اور ٹرمپ جیت گئے

امریکا کا اپنا انتخابی نظام اور ڈھانچہ ہے


Muqtida Mansoor November 14, 2016
[email protected]

کئی مہینوں کی اعصاب شکن انتخابی مہم اور امریکی میڈیا کی ڈیموکریٹ امیدوار ہلیری کلنٹن کے لیے معنی خیز حمایت کے باوجود منہ پھٹ اور نسل پرست ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ جان ٹرمپ الیکٹورل کالج ووٹوں کی اکثریت کے باعث امریکا کے صدر منتخب ہوگئے۔ انھیں 279 جب کہ ہلیری کو 228 الیکٹورل ووٹ پڑے۔ حالانکہ مقبول عوامی ووٹ انھیں ہلیری کے مقابلے میں تقریباً 2 لاکھ کم پڑے۔ یہی کچھ معاملہ 2000ء میں بھی سامنے آیا تھا، جب الگور مقبول عوامی ووٹ زیادہ لینے کے باوجود الیکٹورل ووٹوں کی وجہ سے جارج ڈبلیو بش جونیئر سے شکست کھا گئے تھے۔

امریکا کا اپنا انتخابی نظام اور ڈھانچہ ہے، جو گزشتہ سوا دو سو برس سے بغیر کسی تعطل جاری ہے۔ ان کے آئین کا مسودہ 13 ریاستوں کے نمایندگان نے 17 ستمبر 1787 کو دستور ساز اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا، جسے طویل بحث وتمحیص کے بعد 21 جون 1788 کو منظور کیا گیا۔ یہ 1789 سے نافذالعمل ہے۔ اس آئین کی 7 ابتدائی یا کلیدی شقیں ہیں، جن میں وفاقی طرز حکمرانی، ریاستوں میں حکمرانی اور وفاقی حکومت کے ساتھ ریاستوں کے تعلق کے بارے میں اظہار کیا گیا ہے۔ انتخابی طریقہ کار کے مطابق ہر لیپ سال (جو چار سے تقسیم ہوجائے) کے ابتدائی مہینوں (جنوری، فروری) میں صدارتی امیدوار منظرعام پر آتے ہیں، جو اگلے دو ماہ اپنے جماعت کے اندر اپنے حق میں مہم چلاکر نامزدگی حاصل کرتے ہیں۔

جون سے اگست کے دوران عوامی رابطہ مہم شروع کرتے ہیں، اپنا منشور اور پروگرام عوام کے سامنے لاتے ہیں۔ ستمبر سے مباحثوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، جو اکتوبر تک جاری رہتا ہے۔ نومبر کے پہلے منگل کو ووٹنگ ہوتی ہے۔ منتخب صدر ڈھائی ماہ بعد اگلے برس جنوری کے تیسرے ہفتے میں اپنے عہدے کا حلف اٹھاتا ہے، اپنے وزرا کی کانگریس سے توثیق کے بعد کام شروع کردیتا ہے۔

امریکا میں صدارت ایک کلیدی حیثیت کا حامل ذمے دار عہدہ ہے۔ مگر وفاقی جمہوریہ ہونے کی وجہ سے فیصلہ سازی کانگریس اور سینیٹ کرتے ہیں، جو اہم امور پر اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ (خارجہ امور) اور پینٹاگون (قومی سلامتی کے امور) پر ان کی رائے اور مشاورت کے بعد فیصلہ سازی کرتے ہیں۔ صدر پارٹی کی فکری مجلس (تھنک ٹینک) کے مشوروں اور فیصلوں کی روشنی میں فیصلہ سازی کرتا ہے۔ گو صدر کو کانگریس کے بعض فیصلوں کو ویٹو کرنے کا اختیار حاصل ہوتا ہے، مگر یہ بھی اندھادھند اور من مانا نہیں ہوتا۔ اس کے لیے بھی چیک اینڈ بیلس کا نظام موجود ہے۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ اور دیگر وفاقی عدالتیں نظم حکمرانی پر کڑی نظر رکھتی ہیں۔

وہاں مروجہ انتخابی نظام اور ٹرمپ کے مزاج پر تنقید اور بحث میں وقت ضایع کرنے کے بجائے ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان پر اس نئے الیکشن کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ ڈیموکریٹ اور ری پبلکن پارٹیوں کے پاکستان کے حوالے سے کیا رجحانات اور تصورات رہے ہیں؟ ماضی کے تجربات کیا بتاتے ہیں؟ اور سب سے بڑھ کر موجودہ عالمی تناظر میں مستقبل میں پاک امریکا تعلقات کیا سمت اختیار کرتے نظر آرہے ہیں؟

ان صفحات پر ہم ایک سے زائد بار اس بات کا اعادہ کرچکے ہیں کہ پاک امریکا تعلقات امریکا کی ترجیح نہیں تھے۔ بلکہ یہ پاکستانی منصوبہ سازوں کی خواہش تھی کہ وہ امریکی لابی کا حصہ بنیں۔ 1948 میں جب سرد جنگ کا آغاز ہوا، تو امریکا نے بھارت کو اپنا حلیف بنانے کی کوشش کی۔ مگر پنڈت جواہر لعل نہرو کے سیاسی رجحانات اور سوویت یونین کی طرف جھکاؤ کو محسوس کرتے ہوئے، امریکی منصوبہ ساز پاکستان کی جانب متوجہ ہوئے۔ کیونکہ ان کے سامنے سب سے اولین ترجیح اور ہدف سوویت یونین کی گرم پانیوں تک رسائی کو روکنا تھا۔

بھارت کی جانب سے سرد رویے کے بعد واحد آپشن یہی بچتا تھا کہ پاکستان کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا جائے۔ یوں پاکستان کی خواہش اور امریکی منصوبہ سازی کی مجبوری نے پاک امریکا تعلقات کی بنیاد ڈالی۔ لیکن اس پورے عرصہ میں امریکا کسی بھی سطح پر بھارت کی ناراضی مول لینے پر آمادہ نہیں تھا۔

اگر 70 برس پر محیط پاک امریکا تعلقات پر اجمالی نظر ڈالیں تو ہمیں گرم جوشی اور سرد مہری کے کئی ادوار نظرآئیں گے۔ گرمجوشی کا پہلا دور 1953 میں شروع ہوا، جو 1962 تک جاری رہا۔ یہ دور ری پبلک صدر آئزن ہاور کے دور صدارت کے ایک برس بعد تک محیط تھا۔ اس دوران پاکستان سیٹو اور سینٹو کا رکن بنا، ایوبی آمریت ملک پر مسلط ہوئی۔ پاکستان کو PL480 کے تحت بڑے پیمانے پر سماجی سیکٹر کے لیے امداد بھی ملی۔ 1962 میں دو اہم واقعات رونما ہوئے۔ پہلا واقعہ میزائل ٹیکنالوجی میں امریکا کی سوویت یونین پر برتری تھی۔

دوسرا واقعہ چین بھارت جنگ تھی۔ ان دونوں واقعات نے پاک امریکا تعلقات پر اثرات مرتب کیے اور سردمہری کا پہلا دور شروع ہوا۔ اتفاق سے یہ دور ڈیموکریٹک پارٹی دور تھا۔ یہ دور ایوبی آمریت کے خاتمے تک جاری رہا۔ 1968 میں ری پبلکن رچرڈ نکسن کامیاب ہوگئے۔ مگر گرمجوشی کا وہ انداز شروع نہیں ہوسکا جو آئزن ہاور کے دور میں تھا۔ حالانکہ پاکستان نے سیکریٹری آف اسٹیٹ ہنری کسنجر کے چین کے خفیہ دورے کا بندوبست کیا۔ مگر 1971 کی جنگ میں امریکی رویہ سردمہری ہی کا شکار رہا۔

اس دوران پاکستان دولخت اور باقی ماندہ حصے پر مسٹر بھٹو اقتدار میں آگئے، مگر سردمہری جاری رہی۔ اس دوران بھٹو حکومت کا تختہ الٹا گیا اور جنرل ضیا کی آمریت قائم ہوئی۔ دسمبر 1979 میں سوویت فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں اور 1981 میں ری پبلکن رونالڈ ریگن وہائٹ ہاؤس میں داخل ہوئے تو گرمجوشی کا ایک نیا دور شروع ہوا، جو ان کے دور اقتدار تک جاری رہا۔ لیکن ان کے جانشین جارج بش سینئر کے دور سے سرد مہری کا اگلا دور شروع ہوا، جو پرویز مشرف کے اقتدار میں آنے کے ابتدائی برسوں تک جاری رہا۔ ڈیموکریٹ کلنٹن کا 8 سالہ دور کے خاتمے اور ری پبلکن جارج بش جونیئر کی آمد کے فوراً بعد 9/11 ہوگیا، جس کے نتیجے میں گرمجوشی کا تیسرا دور شروع ہوا۔ یہ دور پرویز مشرف کی حکمرانی کے خاتمے کے ساتھ ہی ختم ہوا۔

یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس وقت امریکا کے اہداف کیا ہیں اور اس کی ترجیحات کی کیا سمت نظر آرہی ہے؟ ہمارے خیال میں جارج بش سینئر نے 1990 میں جو نیو ورلڈ آرڈر دیا تھا، جس پر گزشتہ دو دہائیوں کے دوران کبھی تیز رفتاری اور کبھی سست روی کے ساتھ کام ہوا، غالباً اس کام کو ٹرمپ کے ذریعے حتمی شکل دلانے کی کوشش کی جائے گی۔ مشرق وسطیٰ کے معاملات کو منطقی شکل دینے اور اس کی تشکیل نو (Restructuring) کو بھی منطقی انجام تک پہنچانے پر توجہ دی جائے گی۔ دنیا بھر کے معاملات کے مقابلے میں ملک کے اندرونی مسائل کو ترجیح دینے کی کوشش کی جائے گی۔ لیکن سب سے اہم بات جو نظر آرہی ہے، وہ یہ کہ ٹرمپ کے دور میں امریکا کے روسی فیڈریشن کے ساتھ تعلقات زیادہ خوشگوار ہوجانے کے روشن امکانات ہیں۔

کہنے کا مطلب یہ کہ امریکا بھارت اور روسی فیڈریشن کی مدد سے چین کے تجارتی پھیلاؤ کو روکنے کی بھرپور کوشش کرے گا۔ اس سلسلے میں پاکستان پر بھی بعض دباؤ آئیں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان اس حوالے سے کیا حکمت عملی بناتا ہے۔ دوسرے وسط ایشیائی ممالک کے 6.3 ٹریلین ٹن آئل اور گیس کے ذخائر پر اپنا کنٹرول قائم کرنے کے لیے جارحانہ اقدامات بھی کرسکتا ہے۔ افغان قضیہ فی الحال حل ہوتا نظر نہیں آرہا۔ البتہ شام اور عراق میں کسی حد تک پیش رفت کا امکان نظر آرہا ہے۔

اس لیے ہمارے منصوبہ سازوں بالخصوص وزارت خارجہ کو امریکا کی نئی حکومت کی ترجیحات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی تزویراتی پالیسیاں مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ مختلف معاملات اور علاقائی صورتحال کے بارے میں اپنے موقف کو کس انداز میں پیش کرنا ہے، اس بارے میں بھی واضح حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔

ہمارے خیال میں اب وقت آگیا ہے کہ خارجہ پالیسی پارلیمان میں زیر بحث لائی جائے اور اس کے خدوخال کو عوامی خواہشات اور توقعات کے مطابق درست کیا جائے۔ اس کے علاوہ فعال اور متحرک خارجہ پالیسی تشکیل دینے اور عالمی سطح پر اپنی حیثیت کو تسلیم کروانے کا کوئی اور راستہ نظر نہیں آرہا۔ لہٰذا نئے امریکی صدر پر ملاحیاں بھیجنے اور امریکیوں کو کوسنے کے بجائے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کی جائے اور انھیں دنیا کی توقعات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی جائے، تو کوئی سبب نہیں کہ بہتر نتائج نہ آسکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔