بینظیر بھٹو کی برسی پر بڑے جلسے کی تیاریاں
صدر زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کراچی سے 27 دسمبر کو گڑھی خدا بخش میں ہونے والے انتظامات کی خود نگرانی کرسکیں
آئندہ عام انتخابات جیسے جیسے قریب آ رہے ہیں پاکستان کے سیاسی طور پر سب سے زیادہ حساس صوبہ سندھ میں سیاسی درجہ حرارت دیگر صوبوں کے مقابلے میں زیادہ تیزی کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے اور ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں جو حالات کواندازوں سے زیادہ پیچیدہ بنا رہے ہیں ۔
اس صورت حال میں پاکستان پیپلز پارٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ 27 دسمبر کو شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی5 ویں برسی کے موقع پر اپنی سیاسی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کرے گی جبکہ اس کی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم ) اپنے قائد الطاف حسین کو سپریم کورٹ سے توہین عدالت کا نوٹس ملنے کے بعد نئی سیاسی حکمت عملی وضح کر رہی ہے، دوسری طرف اپوزیشن کی سیاسی ، مذہبی اور قوم پرست جماعتوں نے سندھ میں اپنی رابطہ مہم تیز کردی ہے ۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور صدر مملکت آصف علی زرداری اور ان کے صاحبزادے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری گذشتہ کئی روز سے کراچی میں قیام پذیر ہیں تاکہ وہ 27 دسمبر کو گڑھی خدا بخش میں ہونے والے جلسہ عام کے انتظامات کی خود نگرانی کرسکیں اور سندھ خصوصاً کراچی میں حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کی مانیٹرنگ کرسکیں ،کیونکہ کراچی کی بد امنی میں مزید اضافہ پیپلز پارٹی کے سیاسی روڈ میپ پر عملدرآمد کے لیے خطرناک تصور کیا جا رہا ہے ۔ حیدرآباد میں مختلف سیاسی اور قوم پرست جماعتوں کے جلسہ عام کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے پیپلز پارٹی نے بھی 27دسمبر کو اس سے بڑا شو کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اپنے ماضی کے جلسوں کی روایت کو برقرار رکھنے کے لیے حکمت عملی مرتب کر رہی ہے ۔
پیپلز پارٹی سندھ کے صدر اور وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ صوبے کے مختلف اضلاع کے دورے کر رہے ہیں اور ہر ضلع کی پارٹی تنظیم کو مختلف ذمے داریاں سونپ رہے ہیں ۔ صدر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے بھی گزشتہ اتوار کو پارٹی کے اہم رہنماؤں کے ساتھ اجلاس منعقد کیا اور جلسہ کے انتظامات کا جائزہ لیا ۔ بلاول بھٹو زرداری نے اس عزم کا اظہار کیا کہ پیپلز پارٹی آئندہ عام انتخابات میں بھرپور کامیابی حاصل کرے گی ۔ 27 دسمبر کو پہلا عوامی اجتماع ہوگا جس سے بلاول بھٹو زرداری خطاب کریں گے ۔ انھوں نے اردو اور سندھی زبانوں میں تقریر کرنے کی باقاعدہ تربیت حاصل کی ہے ۔ 27 دسمبر کے جلسہ عام سے ہی بلاول بھٹو نہ صرف پارٹی کی کمان عملاً سنبھال لیں گے بلکہ یہ جلسہ ان کی انتخابی مہم کا بھی آغاز ہوگا ۔ بلاول بھٹو زرداری نے پارٹی کے عہدیداروں اور سینئر کارکنوں کے ساتھ براہ راست رابطے بھی شروع کردیئے ہیں ۔
دوسری طرف صدر مملکت آصف علی زرداری نے حکومت سندھ کو ہدایت کی ہے کہ کراچی میں دہشت گردوں کے خلاف جاری ٹارگیٹڈ آپریشن کا دائرہ وسیع کیا جائے اور شر پسند عناصر کے خلاف سخت کارروائیاں کی جائیں ۔ صدر زرداری نے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان اور وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ سے کراچی سمیت صوبے کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا جبکہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے بھی صدر زرداری کو فون کرکے مختلف امور پر بات چیت کی ۔ انتخابات سے پہلے جو حالات پیدا ہو رہے ہیں ان میں دونوں اتحادی جماعتوں کے مابین تعلقات کے لیے کئی آزمائشیں سامنے آ رہی ہیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ ان آزمائشوں سے کیسے گذرتی ہیں ۔
سپریم کورٹ نے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کو ان کی ایک تقریر پر توہین عدالت کا نوٹس جاری کر کے 7 جنوری کو پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔ اس نوٹس پر جمعہ کی شب ہی نامعلوم افراد نے کراچی ، حیدرآباد اور سندھ کے بعض دیگر شہروں میں بازار ، مارکیٹیں اور کاروبار بند کرادیئے ۔ ہفتہ کو بھی دن بھر شہر بند رہا ، زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی ۔ اگر چہ ایم کیو ایم کی قیادت نے شہر کو بند کرانے والے عناصر سے اپنی لا تعلقی کا اظہار کیا لیکن اس نے اس بات سے انکار نہیں کیا کہ یہ توہین عدالت کے نوٹس کا رد عمل ہے ۔ ہفتہ کو ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی حمایت میں کراچی کے مختلف علاقوں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے جبکہ اتوار کو ایم کیو ایم کے زیر اہتمام کراچی پریس کلب تک ایک ریلی نکالی گئی۔
اس صورت حال میں پاکستان پیپلز پارٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ 27 دسمبر کو شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی5 ویں برسی کے موقع پر اپنی سیاسی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کرے گی جبکہ اس کی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم ) اپنے قائد الطاف حسین کو سپریم کورٹ سے توہین عدالت کا نوٹس ملنے کے بعد نئی سیاسی حکمت عملی وضح کر رہی ہے، دوسری طرف اپوزیشن کی سیاسی ، مذہبی اور قوم پرست جماعتوں نے سندھ میں اپنی رابطہ مہم تیز کردی ہے ۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور صدر مملکت آصف علی زرداری اور ان کے صاحبزادے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری گذشتہ کئی روز سے کراچی میں قیام پذیر ہیں تاکہ وہ 27 دسمبر کو گڑھی خدا بخش میں ہونے والے جلسہ عام کے انتظامات کی خود نگرانی کرسکیں اور سندھ خصوصاً کراچی میں حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کی مانیٹرنگ کرسکیں ،کیونکہ کراچی کی بد امنی میں مزید اضافہ پیپلز پارٹی کے سیاسی روڈ میپ پر عملدرآمد کے لیے خطرناک تصور کیا جا رہا ہے ۔ حیدرآباد میں مختلف سیاسی اور قوم پرست جماعتوں کے جلسہ عام کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے پیپلز پارٹی نے بھی 27دسمبر کو اس سے بڑا شو کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اپنے ماضی کے جلسوں کی روایت کو برقرار رکھنے کے لیے حکمت عملی مرتب کر رہی ہے ۔
پیپلز پارٹی سندھ کے صدر اور وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ صوبے کے مختلف اضلاع کے دورے کر رہے ہیں اور ہر ضلع کی پارٹی تنظیم کو مختلف ذمے داریاں سونپ رہے ہیں ۔ صدر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے بھی گزشتہ اتوار کو پارٹی کے اہم رہنماؤں کے ساتھ اجلاس منعقد کیا اور جلسہ کے انتظامات کا جائزہ لیا ۔ بلاول بھٹو زرداری نے اس عزم کا اظہار کیا کہ پیپلز پارٹی آئندہ عام انتخابات میں بھرپور کامیابی حاصل کرے گی ۔ 27 دسمبر کو پہلا عوامی اجتماع ہوگا جس سے بلاول بھٹو زرداری خطاب کریں گے ۔ انھوں نے اردو اور سندھی زبانوں میں تقریر کرنے کی باقاعدہ تربیت حاصل کی ہے ۔ 27 دسمبر کے جلسہ عام سے ہی بلاول بھٹو نہ صرف پارٹی کی کمان عملاً سنبھال لیں گے بلکہ یہ جلسہ ان کی انتخابی مہم کا بھی آغاز ہوگا ۔ بلاول بھٹو زرداری نے پارٹی کے عہدیداروں اور سینئر کارکنوں کے ساتھ براہ راست رابطے بھی شروع کردیئے ہیں ۔
دوسری طرف صدر مملکت آصف علی زرداری نے حکومت سندھ کو ہدایت کی ہے کہ کراچی میں دہشت گردوں کے خلاف جاری ٹارگیٹڈ آپریشن کا دائرہ وسیع کیا جائے اور شر پسند عناصر کے خلاف سخت کارروائیاں کی جائیں ۔ صدر زرداری نے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان اور وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ سے کراچی سمیت صوبے کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا جبکہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے بھی صدر زرداری کو فون کرکے مختلف امور پر بات چیت کی ۔ انتخابات سے پہلے جو حالات پیدا ہو رہے ہیں ان میں دونوں اتحادی جماعتوں کے مابین تعلقات کے لیے کئی آزمائشیں سامنے آ رہی ہیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ ان آزمائشوں سے کیسے گذرتی ہیں ۔
سپریم کورٹ نے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کو ان کی ایک تقریر پر توہین عدالت کا نوٹس جاری کر کے 7 جنوری کو پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔ اس نوٹس پر جمعہ کی شب ہی نامعلوم افراد نے کراچی ، حیدرآباد اور سندھ کے بعض دیگر شہروں میں بازار ، مارکیٹیں اور کاروبار بند کرادیئے ۔ ہفتہ کو بھی دن بھر شہر بند رہا ، زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی ۔ اگر چہ ایم کیو ایم کی قیادت نے شہر کو بند کرانے والے عناصر سے اپنی لا تعلقی کا اظہار کیا لیکن اس نے اس بات سے انکار نہیں کیا کہ یہ توہین عدالت کے نوٹس کا رد عمل ہے ۔ ہفتہ کو ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی حمایت میں کراچی کے مختلف علاقوں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے جبکہ اتوار کو ایم کیو ایم کے زیر اہتمام کراچی پریس کلب تک ایک ریلی نکالی گئی۔