تاش کی بیگم پر ترپ کا پتا
جب ملک کا موڈ دائیں بازو کی طرف ہو تو آپ ہلیری کے لیے ووٹ ڈالنے کی توقع نہیں کر سکتے
ABBOTABAD:
جب ملک کا موڈ دائیں بازو کی طرف ہو تو آپ ہلیری کے لیے ووٹ ڈالنے کی توقع نہیں کر سکتے جو اگرچہ بائیں بازو کی نہیں ہیں پھر بھی مرکز سے قدرے بائیں طرف کی ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح سفید فاموں کی بالادستی کی عکاس ہے جن کی شرح تقریباً 63 فیصد ہے لیکن پھر بھی انھیں اپنے تئیں اقلیت میں ہونے کا خوف ہے۔ یہ سوچ اگرچہ بدقسمتی کے مترادف ہے لیکن اس سے مفر بھی ممکن نہیں کیونکہ امریکا آج ایسا ہی ہے۔
ایک بار پھر تنہا رہ جانے کا خوف کار فرما نظر آرہا ہے۔ امریکا میں ان لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جو اکیلے ہی رہنا چاہتے ہیں اور انھیںاس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ باقی دنیا ان کے بارے میں کیا سوچتی ہے یا محسوس کرتی ہے۔ لیکن وہائٹ ہاؤس میں اس خیال نے غلبہ حاصل نہیں کیا۔ سبکدوش ہونے والے بارک اوباما نے صدارت کی دو مدتیں پوری کی ہیں حالانکہ وہ غیر سفید فاموں کی نمایندگی کرتے تھے۔ الگ تھلگ رہنے کی پالیسی اس ملک میں قبل ازیں بھی اختیار کی جا چکی ہے لیکن عوام ایک بار پھر سیکولر پالیسی پر واپس آگئے ہیں جنہوں نے آئین کو اقلیت یا اکثریت سے کہیں زیادہ تسلیم کیا ہے۔ صدر ابراہام لنکن ری پبلکن تھے لیکن تاریخ میں وہ اقلیتوں کے لیے بھی سب سے زیادہ قابل قبول شخصیت کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے بلاشبہ مسلمانوںکے بارے میں سخت خیالات کا اظہار کیا ہے لیکن انھیں بالآخر دنیا کے حقائق کو تسلیم کرنا ہی ہوگا۔ امریکا مسلم دشمن پالیسی اختیار کرکے مشرق وسطیٰ اور دیگر مسلم ممالک کے ساتھ تجارتی روابط برقرار نہیں رکھ سکتا۔ وہائٹ ہاوس کے مکین کو بالآخر اقتصادی حقائق کو تسلیم کرنا ہی پڑتا ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں بیروزگاری سب سے بڑا مسئلہ ہے وہاں اگر روز گار مہیا کرنے کا وعدہ کیا جائے تو ظاہر ہے کہ اس میں بہت کشش ہوگی۔
نوجوان ووٹر اس بات سے بہت متاثر ہوئے کیونکہ وہ مارکیٹ میں ملازمتوں کی تلاش کر رہے ہیں چنانچہ وہ ہلیری کے مقابلے میں سیدھا ٹرمپ کے کیمپ میں پہنچ گئے جس نے ان کے جذبات کی صحیح عکاسی کی تھی۔ ہلیری کو ماضی کے تسلسل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے اگر ہلیری جیت جائیں تو انھیں کانگریس کے ساتھ سودا بازی کرنی پڑتی جس میں ری پبلکن کی اکثریت ہے ۔ اس صورت میں ہلیری کو بھیدرمیانی پالیسی اختیار کرنا پڑتی جس طرح ان کے شوہر نے 1994ء کے ری پبلکن انقلاب کے بعد کیا تھا ، اقتصادی معاملات پر ہلیری کو بل کلنٹن کے مقابلے میں زیادہ آزاد خیال سمجھا جاتا ہے۔ خارجہ پالیسی کے حوالے سے ہلیری کو زیادہ بین الاقوامی حمایت و تعاون حاصل ہوسکتا تھا۔
ڈیموکریٹ ملٹی لیٹرل سمجھوتوں کے قائل ہیں جیسا کہ اوباما انتظامیہ نے ایران کے ساتھ معاہدہ کر لیا جس کی ری پبلکنز کی طرف سے خاصی مذمت کی گئی تھی۔لیکن 2016ء کا صدارتی انتخاب ایک لحاظ سے اوباما کے آٹھ سالہ اقتدار کے بارے میں ایک ریفرنڈم تھا۔ اوباما نے 2007ء میں جب اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا تو اس کے بارے میں توقع کی گئی کہ وہ نظام میں تبدیلی لائیں گے جس طرح کہ فرینکلین روز ویلٹ اور صدر ریگن کو تبدیلی کا پیغام بر سمجھا گیا تھا۔ مذکورہ دونوں صدور کو 19 ویں صدی کے دو بہت نمایاں صدر تصور کیا جاتا ہے۔
البتہ اوباما کی کامیابیوں کے بارے میں لوگوں کے خیالات مختلف ہیں بالخصوص اسٹیٹ آف دی یونین خطاب کے بعد اوباما نے وضاحت کی کہ ان کی صدارت کس لحاظ سے بہت کامیاب رہی ہے۔اوباما نے کہا کہ ان کے دور صدارت میں 14 ملین (ایک کروڑ 40 لاکھ)نئی ملازمتیںپیدا کی گئیں جب کہ مینوفیکچرنگ کے شعبے میں 9 لاکھ مزید افراد کو گزشتہ چھ سال میں کھپایا گیا۔ بجٹ خسارہ تین چوتھائی کم کیا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اوباما نے مالیاتی شعبے میں نظم و ضبط پیدا کرکے اقتصادیات کو بحال کرنے کی کوشش کی اور اس طرح کسی نئے مالیاتی بحران کا راستہ روک دیا تاہم ان کی بڑی ناکامی یہ تھی جس کا خود اوباما نے اعتراف بھی کیا کہ ملک کی دونوں پارٹیوں میں خلیج بڑھ گئی ہے۔ ان کے بارے میں جو یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ ملک کو متحد کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے لیکن قوم اس سے کہیں زیادہ تقسیم شدہ نظر آئی جتنی کہ جارج ڈبلیو بش کے زمانے میں تھی۔
مزید برآں اقتصادی عدم مساوات کا مسئلہ اوباما کے لیے بڑا چیلنج تھا۔امریکی صدر ریاست کا سربراہ بھی ہوتا ہے اور کابینہ کا لیڈر بھی۔ کابینہ کے لیڈر کے طور پر اوباما قانون سازی کے حوالے سے کامیابی حاصل کرنے کا بجا طور پر دعویٰ کرسکتے ہیں۔ نیز اقتصادی ترقی کا سہرا بھی اپنے سر باندھ سکتے ہیں لیکن امریکی عوام کی اکثریت انھیں عظیم سربراہ مملکت کے طور پر نہیں دیکھتی۔ جہاں تک کہ ہلیری کلنٹن کا تعلق ہے تو وہ بھی اپنے پیشرو کی پالیسیوں پر کاربند تھیں۔
ادھر ٹرمپ کے بارے میں عمومی خیال یہ ہے کہ وہ بہت محب وطن صدر ہیں جنھیں ایک وقت میں سربراہ مملکت کے طور پر شناخت حاصل ہوجائے گی گو ان کا غرور و تکبر بہت نمایاں ہے اور وہ اپنی انا کے اسیر ہیں۔ وفاقی حکومت کے خلاف لوگوں کا غیض و غضب اسقدر فراواں تھا کہ اس کے ردعمل کے طور پر قوم کی اکثریت نے اپنا ووٹ ٹرمپ کے پلڑے میں ڈال دیا ۔ ٹرمپ کو بھاری حمایت اس بنا پر بھی ملی کیونکہ وہ سیاست کے میدان میں باہر سے آئے تھے اور ابتدائی ووٹنگ سے بھی یہ اندازہ ہوگیا کہ قوم ڈیموکریٹس سے عدم اطمینان کا شکار ہے جب کہ ٹرمپ آزادانہ تجارت اور چینی کرنسی کی بالادستی کے خلاف تھے اور وہ تمام ملازمتوں کو امریکا واپس لانا چاہتے ہیں جو امریکی صنعتکاروں اور تاجروں نے اپنے منافع میں اضافہ کے لیے اپنے پیداواری یونٹ بیرون ملک منتقل کر دیے ہیں اور وہاں بہت کم معاوضے پر مقامی افراد کوملازم رکھا جاتا ہے۔
ٹرمپ نے ان تمام اداروں کو واپس امریکا منتقل کرکے امریکیوں کو ملازمین رکھنے کا حکم دے دیا ہے۔ ووٹروں کا خیال ہے کہ بزنس مین ہونے کی وجہ سے ٹرمپ اقتصادیات کو زیادہ بہتر سمجھتا ہے۔ ٹرمپ کی جیت میں ایک نمایاں کردار اس بات کا بھی تھا کہ ارب پتی ٹرمپ نے انتخابی اخراجات کے لیے چندے وصول کرنے کے بجائے اپنی جیب سے اخراجات کیے گویا اس مقصد کے لیے ٹرمپ نے دوسروں کا منت کش احسان ہونے سے انکار کردیا۔ ٹرمپ نے افغانستان سے تمام امریکی فوجیوں کی واپسی کا عندید دیدیا ہے جس پر لوگ کہتے ہیں کہ یوں تو افغانستان مکمل طور پر داعش کے رحم و کرم پر آجائے گا۔
(ترجمہ مظہر منہاس)
جب ملک کا موڈ دائیں بازو کی طرف ہو تو آپ ہلیری کے لیے ووٹ ڈالنے کی توقع نہیں کر سکتے جو اگرچہ بائیں بازو کی نہیں ہیں پھر بھی مرکز سے قدرے بائیں طرف کی ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح سفید فاموں کی بالادستی کی عکاس ہے جن کی شرح تقریباً 63 فیصد ہے لیکن پھر بھی انھیں اپنے تئیں اقلیت میں ہونے کا خوف ہے۔ یہ سوچ اگرچہ بدقسمتی کے مترادف ہے لیکن اس سے مفر بھی ممکن نہیں کیونکہ امریکا آج ایسا ہی ہے۔
ایک بار پھر تنہا رہ جانے کا خوف کار فرما نظر آرہا ہے۔ امریکا میں ان لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جو اکیلے ہی رہنا چاہتے ہیں اور انھیںاس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ باقی دنیا ان کے بارے میں کیا سوچتی ہے یا محسوس کرتی ہے۔ لیکن وہائٹ ہاؤس میں اس خیال نے غلبہ حاصل نہیں کیا۔ سبکدوش ہونے والے بارک اوباما نے صدارت کی دو مدتیں پوری کی ہیں حالانکہ وہ غیر سفید فاموں کی نمایندگی کرتے تھے۔ الگ تھلگ رہنے کی پالیسی اس ملک میں قبل ازیں بھی اختیار کی جا چکی ہے لیکن عوام ایک بار پھر سیکولر پالیسی پر واپس آگئے ہیں جنہوں نے آئین کو اقلیت یا اکثریت سے کہیں زیادہ تسلیم کیا ہے۔ صدر ابراہام لنکن ری پبلکن تھے لیکن تاریخ میں وہ اقلیتوں کے لیے بھی سب سے زیادہ قابل قبول شخصیت کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے بلاشبہ مسلمانوںکے بارے میں سخت خیالات کا اظہار کیا ہے لیکن انھیں بالآخر دنیا کے حقائق کو تسلیم کرنا ہی ہوگا۔ امریکا مسلم دشمن پالیسی اختیار کرکے مشرق وسطیٰ اور دیگر مسلم ممالک کے ساتھ تجارتی روابط برقرار نہیں رکھ سکتا۔ وہائٹ ہاوس کے مکین کو بالآخر اقتصادی حقائق کو تسلیم کرنا ہی پڑتا ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں بیروزگاری سب سے بڑا مسئلہ ہے وہاں اگر روز گار مہیا کرنے کا وعدہ کیا جائے تو ظاہر ہے کہ اس میں بہت کشش ہوگی۔
نوجوان ووٹر اس بات سے بہت متاثر ہوئے کیونکہ وہ مارکیٹ میں ملازمتوں کی تلاش کر رہے ہیں چنانچہ وہ ہلیری کے مقابلے میں سیدھا ٹرمپ کے کیمپ میں پہنچ گئے جس نے ان کے جذبات کی صحیح عکاسی کی تھی۔ ہلیری کو ماضی کے تسلسل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے اگر ہلیری جیت جائیں تو انھیں کانگریس کے ساتھ سودا بازی کرنی پڑتی جس میں ری پبلکن کی اکثریت ہے ۔ اس صورت میں ہلیری کو بھیدرمیانی پالیسی اختیار کرنا پڑتی جس طرح ان کے شوہر نے 1994ء کے ری پبلکن انقلاب کے بعد کیا تھا ، اقتصادی معاملات پر ہلیری کو بل کلنٹن کے مقابلے میں زیادہ آزاد خیال سمجھا جاتا ہے۔ خارجہ پالیسی کے حوالے سے ہلیری کو زیادہ بین الاقوامی حمایت و تعاون حاصل ہوسکتا تھا۔
ڈیموکریٹ ملٹی لیٹرل سمجھوتوں کے قائل ہیں جیسا کہ اوباما انتظامیہ نے ایران کے ساتھ معاہدہ کر لیا جس کی ری پبلکنز کی طرف سے خاصی مذمت کی گئی تھی۔لیکن 2016ء کا صدارتی انتخاب ایک لحاظ سے اوباما کے آٹھ سالہ اقتدار کے بارے میں ایک ریفرنڈم تھا۔ اوباما نے 2007ء میں جب اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا تو اس کے بارے میں توقع کی گئی کہ وہ نظام میں تبدیلی لائیں گے جس طرح کہ فرینکلین روز ویلٹ اور صدر ریگن کو تبدیلی کا پیغام بر سمجھا گیا تھا۔ مذکورہ دونوں صدور کو 19 ویں صدی کے دو بہت نمایاں صدر تصور کیا جاتا ہے۔
البتہ اوباما کی کامیابیوں کے بارے میں لوگوں کے خیالات مختلف ہیں بالخصوص اسٹیٹ آف دی یونین خطاب کے بعد اوباما نے وضاحت کی کہ ان کی صدارت کس لحاظ سے بہت کامیاب رہی ہے۔اوباما نے کہا کہ ان کے دور صدارت میں 14 ملین (ایک کروڑ 40 لاکھ)نئی ملازمتیںپیدا کی گئیں جب کہ مینوفیکچرنگ کے شعبے میں 9 لاکھ مزید افراد کو گزشتہ چھ سال میں کھپایا گیا۔ بجٹ خسارہ تین چوتھائی کم کیا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اوباما نے مالیاتی شعبے میں نظم و ضبط پیدا کرکے اقتصادیات کو بحال کرنے کی کوشش کی اور اس طرح کسی نئے مالیاتی بحران کا راستہ روک دیا تاہم ان کی بڑی ناکامی یہ تھی جس کا خود اوباما نے اعتراف بھی کیا کہ ملک کی دونوں پارٹیوں میں خلیج بڑھ گئی ہے۔ ان کے بارے میں جو یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ ملک کو متحد کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے لیکن قوم اس سے کہیں زیادہ تقسیم شدہ نظر آئی جتنی کہ جارج ڈبلیو بش کے زمانے میں تھی۔
مزید برآں اقتصادی عدم مساوات کا مسئلہ اوباما کے لیے بڑا چیلنج تھا۔امریکی صدر ریاست کا سربراہ بھی ہوتا ہے اور کابینہ کا لیڈر بھی۔ کابینہ کے لیڈر کے طور پر اوباما قانون سازی کے حوالے سے کامیابی حاصل کرنے کا بجا طور پر دعویٰ کرسکتے ہیں۔ نیز اقتصادی ترقی کا سہرا بھی اپنے سر باندھ سکتے ہیں لیکن امریکی عوام کی اکثریت انھیں عظیم سربراہ مملکت کے طور پر نہیں دیکھتی۔ جہاں تک کہ ہلیری کلنٹن کا تعلق ہے تو وہ بھی اپنے پیشرو کی پالیسیوں پر کاربند تھیں۔
ادھر ٹرمپ کے بارے میں عمومی خیال یہ ہے کہ وہ بہت محب وطن صدر ہیں جنھیں ایک وقت میں سربراہ مملکت کے طور پر شناخت حاصل ہوجائے گی گو ان کا غرور و تکبر بہت نمایاں ہے اور وہ اپنی انا کے اسیر ہیں۔ وفاقی حکومت کے خلاف لوگوں کا غیض و غضب اسقدر فراواں تھا کہ اس کے ردعمل کے طور پر قوم کی اکثریت نے اپنا ووٹ ٹرمپ کے پلڑے میں ڈال دیا ۔ ٹرمپ کو بھاری حمایت اس بنا پر بھی ملی کیونکہ وہ سیاست کے میدان میں باہر سے آئے تھے اور ابتدائی ووٹنگ سے بھی یہ اندازہ ہوگیا کہ قوم ڈیموکریٹس سے عدم اطمینان کا شکار ہے جب کہ ٹرمپ آزادانہ تجارت اور چینی کرنسی کی بالادستی کے خلاف تھے اور وہ تمام ملازمتوں کو امریکا واپس لانا چاہتے ہیں جو امریکی صنعتکاروں اور تاجروں نے اپنے منافع میں اضافہ کے لیے اپنے پیداواری یونٹ بیرون ملک منتقل کر دیے ہیں اور وہاں بہت کم معاوضے پر مقامی افراد کوملازم رکھا جاتا ہے۔
ٹرمپ نے ان تمام اداروں کو واپس امریکا منتقل کرکے امریکیوں کو ملازمین رکھنے کا حکم دے دیا ہے۔ ووٹروں کا خیال ہے کہ بزنس مین ہونے کی وجہ سے ٹرمپ اقتصادیات کو زیادہ بہتر سمجھتا ہے۔ ٹرمپ کی جیت میں ایک نمایاں کردار اس بات کا بھی تھا کہ ارب پتی ٹرمپ نے انتخابی اخراجات کے لیے چندے وصول کرنے کے بجائے اپنی جیب سے اخراجات کیے گویا اس مقصد کے لیے ٹرمپ نے دوسروں کا منت کش احسان ہونے سے انکار کردیا۔ ٹرمپ نے افغانستان سے تمام امریکی فوجیوں کی واپسی کا عندید دیدیا ہے جس پر لوگ کہتے ہیں کہ یوں تو افغانستان مکمل طور پر داعش کے رحم و کرم پر آجائے گا۔
(ترجمہ مظہر منہاس)