سیاسی جماعتوں کی نگران سیٹ اَپ کے لئے مشاورت
حزب اختلاف کی جماعتوں کے قائدین کے درمیان بات چیت کا آغاز عام انتخابات کے تناظر میں ایک اہم پیش رفت ہے
حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے درمیان نگران وزیراعظم کیلئے مجوزہ ناموں پر غیر اعلانیہ مشاورت کا آغاز ہوگیا ہے۔
مسلم لیگ(ن) کی قیادت نے اس مشاورتی عمل کا آغاز کرتے ہوئے نگران وزیراعظم کے نام پر اتفاق رائے پید اکرنے کیلئے سیاسی رابطے تیز ترکردیئے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ مجوزہ نگران وزیراعظم کے ناموں پر اتفاق رائے کس حد تک پیدا ہوگا؟ سیاسی مبصرین اور باخبر حلقے یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ سیاسی جماعتیں ایک متفقہ نگران سیٹ اپ کے قریب تر پہنچ گئی ہیں۔ عام انتخابات کو شفاف، غیر جانبدار اور منصفانہ بنانے میں ایک متفقہ نگران وزیراعظم اور کابینہ کے ارکان اہم کردارادا کرسکتے ہیں اور اس سے انتخابات کی شفافیت کے حوالے سے عوام کا اعتماد بھی بحال ہوسکے گا۔
حزب اختلاف کی جماعتوں کے قائدین کے درمیان اس حوالے سے بات چیت کا آغاز عام انتخابات کے تناظر میں ایک اہم پیش رفت ہے۔ قومی اسمبلی میں قائدحزب اختلاف چوہدری نثارعلی خان نے راقم سے غیررسمی گفتگو کے دوران اس اعتماد کا اظہار کیا ہے کہ جلد اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مشاورتی عمل مکمل کرلیاجائے گا۔ جے یوآئی(ف) کے سربراہ مولانافضل الرحمن اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے بارے میں چوہدری نثارعلی خان واضح تحفظات رکھتے ہیں۔
نگران وزیراعظم کے معاملے پر اپوزیشن جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے کے بعد قائدحزب اختلاف چوہدری نثارعلی خان حتمی نام وزیراعظم راجہ پرویزاشرف کے سامنے رکھیں گے، عام انتخابات کے انعقاد،موجودہ اسمبلیوں کی مدت میں توسیع اور نگران سیٹ اپ کے قیام کے سلسلے میں ملک بھر میں پھیلی قیاس آرائیوں کو یک لخت ختم کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ قائدایوان وزیراعظم راجہ پرویز اشرف دستوری ترامیم کی روشنی میں فوری طور پر قائد حزب اختلاف کو مذاکرات کی دعوت دیں تاکہ تمام ابہام اور قیاس آرائیاں ختم ہوسکیں۔
حکمران جماعت پیپلزپارٹی اور اتحادی جماعتیں بھی نگران سیٹ اپ کے معاملے پر مشاورت کررہی ہیں۔ باور کیاجارہا ہے کہ صدر مملکت آصف علی زرداری جو کہ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین بھی ہیں بے نظیربھٹو شہید کی 27دسمبر کی برسی کے موقع پر ایک بڑے سیاسی اجتماع سے خطاب کے دوران عام انتخابات اور نگران سیٹ اپ کے روڈ میپ کا اعلان کریں گے۔ موجودہ سیاسی صورتحال اور قیاس آرائیوں کے تناظر میں یہ اعلان اہمیت کا حامل ہوگا۔ پیپلزپارٹی کے مرکزی قائدین بھی صدرمملکت کے مجوزہ اعلان کی دبے لفظوں میں تصدیق کررہے ہیں، اتحادی جماعتوں کے سرکردہ سیاستدان بھی اس امر کے حق میں ہیں کہ اب جبکہ عام انتخابات کچھ ماہ کی مسافت پر ہیں ،اس روڈ میپ کااعلان کردیاجائے توسیاسی جماعتیں بھی اس اقدام کو لائق تحسین سمجھیں گی اور سیاسی استحکام بھی آئے گا۔
بعض عالمی اداروں کی طر ف سے پاکستان میں کرپشن میں ہوشربا اضافہ کی رپورٹس نے ملک میں ایک بھونچال کی سی کیفیت پیدا کردی ہے۔ ان رپورٹس سے جہاں حکومت وقت کے ذمے داران کی سبکی ہوئی ہے وہیں اقوام عالم میں پاکستان کے امیج پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ رہی سہی کسر صدر مملکت آصف علی زرداری کے منظور کردہ چیئرمین نیب ایڈمرل(ر) فصیح بخاری نے یومیہ 12سے 15ارب روپے کی پاکستان میں کرپشن کا انکشاف کرکے پوری کردی ہے۔ چیئرمین نیب کے ان بیانات کی بازگشت کابینہ کے حالیہ اجلاس میں جب پہنچی تو وزیراعظم سمیت پوری کابینہ کے ارکان چیئرمین نیب کے خلاف پھٹ پڑے اور پرزور احتجاج کیا، بلکہ بعض وزراء نے چیئرمین نیب کو کابینہ میں طلب کرنے کا مطالبہ کردیا اور کہاکہ یومیہ اربوں روپے کی کرپشن کے دستاویزی ثبوت نیب حکام کابینہ کے اجلاس میں پیش کریں۔
کابینہ کے اجلاس میں شریک ذرائع نے بتایا کہ بعض وزراء نے حکومت پر سنگین کرپشن کے الزامات عائد کرنے کی پاداش میں ایڈمرل (ر) فصیح بخاری کو تبدیل کرنے کا بھی مطالبہ کر دیا ۔ بعدازاں وزیراعظم راجہ پرویزاشرف نے ایوان صدر اسلام آباد میں صدرمملکت آصف علی زرداری کے ساتھ طویل ون آن ون ملاقات میں چیئرمین نیب کے کرپشن سے متعلق الزامات کا معاملہ اٹھایا۔باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر مملکت آصف علی زرداری نے چیئرمین نیب کے ساتھ یہ معاملہ اٹھایا ہے اور انھیں کہاگیا ہے کہ آپ کے بیانات سے حکومت کی ساکھ کو نقصان ہوا ہے۔ وزیراعظم راجہ پرویزاشرف نے کرپشن میں اضافہ کے حوالے سے تمام پہلوئوں کا جائزہ لینے کیلئے کابینہ کی ایک وزارتی کمیٹی وفاقی وزیر قانون وانصاف سینیٹر فاروق ایچ نائیک کی سربراہی میں قائم کردی ہے ۔ اپوزیشن نے کرپشن کے معاملہ پر کمیٹی کے قیام کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔
مسلم لیگ(ن) کی قیادت نے اس مشاورتی عمل کا آغاز کرتے ہوئے نگران وزیراعظم کے نام پر اتفاق رائے پید اکرنے کیلئے سیاسی رابطے تیز ترکردیئے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ مجوزہ نگران وزیراعظم کے ناموں پر اتفاق رائے کس حد تک پیدا ہوگا؟ سیاسی مبصرین اور باخبر حلقے یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ سیاسی جماعتیں ایک متفقہ نگران سیٹ اپ کے قریب تر پہنچ گئی ہیں۔ عام انتخابات کو شفاف، غیر جانبدار اور منصفانہ بنانے میں ایک متفقہ نگران وزیراعظم اور کابینہ کے ارکان اہم کردارادا کرسکتے ہیں اور اس سے انتخابات کی شفافیت کے حوالے سے عوام کا اعتماد بھی بحال ہوسکے گا۔
حزب اختلاف کی جماعتوں کے قائدین کے درمیان اس حوالے سے بات چیت کا آغاز عام انتخابات کے تناظر میں ایک اہم پیش رفت ہے۔ قومی اسمبلی میں قائدحزب اختلاف چوہدری نثارعلی خان نے راقم سے غیررسمی گفتگو کے دوران اس اعتماد کا اظہار کیا ہے کہ جلد اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مشاورتی عمل مکمل کرلیاجائے گا۔ جے یوآئی(ف) کے سربراہ مولانافضل الرحمن اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے بارے میں چوہدری نثارعلی خان واضح تحفظات رکھتے ہیں۔
نگران وزیراعظم کے معاملے پر اپوزیشن جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے کے بعد قائدحزب اختلاف چوہدری نثارعلی خان حتمی نام وزیراعظم راجہ پرویزاشرف کے سامنے رکھیں گے، عام انتخابات کے انعقاد،موجودہ اسمبلیوں کی مدت میں توسیع اور نگران سیٹ اپ کے قیام کے سلسلے میں ملک بھر میں پھیلی قیاس آرائیوں کو یک لخت ختم کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ قائدایوان وزیراعظم راجہ پرویز اشرف دستوری ترامیم کی روشنی میں فوری طور پر قائد حزب اختلاف کو مذاکرات کی دعوت دیں تاکہ تمام ابہام اور قیاس آرائیاں ختم ہوسکیں۔
حکمران جماعت پیپلزپارٹی اور اتحادی جماعتیں بھی نگران سیٹ اپ کے معاملے پر مشاورت کررہی ہیں۔ باور کیاجارہا ہے کہ صدر مملکت آصف علی زرداری جو کہ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین بھی ہیں بے نظیربھٹو شہید کی 27دسمبر کی برسی کے موقع پر ایک بڑے سیاسی اجتماع سے خطاب کے دوران عام انتخابات اور نگران سیٹ اپ کے روڈ میپ کا اعلان کریں گے۔ موجودہ سیاسی صورتحال اور قیاس آرائیوں کے تناظر میں یہ اعلان اہمیت کا حامل ہوگا۔ پیپلزپارٹی کے مرکزی قائدین بھی صدرمملکت کے مجوزہ اعلان کی دبے لفظوں میں تصدیق کررہے ہیں، اتحادی جماعتوں کے سرکردہ سیاستدان بھی اس امر کے حق میں ہیں کہ اب جبکہ عام انتخابات کچھ ماہ کی مسافت پر ہیں ،اس روڈ میپ کااعلان کردیاجائے توسیاسی جماعتیں بھی اس اقدام کو لائق تحسین سمجھیں گی اور سیاسی استحکام بھی آئے گا۔
بعض عالمی اداروں کی طر ف سے پاکستان میں کرپشن میں ہوشربا اضافہ کی رپورٹس نے ملک میں ایک بھونچال کی سی کیفیت پیدا کردی ہے۔ ان رپورٹس سے جہاں حکومت وقت کے ذمے داران کی سبکی ہوئی ہے وہیں اقوام عالم میں پاکستان کے امیج پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ رہی سہی کسر صدر مملکت آصف علی زرداری کے منظور کردہ چیئرمین نیب ایڈمرل(ر) فصیح بخاری نے یومیہ 12سے 15ارب روپے کی پاکستان میں کرپشن کا انکشاف کرکے پوری کردی ہے۔ چیئرمین نیب کے ان بیانات کی بازگشت کابینہ کے حالیہ اجلاس میں جب پہنچی تو وزیراعظم سمیت پوری کابینہ کے ارکان چیئرمین نیب کے خلاف پھٹ پڑے اور پرزور احتجاج کیا، بلکہ بعض وزراء نے چیئرمین نیب کو کابینہ میں طلب کرنے کا مطالبہ کردیا اور کہاکہ یومیہ اربوں روپے کی کرپشن کے دستاویزی ثبوت نیب حکام کابینہ کے اجلاس میں پیش کریں۔
کابینہ کے اجلاس میں شریک ذرائع نے بتایا کہ بعض وزراء نے حکومت پر سنگین کرپشن کے الزامات عائد کرنے کی پاداش میں ایڈمرل (ر) فصیح بخاری کو تبدیل کرنے کا بھی مطالبہ کر دیا ۔ بعدازاں وزیراعظم راجہ پرویزاشرف نے ایوان صدر اسلام آباد میں صدرمملکت آصف علی زرداری کے ساتھ طویل ون آن ون ملاقات میں چیئرمین نیب کے کرپشن سے متعلق الزامات کا معاملہ اٹھایا۔باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر مملکت آصف علی زرداری نے چیئرمین نیب کے ساتھ یہ معاملہ اٹھایا ہے اور انھیں کہاگیا ہے کہ آپ کے بیانات سے حکومت کی ساکھ کو نقصان ہوا ہے۔ وزیراعظم راجہ پرویزاشرف نے کرپشن میں اضافہ کے حوالے سے تمام پہلوئوں کا جائزہ لینے کیلئے کابینہ کی ایک وزارتی کمیٹی وفاقی وزیر قانون وانصاف سینیٹر فاروق ایچ نائیک کی سربراہی میں قائم کردی ہے ۔ اپوزیشن نے کرپشن کے معاملہ پر کمیٹی کے قیام کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔