سیاسی جماعتیں عوامی مسئلے پر اکٹھی
پیپلز پارٹی چند لوگوں کی جیبیں بھرنے کے لیے ٹندو جام سے صوبائی اسمبلی کی نشست خطرے میں ڈال رہی ہے۔
سیاست میں حریف جماعتیں مقامی سطح کے معاملے پر ہم آواز ہو چکی ہیں اور ایک ہو کر احتجاج کررہی ہیں، جس پر شہری خوش گوار حیرت کا اظہار کر رہے ہیں اور انھیں امید ہے کہ اس کا جلد کوئی حل نکل آئے گا۔
یہ معاملہ حیدرآباد، میرپورخاص روڈ پر ڈیتھا کے مقام پر قائم کیے گئے ٹول گیٹ کا ہے، جس پر مقامی افراد سے ٹیکس وصول کیا جارہا ہے۔ اس پر چند سماجی جماعتوں نے ابتدا میں احتجاج شروع کیا اور ایک ہی تعلقہ میں سفر کرنے پر ٹیکس وصول کرنے کے خلاف علامتی بھوک ہڑتال بھی کی۔ احتجاج کو تین ماہ کا عرصہ گزرنے کے بعد سیاسی جماعتوں کی مقامی قیادت بھی اس میں شامل ہو گئی ہے۔
اس سلسلے میں احتجاج میں متحدہ قومی موومنٹ، سندھ ترقی پسند پارٹی، مسلم لیگ فنکشنل، عوامی تحریک، جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی شہید بھٹو، جیے سندھ قومی محاذ اور دیگر قوم پرست مشترکہ طور پر شریک ہو رہے ہیں۔ ٹول ٹیکس کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں ان جماعتوں کے جھنڈے ایک ساتھ لہراتے نظر آتے ہیں۔ اس احتجاج سے الگ تھلگ اور بے نیاز پاکستان پیپلز پارٹی نظر آرہی ہے، لیکن انفرادی حیثیت میں جیالے اس میں شریک ہو رہے ہیں۔
حیدرآباد، میرپورخاص دو رویہ سڑک کی تعمیر کا کام مکمل ہونے سے پہلے ہی حکومت سندھ کے ورکس اینڈ سروسز ڈپارٹمنٹ نے یہاں سے گزرنے والی گاڑیوں پر ٹول ٹیکس کا اطلاق کر دیا، حد تو یہ ہے کہ موٹر سائیکل سوار سے بھی ٹیکس وصول کیا جارہا ہے۔ حیدرآباد، میرپورخاص دو رویہ سڑک پر سفر کرنے پر موٹر سائیکل سوار پندرہ روپے، رکشا بیس روپے، کار چالیس روپے، ٹریکٹر چالیس روپے، ٹریکٹر ٹرالی ایک سو پچھتر روپے، بس ایک سو چالیس روپے، منی بس، ویگن اور منی ٹرک ایک سو دس روپے ٹول ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے۔ یہ سڑک صرف ساٹھ کلو میٹر طویل ہے، جس پر ٹیکس کی شرح خاصی ہے۔
میرپورخاص سے حیدرآباد آنے والی گاڑیوں کو میرپور خاص ٹول گیٹ پر ٹیکس ادا کرنا ہوگا اور حیدرآباد گیٹ پر اس کی رسید دکھانا ہو گی، جب کہ حیدرآباد سے میرپور خاص جانے والی گاڑیوں کو حیدرآباد (ڈیتھا) ٹول گیٹ پر ٹیکس ادا کرنا ہوگا اور اس کی رسید میرپور خاص ٹول گیٹ پر دکھانا ہو گی۔ یعنی حیدرآباد ضلع کے ہی شہر ٹنڈو جام میں رہنے والوں کو اپنے تعلقہ میں سفر کرنے پر صرف بارہ کلو میٹر فاصلہ طے کرنے پر دونوں مرتبہ یہ ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ ٹنڈوجام کے شہریوں کا کہنا ہے کہ یہاں نہ تو بڑا سرکاری اسپتال ہے اور نہ ہی مقامی عدالت ہے، جب کہ تعلقہ میونسپل ایڈمنسٹریشن کے تمام دفاتر بھی حیدرآباد شہر میں ہیں، اور بعض صورتوں میں حیدرآباد اور ٹنڈوجام کے ایک ہی دن میں متعدد چکر لگ جاتے ہیں، ٹول انتظامیہ ان سے ہر چکر پر ٹیکس وصول کرتی ہے، جو سراسر ناانصافی ہے۔
سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام میں ڈیوٹی انجام دینے کے لیے حیدرآباد سے آنے والے اساتذہ، دیگر ملازمین اور طلباء سے بھی ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے، جب کہ حیدرآباد سے سندھ یونیورسٹی جامشورو، لمس اور مہران یونیورسٹی جانے والے افراد سے حیدرآباد بائی پاس پر قائم ٹول گیٹ پر ٹیکس نہیں لیا جاتا، اس پر بھی سرکاری ملازمین میں گہری تشویش اور غصہ پایا جاتا ہے۔ ٹول ٹیکس کی وصولی پر سندھ زرعی یونیورسٹی کے اساتذہ، افسران، زرعی تحقیقی ادارہ ٹنڈوجام کے افسران دیگر سرکاری اداروں کے ملازمین اور علاقے کی سماجی تنظیموں نے ایک ایکشن کمیٹی بنائی تھی، جس کے تحت مسلسل احتجاجی مظاہرے اور دھرنے جاری ہیں، ابتدا میں سیاسی جماعتیں اس کمیٹی سے دور تھیں، لیکن اس کمیٹی کی عوامی سطح پر پزیرائی نے مقامی سیاسی جماعتوں کی قیادت اور کارکنان کو بھی اس میں شامل ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔ خوش گوار امر یہ ہے کہ ٹیکس وصولی کے خلاف جدوجہد میں ان جماعتوں نے اپنے سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ دیا ہے۔
گذشتہ دنوں اس کمیٹی نے زرعی یونیورسٹی سے پریس کلب تک ایک بڑی احتجاجی ریلی نکالی، جس سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے ٹیکس کی وصولی کو علاقے کے عوام کے ساتھ ناانصافی اور مقامی افراد کو اس سے مستثنیٰ قرار دینے کا مطالبہ کیا۔ متحدہ قومی موومنٹ ٹنڈو جام سیکٹر کے انچارج شیر علی راجپوت نے کہا کہ متحدہ اس عوامی مسئلے کے حل کے لیے ہر سطح پر جدوجہد کرے گی اور وہ ٹنڈوجام کے عوام کے مؤقف سے متفق ہیں، یہ ٹیکس فوری طور پر ختم کیا جائے۔ اس سلسلے میں اعلیٰ قیادت کو تمام حقائق سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔ جماعت اسلامی کے عماد علی بہادر نے کہا کہ یہ ٹول ٹیکس نہیں بلکہ زرداری ٹیکس ہے اور حکم راں عوام کے جسم سے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ لینا چاہتے ہیں جب کہ قوم پرست پارٹیوں کے راہ نماؤں نے اس موقع پر انتہائی سخت مؤقف اختیار کرتے ہوئے اسے علاقے کے عوام کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے مقامی افراد کو اس سے مستثنیٰ قرار نہ دیا تو اس ٹول گیٹ کو اکھاڑ پھینکیں گے۔ پیپلز پارٹی کے راہ نما اور منتخب نمایندے اس اہم مسئلے پر خاموش ہیں، جس سے عوامی حلقوں میں اس کی ساکھ متأثر ہو رہی ہے۔ 'اینٹی ٹول ٹیکس ایکشن کمیٹی کے نمایندے مقامی افراد سے مختصر میٹنگز میں اس مسئلے پر مصلحتاً خاموشی اختیار کرنے والی سیاسی جماعتوں کو الیکشن میں ووٹ نہ دینے کے لیے کہہ رہے ہیں۔ تعلقہ حیدرآباد دیہی میں ٹول ٹیکس کے مسئلے کے باعث عوام اور پی پی پی میں دوریاں پیدا ہونا شروع ہو چکی ہیں اور مسلم لیگ فنکشنل اس کا فائدہ اٹھانے کی مکمل تیاری کر چکی ہے، اس کے کارکنان اور راہ نما اس احتجاج میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ مختلف حلقوں کی جانب سے یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت چند لوگوں کی جیبیں بھرنے کے لیے اپنے صوبائی حلقے 50 کو کیوں خطرے میں ڈال رہی ہے اور اتنے بڑے پیمانے پر احتجاج کو کیوں نظر انداز کیے ہوئے ہے۔ مقامی سماجی راہ نماؤں اور ٹرانسپورٹروں نے اس معاملے پر ہائی کورٹ میں پٹیشن بھی داخل کی ہوئی ہے، جس کا فیصلہ جلد متوقع ہے۔
یہ معاملہ حیدرآباد، میرپورخاص روڈ پر ڈیتھا کے مقام پر قائم کیے گئے ٹول گیٹ کا ہے، جس پر مقامی افراد سے ٹیکس وصول کیا جارہا ہے۔ اس پر چند سماجی جماعتوں نے ابتدا میں احتجاج شروع کیا اور ایک ہی تعلقہ میں سفر کرنے پر ٹیکس وصول کرنے کے خلاف علامتی بھوک ہڑتال بھی کی۔ احتجاج کو تین ماہ کا عرصہ گزرنے کے بعد سیاسی جماعتوں کی مقامی قیادت بھی اس میں شامل ہو گئی ہے۔
اس سلسلے میں احتجاج میں متحدہ قومی موومنٹ، سندھ ترقی پسند پارٹی، مسلم لیگ فنکشنل، عوامی تحریک، جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی شہید بھٹو، جیے سندھ قومی محاذ اور دیگر قوم پرست مشترکہ طور پر شریک ہو رہے ہیں۔ ٹول ٹیکس کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں ان جماعتوں کے جھنڈے ایک ساتھ لہراتے نظر آتے ہیں۔ اس احتجاج سے الگ تھلگ اور بے نیاز پاکستان پیپلز پارٹی نظر آرہی ہے، لیکن انفرادی حیثیت میں جیالے اس میں شریک ہو رہے ہیں۔
حیدرآباد، میرپورخاص دو رویہ سڑک کی تعمیر کا کام مکمل ہونے سے پہلے ہی حکومت سندھ کے ورکس اینڈ سروسز ڈپارٹمنٹ نے یہاں سے گزرنے والی گاڑیوں پر ٹول ٹیکس کا اطلاق کر دیا، حد تو یہ ہے کہ موٹر سائیکل سوار سے بھی ٹیکس وصول کیا جارہا ہے۔ حیدرآباد، میرپورخاص دو رویہ سڑک پر سفر کرنے پر موٹر سائیکل سوار پندرہ روپے، رکشا بیس روپے، کار چالیس روپے، ٹریکٹر چالیس روپے، ٹریکٹر ٹرالی ایک سو پچھتر روپے، بس ایک سو چالیس روپے، منی بس، ویگن اور منی ٹرک ایک سو دس روپے ٹول ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے۔ یہ سڑک صرف ساٹھ کلو میٹر طویل ہے، جس پر ٹیکس کی شرح خاصی ہے۔
میرپورخاص سے حیدرآباد آنے والی گاڑیوں کو میرپور خاص ٹول گیٹ پر ٹیکس ادا کرنا ہوگا اور حیدرآباد گیٹ پر اس کی رسید دکھانا ہو گی، جب کہ حیدرآباد سے میرپور خاص جانے والی گاڑیوں کو حیدرآباد (ڈیتھا) ٹول گیٹ پر ٹیکس ادا کرنا ہوگا اور اس کی رسید میرپور خاص ٹول گیٹ پر دکھانا ہو گی۔ یعنی حیدرآباد ضلع کے ہی شہر ٹنڈو جام میں رہنے والوں کو اپنے تعلقہ میں سفر کرنے پر صرف بارہ کلو میٹر فاصلہ طے کرنے پر دونوں مرتبہ یہ ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ ٹنڈوجام کے شہریوں کا کہنا ہے کہ یہاں نہ تو بڑا سرکاری اسپتال ہے اور نہ ہی مقامی عدالت ہے، جب کہ تعلقہ میونسپل ایڈمنسٹریشن کے تمام دفاتر بھی حیدرآباد شہر میں ہیں، اور بعض صورتوں میں حیدرآباد اور ٹنڈوجام کے ایک ہی دن میں متعدد چکر لگ جاتے ہیں، ٹول انتظامیہ ان سے ہر چکر پر ٹیکس وصول کرتی ہے، جو سراسر ناانصافی ہے۔
سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام میں ڈیوٹی انجام دینے کے لیے حیدرآباد سے آنے والے اساتذہ، دیگر ملازمین اور طلباء سے بھی ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے، جب کہ حیدرآباد سے سندھ یونیورسٹی جامشورو، لمس اور مہران یونیورسٹی جانے والے افراد سے حیدرآباد بائی پاس پر قائم ٹول گیٹ پر ٹیکس نہیں لیا جاتا، اس پر بھی سرکاری ملازمین میں گہری تشویش اور غصہ پایا جاتا ہے۔ ٹول ٹیکس کی وصولی پر سندھ زرعی یونیورسٹی کے اساتذہ، افسران، زرعی تحقیقی ادارہ ٹنڈوجام کے افسران دیگر سرکاری اداروں کے ملازمین اور علاقے کی سماجی تنظیموں نے ایک ایکشن کمیٹی بنائی تھی، جس کے تحت مسلسل احتجاجی مظاہرے اور دھرنے جاری ہیں، ابتدا میں سیاسی جماعتیں اس کمیٹی سے دور تھیں، لیکن اس کمیٹی کی عوامی سطح پر پزیرائی نے مقامی سیاسی جماعتوں کی قیادت اور کارکنان کو بھی اس میں شامل ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔ خوش گوار امر یہ ہے کہ ٹیکس وصولی کے خلاف جدوجہد میں ان جماعتوں نے اپنے سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ دیا ہے۔
گذشتہ دنوں اس کمیٹی نے زرعی یونیورسٹی سے پریس کلب تک ایک بڑی احتجاجی ریلی نکالی، جس سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے ٹیکس کی وصولی کو علاقے کے عوام کے ساتھ ناانصافی اور مقامی افراد کو اس سے مستثنیٰ قرار دینے کا مطالبہ کیا۔ متحدہ قومی موومنٹ ٹنڈو جام سیکٹر کے انچارج شیر علی راجپوت نے کہا کہ متحدہ اس عوامی مسئلے کے حل کے لیے ہر سطح پر جدوجہد کرے گی اور وہ ٹنڈوجام کے عوام کے مؤقف سے متفق ہیں، یہ ٹیکس فوری طور پر ختم کیا جائے۔ اس سلسلے میں اعلیٰ قیادت کو تمام حقائق سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔ جماعت اسلامی کے عماد علی بہادر نے کہا کہ یہ ٹول ٹیکس نہیں بلکہ زرداری ٹیکس ہے اور حکم راں عوام کے جسم سے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ لینا چاہتے ہیں جب کہ قوم پرست پارٹیوں کے راہ نماؤں نے اس موقع پر انتہائی سخت مؤقف اختیار کرتے ہوئے اسے علاقے کے عوام کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے مقامی افراد کو اس سے مستثنیٰ قرار نہ دیا تو اس ٹول گیٹ کو اکھاڑ پھینکیں گے۔ پیپلز پارٹی کے راہ نما اور منتخب نمایندے اس اہم مسئلے پر خاموش ہیں، جس سے عوامی حلقوں میں اس کی ساکھ متأثر ہو رہی ہے۔ 'اینٹی ٹول ٹیکس ایکشن کمیٹی کے نمایندے مقامی افراد سے مختصر میٹنگز میں اس مسئلے پر مصلحتاً خاموشی اختیار کرنے والی سیاسی جماعتوں کو الیکشن میں ووٹ نہ دینے کے لیے کہہ رہے ہیں۔ تعلقہ حیدرآباد دیہی میں ٹول ٹیکس کے مسئلے کے باعث عوام اور پی پی پی میں دوریاں پیدا ہونا شروع ہو چکی ہیں اور مسلم لیگ فنکشنل اس کا فائدہ اٹھانے کی مکمل تیاری کر چکی ہے، اس کے کارکنان اور راہ نما اس احتجاج میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ مختلف حلقوں کی جانب سے یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت چند لوگوں کی جیبیں بھرنے کے لیے اپنے صوبائی حلقے 50 کو کیوں خطرے میں ڈال رہی ہے اور اتنے بڑے پیمانے پر احتجاج کو کیوں نظر انداز کیے ہوئے ہے۔ مقامی سماجی راہ نماؤں اور ٹرانسپورٹروں نے اس معاملے پر ہائی کورٹ میں پٹیشن بھی داخل کی ہوئی ہے، جس کا فیصلہ جلد متوقع ہے۔