چہرے کئی مقصد ایک
نوابشاہ میں پیپلز پارٹی کے مقامی رہنما انتخابی ٹکت کے حصول کے لئے متحرک ہوگئے۔
سندھ ترقی پسند پارٹی کی مقامی قیادت کی جانب سے پچھلے دنوں رہایشی منصوبے ذوالفقار آباد اور بلدیاتی نظام کے خلاف پریس کلب کے سامنے بھوک ہڑتالی کیمپ لگایا گیا تھا، جس میں چھے روز تک علامتی بھوک ہڑتال کی گئی۔
روزانہ درجنوں کارکنان قائم مقام ضلعی صدر خالق داد بروہی کی قیادت میں کیمپ میں پانچ گھنٹے تک بھوک ہڑتال پر بیٹھے، جس کا سلسلہ پارٹی کے چیئر مین ڈاکٹر قادر مگسی نے نواب شاہ پہنچ کر ختم کروایا۔ انھوں نے کیمپ میں موجود قائم مقام ضلعی صدر خالق داد بروہی، عمران کیریو، فرحان نوناری، خیر محمد مگسی، حسین کیریو، مسلم لیگ ن کے سردار شیر محمد رند، غلام مصطفیٰ شاہ، ملک نذر عباسی، حاجی فیض محمد آرائیں، جسقم کے علی رضا خاصخیلی، جیے سندھ محاذ کے زاہد سومرو، مسلم لیگ فنکشنل کے امتیاز وگن اور فقیر جان ڈاہری کو جوس پلا کر ان کی بھوک ہڑتال ختم کرائی۔ اس موقع پر ڈاکٹر قادر مگسی نے کارکنان سے خطاب کیا۔ بعد میں وہ نواب شاہ پریس کلب پہنچے، جہاں انھوں نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے صدر آصف علی زرداری پر سخت تنقید کی۔
نیشنل پیپلز پارٹی، غلام مصطفیٰ جتوئی کے انتقال کے بعد سیاسی منظر نامے سے غائب تھی، لیکن صوبائی حلقہ 21 کے ضمنی انتخابات کے بعد دوبارہ پردے پر نظر آرہی ہے اور سندھ بھر کی طرح نواب شاہ میں بھی متحرک ہو گئی ہے۔ گذشتہ دنوں نیشنل پیپلز پارٹی نواب شاہ کی جانب سے شہر میں جھنڈے لگانے کا آغاز کیا گیا اور اس مہم کے دوران مونی بازار، کچہری روڈ، غریب آباد اور دیگر علاقوں میں عوام نے بہت عرصے کے بعد این پی پی کے پرچم لگے ہوئے دیکھے۔ میر عرفان رند، راجہ عبدالغفار قریشی پر مشتمل این پی پی کی مقامی قیادت عوام کو اپنی موجودگی کا احساس دلا رہی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی نواب شاہ کے ضلعی صدر غلام قادر چانڈیو اور راہ نما ضیا الحسن لنجار سیاسی میدان میں سرگرم ہو گئے ہیں۔ ضیاء الحسن لنجار نے صوبائی حلقہ 21 کے لیے ضمنی انتخابات میں بھرپور مہم چلائی اور اس پر پیپلز پارٹی کے امیدوار سید فراز شاہ کو کام یابی ہوئی ہے۔ ضمنی انتخاب میں پیپلز پارٹی کی کام یابی میں ضیاء الحسن لنجار کی کوششوں اور بھاگ دوڑ کا بہت دخل ہے۔ ضمنی انتخاب کی طرح عام انتخابات میں بھی ضلع شہید بے نظیر آباد میں پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی کام یابی کے لیے حکمت عملی ترتیب دے دی گئی ہے۔ پیپلز پارٹی کے ذرایع کے مطابق عام انتخابات میں ضلع شہید بے نظیر آباد میں پرانے چہرے ہی امیدوار ہوں گے۔
حیدرآباد ڈویژن کے اجلاس میں ضلع شہید بے نظیر آباد کے لیے صوبائی اسمبلی کی پانچ نشستوں اور قومی اسمبلی کی دو نشستوں پر موجود اراکین اسمبلی کو ٹکٹ دینے کی منظوری دی گئی ہے، لیکن کہا جا رہا ہے کہ نگراں حکومت تشکیل دیے جانے کے بعد پی ایس 27 کی نشست کے لیے فیصلہ کرنا پیپلز پارٹی کے لیے پریشانی کا باعث ہو سکتا ہے۔ پی ایس 26 سے اس وقت سید فصیح احمد شاہ رکن اسمبلی ہیں، لیکن ان کے اور پارٹی کے درمیان سخت اختلافات بھی ہیں۔ سید فصیح شاہ ایک مرتبہ پی پی پی سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کر چکے ہیں، اور اپنی رہایش گاہ پر انھوں نے ہنگامی پریس کانفرنس طلب کر لی تھی، لیکن اہم شخصیات نے انھیں رضامند کر لیا تھا۔
اس دوران ضیاالحسن لنجار پارٹی کے دیگر عہدے داروں کے ہم راہ سید فصیح شاہ کے پاس پہنچے اور ایم این اے فریال تالپور سے ٹیلی فون پر ان کی بات چیت بھی کرائی، جس کے بعد سید فصیح شاہ نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا تھا۔ باخبر ذرایع کے مطابق پیپلز پارٹی نے حلقہ پی ایس 26 پر سابق ایم این اے سید شوکت شاہ کے فرزند سید کاظم شاہ کو پارٹی ٹکٹ دینے کا وعدہ کیا تھا۔ اس وقت سید شوکت شاہ مسلم لیگ ن میں شمولیت کا فیصلہ کر چکے تھے، لیکن اپنے بیٹے کی ضد کے سامنے انھوں نے اسے مؤخر کرتے ہوئے اپنے آبائی گاؤں خیر شاہ میں فریال تالپور کے اعزاز میں استقبالیہ دیا، اس دوران انھوں نے اپنی بھرپور طاقت کا مظاہرہ کیا اور پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان بھی کیا۔
پی ایس 26 پر باندھی سے ممتاز جمالی بھی امیدوار ہیں، انھوں نے انتخابی امیدوار بنائے جانے کی ہامی بھرنے پر ق لیگ سے علیحدگی اختیار کر کے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ ممتاز جمالی نے دو ہزار آٹھ کے انتخابات میں ق لیگ کے ٹکٹ پر مذکورہ حلقے سے الیکشن لڑا تھا اور سید فصیح شاہ سے شکست کھائی تھی۔ پی پی پی کے ایم این اے سید غلام مصطفیٰ شاہ عرف میر شاہ کہہ چکے ہیں کہ اگر فصیح شاہ کو ٹکٹ نہیں دیا گیا، تو وہ پارٹی سے علیحدگی اختیار کر لیں گے۔
اس طرح پی ایس 27 پر سردار جام تماچی انڑ بھی امیدوار ہیں، جب کہ ان کے سخت حریف شیر محمد انڑ بھی پیپلز پارٹی میں شامل ہو چکے ہیں اور مذکورہ حلقے پر پارٹی کا ٹکٹ چاہتے ہیں۔ سردار جام تماچی انڑ کا اپنے حلقے میں بڑا اثر و رسوخ ہے اور وہ اپنا ووٹ بینک بھی رکھتے ہیں۔ اس لیے پارٹی نے انھیں ٹکٹ نہیں دیا تو بھی مسئلے سے دوچار ہو گی اور اگر دے دیا تو اسے مخالفین کی طرف سے دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس صورت حال میں پیپلز پارٹی کی حکمت عملی آنے والے دنوں میں واضح ہو گی۔
روزانہ درجنوں کارکنان قائم مقام ضلعی صدر خالق داد بروہی کی قیادت میں کیمپ میں پانچ گھنٹے تک بھوک ہڑتال پر بیٹھے، جس کا سلسلہ پارٹی کے چیئر مین ڈاکٹر قادر مگسی نے نواب شاہ پہنچ کر ختم کروایا۔ انھوں نے کیمپ میں موجود قائم مقام ضلعی صدر خالق داد بروہی، عمران کیریو، فرحان نوناری، خیر محمد مگسی، حسین کیریو، مسلم لیگ ن کے سردار شیر محمد رند، غلام مصطفیٰ شاہ، ملک نذر عباسی، حاجی فیض محمد آرائیں، جسقم کے علی رضا خاصخیلی، جیے سندھ محاذ کے زاہد سومرو، مسلم لیگ فنکشنل کے امتیاز وگن اور فقیر جان ڈاہری کو جوس پلا کر ان کی بھوک ہڑتال ختم کرائی۔ اس موقع پر ڈاکٹر قادر مگسی نے کارکنان سے خطاب کیا۔ بعد میں وہ نواب شاہ پریس کلب پہنچے، جہاں انھوں نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے صدر آصف علی زرداری پر سخت تنقید کی۔
نیشنل پیپلز پارٹی، غلام مصطفیٰ جتوئی کے انتقال کے بعد سیاسی منظر نامے سے غائب تھی، لیکن صوبائی حلقہ 21 کے ضمنی انتخابات کے بعد دوبارہ پردے پر نظر آرہی ہے اور سندھ بھر کی طرح نواب شاہ میں بھی متحرک ہو گئی ہے۔ گذشتہ دنوں نیشنل پیپلز پارٹی نواب شاہ کی جانب سے شہر میں جھنڈے لگانے کا آغاز کیا گیا اور اس مہم کے دوران مونی بازار، کچہری روڈ، غریب آباد اور دیگر علاقوں میں عوام نے بہت عرصے کے بعد این پی پی کے پرچم لگے ہوئے دیکھے۔ میر عرفان رند، راجہ عبدالغفار قریشی پر مشتمل این پی پی کی مقامی قیادت عوام کو اپنی موجودگی کا احساس دلا رہی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی نواب شاہ کے ضلعی صدر غلام قادر چانڈیو اور راہ نما ضیا الحسن لنجار سیاسی میدان میں سرگرم ہو گئے ہیں۔ ضیاء الحسن لنجار نے صوبائی حلقہ 21 کے لیے ضمنی انتخابات میں بھرپور مہم چلائی اور اس پر پیپلز پارٹی کے امیدوار سید فراز شاہ کو کام یابی ہوئی ہے۔ ضمنی انتخاب میں پیپلز پارٹی کی کام یابی میں ضیاء الحسن لنجار کی کوششوں اور بھاگ دوڑ کا بہت دخل ہے۔ ضمنی انتخاب کی طرح عام انتخابات میں بھی ضلع شہید بے نظیر آباد میں پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی کام یابی کے لیے حکمت عملی ترتیب دے دی گئی ہے۔ پیپلز پارٹی کے ذرایع کے مطابق عام انتخابات میں ضلع شہید بے نظیر آباد میں پرانے چہرے ہی امیدوار ہوں گے۔
حیدرآباد ڈویژن کے اجلاس میں ضلع شہید بے نظیر آباد کے لیے صوبائی اسمبلی کی پانچ نشستوں اور قومی اسمبلی کی دو نشستوں پر موجود اراکین اسمبلی کو ٹکٹ دینے کی منظوری دی گئی ہے، لیکن کہا جا رہا ہے کہ نگراں حکومت تشکیل دیے جانے کے بعد پی ایس 27 کی نشست کے لیے فیصلہ کرنا پیپلز پارٹی کے لیے پریشانی کا باعث ہو سکتا ہے۔ پی ایس 26 سے اس وقت سید فصیح احمد شاہ رکن اسمبلی ہیں، لیکن ان کے اور پارٹی کے درمیان سخت اختلافات بھی ہیں۔ سید فصیح شاہ ایک مرتبہ پی پی پی سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کر چکے ہیں، اور اپنی رہایش گاہ پر انھوں نے ہنگامی پریس کانفرنس طلب کر لی تھی، لیکن اہم شخصیات نے انھیں رضامند کر لیا تھا۔
اس دوران ضیاالحسن لنجار پارٹی کے دیگر عہدے داروں کے ہم راہ سید فصیح شاہ کے پاس پہنچے اور ایم این اے فریال تالپور سے ٹیلی فون پر ان کی بات چیت بھی کرائی، جس کے بعد سید فصیح شاہ نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا تھا۔ باخبر ذرایع کے مطابق پیپلز پارٹی نے حلقہ پی ایس 26 پر سابق ایم این اے سید شوکت شاہ کے فرزند سید کاظم شاہ کو پارٹی ٹکٹ دینے کا وعدہ کیا تھا۔ اس وقت سید شوکت شاہ مسلم لیگ ن میں شمولیت کا فیصلہ کر چکے تھے، لیکن اپنے بیٹے کی ضد کے سامنے انھوں نے اسے مؤخر کرتے ہوئے اپنے آبائی گاؤں خیر شاہ میں فریال تالپور کے اعزاز میں استقبالیہ دیا، اس دوران انھوں نے اپنی بھرپور طاقت کا مظاہرہ کیا اور پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان بھی کیا۔
پی ایس 26 پر باندھی سے ممتاز جمالی بھی امیدوار ہیں، انھوں نے انتخابی امیدوار بنائے جانے کی ہامی بھرنے پر ق لیگ سے علیحدگی اختیار کر کے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ ممتاز جمالی نے دو ہزار آٹھ کے انتخابات میں ق لیگ کے ٹکٹ پر مذکورہ حلقے سے الیکشن لڑا تھا اور سید فصیح شاہ سے شکست کھائی تھی۔ پی پی پی کے ایم این اے سید غلام مصطفیٰ شاہ عرف میر شاہ کہہ چکے ہیں کہ اگر فصیح شاہ کو ٹکٹ نہیں دیا گیا، تو وہ پارٹی سے علیحدگی اختیار کر لیں گے۔
اس طرح پی ایس 27 پر سردار جام تماچی انڑ بھی امیدوار ہیں، جب کہ ان کے سخت حریف شیر محمد انڑ بھی پیپلز پارٹی میں شامل ہو چکے ہیں اور مذکورہ حلقے پر پارٹی کا ٹکٹ چاہتے ہیں۔ سردار جام تماچی انڑ کا اپنے حلقے میں بڑا اثر و رسوخ ہے اور وہ اپنا ووٹ بینک بھی رکھتے ہیں۔ اس لیے پارٹی نے انھیں ٹکٹ نہیں دیا تو بھی مسئلے سے دوچار ہو گی اور اگر دے دیا تو اسے مخالفین کی طرف سے دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس صورت حال میں پیپلز پارٹی کی حکمت عملی آنے والے دنوں میں واضح ہو گی۔