26 جولائی‘ تاریخ کا نیا موڑ

جب نظریہ یا کاز کا رشتہ درمیان میں ہو تو اس کے سامنے جغرافیائی،...

جیسے جیسے ایم کیو ایم کا پیغام پھیلنا شروع ہوا، لوگ اس میں جوق درجوق شامل ہوتے چلے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدا سے ہی ایم کیو ایم کی فکر اور سوچ کو روکنے کی کوشش بہت کی گئی لیکن APMSO سے مہاجر قومی موومنٹ کی جانب سفر کرنے والی یہ تاریخ بالآخر 26 جولائی 1997 کو متحدہ قومی موومنٹ کی شکل اختیار کر گئی۔ جس وقت مہاجر قومی موومنٹ کو متحدہ قومی موومنٹ بنایا گیا،

اس وقت پاکستان کے خصوصی حالات میں ایک ایسی سیاسی جماعت کی ضرورت ناگزیر تھی جو نہ صرف ملکی سیاست میں حصّہ لے بلکہ عملی طور پر بھی فلاحی و اصلاحی خدمات سرانجام دے۔ طلباء تنظیم سے جنم لینے والی یہ جماعت اپنی بے لوث خدمات کی بدولت پاکستان کے طول و عرض میں انتہائی جانفشانی کے ساتھ اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہے اور یہ سب ایک آہن شکن قیادت کی بدولت ممکن ہوسکا اور آج اسی میر کارواں کی بصیرت و قیادت نے ملک کے تمام مظلوموں کو ایک پرچم تلے متحد کردیا ہے اور یہ سب الطاف حسین کی بے مثل اور کمال تدبر ذات کے مرہون منت ممکن ہوا،

جس وقت متحدہ کا قیام عمل میں آیا۔ عوام معاشی، سیاسی، سماجی، تعلیمی اورمعاشرتی مسائل کے انبار تلے دبے ہوئے تھے اور ملک پر قابض حکمران اور اسٹیبلشمنٹ صرف اور صرف اپنی ذات کے لیے مراعات کے خواہش مند تھے۔

ایسے میں قائد تحریک نے قوم کے حقوق کی جنگ کا آغازکیا، جس کی پاداش میں نہ صرف قائد تحریک بلکہ ان کے کارکنان و رفقاء نے بھی بے انتہا مصیبتیں برداشت کیں۔ لیکن کسی کے عزم و حوصلے میں کوئی کمی نہ آئی۔ متحدہ قومی موومنٹ کا نظم و ضبط، ایثار و قربانی، خدمت خلق، بہترین نظم و نسق اور انتظامی صلاحیتیں، یہ وہ خوبیاں ہیں جن کے اس کے بدترین معترضین بھی معترف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہر مکتبہ فکر کے لوگ متحدہ قومی موومنٹ کی ان خوبیوں کو کھلے دل سے تسلیم کرتے ہیں۔


آج متحدہ صرف مہاجروں یا سندھیوں کی ہی نہیں بلکہ پاکستان کے ہر خطے کی مظلوم اور بے سہارا عوام کی وہ آواز ہے کہ چاہے وہ کوئی زبان بولنے والے ہوں اور کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، بلاشبہ آج متحدہ رنگ برنگے پھولوں کا وہ تروتازہ اور دلکش گلدستہ بن چکی ہے جس کی خوشبو ہر دروازے پر دستک دے رہی ہے اور جس نے ملک کے ہر کونے کو مہکا دیا ہے اور ہر ایک کو یکجا کردیا ہے۔

جیسا کہ الطاف حسین نے فرمایا کہ: ''جب نظریہ یا کاز کا رشتہ درمیان میں ہو تو اس کے سامنے جغرافیائی، لسانی اور ثقافتی تفریق بے معنی ہوجاتی ہے۔ یہ اسی رشتے کا کمال ہے کہ آپ اپنے زمینی فاصلوں، جغرافیائی، صوبائی حدود اور لسانی، قومی تفریق کو بالائے طاق رکھ کر ایک جگہ جمع ہیں۔'' متحدہ قومی موومنٹ آج ایک ملک گیر سیاسی جماعت بن چکی ہے، جس نے ایوانوں تک مظلوم اور پسے ہوئے طبقے کی آواز کو پہنچایا اور عوامی نمایندوں کو عوام ہی میں سے چن کر وڈیرہ شاہی، جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کی بھرپور مخالفت کی۔

نظام کی تبدیلی کی اس جدوجہد میں الطاف حسین اور ان کے جاں نثار ساتھیوں کو مصائب کے انبار کا سامنا کرنا پڑا اور جب مہاجر قومی موومنٹ کو متحدہ قومی موومنٹ کا نام دیا گیا تو دو فیصد مراعات یافتہ طبقے کی نیندیں اڑ گئیں اور انھوں نے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت اس نمایندہ عوامی جماعت پر شب خون مارا۔ یقیناً ایسے واقعات پاکستان کی تاریخ کے شرم ناک واقعات ہیں، جب اپنے ہی ملک کے حق پرست عوام کے ساتھ بدترین سلوک کیا گیا اور ہزاروں کے قریب بے گناہ لوگوں کو شہید کردیا گیا اور کتنے ہی بے گناہ آج بھی سلاخوں کے پیچھے ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہے ہیں۔

اور کتنے ہی جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ آج متحدہ قومی موومنٹ کے یوم تاسیس کے موقعے پر ہمیں اس عہد کو پھر دہرانا ہے کہ ہم آپس میں اتحاد، نظم و ضبط، بھائی چارے سے اپنے عزم و حوصلے کو بلند رکھیں گے اور اپنے قائد کے نظریے کی پاسداری کرینگے اور نظریہ دینے والے کے درس اجتماعیت کو برقرار رکھیں گے کیونکہ ہم اپنے ایسے قائد کے پیروکار ہیں، جس نے ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر ہمیشہ اجتماعی مفادات کے لیے جدوجہد کی ہے اور ہمیشہ مظلوموں کی بقا کے لیے آوازِ حق بلند کی ہے اور ہمیشہ یہی درس دیا کہ کسی بھی تحریک میں کام کرنے والے افراد جب اجتماعیت کے راز کو سمجھ لیتے ہیں تو ان میں ہمیشہ اتحاد و اتفاق قائم رہتا ہے۔ آج کا دن حق کی راہ میں شہادت کا درجہ پانے والوں کو سلام عقیدت پیش کرنے کا دن ہے۔

آج کا دن جدوجہد کی راہ میں چلنے والے اسیروں کے نام ہے جو ظلم و بربریت کو برداشت کرتے رہے اور قائد کے نظریے سے نہ پھرے۔ آج ہم جن حالات سے گزر رہے ہیں، وہاں اسی جذبے کی ضرورت ہے، اسی عزت و عقیدت، محبت و یقین کی ضرورت ہے جس نے قائد کے چاہنے والوں کو سرخرو کیا اور انھوں نے ظلم و زیادتی، جبر و ستم، مصیبت اور پریشانی میں ثابت قدم رہ کر تاریخ میں اپنا نام رقم کروالیا۔ تو آج ہمارا بھی یہ فرض ہے کہ آنیوالے تابناک کل کے لیے اپنا آج قربان کرنے کا عزم لے کر شبانہ روز محنت کریں اور قائدِ تحریک کے فہم و فراست کو اختیار کرتے ہوئے اسے سمجھتے ہوئے تحریک کی جدوجہد میں ثابت قدم رہیں۔
Load Next Story