نئی ویلیوایشنز موخر ٹیکس 1 فیصد کیا جائے ریئل اسٹیٹ سیکٹر

ریئلٹرز کے لیے حتمی ٹیکسیشن پالیسی متعارف، بینک قرضوں کا 10 فیصد ہاؤسنگ انڈسٹری کے لیے مختص کیا جائے،آباد

خریدارسے 5سال تک آمدن ذرائع نہ پوچھے جائیں،پراپرٹی ویلیوایشن تنازع نمٹانے کیلیے جامع سفارشات پیش، محسن شیخانی۔ فوٹو: فائل

انکم ٹیکس آرڈیننس میں پراپرٹی ویلیوایشن سے متعلق ترامیم کی وجہ سے پیداہونے والے تنازع کو حل کرنے کے لیے ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز (آباد) نے حکومت کو جامع سفارشات پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ سفارشات پر عملدرآمد کی صورت میں تمام اسٹیک ہولڈرز کے مفادات کا تحفظ اور قومی معیشت کو فروغ ملے گا، ساتھ ہی حکومت کو متنبہ کیا گیاہے کہ حکومت کا درست سمت میں اٹھایاگیا قدم اگرمناسب طریقے سے ہینڈل نہ کیا گیا تو اس کے منفی اثرات براہ راست قومی معیشت وسرمایہ کاری پرمرتب ہوں گے۔

آباد نے رئیل اسٹیٹ سیکٹرکو مکمل دستاویزی بنانے کیلیے صوبے اور وفاق کو تجرباتی بنیادوں پر اراضیوں کی حقیقی مارکیٹ ویلیو پر 1 فیصد ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دیتے ہوئے واضح کیاکہ فی الوقت پراپرٹی کی خریداری پر صوبائی سطح پراسٹیمپ ڈیوٹی، رجسٹریشن چارجز، سی وی ٹی اور ٹاؤن ٹیکس کی مد میں 6 تا 7 فیصد کی شرح سے ڈی سی ویلیو پر ٹیکسوں کی وصولیاں ہورہی ہیں جنہیں1 فیصد تک محدود کیا جائے جبکہ وفاق کی سطح جائیداد کی ٹرانسفر پر مجموعی طور پر3 تا 6 فیصد ایڈوانس انکم ٹیکس، ودہولڈنگ ٹیکس وصولیوں کو بھی1 فیصد کیا جائے۔

سفارشات میں رئیل اسٹیٹ سیکٹر کیلیے طویل مدت حتمی ٹیکسیشن پالیسی متعارف کرانے اورجن علاقوں کی اراضیوں کی جائیداد کی ویلیوحقیقی ویلیوسے کئی گنازیادہ مقرر کی گئی ہے کو درست کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے، تجارتی بینکوں کیلیے اپنے مجموعی قرضوں کا10 فیصد ہاؤسنگ انڈسٹری کیلیے مختص کرنے اور اس ضمن میں پروڈینشل ریگولیشنز میں ترامیم کی بھی تجویز دی گئی ہے۔

آباد نے اپنی سفارشات میں بلڈرز اینڈ ڈیولپرز سے زیرتعمیرمکان و دکان کے خریدارکسٹمرز سے 5 سال تک آمدنی کے ذرائع کی پوچھ گچھ سے استثنیٰ دینے اور پر پاکستانی کو5 کروڑ روپے مالیت تک کی پہلی جائیداد خریدنے کی اجازت دینے کی تجویز دی گئی جن سے ویلتھ کی پوچھ گچھ نہ کی جائے لیکن یہ ترغیب این ٹی این سے مشروط ہو۔


آباد کے چیئرمین محسن شیخانی کا کہنا تھا کہ پالیسی سازریونیو جنریشن کیلیے مختصرمدتی اقدامات کو ترجیح دے رہے ہیں جو انڈسٹری کی سرگرمیوں کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں، مختصرمدتی اور اچانک فیصلوں سے ریئل اسٹیٹ وتعمیراتی شعبے میں نئی مقامی وغیرملکی سرمایہ کاری رک گئی ہے کیونکہ پالیسی سازوں نے مختصرمدت میں محصولات کی وصولیوں کے حجم کوبڑھانے کیلیے ریئل اسٹیٹ سیکٹر کوڈیفنس، بلیوایریا اسلام آباد، لاہورکے گلبرگ، ڈیفنس ودیگر پوش علاقوں، کراچی کے ڈیفنس، کلفٹن و دیگر مہنگی پراپرٹی تک محدود کردیا ہے جس سے حکومت کو پاکستان بھر کی ریئل اسٹیٹ انڈسٹری کی حقیقی استعداد، اعدادوشماراور ٹرانزیکشنز کا درست اندازہ نہیں ہوسکے گا اور نہ ہی قومی معیشت میں اس شعبے کے پوٹینشل کے بارے میں آگہی ہوسکے گی، پالیسی ساز اپنے نظریہ کووسیع البنیاد بناتے ہوئے ملک کے طول وعرض جن میں چھوٹے بڑے شہروں کے مضافاتی، پسماندہ علاقوں کی تمام کم قیمت رہائشی جائیدادوں، ہاؤسنگ اسکیموں، کمرشل پلاٹس، صنعتی وزرعی اسکیموں کی اراضیوں کو بھی ویلیوایشن وٹیکس کے نئے نظام میں شامل کریں تاکہ حقیقی معنوں میں رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو دستاویزی کیا جاسکے۔

ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ ملک میں گزشتہ65 سال سے جائیدادوں کی ویلیو ایشن متعلقہ ڈپٹی کمشنرکے دائرہ اختیار میں رہی ہے اور چند سال قبل18 ویں ترمیم کے بعد آئینی طور پر یہ اختیارات باقاعدہ طور پر صوبوں کو دے دیا گیاہے لیکن ان تمام حقائق کے باوجود وفاق آئین سے انحراف کرتے ہوئے صوبوں کو دیے جانیوالے اختیارات میں مداخلت کر رہا ہے جس سے خدشہ ہے کہ مستقل میں دہری ویلیوایشن کیخلاف وفاق اور اسٹیک ہولڈرز کے درمیان نئی قانونی جنگ چھڑ جائیگی۔

وفاق اور ایف بی آر اگر حقیقی معنوں میں جائیدادوں کی درست ویلیو ایشن کے ذریعے ریئل اسٹیٹ سیکٹر کومکمل دستاویزی بنانے کے خواہاں ہیں تو اراضیوں کی ظاہرکردہ حقیقی ویلیو پرصرف1 فیصد ٹیکس عائد کرنا ہوگا، اس تجویز پر عمل کی صورت میں وفاق کو نہ صرف ملک بھرکے رئیل اسٹیٹ کے حوالے سے درست اعداد و شمار، معلومات وحقائق سے آگہی ہوسکے گی بلکہ پوری ریئل اسٹیٹ انڈسٹری مکمل دستاویزی ہونے کے ساتھ اس شعبے کی ریونیو استعداداور وصولیوں کا بھی درست اندازہ ہو سکے گا اور غیرملکی کمپنیاں جوائنٹ وینچرکیلیے پاکستان کا رخ کر سکیں گی۔

محسن شیخانی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ڈنڈا چلانے کے بجائے دوستانہ پالیسی اختیار کرے، اس ضمن میں ترقی یافتہ ممالک کی پراپرٹی ویلیوایشن، ٹرانزیکشن اور ٹیکس نظام سے متعلق اسٹڈی کرائی جائے اور حالیہ ترامیم کوآئندہ سال کے وفاقی بجٹ تک موخر کر دیا جائے تاکہ رئیل اسٹیٹ سیکٹر کی منجمد تجارتی سرگرمیوں کو بحال کیا جا سکے ورنہ اضطراب برقرار رہنے سے اس شعبے سے حاصل ہونیوالا ریونیو بھی بری طرح متاثر ہوگا۔

 
Load Next Story