدا ہوئے۔
یہ دونوں شخصیات ایک ہی سیاسی پارٹی سے نہایت اہم حیثیتوں میں وابستہ رہے ہیں جب کہ ایک دوسرے کے خلاف ان کے الزامات کی فہرست 12مئی 2007 کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی آمد پر کراچی میں ہونے والی ہولناک خون ریزی، سانحہ بلدیہ ٹاؤن میں ایک فیکٹری کو بھتہ نہ دینے پر تین سو مزدوروں سمیت جلاکر راکھ کردینے، بلدیاتی منصوبوں میں بھاری کرپشن، یونی ورسٹیز میں رشوت لے کر جعلی ڈگریاں اور ملازمتیں دینا، عظیم احمد طارق سے لے کر حکیم محمد سعید کے قتل اور عزیز آباد میں پکڑے جانے والے اسلحے کی وجوہات اور اس کی ملکیت تک کے الزامات شامل ہیں۔
حقائق کیا ہیں؟ لیکن سندھ اور کراچی کو اتنی اہم اور ذمے دارانہ مناصب پر فائز رہنے والی شخصیات کے ایک دوسرے پر نہایت مکروہ قومی جرائم کے حوالے سے انتہائی یقین کے ساتھ عاید کیے جانے والے یہ سنگین الزامات محض دیکھے جانے، پڑھے جانے یا سنے جانے کے نہیں بلکہ فوری اور سنجیدہ تحقیقات کا اہتمام کرکے حقائق تک پہنچنے، ذمے داروں کا تعین کرنے اور انھیں قانون کی گرفت میں لانے کا تقاضا کرتے ہیں۔ گورنر سندھ کو ان کے عہدے سے ہٹائے جانے کو بھی لوگ ان الزامات کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔
اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ ہمارے موجودہ حکمران محاورے کے مطابق بم کو لات مارنے کا شغف رکھتے ہیں، لیکن وائے قسمت کافی عرصے سے کوئی بم دکھائی نہیں دے رہا تھا اور ٹانگ میں کھلبلی ہی ہونے لگی تھی، مایوسی بڑھتی جارہی تھی کہ اچانک نیوز لیکس ایک بم کی طرح نمودار ہوئی جس نے حکومت سطح پر تناؤ کا ماحول پیدا کردیا اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پریس کانفرنس، اخباری بیانات، خبریں اور ٹی وی ٹاک شوز وغیرہ جو آج کل کی پاکستانی سیاست کے لیے سکہ رائج الوقت ہیں اور ان کے الفاظ ہمارے گھاگ سیاست دانوں کے لیے ویسے ہی ہیں جیسے بطخ کے پروں پر پانی۔
اس خبر کی اشاعت سے سب سے بڑا اور ناقابل تلافی نقصان عالمی فضا میں یہ تاثر کا پیدا ہونا تھا کہ پاکستان میں سول ملٹری قیادت میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ پاکستان میں سول ملٹری تناؤ کی شکلیں بدلتی رہتی ہیں ۔تاہم ایک صداقت یہ بھی ہے کہ ہم جیسے لوگوں کو اس ملک کے نظام کی تبدیلی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم جانتے ہیں کہ یہاں آمریت سیاسی ہوتی ہے اور جمہوریت خاندانی آمریت کا دوسرا نام۔ لیکن تشویش ناک امر یہ ہے کہ اس وقت چین جتنا پاکستان میں سیاسی استحکام کا متمنی ہے اتنا امریکا اور ہندوستان پاکستان میں مارشل لا کا نفاذ چاہتے ہیں۔
اسی طرح کوئٹہ جیسے انتہائی حساس اور اہم ترین شہر میں آئے دن تخریب کاری کے واقعات، رواں بلکہ ختم ہونے کے قریب اس سال میں بلوچستان میں پولیس ٹریننگ سینٹر پر ہونے والا دہشت گردی کا چھٹا بڑا واقعہ ہے۔ یہ امر یقیناً ایک بڑا سوالیہ نشان ہے کہ خفیہ اداروں کی جانب سے دہشت گردوں کے شہر میں داخل ہوجانے کی اطلاعات مل جانے کے باوجود کوئٹہ پولیس ٹریننگ کالج جیسے حساس مقام کی حفاظت کا کوئی بندوبست کیوں نہیں کیا گیا؟
یہ واقعات یا سانحات ہمیں لاکھ پژمردہ کردیں، لیکن پھر خیال آتا ہے کہ شاید یہ ملک اور معاشرہ ایسے ہی گناہوں کی سزا کاٹ رہا ہے، سمجھ میں نہیں آرہا ملک بھر میں آخر یہ کیا ہورہا ہے؟ ریاست ایسے لوگوں سے کیسے نمٹے گی جو ریاست کو مفلوج کر کے اپنی چوہدراہٹ قائم کرنا چاہتے ہیں؟
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جس ملک میں جوان لاشیں اٹھانا آسان اور سوال اٹھانا مشکل ہوجائے، وہاں لوگ ایک دوسرے سے نہیں بلکہ اپنے آپ سے بھی ڈرنے لگتے ہیں اور ایسا اس لیے بھی ہورہاہے کہ ہم آخری سانس لیتے معاشرے کے کرم خوردہ ستون ہیں اور جب معاشرے آخری سانس لیتے ہیں تو ہر سچ آف دی ریکارڈ اور ہر جھوٹ آن دی ریکارڈ ہوجاتا ہے۔
2013 میں کوئٹہ میں 105 لوگوں کو شہید اور 169 لوگوں کو شدید زخمی کیا گیا، اسی سال پولیس اہلکاروں کی نماز جنازہ میں 39 نمازی شہید ہوگئے اور یہ علم نہ ہوسکا کہ پولیس لائنز میں خودکش حملہ آور کیسے گھس گئے، پھر اگست 2016میں وکلا کی بھاری تعداد صفحۂ ہستی سے مٹادی گئی، 70 افراد کی ہلاکت کی رپورٹ سرکار کی طرف سے فائل کی گئی، اس واقعے کے بعد ضروری تھا کہ صرف مذمت اور ہمدردی نہ کی جاتی بلکہ کامیابیوں کے پیچھے اپنی غفلت چھپانے والوں سے سوال پوچھا جاتا کہ کوئٹہ جیسے چھوٹے شہر میں خودکش حملہ آور درجنوں چیک پوسٹوں سے کیسے نکل جاتے ہیں؟ تازہ ترین سانحہ کوئٹہ میں 60 نہتے کیڈٹس کو گولیوں کا نشانہ بنانا یہ بتاتا ہے کہ اگر حفاظتی اقدامات بہتر ہوتے تو اتنا جانی نقصان نہ ہوتا۔
پاکستان میں 26 خفیہ ادارے ہیں اور ان اداروں کا دعویٰ ہے کہ وہ دنیا کے بہترین خفیہ ادارے ہیں۔ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے عوام اور سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں بے مثال قربانیاں دی ہیں لیکن ان قربانیوں میں مسلسل اضافہ رکنا چاہیے؟اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ پاکستان میں بقا کی جنگ نہیں بلکہ کچھ صاحبان اختیار کی انا کی جنگ جاری ہے اور یہ برسوں سے جاری و ساری ہے، پاکستان کی اشرافیہ حکمران آپس میں دست و گریباں چلے آرہے ہیں۔
سندھ میں نظریں جمائے تاریخ کے مورخ باآسانی یہ کہہ رہے ہیں کہ پاک سرزمین پارٹی کے رہنما مصطفی کمال اور گورنر سندھ عشرت العباد کی لڑائی اصولوں کی لڑائی نہیں، دونوں کے ایک دوسرے کے خلاف الزامات کی ایک فرد کے خلاف نہیں بلکہ ان طاقتور اداروں کے خلاف چارج شیٹ ہیں جن کی مرضی اور منظوری سے عشرت العباد پچھلے 14 برسوں سے گورنر ہاؤس میں بیٹھے تھے اور ان دونوں صاحبان سے جو تماشا لگایا گیا اس کے پیچھے اسلام آباد کا کوئی نہ کوئی ماہر تھا یا ہے اور صوبے کے گورنر کی طرف سے کھلم کھلا سیاسی بیانات پر وفاق کی خاموشی سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ ماہر اسلام آباد کے ریڈ زون میں ہی کہیں بیٹھا ہے۔
پانچ سال پورے کرنے پر کمر بستہ ہمارے حکمران خود کو اور خود کی حکومت کو اچھا اور مضبوط برسہا برس سے کہتے اور سمجھتے چلے آرہے ہیں آخر انھیں ہمیشہ اپنی حکومت ہی کیوں مضبوط نظر آتی ہے، جمہوریت کمزور کیوں نہیں دکھائی دیتی؟ ہمارے سیاست دان اپنی لڑائی میں پاکستان کے ریاستی اداروں کو گھسیٹ رہے ہیں اور ایسا اس لیے ہورہاہے کہ ہمارے کچھ ادارے تو خود ہی سیاست میں گھس جاتے ہیں اور اگر کوئی ادارہ سیاست میں مداخلت سے گریز کرلے تو اسے زبردستی سیاست میں گھسیٹا جاتا ہے۔
صوبہ سندھ میں تقریباً ڈیڑھ عشرے سے گورنری کے منصب پر فائز ڈاکٹر عشرت العباد اور کراچی شہری حکومت کے سابق ناظم اور پاک سرزمین پارٹی کے بانی اور قائد مصطفی کمال کی جانب سے سنگین الزامات عاید کیے جانے اور پھر ان کے خلاف ڈاکٹر عشرت العباد کی کم و بیش اسی درجے کے سنگین الزامات پر مبنی شدید رد عمل کی بنا پر نہایت سنجیدہ سوالات پیدا ہوئے۔
یہ دونوں شخصیات ایک ہی سیاسی پارٹی سے نہایت اہم حیثیتوں میں وابستہ رہے ہیں جب کہ ایک دوسرے کے خلاف ان کے الزامات کی فہرست 12مئی 2007 کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی آمد پر کراچی میں ہونے والی ہولناک خون ریزی، سانحہ بلدیہ ٹاؤن میں ایک فیکٹری کو بھتہ نہ دینے پر تین سو مزدوروں سمیت جلاکر راکھ کردینے، بلدیاتی منصوبوں میں بھاری کرپشن، یونی ورسٹیز میں رشوت لے کر جعلی ڈگریاں اور ملازمتیں دینا، عظیم احمد طارق سے لے کر حکیم محمد سعید کے قتل اور عزیز آباد میں پکڑے جانے والے اسلحے کی وجوہات اور اس کی ملکیت تک کے الزامات شامل ہیں۔
حقائق کیا ہیں؟ لیکن سندھ اور کراچی کو اتنی اہم اور ذمے دارانہ مناصب پر فائز رہنے والی شخصیات کے ایک دوسرے پر نہایت مکروہ قومی جرائم کے حوالے سے انتہائی یقین کے ساتھ عاید کیے جانے والے یہ سنگین الزامات محض دیکھے جانے، پڑھے جانے یا سنے جانے کے نہیں بلکہ فوری اور سنجیدہ تحقیقات کا اہتمام کرکے حقائق تک پہنچنے، ذمے داروں کا تعین کرنے اور انھیں قانون کی گرفت میں لانے کا تقاضا کرتے ہیں۔ گورنر سندھ کو ان کے عہدے سے ہٹائے جانے کو بھی لوگ ان الزامات کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔
اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ ہمارے موجودہ حکمران محاورے کے مطابق بم کو لات مارنے کا شغف رکھتے ہیں، لیکن وائے قسمت کافی عرصے سے کوئی بم دکھائی نہیں دے رہا تھا اور ٹانگ میں کھلبلی ہی ہونے لگی تھی، مایوسی بڑھتی جارہی تھی کہ اچانک نیوز لیکس ایک بم کی طرح نمودار ہوئی جس نے حکومت سطح پر تناؤ کا ماحول پیدا کردیا اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پریس کانفرنس، اخباری بیانات، خبریں اور ٹی وی ٹاک شوز وغیرہ جو آج کل کی پاکستانی سیاست کے لیے سکہ رائج الوقت ہیں اور ان کے الفاظ ہمارے گھاگ سیاست دانوں کے لیے ویسے ہی ہیں جیسے بطخ کے پروں پر پانی۔
اس خبر کی اشاعت سے سب سے بڑا اور ناقابل تلافی نقصان عالمی فضا میں یہ تاثر کا پیدا ہونا تھا کہ پاکستان میں سول ملٹری قیادت میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ پاکستان میں سول ملٹری تناؤ کی شکلیں بدلتی رہتی ہیں ۔تاہم ایک صداقت یہ بھی ہے کہ ہم جیسے لوگوں کو اس ملک کے نظام کی تبدیلی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم جانتے ہیں کہ یہاں آمریت سیاسی ہوتی ہے اور جمہوریت خاندانی آمریت کا دوسرا نام۔ لیکن تشویش ناک امر یہ ہے کہ اس وقت چین جتنا پاکستان میں سیاسی استحکام کا متمنی ہے اتنا امریکا اور ہندوستان پاکستان میں مارشل لا کا نفاذ چاہتے ہیں۔
اسی طرح کوئٹہ جیسے انتہائی حساس اور اہم ترین شہر میں آئے دن تخریب کاری کے واقعات، رواں بلکہ ختم ہونے کے قریب اس سال میں بلوچستان میں پولیس ٹریننگ سینٹر پر ہونے والا دہشت گردی کا چھٹا بڑا واقعہ ہے۔ یہ امر یقیناً ایک بڑا سوالیہ نشان ہے کہ خفیہ اداروں کی جانب سے دہشت گردوں کے شہر میں داخل ہوجانے کی اطلاعات مل جانے کے باوجود کوئٹہ پولیس ٹریننگ کالج جیسے حساس مقام کی حفاظت کا کوئی بندوبست کیوں نہیں کیا گیا؟
یہ واقعات یا سانحات ہمیں لاکھ پژمردہ کردیں، لیکن پھر خیال آتا ہے کہ شاید یہ ملک اور معاشرہ ایسے ہی گناہوں کی سزا کاٹ رہا ہے، سمجھ میں نہیں آرہا ملک بھر میں آخر یہ کیا ہورہا ہے؟ ریاست ایسے لوگوں سے کیسے نمٹے گی جو ریاست کو مفلوج کر کے اپنی چوہدراہٹ قائم کرنا چاہتے ہیں؟
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جس ملک میں جوان لاشیں اٹھانا آسان اور سوال اٹھانا مشکل ہوجائے، وہاں لوگ ایک دوسرے سے نہیں بلکہ اپنے آپ سے بھی ڈرنے لگتے ہیں اور ایسا اس لیے بھی ہورہاہے کہ ہم آخری سانس لیتے معاشرے کے کرم خوردہ ستون ہیں اور جب معاشرے آخری سانس لیتے ہیں تو ہر سچ آف دی ریکارڈ اور ہر جھوٹ آن دی ریکارڈ ہوجاتا ہے۔
2013 میں کوئٹہ میں 105 لوگوں کو شہید اور 169 لوگوں کو شدید زخمی کیا گیا، اسی سال پولیس اہلکاروں کی نماز جنازہ میں 39 نمازی شہید ہوگئے اور یہ علم نہ ہوسکا کہ پولیس لائنز میں خودکش حملہ آور کیسے گھس گئے، پھر اگست 2016میں وکلا کی بھاری تعداد صفحۂ ہستی سے مٹادی گئی، 70 افراد کی ہلاکت کی رپورٹ سرکار کی طرف سے فائل کی گئی، اس واقعے کے بعد ضروری تھا کہ صرف مذمت اور ہمدردی نہ کی جاتی بلکہ کامیابیوں کے پیچھے اپنی غفلت چھپانے والوں سے سوال پوچھا جاتا کہ کوئٹہ جیسے چھوٹے شہر میں خودکش حملہ آور درجنوں چیک پوسٹوں سے کیسے نکل جاتے ہیں؟ تازہ ترین سانحہ کوئٹہ میں 60 نہتے کیڈٹس کو گولیوں کا نشانہ بنانا یہ بتاتا ہے کہ اگر حفاظتی اقدامات بہتر ہوتے تو اتنا جانی نقصان نہ ہوتا۔
پاکستان میں 26 خفیہ ادارے ہیں اور ان اداروں کا دعویٰ ہے کہ وہ دنیا کے بہترین خفیہ ادارے ہیں۔ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے عوام اور سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں بے مثال قربانیاں دی ہیں لیکن ان قربانیوں میں مسلسل اضافہ رکنا چاہیے؟اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ پاکستان میں بقا کی جنگ نہیں بلکہ کچھ صاحبان اختیار کی انا کی جنگ جاری ہے اور یہ برسوں سے جاری و ساری ہے، پاکستان کی اشرافیہ حکمران آپس میں دست و گریباں چلے آرہے ہیں۔
سندھ میں نظریں جمائے تاریخ کے مورخ باآسانی یہ کہہ رہے ہیں کہ پاک سرزمین پارٹی کے رہنما مصطفی کمال اور گورنر سندھ عشرت العباد کی لڑائی اصولوں کی لڑائی نہیں، دونوں کے ایک دوسرے کے خلاف الزامات کی ایک فرد کے خلاف نہیں بلکہ ان طاقتور اداروں کے خلاف چارج شیٹ ہیں جن کی مرضی اور منظوری سے عشرت العباد پچھلے 14 برسوں سے گورنر ہاؤس میں بیٹھے تھے اور ان دونوں صاحبان سے جو تماشا لگایا گیا اس کے پیچھے اسلام آباد کا کوئی نہ کوئی ماہر تھا یا ہے اور صوبے کے گورنر کی طرف سے کھلم کھلا سیاسی بیانات پر وفاق کی خاموشی سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ ماہر اسلام آباد کے ریڈ زون میں ہی کہیں بیٹھا ہے۔
پانچ سال پورے کرنے پر کمر بستہ ہمارے حکمران خود کو اور خود کی حکومت کو اچھا اور مضبوط برسہا برس سے کہتے اور سمجھتے چلے آرہے ہیں آخر انھیں ہمیشہ اپنی حکومت ہی کیوں مضبوط نظر آتی ہے، جمہوریت کمزور کیوں نہیں دکھائی دیتی؟ ہمارے سیاست دان اپنی لڑائی میں پاکستان کے ریاستی اداروں کو گھسیٹ رہے ہیں اور ایسا اس لیے ہورہاہے کہ ہمارے کچھ ادارے تو خود ہی سیاست میں گھس جاتے ہیں اور اگر کوئی ادارہ سیاست میں مداخلت سے گریز کرلے تو اسے زبردستی سیاست میں گھسیٹا جاتا ہے۔