’’ہر آدمی کے لیے اپنی زبان بولنا ہی مناسب ہے۔ ‘‘
’آنتون پافلووچ، آپ کے خیال میں لڑائی کا انجام کیا ہوگا؟‘
ایک دن تین عورتیں چیخوف سے ملنے آئیں جو بڑے عمدہ لباس میں تھیں، انھوں نے اس کے کمرے کو ریشمی کپڑے کی سرسڑاہٹ اور تیز عطر کی خوشبو سے بھر دیا۔ وہ بڑے انداز سے اپنے میزبان کے مقابل بیٹھ گئیں اور یہ دکھانے کی کوشش کی کہ انھیں سیاست سے بڑی دلچسپی ہے اور سوالات کرنے شروع کردیئے۔
'آنتون پافلووچ، آپ کے خیال میں لڑائی کا انجام کیا ہوگا؟'
چیخوف نے گلا صاف کیا، کچھ سوچا اور بڑی سنجیدگی کے ساتھ ملائمت آمیز انداز میں کہا:
''میرا خیال ہے کہ غالباً اس کا انجام امن ہوگا۔''
''ہاں ، یہ تو ٹھیک ہے ، لیکن جیتے گا کون ؟یونانی یا ترک ؟''
''میرا خیال ہے کہ جو لوگ زیادہ مضبوط ہوں گے وہی جیت جائیں گے۔ ''
''لیکن آپ کے خیال میں کون زیادہ مضبوط ہے ؟'' عورتوں نے پوچھا۔
''جن کے پاس کھانے کو زیادہ ہے اور جو زیادہ تعلیم یافتہ ہیں۔''
''آہا ، کیسا مزیدار فقرہ کہا ہے ! ''ایک عورت چیخ پڑی۔
''آپ کو کون لوگ زیادہ پسند ہیں ، یونانی یا ترک ؟''ایک دوسری عورت نے پوچھا۔
چیخوف نے بڑے دلکش انداز سے اس کی طرف دیکھا اور حلیمانہ اور محبت آمیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا '' مجھے تو سب سے زیادہ نارنگیوں کا مربہ پسند ہے اور آپ، آپ کو پسند ہے یا نہیں ؟''
''بہت زیادہ ''عورت نے بڑی زندہ دلی سے کہا۔
''ہاں ، بڑی نفیس خوشبو ہوتی ہے ، ہے نا ؟تیسری عورت نے سنجیدگی سے تصدیق کی۔
اور وہ تینوں بڑی گرمجوشی سے باتیں کرنے لگیں ، انھوں نے مربے سے متعلق سارے مسائل کے سلسلے میں بڑی واقفیت کا اظہار کیا اور اس موضوع کے بارے میں گہری علمیت کا ثبوت دیا۔ ظاہر ہے کہ انھیں اس بات سے بڑی خوشی ہوئی کہ اب انھیں کوئی ذہنی کاوش نہیں کرنی پڑ رہی تھی اور نہ انھیں یہ دکھانا پڑ رہا تھا کہ یونانیوں اور ترکوں سے جن کی طرف انھوں نے پہلے کبھی توجہ کی ہی نہیں تھی انھیں بڑی سنجیدہ دلچسپی ہے۔
رخصت ہوتے ہوئے انھوں نے بڑے ہنس ہنس کر چیخوف سے وعدہ کہ ہم آپ کو بہت سا مربہ بھیجیں گی۔
جب وہ چلی گئیں تو میں نے چیخوف سے کہا۔ '' آپ نے موضوع بڑی عمدگی سے بدلا۔ ''
چیخوف ہنسا اور کہنے لگا ''ہر آدمی کے لیے اپنی زبان بولنا ہی مناسب ہے۔ ''
''میں ادیب کیسے بنا'' از میکسم گورکی سے اقتباس
'آنتون پافلووچ، آپ کے خیال میں لڑائی کا انجام کیا ہوگا؟'
چیخوف نے گلا صاف کیا، کچھ سوچا اور بڑی سنجیدگی کے ساتھ ملائمت آمیز انداز میں کہا:
''میرا خیال ہے کہ غالباً اس کا انجام امن ہوگا۔''
''ہاں ، یہ تو ٹھیک ہے ، لیکن جیتے گا کون ؟یونانی یا ترک ؟''
''میرا خیال ہے کہ جو لوگ زیادہ مضبوط ہوں گے وہی جیت جائیں گے۔ ''
''لیکن آپ کے خیال میں کون زیادہ مضبوط ہے ؟'' عورتوں نے پوچھا۔
''جن کے پاس کھانے کو زیادہ ہے اور جو زیادہ تعلیم یافتہ ہیں۔''
''آہا ، کیسا مزیدار فقرہ کہا ہے ! ''ایک عورت چیخ پڑی۔
''آپ کو کون لوگ زیادہ پسند ہیں ، یونانی یا ترک ؟''ایک دوسری عورت نے پوچھا۔
چیخوف نے بڑے دلکش انداز سے اس کی طرف دیکھا اور حلیمانہ اور محبت آمیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا '' مجھے تو سب سے زیادہ نارنگیوں کا مربہ پسند ہے اور آپ، آپ کو پسند ہے یا نہیں ؟''
''بہت زیادہ ''عورت نے بڑی زندہ دلی سے کہا۔
''ہاں ، بڑی نفیس خوشبو ہوتی ہے ، ہے نا ؟تیسری عورت نے سنجیدگی سے تصدیق کی۔
اور وہ تینوں بڑی گرمجوشی سے باتیں کرنے لگیں ، انھوں نے مربے سے متعلق سارے مسائل کے سلسلے میں بڑی واقفیت کا اظہار کیا اور اس موضوع کے بارے میں گہری علمیت کا ثبوت دیا۔ ظاہر ہے کہ انھیں اس بات سے بڑی خوشی ہوئی کہ اب انھیں کوئی ذہنی کاوش نہیں کرنی پڑ رہی تھی اور نہ انھیں یہ دکھانا پڑ رہا تھا کہ یونانیوں اور ترکوں سے جن کی طرف انھوں نے پہلے کبھی توجہ کی ہی نہیں تھی انھیں بڑی سنجیدہ دلچسپی ہے۔
رخصت ہوتے ہوئے انھوں نے بڑے ہنس ہنس کر چیخوف سے وعدہ کہ ہم آپ کو بہت سا مربہ بھیجیں گی۔
جب وہ چلی گئیں تو میں نے چیخوف سے کہا۔ '' آپ نے موضوع بڑی عمدگی سے بدلا۔ ''
چیخوف ہنسا اور کہنے لگا ''ہر آدمی کے لیے اپنی زبان بولنا ہی مناسب ہے۔ ''
''میں ادیب کیسے بنا'' از میکسم گورکی سے اقتباس