رشتے جوڑنے کیلئے مزاج اور جذبات میں ہم آہنگی ناگزیر ہے
جلد بازی، بے صبری اور عدم برداشت ہے اور اس میں صرف مرد اور عورت ہی نہیں، والدین اور کچھ رشتے دار بھی ذمہ دار ہوتے ہیں۔
تخلیق کا ئنات کے وقت فطرت نے پہلا رشتہ ازدواج کا قائم کیا۔ اس امر سے اس تعلق کی اہمیت کا بخوبی ا ندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ باقی تمام ناتے اس کے بعدوجود میں میں آئے۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں معمولی سی خلش سے بھی اس کی مضبوط ڈور کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا دیتی ہے۔ شادی جیسے مضبوط بندھن کے بعد معمولی سی تکرار سے بڑھتے بڑھتے گھروں کا بکھرنا خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے ہاں میاں بیوی کے درمیان علیحدگی اور طلاق بہت زیادہ سننے میں آرہی ہے۔
اس ناپسندیدہ فعل کی وجوہات معاملہ فہمی کا فقدان، جلد بازی، بے صبری اور عدم برداشت ہے اور اس میں صرف مرد اور عورت ہی نہیں، والدین اور کچھ رشتے دار بھی ذمہ دار ہوتے ہیں۔ طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح میں مادیت پرستی، ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش نہ کرنا، بد اعتمادی، دیگر لوگوں کی میاں بیوی کے معاملات میں بے جا مداخلت اور دوسروں کی باتوں پر بلا تصدیق یقین کرلینا شامل ہیں۔ پھر شاید زندگی اتنی ''مصروف'' ہوگئی ہے کہ ہمیں ٹھنڈے دل ودماغ سے مسائل کو دیکھنے اور اپنے فیصلے پر نظرثانی کا وقت بھی نہیں ملتا، ہم بس جو طے کر لیتے ہیں، وہی ہمیں بھلا معلوم ہوتا ہے، جو بات سچ مان لیتے ہیں بس آخر تک وہی حق لگتا ہے۔ کبھی دوسری طرف کی بات کو غیر جانب داری سے پرکھنے کی کوشش کریں بھی تو طعنے ملتے ہیں کہ اپنی ماں یا بہن کو غلط کہہ رہے ہو۔ اس پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔
علیحدگی کا سبب بننے والی بنیادی وجوہات میں گھریلو ناچاقی، ایثار کے جذبے میں کمی، زبردستی کی شادی، مشترکہ خاندانی نظام سے بغاوت، دکھاوا، حرص و ہوس، ٹی وی ڈراموں اور فلموں کے اثرات وغیرہ شامل ہیں۔ یہ سب حقیقت سے دوری اور دانستہ یا نادانستہ طور پر تخیلاتی دنیا میں مگن رہنے کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ہمیں یہ ادراک رہنا چاہیے کہ ہم اور ہمارے اردگرد کی سچائیاں کیا ہیں، اور اس میں ہم کیا کر سکتے ہیں اور کیا نہیں۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ والدین کی جانب سے اپنے بچوں کی پسند کے خلاف اور زور زبردستی کی شادی بھی اس رشتے کے ٹوٹنے کا موجب بنتی ہے۔ والدین کے سامنے مجبوراً سر تسلیم خم کرنے کا نتیجہ ہم آہنگی کے فقدان سے شروع اور طلاق پر منتج ہوتا ہے۔ ایک لڑکی کی طلاق سے خاندان کے دیگر افراد بھی بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ خاص طور پر دوسری بہنوں کے رشتوں میں نہ صرف رکاوٹ پیدا ہوتی ہے، بلکہ ہم دردی کی آڑ میں انہیں تذلیل بھی کیا جاتا ہے۔ یہ صورت حال کسی بھی شریف لڑکی کے لیے قیامت سے کم نہیں اور لڑکی کے اس وقت کے دکھ و تکلیف کو کئی نہیں سمجھ سکتا۔۔۔!
یہ درست ہے کہ بطور ماں ہمیں حق ہے کہ جہاں چاہیں اپنے بچوں کی شادی کریں ، لیکن اس میں کچھ اختیار اگر بچوں کو بھی دیا جائے، تو اس سے روایت پسندی یا مشرقیت پر کوئی حرف نہیں آئے گا، بلکہ شاید ہماری روایات وقت سے ہم آہنگ ہو سکیں۔ بہ صورت دیگر 'ہم، تمہارا اچھا برا خوب جانتے ہیں' جیسی سوچ بچوں کی زندگی برباد بھی کر سکتی ہے، کیوں کہ زندگی دو افراد نے مل جل کر بِتانی ہے۔ والدین کا کردار ضرور ہے، لیکن ازدواجی ہم آہنگی اس رشتے کی بنیاد ہے۔
یہ بات فراموش کی جا چکی ہے کہ میاں بیوی کے حقوق و فرائض کیا ہیں اور اس رشتے کو کس طرح نبھایا جاتا ہے اور یہ سب کتنا ضروری ہے؟ اور میاں بیوی کا رشتہ اعتماد اور بھروسے کو کیسے قائم رکھا جا سکتا ہے۔ میاں بیوی کے درمیان ضروری نہیں کہ خدانخواستہ علیحدگی جیسی نوبت آئے، لیکن ایک رشتہ جسے محبت اور خلوص کی انتہائی ضرورت ہوتی ہے، وہ اگر کم بھی رہ جائے، تو زندگی کافی متاثر ہونے لگتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے میاں بیوی بس دنیا دکھاوے کی زندگی میں ساتھ ہیں، لیکن دراصل وہ ساری زندگی ساتھ گزارتے نہیں بلکہ کسی قید اور سزا کی طرح گزارتے ہیں۔ بعض اوقات یہ تلخ احساسات دونوں طرف کے ہوتے ہیں، اور کبھی کسی ایک طرف یہ احساس موجود رہتا ہے۔
وجہ وہی ہوتی ہے، کہ ان پر والدین نے اپنی مرضی مسلط کی ہوتی ہے۔ نتیجتاً دنیا والوں کے لیے تو والدین کے لیے 'کیا خوب جوڑ ہے!' کا تاج سر پر سجائے پھرتے ہیں، جب کہ اندرون خانہ اس جوڑے کی زندگی کسی عذاب سے کم نہیں ہوتی۔ اس مشکل میں پھر بچے بھی شامل ہو جاتے ہیں اور وہ بھی بچپن سے لے کر شعور تک کسی ناکردہ گناہ کی طرح وقت گزارتے ہیں۔ گویا دو افراد کی نہیں بلکہ یہ خرابی پورے ایک خاندان کو بے سکونی میں دھکیل دیتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ تکلیف اور مسائل کا سبب بننے والے رویوں اور طور طریقوں کا کڑا احتساب کیا جائے۔ دو خاندان رشتہ جوڑنے بیٹھیں تو نہایت خلوص سے کام لیں، ساتھ ہی بچوں کے مزاج اور رضا مندی کے خلاف کبھی نہ جائیں۔ ساتھ ہی انہیں اپنی زندگی گزارنے کے لیے ازخود ہم آہنگ ہونے کا وقت دیں، ان کی نجی زندگی میں خودمختاری کو تسلیم کریں ، تاکہ ہم سب کی زندگیاں پرسکون ہو سکیں۔
اس ناپسندیدہ فعل کی وجوہات معاملہ فہمی کا فقدان، جلد بازی، بے صبری اور عدم برداشت ہے اور اس میں صرف مرد اور عورت ہی نہیں، والدین اور کچھ رشتے دار بھی ذمہ دار ہوتے ہیں۔ طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح میں مادیت پرستی، ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش نہ کرنا، بد اعتمادی، دیگر لوگوں کی میاں بیوی کے معاملات میں بے جا مداخلت اور دوسروں کی باتوں پر بلا تصدیق یقین کرلینا شامل ہیں۔ پھر شاید زندگی اتنی ''مصروف'' ہوگئی ہے کہ ہمیں ٹھنڈے دل ودماغ سے مسائل کو دیکھنے اور اپنے فیصلے پر نظرثانی کا وقت بھی نہیں ملتا، ہم بس جو طے کر لیتے ہیں، وہی ہمیں بھلا معلوم ہوتا ہے، جو بات سچ مان لیتے ہیں بس آخر تک وہی حق لگتا ہے۔ کبھی دوسری طرف کی بات کو غیر جانب داری سے پرکھنے کی کوشش کریں بھی تو طعنے ملتے ہیں کہ اپنی ماں یا بہن کو غلط کہہ رہے ہو۔ اس پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔
علیحدگی کا سبب بننے والی بنیادی وجوہات میں گھریلو ناچاقی، ایثار کے جذبے میں کمی، زبردستی کی شادی، مشترکہ خاندانی نظام سے بغاوت، دکھاوا، حرص و ہوس، ٹی وی ڈراموں اور فلموں کے اثرات وغیرہ شامل ہیں۔ یہ سب حقیقت سے دوری اور دانستہ یا نادانستہ طور پر تخیلاتی دنیا میں مگن رہنے کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ہمیں یہ ادراک رہنا چاہیے کہ ہم اور ہمارے اردگرد کی سچائیاں کیا ہیں، اور اس میں ہم کیا کر سکتے ہیں اور کیا نہیں۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ والدین کی جانب سے اپنے بچوں کی پسند کے خلاف اور زور زبردستی کی شادی بھی اس رشتے کے ٹوٹنے کا موجب بنتی ہے۔ والدین کے سامنے مجبوراً سر تسلیم خم کرنے کا نتیجہ ہم آہنگی کے فقدان سے شروع اور طلاق پر منتج ہوتا ہے۔ ایک لڑکی کی طلاق سے خاندان کے دیگر افراد بھی بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ خاص طور پر دوسری بہنوں کے رشتوں میں نہ صرف رکاوٹ پیدا ہوتی ہے، بلکہ ہم دردی کی آڑ میں انہیں تذلیل بھی کیا جاتا ہے۔ یہ صورت حال کسی بھی شریف لڑکی کے لیے قیامت سے کم نہیں اور لڑکی کے اس وقت کے دکھ و تکلیف کو کئی نہیں سمجھ سکتا۔۔۔!
یہ درست ہے کہ بطور ماں ہمیں حق ہے کہ جہاں چاہیں اپنے بچوں کی شادی کریں ، لیکن اس میں کچھ اختیار اگر بچوں کو بھی دیا جائے، تو اس سے روایت پسندی یا مشرقیت پر کوئی حرف نہیں آئے گا، بلکہ شاید ہماری روایات وقت سے ہم آہنگ ہو سکیں۔ بہ صورت دیگر 'ہم، تمہارا اچھا برا خوب جانتے ہیں' جیسی سوچ بچوں کی زندگی برباد بھی کر سکتی ہے، کیوں کہ زندگی دو افراد نے مل جل کر بِتانی ہے۔ والدین کا کردار ضرور ہے، لیکن ازدواجی ہم آہنگی اس رشتے کی بنیاد ہے۔
یہ بات فراموش کی جا چکی ہے کہ میاں بیوی کے حقوق و فرائض کیا ہیں اور اس رشتے کو کس طرح نبھایا جاتا ہے اور یہ سب کتنا ضروری ہے؟ اور میاں بیوی کا رشتہ اعتماد اور بھروسے کو کیسے قائم رکھا جا سکتا ہے۔ میاں بیوی کے درمیان ضروری نہیں کہ خدانخواستہ علیحدگی جیسی نوبت آئے، لیکن ایک رشتہ جسے محبت اور خلوص کی انتہائی ضرورت ہوتی ہے، وہ اگر کم بھی رہ جائے، تو زندگی کافی متاثر ہونے لگتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے میاں بیوی بس دنیا دکھاوے کی زندگی میں ساتھ ہیں، لیکن دراصل وہ ساری زندگی ساتھ گزارتے نہیں بلکہ کسی قید اور سزا کی طرح گزارتے ہیں۔ بعض اوقات یہ تلخ احساسات دونوں طرف کے ہوتے ہیں، اور کبھی کسی ایک طرف یہ احساس موجود رہتا ہے۔
وجہ وہی ہوتی ہے، کہ ان پر والدین نے اپنی مرضی مسلط کی ہوتی ہے۔ نتیجتاً دنیا والوں کے لیے تو والدین کے لیے 'کیا خوب جوڑ ہے!' کا تاج سر پر سجائے پھرتے ہیں، جب کہ اندرون خانہ اس جوڑے کی زندگی کسی عذاب سے کم نہیں ہوتی۔ اس مشکل میں پھر بچے بھی شامل ہو جاتے ہیں اور وہ بھی بچپن سے لے کر شعور تک کسی ناکردہ گناہ کی طرح وقت گزارتے ہیں۔ گویا دو افراد کی نہیں بلکہ یہ خرابی پورے ایک خاندان کو بے سکونی میں دھکیل دیتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ تکلیف اور مسائل کا سبب بننے والے رویوں اور طور طریقوں کا کڑا احتساب کیا جائے۔ دو خاندان رشتہ جوڑنے بیٹھیں تو نہایت خلوص سے کام لیں، ساتھ ہی بچوں کے مزاج اور رضا مندی کے خلاف کبھی نہ جائیں۔ ساتھ ہی انہیں اپنی زندگی گزارنے کے لیے ازخود ہم آہنگ ہونے کا وقت دیں، ان کی نجی زندگی میں خودمختاری کو تسلیم کریں ، تاکہ ہم سب کی زندگیاں پرسکون ہو سکیں۔