نواب رئیسانی کی رُکنیت کا خاتمہ پی پی پی مشکلات میں پھنس گئی

اسلم رئیسانی کی پارٹی رکنیت کے خاتمے پر پارٹی کے شریک چیئرمین و صدر آصف زرداری نے بھی کوئی نوٹس نہیں لیا۔


Raza Al Rehman December 18, 2012
اسلم رئیسانی کی رکنیت ختم کرنے کے اعلان کے باوجود انھوں نے پارٹی سے اپنی وابستگی ختم نہیں کی. فوٹو: فائل

وزیراعلیٰ بلوچستان نواب محمد اسلم رئیسانی کی پی پی پی کی بنیادی رکنیت ختم کئے جانے کے فیصلے سے پی پی پی بلوچستان اورصوبائی مخلوط حکومت کے مابین محاذ آرائی کھل کر سامنے آگئی ہے۔

پی پی پی بلوچستان کی قیادت اورمخلوط حکومت میں شامل وزیراعلیٰ سمیت بعض پی پی پی کے وزراء کے درمیان کچھ عرصے سے جو سیاسی رسہ کشی اور بیان بازی ہورہی ہے اس سے پارٹی کے اندر انتشار کی کیفیت کا اندازہ بخوبی لگایاجاسکتاہے۔ لیکن سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی جوکہ چیف آف ساراوان بھی ہیں اورپارٹی میں ایک قدآور سیاسی شخصیت کے مالک ہیں اورانھوں نے ماضی میں پارٹی کے شریک چیئرمین وصدر مملکت آصف علی زرداری اورمسلم لیگ(ن) کے سربراہ میاں نوازشریف کے مابین صلاح صفائی کرانے میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔

اتنا اثرورسوخ رکھنے والی سیاسی شخصیت کی پارٹی رکنیت کے خاتمے کے فیصلے کا خود پارٹی کے شریک چیئرمین و صدر مملکت آصف علی زرداری نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں پارٹی کے اندر اس انتشار کا پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو نہ صرف نوٹس لینا چاہئے بلکہ کوئی مثبت قدم بھی اٹھانا چاہئے لیکن تاحال پارٹی کی مرکزی قیادت کی جانب سے مسلسل خاموشی نہ صرف حیران کن ہے بلکہ معنی خیز بھی ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سب ان کے اشارے پر ہی ہواہے۔ سیاسی حلقوں کے مطابق ایسے اقدامات اورپھر اوپر سے وزیراعلیٰ کی کردار کشی کیلئے بیان بازی کا مطلب انھیں جان بوجھ کر بند گلی کی طرف دھکیلنا مقصود ہے۔

ان حلقوں کے مطابق پارٹی کی صوبائی ومرکزی قیادت کی مسلسل خاموشی نے وزیراعلیٰ نواب رئیسانی کو بھی یہ جواز مہیا کردیا ہے کہ ان کیلئے سیاسی راستے کھلے ہیں وہ اپنے سیاسی مستقبل کافیصلہ کرنے میں آزاد ہیں، انتخابات بھی قریب ہیں،وزیراعلیٰ نواب رئیسانی اپنے رفقاء اور ساتھیوں کی مشاورت سے سیاسی مستقبل کے لئے جو بھی فیصلہ کرناچاہیں کرسکتے ہیں، لیکن ان سیاسی حلقوں کے مطابق پارٹی میں اس انتشار کے براہ راست منفی اثرات پیپلزپارٹی کو ہی ہوسکتے ہیں۔ سیاسی حلقوں کے مطابق بلوچستان ایک قبائلی صوبہ ہے جہاں قبائلی شخصیات ہی سیاست میں ہمیشہ حاوی رہی ہیں تقریباً ہر سیاسی وقوم پرست جماعت کی سربراہی زیادہ تر قبائلی شخصیات کے ہاتھ میں ہی رہی ہے۔

پی پی پی کے پاس اس وقت نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی کے بعد کوئی مضبوط قبائلی وسیاسی شخصیت ہے تو وہ نواب اسلم رئیسانی کی صورت میں ہے۔ حاجی لشکری رئیسانی تو صوبے میں پارٹی سے الگ تھلگ ہوگئے ہیں اب یہ کوشش کی جارہی ہے کہ نواب اسلم رئیسانی کو بھی پارٹی سے باہر کردیاجائے۔ اگر نواب اسلم رئیسانی بھی پی پی پی سے الگ تھلگ ہوجاتے ہیں تو پھر آئندہ انتخابات میں پی پی پی کو بلوچستان میں سیاسی طورپر کافی دھچکا لگے گا۔ ان حلقوں کے مطابق پیپلزپارٹی میں موجودہ حالات میں جس طرح محاذ ہورہی ہے اور پارٹی انتشار کا شکار ہے کوئی بھی صوبے کی بڑی سیاسی وقومی وقبائلی شخصیت شامل ہونے کو تیار نہیں۔ سیاسی حلقوں کے مطابق وزیراعلیٰ نواب رئیسانی کی رکنیت ختم کرنے کے اعلان کے باوجود انھوں نے پارٹی سے اپنی وابستگی ختم نہیں کی، پارٹی قیادت کو سنجیدگی سے ان معاملات کو لینا ہوگا۔

بعض سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ ریکوڈک منصوبے پر وزیراعلیٰ نواب رئیسانی کا اصولی موقف چند لوگوں کو پسند نہیں جس کی وجہ سے ان کے خلاف نہ صرف مسلسل مہم چلائی جارہی ہے اس حوالے سے بعض ایسے شواہد بھی ہیں کہ بعض اطراف سے ماضی میں چمک کے ذریعے بھی صوبائی مخلوط حکومت کو گرانے کی کوشش کی گئی۔تاہم حال ہی میں اے سی ایس آئی ڈی کا ریکوڈک پر فیصلہ بین الاقوامی سطح پر نواب اسلم رئیسانی کے اصولی موقف کی تائید ہے۔وزیراعلیٰ نواب رئیسانی اس وقت بھی صوبے میں سیاسی پوزیشن برقرار رکھے ہوئے ہیں اور گذشتہ دنوں انھوں نے دوبارہ اعتماد کا ووٹ لے کر اپنی مضبوط سیاسی پوزیشن کا بھرپور مظاہرہ کیا۔

ان سیاسی حلقوں کے مطابق بلوچستان اسمبلی میں موجودہ پارلیمانی جماعتوں مسلم لیگ(ق) جمعیت علماء اسلام(ف) مسلم لیگ(ن)، بی این پی(عوامی) اور اے این پی نے وزیراعلیٰ نواب رئیسانی پر بھرپور اعتماد کرکے یہ عندیہ بھی دیا ہے کہ ان کی سربراہی میں آئندہ انتخابات میں پی پی پی کے ساتھ وہ انتخابی اتحاد کرسکتی ہیں اگر آئندہ انتخابات میں بلوچستان میں ان جماعتوں پر مشتمل کوئی بڑا سیاسی انتخابی اتحاد بنتاہے تو سیاسی میدان میں اس کا فائدہ ضرور بشمول پی پی پی ان سب متذکرہ جماعتوں کو بھی جائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں