سانحہ کوئٹہ حقائق بتائیں ورنہ وزیر اعلیٰ کو بلائیں گے جوڈیشل کمیشن
وزیراعلیٰ اورترجمان کچھ، ڈی آئی جی کچھ، لگتا ہے ہماری کارروائی سبوتاژکرنیکی کوشش ہورہی ہے، جسٹس فائزعیسیٰ
سانحہ سول اسپتال کی انکوائری کیلیے بنائے گئے جوڈیشل کمیشن کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے ہیں کہ سانحہ کے ماسٹرمائنڈ کی گرفتاری سے متعلق صوبائی ترجمان کے بیان نے مزید کنفیوژن پیداکردی، عجیب صورتحال ہے، وزیراعلیٰ کچھ ترجمان کچھ جبکہ ڈی آئی جی کچھ اور کہہ رہے ہیں، لگتا ہے جوڈیشل کمیشن کی کارروائی سبوتاژکرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، حقائق سے آگاہ کیاجائے بصورت دیگر وزیراعلیٰ کو بلائیں گے۔
گزشتہ روز سماعت کے دوران اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل شہک بلوچ پیش ہوئے،اس موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ماسٹر مائنڈ کی گرفتاری کے متعلق صورتحال واضح کرنے کیلیے20منٹ کا وقت دیتاہوں، کمیشن پر سیاست نہیں ہونے دیں گے، وزیراعلیٰ عدالت میں آکر بیان ریکارڈ کرائیں،انھیں استثنیٰ حاصل نہیں،ڈی آئی جی پولیس سے پوچھیں وزیراعلیٰ کہاں ہیں، انھیں وی آئی پی موومنٹ کے متعلق معلوم ہوتاہے، ترجمان صوبائی حکومت کا بیان پولیس کے بیان سے متصادم ہے، کل بھی ماسٹرمائنڈ کی گرفتاری سے متعلق وضاحت طلب کی تھی مگر کسی نے وضاحت پیش نہیں کی، اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل نے یقین دہانی کرائی کہ وہ تحریری رپورٹ عدالت کو دیدیں گے،
کمیشن کے جج نے ریمارکس دیے کہ اگر یہی صورتحال رہی تو رپورٹ میں کیا لکھوں گا، فارنسک لیبارٹری کی رپورٹ اگر حساس نہ ہوئی تو اسے بھی رپورٹ کاحصہ بنادیاجائیگا،قبل ازیں آرایم او سول اسپتال ڈاکٹرجاوید اختر نے بیان میں کہاکہ اسپتال کے کسی بھی شعبے سے ڈاکٹر، پیرامیڈیکس ،نرسز میں سے کوئی بھی ایمرجنسی میں ان کی مدد کو نہیں آیا، ڈی آئی جی نے بتایاکہ دھماکے کے بعد پولیس اہلکاروں نے تحقیقات کیلیے وکلااور دیگر زخمیوں کی جیبوں سے موبائل فونز نکالے جن کی تفصیلات موجود ہیں، چوری کاالزام درست نہیں، ماسٹر مائنڈ کی گرفتاری کے بیانات سے ان کا تعلق نہیں، تحقیقات جاری ہیں، کمیشن نے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل کو گرفتاریوں کے حوالے سے جواب داخل کرنے کی ہدایت کی۔
وکیل معصوم کاکڑ نے بتایاکہ دھماکے کے بعدانھوں نے آدھے گھنٹے تک پولیس اہلکاروں کو نہیں دیکھا، میڈیا والے مددکے بجائے وڈیو بنارہے تھے اور تصویریں لے رہے تھے،اپنی مدد آپ کے تحت زخمیوں کو اٹھایا اورایمبولینسز میں ڈالا، کسی ڈاکٹر ،نرس یا پیرامیڈیکس کو طبی امداد دیتے ہوئے نہیں دیکھا۔
گزشتہ روز سماعت کے دوران اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل شہک بلوچ پیش ہوئے،اس موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ماسٹر مائنڈ کی گرفتاری کے متعلق صورتحال واضح کرنے کیلیے20منٹ کا وقت دیتاہوں، کمیشن پر سیاست نہیں ہونے دیں گے، وزیراعلیٰ عدالت میں آکر بیان ریکارڈ کرائیں،انھیں استثنیٰ حاصل نہیں،ڈی آئی جی پولیس سے پوچھیں وزیراعلیٰ کہاں ہیں، انھیں وی آئی پی موومنٹ کے متعلق معلوم ہوتاہے، ترجمان صوبائی حکومت کا بیان پولیس کے بیان سے متصادم ہے، کل بھی ماسٹرمائنڈ کی گرفتاری سے متعلق وضاحت طلب کی تھی مگر کسی نے وضاحت پیش نہیں کی، اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل نے یقین دہانی کرائی کہ وہ تحریری رپورٹ عدالت کو دیدیں گے،
کمیشن کے جج نے ریمارکس دیے کہ اگر یہی صورتحال رہی تو رپورٹ میں کیا لکھوں گا، فارنسک لیبارٹری کی رپورٹ اگر حساس نہ ہوئی تو اسے بھی رپورٹ کاحصہ بنادیاجائیگا،قبل ازیں آرایم او سول اسپتال ڈاکٹرجاوید اختر نے بیان میں کہاکہ اسپتال کے کسی بھی شعبے سے ڈاکٹر، پیرامیڈیکس ،نرسز میں سے کوئی بھی ایمرجنسی میں ان کی مدد کو نہیں آیا، ڈی آئی جی نے بتایاکہ دھماکے کے بعد پولیس اہلکاروں نے تحقیقات کیلیے وکلااور دیگر زخمیوں کی جیبوں سے موبائل فونز نکالے جن کی تفصیلات موجود ہیں، چوری کاالزام درست نہیں، ماسٹر مائنڈ کی گرفتاری کے بیانات سے ان کا تعلق نہیں، تحقیقات جاری ہیں، کمیشن نے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل کو گرفتاریوں کے حوالے سے جواب داخل کرنے کی ہدایت کی۔
وکیل معصوم کاکڑ نے بتایاکہ دھماکے کے بعدانھوں نے آدھے گھنٹے تک پولیس اہلکاروں کو نہیں دیکھا، میڈیا والے مددکے بجائے وڈیو بنارہے تھے اور تصویریں لے رہے تھے،اپنی مدد آپ کے تحت زخمیوں کو اٹھایا اورایمبولینسز میں ڈالا، کسی ڈاکٹر ،نرس یا پیرامیڈیکس کو طبی امداد دیتے ہوئے نہیں دیکھا۔