20 برس سے رات کی نیند نصیب نہیں ہوئی

 لاہور میں رہائش پذیر 62 سالہ چوکیدار عظیم علی احمد کی کہانی


Rana Naseem November 13, 2016
 71ء میں مشرقی پاکستان چھوڑ کر تنہا یہاں آیا، ڈھاکہ میں ماں کی قبر دیکھنے کو ترستا ہوں۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD: ایک عشرہ ہونے کو آیا، جب سے نحیف جسم، پست قد، جھکے کندھے، سانولی رنگت، لمبی داڑھی اور چھوٹی مگر چمک دار آنکھوں والے بزرگ چوکیدار کو بجلی کے پول پر جلنے والے قمقمے کی روشنی میں کرسی پر بیٹھا دیکھتے آ رہے ہیں، شدید سردی اور دھند ہو یا شدید گرمی کوئی ایسی رات نہیں گزری، جب وہ سر پر ٹوپی پہنے اپنی ڈیوٹی نہ سرانجام دے رہے ہوں، اپنے کام سے کام رکھنے والے اور خاموش طبع ان بزرگوں کے بارے میں کبھی یہ تک نہیں سنا کہ انہیں گھر میں کوئی کام ہے یا کسی رشتہ دار کے ہاں شادی کی وجہ سے ڈیوٹی پر نہیں آئے۔

انتہائی سخت ڈیوٹی اور غیرمعمولی شخصیت کے حامل اس چوکیدار سے ملاقات کا تجسس جب زور پکڑ گیا تو ایک رات ہم ان سے بات کرنے' ان کے حالات سے واقفیت حاصل کرنے ان کے پاس جا پہنچے۔ہم نے جب انہیں اپنے آنے کی وجہ بتائی تو انہوں نے بلا تردد اپنی زندگی کی کتاب ہمارے سامنے کھول کر رکھ دی۔

لاہور میں رہائش پذیر 62 سالہ چوکیدار عظیم علی احمد نے کہنا شروع کیا ''میں 1954ء میں ڈھاکہ کے ایک نواحی علاقے علم پور میں پیدا ہوا، جو ضلع منشی گنج کی حدود میں آتا ہے۔ ہم مغل خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، دو بھائی اور دو بہنیں تھیں، والد کا نام رنگو مرزا ہے، جو تھوڑی بہت کھیتی باڑی کرتے تھے۔

میرے والد ایک سیدھے سادھے انسان تھے، لمبی چوڑی زمینیں نہیں تھیں، گھر کا گزر بسر مشکل سے ہوتا تھا۔ گھریلو حالات پہلے ہی اچھے نہیں تھے اور پھر ایک روز والد بھی جوانی میں ہی چل بسے، میرے والد میری پیدائش سے دو ماہ قبل ہی فوت ہوگئے تھے۔ سب بہن بھائیوں میں میرا نمبر سب سے آخری ہے۔

میں بنگلہ سکول سے صرف دو جماعت ہی پڑھ سکا، پڑھنے کا شوق تھا، کبھی سکول جاتے ہوئے نہیں رویا، ہاں! البتہ جب مجھے سکول سے اٹھا لیا گیا تو پھر بہت رویا۔ سکول سے ہٹانے کی وجہ گھر کی کمزور معاشی حالت تھی، کیوں کہ والد فوت ہو چکے تھے، بڑا بھائی مزدوری کرکے گھر والوں کے پیٹ بھرنے کا تھوڑا بہت سامان کرتا تھا، اس لئے مجھے پڑھائی کے بجائے ان کا ہاتھ بٹانے پر لگا دیا گیا، اسی دوران ہم اپنے گاؤں سے ڈھاکہ شہر میں آ گئے، جہاں آ کر میں نے بھی محنت مزدوری شروع کر دی، اُس وقت مجھے ایک فیکٹری میں ملازمت ملی تھی، اس فیکٹری کا مالک یہاں مغربی پاکستان میں راولپنڈی اور چکوال کے درمیان واقع ایک علاقے سہگل آباد کا رہنے والا تھا۔''

چوکیداری کے کام کی نوعیت اور مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے عظیم علی احمد کا کہنا تھا کہ '' چوکیدارہ آسان کام نہیں، زندگی داؤ پر لگانا پڑتی ہے۔ مجھے چوکیداری کرتے ہوئے تقربیاً 20 سال ہو چکے ہیں اور اس عرصہ میں، میں آج تک ایک بار بھی رات کو نہیں سو سکا، کیوں کہ میری ڈیوٹی ہی ایسی ہے، میں کبھی چھٹی بھی نہیں کرتا، کیوں کہ چھٹی اس کام میں ہے ہی نہیں۔ شدید موسمی اثرات کے باوجود مسلسل جاگنا، بیٹھنا اور چلنا پڑتا ہے، نیند کبھی پوری ہی نہیں ہوتی، تو ایسے میں، میں صحت کے متعدد مسائل کا شکار ہو چکا ہوں۔

جگر، معدہ، دماغ اور بینائی کمزور ہو چکی ہے، دماغ اور پنڈلیاں سُن ہو جاتی ہیں، پیشاب سے کبھی کبھی خون بھی آتا ہے، لیکن کیا کروں پیٹ کی خاطر کرنا پڑتا ہے۔ ڈیوٹی رات 8 بجے سے صبح 8 بجے تک ہوتی ہے۔ میرے پاس زیادہ تر رکشے والے آتے ہیں، ایک رکشے کی حفاظت کا معاوضہ 20 روپے ایک رات ہے، روزانہ 20 سے 25 رکشوں کی حفاظت میری ذمہ دار ٹھہرتی ہے، کچھ موٹرسائیکل اور دو چار گاڑیاں بھی ہوتی ہیں۔

اللہ کا شکر ہے کہ میرے ساتھ معاوضے پر کبھی کسی سے جھگڑا نہیں ہوا، کیوں کہ میں جھگڑا پسند ہی نہیں کرتا، اگر کوئی رکشے والا ایک رات کے پیسے نہیں بھی دیتا تو میں خاموش ہوجاتا ہوں، اگلے روز وہ خود ہی دے دیتا ہے۔'' جرائم کی شرح میں بتدریج اضافہ کے باعث اس کام میں کبھی ڈر یا خوف نہیں آتا؟ کے سوال پر وہ گویا ہوئے کہ ''آپ کی بات درست ہے، اس کام میں بدلتے وقت کے ساتھ بڑا ڈر اور خوف پیدا ہونے لگا ہے، لیکن مجھے آج تک کبھی کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا، جس کی دو وجوہات ہیں، ایک تو یہ کہ میرے پاس کچھ اور کرنے کے لئے نہیں ہے، تو میرا ارادہ مضبوط ہے، دوسرا چوں کہ میں ایک محلے میں رہتا ہوں، جہاں ہر کوئی مجھے اور میں اس کو جانتا ہوں، پھر یہ سڑک بھی تقریباً ساری رات چلتی رہتی ہے، اس لئے کبھی ڈر نہیں لگا۔

اچھا پھر آپ کو بتاؤں کہ میں نے اس ذمہ داری کو نبھانے کے لئے کبھی کوئی اسلحہ بھی نہیں رکھا، بس صرف ایک چھڑی میرے پاس ہوتی ہے۔ یہ جگہ (جہاں رکشے کھڑے ہوتے ہیں، اس علاقہ سے بلدیاتی الیکشن میں منتخب ہونے والے چیئرمین چوہدری عبدالغفور نے دے رکھی ہے۔

مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) چھوڑ کر مغربی پاکستان کیسے اور کیوں کر آنا ہوکے سوال پر بزرگ چوکیدار نے بتایا کہ ''1971ء میں جب حالات خراب ہوئے، کافی لوگ مرے، فیکٹریاں اور دیگر صنعتیں تباہ ہونا شروع ہو گئیں تو مشرقی پاکستان میں رہنے والے بہت سارے لوگ واپس مغربی پاکستان آ گئے، جن میں میرا فیکٹری مالک بھی تھا، اس وقت فیکٹری مالک نے کہا کہ ''ہم تو واپس جا رہے ہیں، تم اپنے گھر رہنا چاہو گے یا ہمارے ساتھ چلو گے؟

یہ فیصلہ تم نے خود کرنا ہے'' تو میں نے انہیں کہا کہ میں آپ کے ساتھ چلوں گا، کیوں کہ مجھے پہلے سے ہی مغربی پاکستان جانے کا بہت شوق تھا، میں وہاں کی علاقائی خوبصورتی، برف باری، پہاڑی علاقے دیکھنا چاہتا ہوں۔ تو میں نے ان سے کہا کہ برائے مہربانی مجھے اپنے ساتھ لے کر جائیں۔ انہوں نے حامی بھر لی اور یوں میں ان کے ساتھ ہوائی جہاز کے ذریعے مغربی پاکستان پہنچ گیا۔''

آپ کے بہن بھائی اور ماں کا کیا بنا، آپ نے انہیں اپنے جانے کی اطلاع کی؟ وہ بولے '' وہ سب ادھر ہی رہ گئے، آپ جانتے ہوں گے، اس وقت حالات بہت زیادہ خراب ہو چکے تھے، شہر میں کرفیو لگا تھا، کسی سے رابطہ کرنا بہت مشکل تھا، میں نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح اپنے گھر والوں کو اپنے جانے کی اطلاع کروں لیکن شورش کی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہو سکا اور میں انہیں بتائے بناء مغربی پاکستان آ گیا۔

دوسرا مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ میرے گھر والے مغربی پاکستان نہیں آئیں گے، کیوں کہ انہیں بنگالی کے سوا کوئی دوسری زبان تو نہیں آتی تھی۔'' تو پھر آپ نے یہاں آ کر دوبارہ گھر والوں سے رابطہ نہیں کیا؟ ''بہت کوشش کی لیکن پہلے پانچ سال تو بالکل رابط نہیں ہو سکا، کیوں کہ مغربی اور مشرقی پاکستان میں کسی قسم کا کوئی رابطہ نہیں تھا، راستے بند تھے، خط و کتابت پر بھی پابندی تھی۔

پھر پانچ سال بعد جب بنگہ دیش کی الگ حیثیت کو تسلیم کیا گیا تو پاکستان کے اس سے روابط بحال ہوئے تو میں نے اپنے گھر والوں کو خط لکھا، جو کئی ماہ بعد گھر پہنچا تو میرے گھر والے حیران رہ گئے، کیوں کہ وہ تو مجھے کبھی کا مردہ تصور کر چکے تھے، انہوں نے سمجھا کہ اب وہ یعنی میں کہاں بچا ہوں گا؟ اس لئے انہوں نے تو میری طرف سے صبر کر لیا تھا، لیکن جب انہیں میرا خط ملا تو میری ماں (یہ مجھے میرے بھائی نے بتایا) بے ہوش ہو گئی، کیوں کہ اس کے زخم پھر سے ہرے ہو گئے تھے، وہ ہر وقت میرا خط اپنے پلّو سے باندھ کر رکھتیں، بار بار اسے کھول کر دیکھتیں اور رونے لگتیں، وہ میرے بھائی کو بھی مجبور کرتیں کہ کسی طرح اسے جا کر صرف ایک بار لے آؤ، میں اسے ایک بار دیکھنا چاہتی ہوں تاکہ سکون سے مر سکوں۔

ادھر ہمارا حال بھی اس سے کچھ مختلف نہ تھا، ماں کو دیکھنے کے لئے دل مچلنے لگا، لیکن اس وقت میرے ایسے مالی حالات نہیں تھے کہ میں بنگلہ دیش جا سکتا، تاہم میں پیسے جمع کرتا رہا اور بالآخر 20 سال بعد یعنی 1991ء میں، میں نے یہاں اپنا پاسپورٹ بنوایا، ٹکٹ خریدی اور ایک ماہ کے لئے اپنے گھر والوں کو ملنے بنگلہ دیش چلا گیا۔ اس وقت میں یہاں لاہور ہی میں ایک اسلحہ کی فیکٹری میں کام کرتا تھا۔ اچھا'۔۔۔۔ جب میں نے مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) کو چھوڑا تو اس وقت میری عمر 17برس تھی اور جب دوبارہ وہاں گیا تو اس وقت میں 37سال کا ہو چکا تھا۔

میں جب گھر پہنچا تو میری ماں گھر کی دہلیز پر ہی بیٹھی میرا انتظار کر رہی تھی، کیوں کہ میں نے انہیں مطلع کر دیا تھا کہ میں ان سے ملنے آ رہا ہوں۔ گھر کی دہلیز پر جب میری اور میری ماں کی نظریں ایک ہوئیں تو میں بتا نہیں سکتا کہ اس وقت ہم دونوں کی اندرونی کیفیت کیا تھی؟ میری ماں کی پتھرائی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے، انہوں نے بھاگ کر مجھے اپنی بانہوں میں لے لیا، میں اور میری ماں کافی دیر تک ایک بھی لفظ بولے بناء ایک دوسرے کے گلے لگ کر صرف روتے رہے (اس دوران عظیم علی کی آنکھیں پھر سے نم ہو چکی تھیں، جنہیں چھپانے کے لئے وہ واش روم جانے کا بہانہ بنا کر اٹھ گئے) اچھا پھر میں ایک ماہ بعد واپس یہاں لاہور آ گیا۔

یہاں موہنی روڈ پر میرے ایک مرشد تھے، جن کا نام سلطان امداد حسین تھا، میں ان ہی کے ساتھ رہتا تھا، وہ بہت اللہ والے تھے، انہوں نے مجھے اپنا بیٹا بنا لیا، ان کا سارا خاندان یہ جانتا تھا کہ عظیم امداد حسین کا بیٹا ہے، وہ جہاں بھی جاتے میں ان کے ساتھ ہوتا۔ لیکن جب میں بنگلہ دیش سے واپس آیا تو مجھے پتہ چلا کہ وہ فوت ہو چکے ہیں، پھر میں نے مریدکے میں ایک مرغی خانے پر کام شروع کر دیا، جو زیادہ دیر نہ چلا تو میں نے اس کام کو چھوڑ کر بجلی کا کام شروع کر دیا، ہمارا ٹھیکیدار کام لیتا تو ہم وہاں جا کر وائرنگ کرتے تھے، تاہم یہ کام بھی زیادہ دیر نہ چل سکا تو میں نے یہاں (غوث اعظم کالونی، شیرپاؤپل) چوکیداری شروع کر دی، آج مجھے تقریباً 20سال ہو چکے ہیں، یہ کام کرتے ہوئے، اب میری رہائش بھی اسی محلے میں ہے۔''

گھر والوں سے دوبارہ رابطے کے ذکر پربتایا کہ '' ہاں رابطہ ہو جاتا ہے، لیکن بہت دیر سے، وہاں (بنگلہ دیش) اب صرف میرا بھائی زندہ ہے، والدہ اور دونوں بہنیں فوت ہو چکی ہیں۔ میری والدہ 1995ء میں فوت ہوئیں، یہ اطلاع جب تک میرے پاس پہنچی تو انہیں فوت ہوئے ڈیڑھ ماہ بیت چکا تھا، کیوں کہ اس وقت میں آزاد کشمیر میں تھا، بنگلہ دیش سے خط و کتابت یہاں مریدکے والے پتہ پر ہوتی تھی۔ میں نے ماں کی قبر دیکھنے کے لئے بنگلہ دیش جانے کی سر توڑ کوشش کی، لیکن میرے پاس اتنے پیسے ہی نہ بن سکے۔

گھر میں سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے میری ماں کو مجھے سے بہت پیار تھا، میری جدائی میں وہ بہت روئی اور پھر اسی غم میں دنیا چھوڑ گئی، اور میں اتنا بدقسمت کہ ابھی تک اس کی قبر تک کو دیکھنے کو ترس رہا ہوں۔ میرا بہت دل چاہتا ہے کہ میں اپنی ماں کی قبر سے لپٹ کر روؤں، مگر مجبور ہوں ایسا نہیں کر سکتا۔ اچھا! میں کسی کے سامنے ہاتھ بھی نہیں پھیلاتا اور نہ انشاء اللہ کبھی پھیلاؤں گا۔ مرنے سے پہلے اپنی ماں کی قبر کو دیکھنا چاہتا ہوں اور اللہ تعالی سے مجھے امید ہے کہ وہ ایک روز مجھے وہاں تک لے جائے گا۔''

جب آپ 1991ء میں بنگلہ دیش گئے تھے، تو گھروالوں نے آپ کو روکا نہیں یا آپ کا دل نہیں کیا کہ بس میں اب پاکستان واپس نہیں جاؤں گا؟ '' گھر والوں نے تو بہت روکا، میری ماں نے بڑا اصرار کیا، لیکن میرا دل تو یہاں پاکستان میں اٹک چکا تھا، یہاں کا ماحول مجھے بنگلہ دیش سے بہت اچھا لگا، یہاں کا ماحول، دینی و دنیاوی تعلیم و تربیت بہت اچھی ہے، لوگ بہت پیار کرنے والے ہیں، پھر میرے مرشد بھی یہاں کے تھے۔

پاکستان ہر اعتبار سے بنگلہ دیش سے بہت آگے تھا اور ہے۔ میرا یہاں اتنا دل لگا، مجھے پاکستان سے اتنی محبت ہوئی کہ میں نے اپنا گھر، گھر والے اور ملک سب کچھ اس کے لئے چھوڑ دیا، اور الحمداللہ آج تک مجھے اپنے فیصلے پر کسی قسم کا کوئی پچھتاوا نہیں۔ میں یہاں بہت خوش و خرم زندگی گزار رہا ہوں۔''

1971ء میں جب پاکستان دو لخت ہوا، آپ جوان اور ڈھاکہ میں رہائش پذیر تھے، اس سانحہ کے بارے میں کیا کہیں گے؟ عظیم علی احمد نے یوں جواب دیا '' میرے خیال میں یہ صیحح نہیں ہوا، کیوں کہ مشرقی پاکستان والوں نے تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ الگ ہو جائیں گے، یہ تصور ہی نہیں تھا کہ ہم نے الگ ہونا ہے، انہیں الگ کروایا گیا، جس کا ذمہ دار میں بھٹو کو سمجھتا ہوں۔ ڈھاکہ سے لوگ جب یہاں مغربی پاکستان آتے تھے، تو انہیں یہاں جلسہ یا تقریر تک نہیں کرنے دی جاتی تھی۔

بھٹو نے کہا جو یہاں آئے گا، اس کی ٹانگیں توڑ دیں گے، اُدھر تم اِدھر ہم، پھر ان کے حقوق نہیں دیئے جاتے تھے، بنگالیوں کو ہر معاملہ میں پیچھے رکھا گیا، اگر اسمبلی میں 2 سو نشستیں تھیں تو انہیں صرف 30ہی دی جاتیں، یہ سب کچھ کیا تو بعد میں بھارت نے جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کیا۔'' تو پھر ایک طرف آپ کہتے ہیں کہ بنگالیوں کے ساتھ ظلم ہوا تو دوسری طرف پاکستان سے آپ کو بہت محبت ہے، یہیں رہنا بھی چاہتے ہیں؟ گویا ہوئے '' یہ میرا انفرادی معاملہ ہے، لیکن اجتماعی طور پر بنگالیوں کے ساتھ زیادتی کی گئی، انہیں ان کا حق نہیں دیا گیا، پھر انہیں الگ کر دیا گیا، وہ الگ نہیں ہونا چاہتے تھے۔

بنگالیوں کو پتہ تھا کہ ہمارا الگ ہونا درست نہیں، کیوں کہ ان کے ساتھ بھارت لگتا ہے۔ اب بھی آپ دیکھ لیں کہ بنگلہ دیش انڈیا کے دباؤ میں ہے۔'' عمر کے آخری حصے میں انسان کو اپنوں کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن آپ نے تو شادی بھی نہیں کی، وجہ کیا تھی؟ ''میری شادی تو بہت پہلے، جب ہم مشرقی پاکستان میں رہتے تھے، ہونے والی تھی، لیکن میں نہیں مانا۔ میری ماں نے مجھے کہا کہ تمھارا ماموں تمھیں اپنی بیٹی دینا چاہتا ہے، لیکن میں نے اپنی ماں کو فی الحال شادی کرنے سے منع کر دیا۔ یہ 1971ء سے پہلے کی بات ہے۔

اچھا پھر جب میں مغربی پاکستان آ گیا تو یہاں میرے مرشد نے بھی کوشش کی کہ عظیم اکیلا ہے، اس کی شادی ہونی چاہیے، جس پر میں نے پولٹری فارم کا کام شروع کیا تا کہ کچھ پیسے ویسے بن جائیں، گھر بن جائے، کیوں کہ اس کے بغیر تو کوئی اپنی بیٹی دے گا نہیں، لیکن ایسا ہو نہیں سکا، یوں میری شادی بھی نہ ہو سکی، یونہی وقت گزرتا چلا گیا۔ دوسرا مجھے کبھی یہاں کوئی کمی محسوس نہیں ہوتی، میں بہت خوش ہوں، اکیلے رہ کر بھی باغ میں بہار ہے، جیسے میں نے آپ کو پہلے بتایا یہاں میرا دل لگ چکا ہے۔

یہاں میرے رشتہ دار تو نہیں، لیکن ملنے ملانے والے بہت ہیں، میں سبھی کی خوشی و غم میں شرکت کرتا ہوں، ملن برتاؤ کرتا ہوں، وہ مجھے سے اتنا پیار کرتے ہیں کہ کبھی اپنوں کی یاد ہی نہیں آئی، کوئی بابا، چچا اور کوئی دادا کہتا ہے۔ مجھے کبھی پچھلوں کی یاد بھی نہیں آتی۔'' پاکستان کے حکمرانوں اور موجودہ حالات کا ذکر کرتے ہوئے بولے ''میرے نزدیک سب سے پہلی اچھی حکومت ایوب خان کی تھی، پھر ضیاء الحق کا دور اچھا لگا، کیوں کہ یہ ادوار پُرامن تھے۔ اچھا اب نواز شریف آیا تو کچھ اچھے کام کر رہا ہے، لیکن اسے اپنی مدت پوری نہیں کرنے دی جا رہی۔

دیکھیں! دنیا میں ایسا کہیں بھی نہیں ہوتا کہ ایک بندہ پانچ سال کے لئے منتخب ہو کر آیا ہو اور آپ کہیں کہ نہیں یہ اس سے پہلے ہی گھر چلا جائے، بھائی! اس کو موقع دو، اگر یہ اچھا کام نہیں کرے گا تو وہ اگلی بار ناکام ہو جائے گا مگر گریبان سے پکڑ کر ہٹانا درست نہیں۔'' پاکستان کے بارے میں جو سوچ کر آئے تھے، کیا اسے آپ نے ویسا ہی پایا؟'' بالکل میں نے اس ملک کو ویسا ہی پایا جو میرے دماغ میں تھا اور مجھے یہ کہنے میں کوئی ہجکچاہٹ نہیں کہ مجھے بنگلہ دیش کی نسبت پاکستان سے زیادہ پیار ہے، میں مرنا بھی یہیں چاہتا ہوں۔ اس ملک کے لئے ہم ہر وقت لڑنے مرنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں