مہنگائی کے دور میں صحت کی سہولت
اشیائے صرف کی بڑھتی ہوئی قیمتیں تو عام انسان کی جان نکالنے کے لیے...
قدیم یونان میں اشیا اور غلاموں کی فروخت کے لیے ایسے جملے و اشعار سنائے جاتے تھے کہ خریدار فوراً اس طرف متوجہ ہونے پر مجبور ہوتا تھا۔ جدید عہد میں بھی صارف کو اشیا فروخت کی طرف متوجہ کرنے کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ایک ایسا ہی طریقہ اشیا کی قیمت کو کم ظاہر کرکے فروخت کرنا بھی ہے۔
جوتے بنانے کے ایک بہت پرانے ادارے نے صارف کو راغب کرنے کے لیے جوتوں کی قیمت میں 99 کا عدد کامیابی سے متعارف کرایا۔ مثلاً کوئی جوتا اگر 700 روپے کا ہے تو اُس کی قیمت اس طرح درج کی جاتی ہے Rs.699۔ قیمت درج کرنے کا یہ انداز صرف ایک جوتے بنانے والے ادارے تک محدود نہیں رہا بلکہ بازار میں اکثر و بیشتر ایسے ہی بینر و پوسٹر دکھائی دیتے ہیں کہ جن میں صارف کو راغب کرنے کے لیے 99 کا عدد نمایاں کرکے ظاہر کیا جاتا ہے۔
اس کی دو اہم وجوہات نمایاں ہیں، پہلی تو یہ کہ خریدار کو اشیا مہنگی محسوس نہ ہوں اور دوسری وجہ یہ کہ عوام کا متوسط اور متوسط سے نچلا طبقہ مہنگائی کے کرب کو اچھی طرح محسوس کرتا ہے اور محض ایک روپے کی بچت بھی اُس کے لیے پُرکشش بن جاتی ہے۔
اشیائے صرف کی بڑھتی ہوئی قیمتیں تو عام انسان کی جان نکالنے کے لیے کافی ہیں، تاہم میڈیکل کا خرچ نکل آئے تو رہی سہی کسر پوری ہوجاتی ہے۔ ایک شخص جس کی تنخواہ ہی 10 یا 15 ہزار روپے ماہانہ ہو، وہ بھلا کیسے علاج معالجے کے اخراجات برداشت کرسکتا ہے۔ حال ہی میں ایک دوست کو میڈیکل کے حوالے سے اخراجات کا شدید دھچکا لگا۔ موصوف کو اپنی بیگم کے علاج کے لیے نہ صرف ڈاکٹر نے 5 ہزار سے زاید کے مختلف ٹیسٹ کرانے کا مشورہ دیا بلکہ ساتھ ہی ڈیلیوری سے قبل 8 بوتلیں بلڈ کا انتظام کرنے کو کہا۔
بلڈ کے لیے دوستوں نے اپنا خون ڈونیٹ کرنے کی پیشکش دی مگر مشکل یہ بھی تھی کہ جن فلاحی اداروں سے وہ بلڈ ایکسچینج کرکے اپنی بیگم کے گروپ کا بلڈ حاصل کرنا چاہتے تھے، اُس کے اخراجات ہی 8 ہزار سے اوپر تھے۔ یعنی فی بوتل گیارہ سو کچھ روپے سروس کی مد میں ادا کرنا تھا۔ گویا ایک ہی ہفتے میں کم از کم 13 ہزار کا خرچہ علاوہ ڈاکٹروں کی فیس اور اسپتال کے اخراجات کے۔ مجھ سمیت کچھ دوستوں نے اس سلسلے میں مدد کے لیے عملی قدم اُٹھایا، مگر اُس وقت شدید خوش گوار حیرت ہوئی کہ جب مذکورہ دوست نے ہمیں یہ اطلاع دی کہ ایک اسپتال سے تمام ٹیسٹ نہ صرف آدھی سے بھی کم قیمت میں ہوگئے بلکہ خون کی تبدیلی کے لیے وہاں کسی قسم کے کوئی چارجز بھی نہیں لیے جارہے ہیں۔راقم کا خیال تھا کہ یہ ادارہ شاید تمام لوگوں کو ایسی رعایت نہیں دے رہا ہوگا اور اس کا معیار کسی سرکاری اسپتال سے زیادہ نہیں ہوگا۔
لیکن جب بذاتِ خود اپنے دوست کے ساتھ جا کر اسپتال کا دورہ کیا تو مزید حیرانگی ہوئی کہ نہ صرف اسپتال میں صفائی و ستھرائی کا انتظام شہر کے کسی بڑے پرائیویٹ اسپتال سے کم نہیں بلکہ وہاں کی لیبارٹریز، بلڈ بینک اور دیگر تمام شعبہ جات میں ہر قسم کے طبی معیار کو اعلیٰ سطح پر برقرار رکھا گیا ہے۔ مزید معلومات کرنے پر علم ہوا کہ یہاں کی مشینریز بھی جدید ماڈلز کی ہیں جو کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ بہتر نتائج دیتی ہیں۔
یہ سب کچھ نظارہ کرنے کے بعد اور وہاں کے اسٹاف کا انتہائی مناسب رویہ دیکھنے کے بعد یہ احساس شدّت سے ہوا کہ میڈیکل سے متعلق اس قسم کی معیاری اور بارعایت سہولیات ملک کے تمام اضلاع اور ہر شہر میں بھی ہونی چاہیے۔ اِس اسپتال کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ تمام اقسام کے ٹیسٹ سے متعلق ریٹ لکھ کر دیوار پر آویزاں کیے گئے تھے جس میں شہر کے معروف پرائیویٹ اسپتالوں میں رائج ٹیسٹ کے چارجز اور یہاں دیے جانے والے رعایتی چارجز درج تھے۔ جس میں 4 ہزار سے زاید چارجز کے ٹیسٹ بھی 1700 سے کم ظاہر ہورہے تھے۔
مکمل الٹرا سائونڈ کے چارجز جو دیگر اسپتالوں اور لیبارٹریز میں ایک ہزار سے زاید کا ہوتا ہے یہاں محض 600 روپے میں کیا جارہا ہے۔ مزید علم ہوا کہ اس اسپتال کے علاوہ بھی شہر میں مختلف جگہوں پر اس فلاحی ادارے کے تحت اسپتال اور دیگر عوامی سہولیات کے شعبے کام کررہے ہیں۔ ناظم آباد نمبر 2 میں واقع یہ اسپتال اور بلڈ بینک الخدمت کے تحت کام کررہا ہے۔اس موضوع پر کالم لکھنے کا واحد مقصد صرف یہی ہے کہ مہنگائی کے ہاتھوں تنگ اور سفید پوشی کا بھرم رکھنے والے افراد اپنے علاج و معالجے سمیت کسی بھی قسم کے ٹیسٹ وغیرہ کے لیے یہاں سے رجوع کریں،
شہر میں جہاں اسپیشلسٹ کی فیس 500 سے کم نہیں یہاں 200 روپے میں یہ سہولت دستیاب ہے۔ مہنگائی کے اس دور میں بیماری کا صرف ایک جھٹکا متوسط طبقے کی جان نکال دیتا ہے، ایسے میں اگر اُسے 50 فیصد اخراجات سے یہ ادارہ نجات دِلانے میں اپنا کردار ادا کررہا ہے تو بڑی بات ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دیگر ادارے جو واقعی خدمتِ خلق کرنا چاہتے ہیں، وہ ان کے تجربات سے مستفیض ہوں اور جو صاحبِ حیثیت عوام کی مدد حقیقی معنوں میں کرنا چاہتے ہوں، وہ یا تو خود ایسے ادارے قائم کریں یا پھر اس ادارے کی اس طرح مدد کریں کہ خدمت کا یہ نیٹ ورک پورے ملک میں جگہ جگہ پھیل جائے۔
ہمارے ہاں ایک افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ مختلف فلاحی ادارے امداد تو عوام کے تمام طبقات سے وصول کرلیتے ہیں مگرجب خستہ حال عوام کو اس کا فائدہ پہنچانا ہوتا ہے تو وہ اس طریقے سے امداد کرتے ہیں کہ اُن کی عزتِ نفس مجروح ہوتی ہے اور وہ امداد صرف نچلے طبقے تک ہی محدود رہتی ہے، ایسا کوئی ادارہ نظر نہیں آتا جو سفید پوش افراد کابھرم رکھنے کے لیے عملی کوشش کررہا ہو۔ مذکورہ بالا دارے کی خاصیت ہی یہ ہے کہ یہاں سفید پوش/ متوسط طبقہ باعزت طریقے سے میڈیکل کی انتہائی رعایت سے فیض یاب ہورہا ہے۔