آئین پر عملدرآمد
وطن عزیزکودرپیش دیوہیکل مسائل کا سامنا صرف اس لیے کرنا پڑاکہ بحیثیت قوم ہم نےاخلاص سے 1973 کےمتفقہ آئین پرعمل نہیں کیا
ایک وفاقی ریاست جب تک اپنے اندرونی سیاسی، آئینی، معاشی اور معاشرتی مسائل کو حل کرنے کا کوئی ٹھوس اور متحرک ضابطہ ترتیب دے کر اور پھر اس پر بغیر کسی رکاوٹ کے عمل پیرا ہونے کی روایت کو پروان چڑھانے، اسے پھلنے پھولنے کا بھرپور موقع فراہم نہیں کرتی اس وقت تک ایک وفاق ہمیشہ کمزور اور داخلی طور پر معاشی انتشار کا شکار رہتا ہے اور وہ کبھی بھی اپنے قومی اعلیٰ مقاصد کے حصول میں کامیاب نہیں ہوتا۔ اور یہی کچھ پچھلے کئی عشروں سے ریاست پاکستان کے ساتھ ہو رہا ہے۔
آئین اور جمہوری اصولوں کا ہر قیمت پر دفاع اور ان پر یقینی عملدرآمد ریاست میں بسنے والی تمام اکائیوں کو متحد اور ریاست کو سیاسی اور معاشی طور پر استحکام کی راہ پر گامزن کرتا ہے۔ آئین کی ہر شق پر عملدرآمد سے مختلف اکائیوں میں بٹے ہوئے لوگ آپس میں چند سال میں ہی متحد ہوکر ایک طاقتور قوم کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔پوری دنیا کی سیاسی زندگی کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ایک حقیقی جمہوری طرز حکمرانی قوموں کو مہذب اور شائستہ بنانے میں انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہے۔
قومیں جو آپس میں کھلے ذہن کے ساتھ مہذب اور شائستگی سے زندہ رہنے کے لیے چند بنیادی اصولوں پر متفق ہوکر ایک ضابطہ قانون کی تشکیل کرتی ہیں اور پھر اس ضابطہ قانون پر مکمل ذمے داری اور صدق دل سے عمل پیرا ہوکر اپنے تمام سیاسی، معاشرتی و اقتصادی مسائل پر قابو پالیسی ہیں اور یہی ایک ''آئین'' کی خوبی ہوتی ہے کہ وہ ریاست میں رہنے والی اکائیوں کو باہم دست و گریباں کیے بغیر تمام مسائل کو اتفاق اور خوش اسلوبی سے حل کرنے کی راہ ہموار کرتا ہے اور وہ بھی دنیا کو سنائے بغیر۔
وطن عزیز کو درپیش دیوہیکل مسائل کا سامنا صرف اس لیے کرنا پڑا کہ بحیثیت قوم ہم نے اخلاص سے 1973 کے متفقہ آئین پر عمل نہیں کیا۔ موجودہ آئین پاکستان کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ ریاست کو چلانے کے لیے ایک مکمل ریاستی انتظامی ڈھانچا فراہم کرتا ہے اداروں کے اقتدار اور اختیارات اور عوام کے بنیادی حقوق کی واضح تقسیم کرتا ہے، یہ جہاں مقننہ کو آئین سازی کا کلی اختیار دیتا ہے Executive کو ان قوانین پر عمل درآمد کروانے میں قوت فراہم کرتا ہے وہیں اعلیٰ عدلیہ کو مقننہ کے بنائے ہوئے قوانین سے پہنچنے والے نقصان سے ریاستی عوام کو محفوظ رکھنے کا اختیار بھی دیتا ہے۔لہٰذا کسی بھی ریاست کی فوری ترقی اور خوشحالی اس بات میں مضمر ہے کہ وہ ریاست اپنے ''آئین'' پر مکمل عملدرآمد کو یقینی بنائے۔
طاقت کے ذریعے، غیر آئینی اقدامات، جذباتی تجزیے، مایوسی پر مشتمل تبصرے اور تحریریں حکمرانوں کی تبدیلی کا موجب تو بن سکتی ہیں لیکن تاریخ گواہ ہے کہ عام آدمیوں کی زندگی میں کسی مثبت اور مفید تبدیلی کا سبب نہیں بنی اور نا ہی بن سکتی ہے پاکستانی سیاسی، معاشی اور آئین تاریخ سے نا آشنا لوگ وزیر اعظم صاحب کی مخاصمت میں لاشعوری طور پر ملک کو جمہوریت اور آئینی طرز حکمرانی سے D-Track کرنے کی روش میں مبتلا ہیں یعنی پوری دنیا میں تسلیم شدہ ''طرز حکمرانی'' کو ہی تمام مسائل کی بنیادی وجہ قرار دینے پر تلے ہوئے نظر آتے ہیں یعنی ڈرائیور کو تبدیل کرنے کے بجائے ''بس'' کو ہی ختم کردیا جائے جوکہ یقیناً ایک دانشورانہ طرز عمل نہیں ہے۔ نیز ہر دلعزیز، مالی بدعنوانی سے بھرپور، بے گناہ انسانی مظالم میں ملوث، اپنے منشور میں کیے ہوئے وعدوں سے انحراف، عوام کے ٹیکسوں کے پیسوں کو ان کی بنیادی ضروریات کے بجائے اپنی خواہشوں کی تکمیل میں خرچ کرنے والی حکومت کو یقینا حکمرانی کا اخلاقی اور قانونی حق نہیں رہتا، ایسی حکومت کو لازماً بدلنا چاہیے اس کی جگہ ایک بہتر حکومت کو آنا چاہیے لیکن اس کا بھی تو کوئی اصول کوئی ضابطہ کوئی طریقہ تو ہونا چاہیے اور آئین پاکستان میں اس کا طریقہ موجود ہے۔
دوسرا طریقہ سابق وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی کی نااہلی کے کیس کی شکل میں موجود ہے۔یعنی عدالت عالیہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ انتہائی سنگین الزامات کی زد میں آئے ہوئے ہر بڑے اور طاقتور شخص کو (سوائے صدر مملکت کے) درست ثبوتوں اور مستند گواہوں کی موجودگی میں کوئی بھی بڑا فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتی ہے اور جس کا ماننا مملکت خداداد کے ہر شہری پر فرض ہے۔ لہٰذا خطے میں بدلتی ہوئی پاکستان دشمن معروضی حالات ہر ذی شعور پاکستانی سے اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ وہ جذباتیت کے بجائے حقیقی سیاسی پختگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آئین اور جمہوریت سے مایوس ہونے کے بجائے آئین پاکستان کو ریاست میں مکمل طور پر نافذ کرنے کی جدوجہد میں اپنا حصہ ڈالے اور گاڑی کے بجائے ڈرائیور تبدیل کرتا رہے، ایک تحریک چلا کر ہر آنے والی حکومت کو پابند کردیا جائے وہ بیرونی قرضے لیے بغیر ملک کو چلائیں اور آئین پاکستان میں موجود ان آرٹیکل کو قابل عمل بنائیں جن پر پچھلے 43 سال سے عمل نہیں ہو رہا، جیسے آرٹیکل نمبر 27, 25, 19-A (4) (3)۔
اگر بحیثیت قوم ہم مذکورہ بالا آرٹیکلز کو مکمل طور پر ریاست پاکستان میں نافذ العمل کردیں تو چند ہی سال میں ہم آئینی حکومت سے بہت کچھ حاصل کرنے کے قابل ہوں گے۔واضح رہے کہ قومی مسائل کے گنجلک ہونے اور کوئی موثر حل سامنے نہ آنے کی سب سے بڑی وجہ ہی یہاں قوانین اور آئین کی موجودگی کے باوجود ان پر عملدرآمد کی کمی اور ذمے دار اداروں کی پہلوتہی و چشم پوشی ہے۔ قومی مسائل کا واحد حل آئین پر عملدرآمد ہے جس کی جانب توجہ کا مرکوز کیا جانا ہی وقت کا تقاضا ہے۔
آئین اور جمہوری اصولوں کا ہر قیمت پر دفاع اور ان پر یقینی عملدرآمد ریاست میں بسنے والی تمام اکائیوں کو متحد اور ریاست کو سیاسی اور معاشی طور پر استحکام کی راہ پر گامزن کرتا ہے۔ آئین کی ہر شق پر عملدرآمد سے مختلف اکائیوں میں بٹے ہوئے لوگ آپس میں چند سال میں ہی متحد ہوکر ایک طاقتور قوم کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔پوری دنیا کی سیاسی زندگی کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ایک حقیقی جمہوری طرز حکمرانی قوموں کو مہذب اور شائستہ بنانے میں انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہے۔
قومیں جو آپس میں کھلے ذہن کے ساتھ مہذب اور شائستگی سے زندہ رہنے کے لیے چند بنیادی اصولوں پر متفق ہوکر ایک ضابطہ قانون کی تشکیل کرتی ہیں اور پھر اس ضابطہ قانون پر مکمل ذمے داری اور صدق دل سے عمل پیرا ہوکر اپنے تمام سیاسی، معاشرتی و اقتصادی مسائل پر قابو پالیسی ہیں اور یہی ایک ''آئین'' کی خوبی ہوتی ہے کہ وہ ریاست میں رہنے والی اکائیوں کو باہم دست و گریباں کیے بغیر تمام مسائل کو اتفاق اور خوش اسلوبی سے حل کرنے کی راہ ہموار کرتا ہے اور وہ بھی دنیا کو سنائے بغیر۔
وطن عزیز کو درپیش دیوہیکل مسائل کا سامنا صرف اس لیے کرنا پڑا کہ بحیثیت قوم ہم نے اخلاص سے 1973 کے متفقہ آئین پر عمل نہیں کیا۔ موجودہ آئین پاکستان کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ ریاست کو چلانے کے لیے ایک مکمل ریاستی انتظامی ڈھانچا فراہم کرتا ہے اداروں کے اقتدار اور اختیارات اور عوام کے بنیادی حقوق کی واضح تقسیم کرتا ہے، یہ جہاں مقننہ کو آئین سازی کا کلی اختیار دیتا ہے Executive کو ان قوانین پر عمل درآمد کروانے میں قوت فراہم کرتا ہے وہیں اعلیٰ عدلیہ کو مقننہ کے بنائے ہوئے قوانین سے پہنچنے والے نقصان سے ریاستی عوام کو محفوظ رکھنے کا اختیار بھی دیتا ہے۔لہٰذا کسی بھی ریاست کی فوری ترقی اور خوشحالی اس بات میں مضمر ہے کہ وہ ریاست اپنے ''آئین'' پر مکمل عملدرآمد کو یقینی بنائے۔
طاقت کے ذریعے، غیر آئینی اقدامات، جذباتی تجزیے، مایوسی پر مشتمل تبصرے اور تحریریں حکمرانوں کی تبدیلی کا موجب تو بن سکتی ہیں لیکن تاریخ گواہ ہے کہ عام آدمیوں کی زندگی میں کسی مثبت اور مفید تبدیلی کا سبب نہیں بنی اور نا ہی بن سکتی ہے پاکستانی سیاسی، معاشی اور آئین تاریخ سے نا آشنا لوگ وزیر اعظم صاحب کی مخاصمت میں لاشعوری طور پر ملک کو جمہوریت اور آئینی طرز حکمرانی سے D-Track کرنے کی روش میں مبتلا ہیں یعنی پوری دنیا میں تسلیم شدہ ''طرز حکمرانی'' کو ہی تمام مسائل کی بنیادی وجہ قرار دینے پر تلے ہوئے نظر آتے ہیں یعنی ڈرائیور کو تبدیل کرنے کے بجائے ''بس'' کو ہی ختم کردیا جائے جوکہ یقیناً ایک دانشورانہ طرز عمل نہیں ہے۔ نیز ہر دلعزیز، مالی بدعنوانی سے بھرپور، بے گناہ انسانی مظالم میں ملوث، اپنے منشور میں کیے ہوئے وعدوں سے انحراف، عوام کے ٹیکسوں کے پیسوں کو ان کی بنیادی ضروریات کے بجائے اپنی خواہشوں کی تکمیل میں خرچ کرنے والی حکومت کو یقینا حکمرانی کا اخلاقی اور قانونی حق نہیں رہتا، ایسی حکومت کو لازماً بدلنا چاہیے اس کی جگہ ایک بہتر حکومت کو آنا چاہیے لیکن اس کا بھی تو کوئی اصول کوئی ضابطہ کوئی طریقہ تو ہونا چاہیے اور آئین پاکستان میں اس کا طریقہ موجود ہے۔
دوسرا طریقہ سابق وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی کی نااہلی کے کیس کی شکل میں موجود ہے۔یعنی عدالت عالیہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ انتہائی سنگین الزامات کی زد میں آئے ہوئے ہر بڑے اور طاقتور شخص کو (سوائے صدر مملکت کے) درست ثبوتوں اور مستند گواہوں کی موجودگی میں کوئی بھی بڑا فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتی ہے اور جس کا ماننا مملکت خداداد کے ہر شہری پر فرض ہے۔ لہٰذا خطے میں بدلتی ہوئی پاکستان دشمن معروضی حالات ہر ذی شعور پاکستانی سے اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ وہ جذباتیت کے بجائے حقیقی سیاسی پختگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آئین اور جمہوریت سے مایوس ہونے کے بجائے آئین پاکستان کو ریاست میں مکمل طور پر نافذ کرنے کی جدوجہد میں اپنا حصہ ڈالے اور گاڑی کے بجائے ڈرائیور تبدیل کرتا رہے، ایک تحریک چلا کر ہر آنے والی حکومت کو پابند کردیا جائے وہ بیرونی قرضے لیے بغیر ملک کو چلائیں اور آئین پاکستان میں موجود ان آرٹیکل کو قابل عمل بنائیں جن پر پچھلے 43 سال سے عمل نہیں ہو رہا، جیسے آرٹیکل نمبر 27, 25, 19-A (4) (3)۔
اگر بحیثیت قوم ہم مذکورہ بالا آرٹیکلز کو مکمل طور پر ریاست پاکستان میں نافذ العمل کردیں تو چند ہی سال میں ہم آئینی حکومت سے بہت کچھ حاصل کرنے کے قابل ہوں گے۔واضح رہے کہ قومی مسائل کے گنجلک ہونے اور کوئی موثر حل سامنے نہ آنے کی سب سے بڑی وجہ ہی یہاں قوانین اور آئین کی موجودگی کے باوجود ان پر عملدرآمد کی کمی اور ذمے دار اداروں کی پہلوتہی و چشم پوشی ہے۔ قومی مسائل کا واحد حل آئین پر عملدرآمد ہے جس کی جانب توجہ کا مرکوز کیا جانا ہی وقت کا تقاضا ہے۔