توجہ طلب ٹرانسپورٹ مسائل
کسی بھی ملک و قوم یا ادارے کا معیار ہی اس کے وقار کی علامت ہوتا ہے اور اس کو برقرار رکھنا اوّلین ذمے داری ہوتی ہے۔
ایک خبر کے مطابق گاڑیاں بنانے والی ایک جاپانی کمپنی نے دروازے میں خرابی سامنے آجانے پر پھر سے اپنی 3 لاکھ 20 ہزار سے زاید گاڑیاں واپس منگوالی ہیں۔ کمپنی کے مطابق اگرچہ اس حوالے سے کوئی حادثہ پیش نہیں آیا لیکن لوگوں کی حفاظت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس قسم کی مثالیں ہمارے لیے حیرت اور اچنبھے کی بات ہوتی ہیں۔مثلاً DC-10 طیاروں کے حادثات ہوئے تو کمپنی تمام دنیا میں یہ طیارے گرائونڈ کروا دیتی ہے۔
اس بات کی تحقیق اور تجزیہ کیا جاتا ہے کہ یہ حادثے کیونکر واقع ہوئے، کیونکہ کمپنی کے معیار اور انسانی زندگی کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ زندگی کی قدر و قیمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 6 ماہ قبل ٹیکساس کی جیوری نے ایک بچّے کو جلا کر مار دینے پر اس کے ورثاء کو 150 ارب ڈالر کا معاوضہ ادا کرنے کا حکم دیا تھا جو شاید تاریخ کا سب سے بڑا معاوضہ ہو۔ راولپنڈی سانحے پر جب گاڑی کے سن اسکرین لیور لگنے سے بے نظیر بھٹو کی موت واقع ہونے کی قیاس آرائیاں اور بحثیں شروع ہوئیں تو گاڑی ساز ادارے نے اس گاڑی کے سن اسکرین لیور کا جائزہ لینے کے بعد دو دنوں کے اندر ہی ان قیاس آرائیوں اور دعوؤں کی تردید کردی کہ گاڑی کے لیور سے اس قسم کا حادثہ رونما نہیں ہوسکتا اور اگر یہ پروپیگنڈا اور بحث بند نہ کی گئی تو کمپنی ہتک عزت اور ازالہ عرضی کا مقدمہ دائر کرے گی۔
اس کے بعد اس بحث کا فوری طور پر خاتمہ ہوگیا تھا۔ اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ کسی بھی ملک و قوم یا ادارے کا معیار ہی اس کے وقار کی علامت ہوتا ہے اور اس کو برقرار رکھنا اوّلین ذمے داری ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں بھی جب تک معیار و اقدار کا وجود رہا، اس وقت تک ملک کا وقار بھی قائم تھا، معیار و اقدار کی بے وقعتی نے ملک و قوم کو بھی بے وقار کرکے رکھ دیا۔ کسی بھی طبقہ، گروہ یا کسی بھی پیشے سے وابستہ افراد کو دیکھ لیں یا انتخابی نتائج کا تجزیہ کرلیں، اس میں ان افراد کی سوچ، کردار اور معیار کی بھرپور عکاسی نظر آئے گی۔ کسی زمانے میں لوگوں سے سنا کرتے تھے کہ سڑک پر چلتی کسی گاڑی پر اس کمپنی کے کسی ذمے دار شخص کی نظر پڑ گئی،
جس میں کوئی ردوبدل کیا گیا ہوتا تھا تو وہ ذمے دار وہیں اتر کر اس گاڑی کا معائنہ کرتا تھا، اس کے بارے میں تفصیلات جانتا، اگر بلاجوازکوئی ردوبدل کیا گیا ہوتا تھا تو اس کا تدارک کرتا تھا اور بعض مرتبہ ضرورت کے تحت اگر کوئی معذور شخص گاڑی میں اپنے جسمانی عذر کی بِنا پر کوئی ردوبدل کرلیتا تھا تو اس شخص کی اس تخلیق کو سراہا جاتا تھا بلکہ انعام سے بھی نوازا جاتا تھا۔ لیکن آج ہماری گاڑیوں کی کیا حالت ہے، ان کے ماڈلز کیا سے کیا بنا دیے جاتے ہیں۔
ٹرک، بسیں، کاریں و دیگر گاڑیوں میں مالکان اور مکینک حضرات کی کون کون سی حیرت انگیز کاوشیں، تخلیقات اور تجلیات دیکھنے میں نہیں آتی ہیں۔ موٹر سائیکلوں کے مختلف ماڈلز کو کاٹ کر ان کے ساتھ طرح طرح کے کینن، بکس، بوگی کی صورت میں ویلڈ کرکے عوامی سہولیات کی جو تدبیریں اور اپنے کاروبار کی جو سبیلیں نکالی گئی ہیں، وہ حیرت انگیز اور قابلِ دید ہیں۔ انھوں نے کمپنی کی گاڑیوں کے ماڈلز کا تو حلیہ بگاڑا ہی ہے لیکن بہ حیثیت مجموعی ملک کے شہروں کا چہرہ اور امیج دونوں بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ متعلقہ کمپنیاں تو اس بڑے پیمانے پر اپنی گاڑیوں کے ماڈلز بگاڑ دینے پر شاید یہ سمجھ کر خاموشی اختیار کر بیٹھی ہیں کہ یہ معذوروں کی قوم کی گاڑیاں ہیں۔ لیکن اربابِ اختیار کی وہ کون سی معذوری ہے جو انھیں اس قسم کی حرکتوں کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی سے مانع رکھتی ہے۔
خودساختہ رکشوں کی تعداد میں اضافہ تشویش ناک ہے۔ اس سے شہریوں کو کچھ حد تک آسانیاں تو میسر آئی ہیں لیکن شہریوں اور شہری ماحول کو اس سے پہنچنے والا نقصان کہیں زیادہ ہے۔ رکشوں کا کوئی ماڈل ہے نہ ٹوکن یا روٹ نہ ہی ان گاڑیوں کی فٹنس ہے نہ ہی ان میں کوئی نظم ہے نہ ہی ڈرائیور تربیت یافتہ ہیں۔ ان لوگوں میں کوئی ٹریفک سینس بھی نہیں ہے۔ ان کی بڑی تعداد کے پاس ڈرائیونگ لائسنس بھی نہیں بلکہ بہت سوں کے پاس شناختی کارڈ بھی نہیں ہے۔
رکشا دوڑاتے ان کے بعض ڈرائیور ابھی شناختی کارڈ کی عمر تک بھی نہیں پہنچے ہیں۔ اس میں بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو کچی اور مضافاتی بستیوں سے تعلق رکھتے ہیں جو کسی حادثے یا جرم کی صورت میں ناقابلِ شناخت اور ناقابل گرفت ہوسکتے ہیں۔ حکومتی عدم توجہی اور پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے فی الحال تو عوام خصوصاً خواتین اور طلبا کی بڑی تعداد ان رکشوں سے سفر کررہی ہے، کالج، اسکول اور دفتری اوقات میں لوگ ان رکشوں میں کھڑے ہو کر سفر کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی چھتوں پر بیٹھ کر بھی سفر کرتے ہیں جو خطرناک ہونے کے ساتھ ساتھ شرم ناک بھی ہے۔
حکومتی ارباب اختیار، عوامی نمایندوں اور این جی اوز کو شہریوں کو اس درگت و تذلیل اور بنیادی انسانی حقوق کی پامالی پر مجرمانہ خاموشی اور چشم پوشی اختیار کرنے کے بجائے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ شہریوں کی زندگیوں کو خطرات، ان کی عزتِ نفس بحال کرنے کے ساتھ ساتھ شہر کے چہرے کو مزید داغ دار اور مسخ ہونے سے بچایا جاسکے۔ دنیا کی آٹھویں ایٹمی قوت پاکستان اس وقت دنیا بھر میں ٹرانسپورٹ پر سب سے کم خرچ کرنے والے ممالک کی فہرست میں ساتویں نمبر پر ہے۔ یہاں پبلک ٹرانسپورٹ کی شرح 4% کے بجائے کم از کم 40% ہونی چاہیے، بس ریپڈ سسٹم اس کا فوری حل ہے۔ دنیا کے دیگر بڑے شہروں کی طرح ماس ٹرانزٹ پاکستان کے بڑے شہروں کی فوری اور اشد ضرورت ہے۔
حکومت کو فوری اقدام کے طور پر ٹریفک قوانین پر سختی سے عمل درآمد کرنے کے لیے پولیس کو بااختیار بنا کر مکمل تحفظ فراہم کرنا چاہیے، کیونکہ ٹریفک مافیا کے طاقتور اور جرائم پیشہ افراد کے علاوہ پرائیویٹ گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر سوار منچلے تلنگے پولیس اہلکاروں کو کسی خاطر میں نہیں لاتے ہیں۔ اس کے لیے سب سے پہلے تو اس محکمے سے نااہل، کرپٹ اور سیاسی عزائم کے حامل اہلکاروں کا خاتمہ کرکے ڈرائیونگ لائسنس کے اجرا کو رشوت و بدعنوانی سے پاک کرکے صاف و شفاف بنانا چاہیے۔
ڈرائیونگ کا شعبہ غیر تربیت یافتہ افراد کی آماج گاہ بن چکا ہے جب کہ اس شعبے سے وابستہ افراد کی طبیعت میں حسّاسیت، لطافت، تہذیب و شائستگی اور قانون پسندی ہونا چاہیے۔ ڈرائیوروں کے اوقات کار، ان کے طبی معائنے، تنخواہ و مراعات کے ساتھ ساتھ گاڑیوں کی فٹنس کی چیکنگ کے لیے ہنگامی بنیادوں پر مربوط و متحرک نظام وضع کرکے چیک اینڈ بیلنس کا طریقۂ کار وضع کرنا ہوگا۔ رکشوں سے لاکھوں خاندانوں کا رزق بھی وابستہ ہوچکا ہے، ان کی رجسٹریشن کرکے روٹس مقرر کرکے ان کے ماڈلز اور فٹنس کو چیک کرکے انھیں ایک قانونی دائرۂ کار میں لانا چاہیے، ورنہ مستقبل میں وہ مسائل پیدا ہوں گے جو حکومت کے بس سے باہر اور شہریوں کے لیے وبالِ جان بن جائیں گے۔