دولت پر جھپٹنا
پیسے کی ہر دور میں اہمیت رہی ہے لیکن آج کل تو کچھ زیادہ ہی ہوگئی ہے
پیسے کی ہر دور میں اہمیت رہی ہے لیکن آج کل تو کچھ زیادہ ہی ہوگئی ہے۔ دولت دو راستوں سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ جائز اور ناجائز۔ قانونی طریقے سے پیسے کی طرف بڑھنے کو ہم لپکنا کہہ سکتے ہیں تو دولت کے لیے بے ایمانی والا راستہ اختیار کرنے کو ہم جھپٹنا قرار دے سکتے ہیں۔ پہلے لپکنے والوں اور پھر جھپٹنے والوں کی بات ہوگی۔
ڈاکٹر اور انجینئر بننے کا رجحان پاکستان کے ابتدائی دور کی بات ہے۔ ہر طالب علم ان دو شعبوں میں جانے کی بات کرتا تھا، ہر بچے کا واسطہ سب سے پہلے ڈاکٹر اور استاد سے رہتا ہے۔ کم عمر بچوں کو نہیں پتا ہوتا کہ کس شعبے میں کتنا پیسہ ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ بڑے ہی بچوں کو بتاتے ہوںگے کہ تمہیں آگے چل کر ڈاکٹر یا انجینئر بننا ہے۔ عامر خان کی فلم ''تھری ایڈیٹس'' میں بھی ایک بزرگ نے اپنے خاندان کے لیے دو شعبے طے کردیے تھے ۔ ہر لڑکی ڈاکٹر بنے گی اور ہر لڑکا انجینئر۔ ایک وہ زمانہ تھا جب طب کے شعبے کے افراد کی بڑی قدر ہوتی تھی۔
اسی لیے ڈاکٹرکو مسیحا اور نرس کو سسٹر کے نام دیے گئے۔ جگہ جگہ اسپتال نہ ہونے اور گلی گلی ڈسپنسریاں نہ ہونے کے سبب لوگ جاننے والے ڈاکٹروں کی طرف رجوع کرتے تھے، مریض کے رشتے دار ڈاکٹر صاحب کا بریف کیس تھام لیتے۔ اس دور میں ڈاکٹروں کی آمدنی بھی زیادہ تھی۔ گاڑی یا تو صنعت کاروں اور بڑے تاجروں کے پاس ہوتی یا ڈاکٹروں کے پاس۔ اسی طرح انجینئرز کا شمار بھی اس دور کے خوشحال طبقات میں ہوتا۔ صنعتی ترقی کا ایوبی دور تھا جب انجینئرنگ کالجز کے آخری سال کے طالب علموں کو ملازمت کا پروانہ مل جایا کرتا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ معاشرہ ان دو شعبوں کی طرف لپکتا تھا۔ یہ محنت کرکے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے دولت کماتے تھے، اس لیے ہم نے لپکنے کی بات کی ہے۔ ناجائز ذرایع سے دولت کی طرف نظریں گاڑنے کو جھپٹنا کہہ سکتے ہیں۔ اسلام بھی جائز ذرایع سے حاصل کی گئی دولت کو برکت کہتا ہے۔ کرپشن اور دو نمبری والی دولت کو کمائی تو کہہ سکتے ہیں لیکن برکت نہیں کہا جاسکتا، چاہے کتنی ہی فراوانی کیوں نہ دکھائی دے رہی ہو۔لپکنے اور جھپٹنے جیسے غیر ناموس الفاظ سن کر اگر آپ بور نہیں ہورہے تو بات کو مزید آگے بڑھاتے ہیں۔
بھٹو دور میں صنعتی اور تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لے لیا گیا تھا۔ تب ریاست کے پاس اتنا پیسہ نہ تھا کہ وہ بڑھتی آبادی کے تناسب سے اسکول و کالج بناسکتی ہے۔ اس خلا کو سرمایہ داروں نے پر کیا۔ ضیا دور کے ابتدائی چھ سات برسوں میں اسکول کھولنے والوں کے وارے نیارے ہوگئے۔ اکثر کے درجنوں اور کچھ کے سیکڑوں اسکول تعمیر ہوگئے، ان کی دیکھا دیکھی بعد میں آنے والوں نے دکان یا کارخانے لگانے کے بجائے اسکولوں میں سرمایہ کاری شروع کردی۔ علم بڑی دولت ہے والے محاورے کو انھوں نے ہی سمجھا۔یوں ایک بڑا طبقہ خوشحالی کی حد کو چھونے لگا۔ ایوب دور کے بائیس خاندان بعد میں بائیس سو اور اب بائیس ہزار ہوچکے ہیں۔ اب انھیں نہ تو سرکاری اداروں میں اپنے بچوں کو پڑھانے کی حاجت رہی اور نہ اپنے علاج کے لیے سرکاری اسپتال جانے کی ضرورت۔ یوں تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے اسپتال قائم ہوگئے۔
ان کی دھڑادھڑ بنتی بلڈنگوں کو دیکھ کر دیگر سرمایہ داروں کو بھی صحت کے شعبے کی جانب لپکے۔ ایوب دور تک جس طرح ڈاکٹر اور انجینئر بننے کا رجحان تھا اسی طرح بھٹو اور ضیا دور میں چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بننے کی طرف نوجوان لپکنے لگے۔ تھوڑا سا فرق یہ ہے کہ پہلے ڈاکٹر و انجینئر بننے کی بات بچپن سے کی جاتی تھی، تو سی اے کرنے کی بات جوانی میں ہونے لگی۔ اسکول اور کالج کے سنگم پر طالب علموں کو محسوس ہوا کہ خوشحالی تو بینکاری اور اکاؤنٹنٹ کے شعبوں میں ہے، اب ہر طالب علم پیسے کی طرف لپکنے کے لیے اکاؤنٹنگ کے شعبے میں جانے کو بے چین ہوگیا۔ صنعتی ترقی کے لیے لازمی تھا کہ کارخانوں کے حسابات کو جانچنے کے لیے کچھ ماہرین ہوں۔ جب وہ بیلنس شیٹ کو منظور کریں تو سرکار کو اطمینان ہو چالاک سرمایہ داروں نے چارٹرڈ اکاؤنٹس کے اس اختیار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انھیں ملازمت دے دی۔
اس آواز کو سن کر نوجوان پے در پے اس شعبے کی طرف لپک رہے ہیں۔ آج اگر حکومت حسابات کی تصدیق کے لیے کسی اور ڈگری یافتہ لوگوں کو یہ اختیار دے دے تو طالب علم دوسری جانب لپکیںگے کہ پیسہ وہاں ہوگا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے آج کل کے نوجوان کرکٹ کو اس لیے بھی پسند کرتے ہیں کہ اس میں بہت پیسہ آگیا ہے، ہاکی اس لیے زیادہ نہیں کھیلی جاتی کہ اس میں پیسہ نہیں ہے۔ آج حکومت اگر اسکولوں اور مدرسوں کے اساتذہ کی ماہانہ تنخواہ لاکھوں میں کردے تو ملک کے ذہین لوگ اس جانب لپکیںگے، کسٹم کے نائب قاصد کے رشتے کو ڈاکٹر و انجینئر پر ترجیح دینے والا ففٹی ففٹی کا خاکہ لپکنے اور جھپٹنے کی صحیح عکاسی کرتا ہے۔
نئی صدی میں کچھ نیا ہوا، ڈاکٹر، انجینئر، چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کے ساتھ ساتھ ایک نیا شعبہ سامنے آیا جس میں بڑے پیسے ہیں، اگر ٹی وی چینلز کی بات کی جائے تو آپ کے ذہن میں کسی اینکر پرسن کا خیال آئے گا۔ یہ سچ تو ہے لیکن ادھورا سچ۔ یہ سچ تب مکمل ہوگا جب ہم کسی اور جانب بھی نظر دوڑائیں۔ چینلز پر مقبول ہونے والے کھانا پکانے کے پروگرامز والے باورچی کہنے پر ناراض ہوں اس لیے ہم کہتے ہیں کہ نیا ابھر کر آنے والا پیشہ شیف کا ہے۔ بڑے بڑوں سے زیادہ کمائی کرنے والے یہ خانساماں اب نوجوانوں کو اپنی جانب راغب کررہے ہیں۔ بات ہے آمدنی کی اور ذہنوں میں ہے کمائی۔ سنتے ہیں کہ کچرے کی ری سائیکلنگ میں بڑی آمدنی ہے۔ خدا نہ کرے وہ وقت آئے جب اسکول اور اسپتال والے اپنی بلڈنگوں کو کچرا گھر بنالیں۔
اب تیسرے گروہ کی بات، جائز طریقے سے پیسے کی طرف آنے کو معاشرے نے لپکنا کہا تو ناجائز ذرایع سے اس طرف جانے کو جھپٹنا قرار دیا۔ کچھ لوگ اس لپکنے اور جھپٹنے سے آزاد ہوتے ہیں۔ وہ منڈی کے نہیں بلکہ میدان کے شہسوار ہوتے ہیں۔ شاعر، صحافی، ہاکی کے کھلاڑی، فوجی اور استاد کے علاوہ درجنوں شعبے ہیں جہاں دولت نہیں پھر بھی کروڑوں نوجوان ان پیشوں کو اختیار کرنے کی بات کرتے ہیں۔ وہ اقبال کی بات مان کر رزق کی خاطر پرواز میں کوتاہی کو تیار نہیں ہوتے آگے چل کر یہ بے چارے اپنے بیوی بچوں سے قربانی کی توقع رکھتے ہیں، کچھ کامیاب ہوتے ہیں تو کچھ ناکام۔
کالم اب ایسے مقام پر آگیا ہے کہ معاشرے کے تینوں طبقات کی بات کھل کر بیان کردی جائے۔ دولت کے حصول سے بے نیاز طالب علم شادی کے بعد ہر جانب کنواں کھودتا ہے کہ پانی ملے۔ لپکنے اور جھپٹنے والے نلکے پر قبضے کی ذہنیت رکھتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے محنت سے خوشحالی والے شعبوں میں جانے والے اچھے لوگ ہوتے ہیں ان کی تمام تر اچھائیوں کے باوجود انھیں مادہ پرست کہا جاسکتا ہے۔ سوچیے کہ جب معاشرہ ڈاکٹر، انجینئر، چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ، شیف اور اسکول و اسپتال کھول کر اگر دولت پر لپکنے والوں پر ہلکی سی ناپسندیدگی کی نگاہ ڈال سکتا ہے تو پھر کرپشن اور دو نمبر سے دولت پر جھپٹنے والوں کو کس گندی نظروں سے دیکھتا ہوگا۔ ان کی نمود و نمائش پر کس قدر نفرت سے نگاہ ڈالتا ہوگا۔
ان کے جھوٹے پروٹوکول پر انھیں کتنا برا بھلا کہتا ہوگا۔ ہمارا سماج ان رشوت خوروں اور کرپٹ لوگوں کو اس چیل کی مانند قرار دیتا ہے جو گوشت پر جھپٹتی ہے، لوگوں کے خون کو نچوڑ کر اپنے چہرے پر سرخی و سفیدی سجانے والوں کے عمل کو کالم نگار بھی قرار دیتا ہے ان ظالموں کا بے شرمی سے ملکی دولت پر جھپٹنا۔
ڈاکٹر اور انجینئر بننے کا رجحان پاکستان کے ابتدائی دور کی بات ہے۔ ہر طالب علم ان دو شعبوں میں جانے کی بات کرتا تھا، ہر بچے کا واسطہ سب سے پہلے ڈاکٹر اور استاد سے رہتا ہے۔ کم عمر بچوں کو نہیں پتا ہوتا کہ کس شعبے میں کتنا پیسہ ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ بڑے ہی بچوں کو بتاتے ہوںگے کہ تمہیں آگے چل کر ڈاکٹر یا انجینئر بننا ہے۔ عامر خان کی فلم ''تھری ایڈیٹس'' میں بھی ایک بزرگ نے اپنے خاندان کے لیے دو شعبے طے کردیے تھے ۔ ہر لڑکی ڈاکٹر بنے گی اور ہر لڑکا انجینئر۔ ایک وہ زمانہ تھا جب طب کے شعبے کے افراد کی بڑی قدر ہوتی تھی۔
اسی لیے ڈاکٹرکو مسیحا اور نرس کو سسٹر کے نام دیے گئے۔ جگہ جگہ اسپتال نہ ہونے اور گلی گلی ڈسپنسریاں نہ ہونے کے سبب لوگ جاننے والے ڈاکٹروں کی طرف رجوع کرتے تھے، مریض کے رشتے دار ڈاکٹر صاحب کا بریف کیس تھام لیتے۔ اس دور میں ڈاکٹروں کی آمدنی بھی زیادہ تھی۔ گاڑی یا تو صنعت کاروں اور بڑے تاجروں کے پاس ہوتی یا ڈاکٹروں کے پاس۔ اسی طرح انجینئرز کا شمار بھی اس دور کے خوشحال طبقات میں ہوتا۔ صنعتی ترقی کا ایوبی دور تھا جب انجینئرنگ کالجز کے آخری سال کے طالب علموں کو ملازمت کا پروانہ مل جایا کرتا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ معاشرہ ان دو شعبوں کی طرف لپکتا تھا۔ یہ محنت کرکے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے دولت کماتے تھے، اس لیے ہم نے لپکنے کی بات کی ہے۔ ناجائز ذرایع سے دولت کی طرف نظریں گاڑنے کو جھپٹنا کہہ سکتے ہیں۔ اسلام بھی جائز ذرایع سے حاصل کی گئی دولت کو برکت کہتا ہے۔ کرپشن اور دو نمبری والی دولت کو کمائی تو کہہ سکتے ہیں لیکن برکت نہیں کہا جاسکتا، چاہے کتنی ہی فراوانی کیوں نہ دکھائی دے رہی ہو۔لپکنے اور جھپٹنے جیسے غیر ناموس الفاظ سن کر اگر آپ بور نہیں ہورہے تو بات کو مزید آگے بڑھاتے ہیں۔
بھٹو دور میں صنعتی اور تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لے لیا گیا تھا۔ تب ریاست کے پاس اتنا پیسہ نہ تھا کہ وہ بڑھتی آبادی کے تناسب سے اسکول و کالج بناسکتی ہے۔ اس خلا کو سرمایہ داروں نے پر کیا۔ ضیا دور کے ابتدائی چھ سات برسوں میں اسکول کھولنے والوں کے وارے نیارے ہوگئے۔ اکثر کے درجنوں اور کچھ کے سیکڑوں اسکول تعمیر ہوگئے، ان کی دیکھا دیکھی بعد میں آنے والوں نے دکان یا کارخانے لگانے کے بجائے اسکولوں میں سرمایہ کاری شروع کردی۔ علم بڑی دولت ہے والے محاورے کو انھوں نے ہی سمجھا۔یوں ایک بڑا طبقہ خوشحالی کی حد کو چھونے لگا۔ ایوب دور کے بائیس خاندان بعد میں بائیس سو اور اب بائیس ہزار ہوچکے ہیں۔ اب انھیں نہ تو سرکاری اداروں میں اپنے بچوں کو پڑھانے کی حاجت رہی اور نہ اپنے علاج کے لیے سرکاری اسپتال جانے کی ضرورت۔ یوں تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے اسپتال قائم ہوگئے۔
ان کی دھڑادھڑ بنتی بلڈنگوں کو دیکھ کر دیگر سرمایہ داروں کو بھی صحت کے شعبے کی جانب لپکے۔ ایوب دور تک جس طرح ڈاکٹر اور انجینئر بننے کا رجحان تھا اسی طرح بھٹو اور ضیا دور میں چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بننے کی طرف نوجوان لپکنے لگے۔ تھوڑا سا فرق یہ ہے کہ پہلے ڈاکٹر و انجینئر بننے کی بات بچپن سے کی جاتی تھی، تو سی اے کرنے کی بات جوانی میں ہونے لگی۔ اسکول اور کالج کے سنگم پر طالب علموں کو محسوس ہوا کہ خوشحالی تو بینکاری اور اکاؤنٹنٹ کے شعبوں میں ہے، اب ہر طالب علم پیسے کی طرف لپکنے کے لیے اکاؤنٹنگ کے شعبے میں جانے کو بے چین ہوگیا۔ صنعتی ترقی کے لیے لازمی تھا کہ کارخانوں کے حسابات کو جانچنے کے لیے کچھ ماہرین ہوں۔ جب وہ بیلنس شیٹ کو منظور کریں تو سرکار کو اطمینان ہو چالاک سرمایہ داروں نے چارٹرڈ اکاؤنٹس کے اس اختیار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انھیں ملازمت دے دی۔
اس آواز کو سن کر نوجوان پے در پے اس شعبے کی طرف لپک رہے ہیں۔ آج اگر حکومت حسابات کی تصدیق کے لیے کسی اور ڈگری یافتہ لوگوں کو یہ اختیار دے دے تو طالب علم دوسری جانب لپکیںگے کہ پیسہ وہاں ہوگا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے آج کل کے نوجوان کرکٹ کو اس لیے بھی پسند کرتے ہیں کہ اس میں بہت پیسہ آگیا ہے، ہاکی اس لیے زیادہ نہیں کھیلی جاتی کہ اس میں پیسہ نہیں ہے۔ آج حکومت اگر اسکولوں اور مدرسوں کے اساتذہ کی ماہانہ تنخواہ لاکھوں میں کردے تو ملک کے ذہین لوگ اس جانب لپکیںگے، کسٹم کے نائب قاصد کے رشتے کو ڈاکٹر و انجینئر پر ترجیح دینے والا ففٹی ففٹی کا خاکہ لپکنے اور جھپٹنے کی صحیح عکاسی کرتا ہے۔
نئی صدی میں کچھ نیا ہوا، ڈاکٹر، انجینئر، چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کے ساتھ ساتھ ایک نیا شعبہ سامنے آیا جس میں بڑے پیسے ہیں، اگر ٹی وی چینلز کی بات کی جائے تو آپ کے ذہن میں کسی اینکر پرسن کا خیال آئے گا۔ یہ سچ تو ہے لیکن ادھورا سچ۔ یہ سچ تب مکمل ہوگا جب ہم کسی اور جانب بھی نظر دوڑائیں۔ چینلز پر مقبول ہونے والے کھانا پکانے کے پروگرامز والے باورچی کہنے پر ناراض ہوں اس لیے ہم کہتے ہیں کہ نیا ابھر کر آنے والا پیشہ شیف کا ہے۔ بڑے بڑوں سے زیادہ کمائی کرنے والے یہ خانساماں اب نوجوانوں کو اپنی جانب راغب کررہے ہیں۔ بات ہے آمدنی کی اور ذہنوں میں ہے کمائی۔ سنتے ہیں کہ کچرے کی ری سائیکلنگ میں بڑی آمدنی ہے۔ خدا نہ کرے وہ وقت آئے جب اسکول اور اسپتال والے اپنی بلڈنگوں کو کچرا گھر بنالیں۔
اب تیسرے گروہ کی بات، جائز طریقے سے پیسے کی طرف آنے کو معاشرے نے لپکنا کہا تو ناجائز ذرایع سے اس طرف جانے کو جھپٹنا قرار دیا۔ کچھ لوگ اس لپکنے اور جھپٹنے سے آزاد ہوتے ہیں۔ وہ منڈی کے نہیں بلکہ میدان کے شہسوار ہوتے ہیں۔ شاعر، صحافی، ہاکی کے کھلاڑی، فوجی اور استاد کے علاوہ درجنوں شعبے ہیں جہاں دولت نہیں پھر بھی کروڑوں نوجوان ان پیشوں کو اختیار کرنے کی بات کرتے ہیں۔ وہ اقبال کی بات مان کر رزق کی خاطر پرواز میں کوتاہی کو تیار نہیں ہوتے آگے چل کر یہ بے چارے اپنے بیوی بچوں سے قربانی کی توقع رکھتے ہیں، کچھ کامیاب ہوتے ہیں تو کچھ ناکام۔
کالم اب ایسے مقام پر آگیا ہے کہ معاشرے کے تینوں طبقات کی بات کھل کر بیان کردی جائے۔ دولت کے حصول سے بے نیاز طالب علم شادی کے بعد ہر جانب کنواں کھودتا ہے کہ پانی ملے۔ لپکنے اور جھپٹنے والے نلکے پر قبضے کی ذہنیت رکھتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے محنت سے خوشحالی والے شعبوں میں جانے والے اچھے لوگ ہوتے ہیں ان کی تمام تر اچھائیوں کے باوجود انھیں مادہ پرست کہا جاسکتا ہے۔ سوچیے کہ جب معاشرہ ڈاکٹر، انجینئر، چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ، شیف اور اسکول و اسپتال کھول کر اگر دولت پر لپکنے والوں پر ہلکی سی ناپسندیدگی کی نگاہ ڈال سکتا ہے تو پھر کرپشن اور دو نمبر سے دولت پر جھپٹنے والوں کو کس گندی نظروں سے دیکھتا ہوگا۔ ان کی نمود و نمائش پر کس قدر نفرت سے نگاہ ڈالتا ہوگا۔
ان کے جھوٹے پروٹوکول پر انھیں کتنا برا بھلا کہتا ہوگا۔ ہمارا سماج ان رشوت خوروں اور کرپٹ لوگوں کو اس چیل کی مانند قرار دیتا ہے جو گوشت پر جھپٹتی ہے، لوگوں کے خون کو نچوڑ کر اپنے چہرے پر سرخی و سفیدی سجانے والوں کے عمل کو کالم نگار بھی قرار دیتا ہے ان ظالموں کا بے شرمی سے ملکی دولت پر جھپٹنا۔